غزہ! ۔۔۔ محمد خرم یاسین

پھولوں کے چہرے۔۔۔ زخم خوردہ ہیں

جلے کٹے ہیں، پھٹے پڑے ہیں

کتنے ہی بچے۔۔۔ سسک رہے ہیں

کتنے ہی بچے۔۔۔ مر چکے ہیں!

بکھرے ملبے پہ ماتم کناں افسردہ اور لاچار بوڑھے

جواں بیٹوں کی لاشیں اٹھانے سے قاصر

نا امید اور منتظر ہیں

کہ۔۔۔ شاید کوئی جوان آ جائے

جنازے اٹھیں، انھیں دفنایا جائے

بوڑھی عورتیں، جن کی آہیں۔۔۔

عرش ہلا ہلا کر تھک چکی ہیں

بکھرے چیتھڑوں پہ بے جان سا سوگ منا رہی ہیں

کہ وہ ادھ مری اور تھکن زدہ ہیں

روتی آ رہی ہیں، بہت رو چکی ہیں

شہدا کے قافلے آج بھی رواں ہیں

لیکن یہ نہ سلسلہ رکا ہے

کچھ ملے جلے بیمار اور معذور۔۔۔

نجات دہی کے منتظر ہیں

نوجوانوں کے خوں میں حشر اٹھا ہے

غزہ پہ پھر اک بم گرا ہے!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے