غزلیں ۔۔۔ راحیل فاروق

 

کسے خبر تھی یہ تیور ہنر کے نکلیں گے

ہمی پہ قرض ہمارے جگر کے نکلیں گے

 

مچل رہے ہیں جو ارمان ایک مدت سے

ستم ظریف گنہگار کر کے نکلیں گے

 

گراں ہے نرخ بہت نعرۂ انالحق کا

گلی گلی سے خریدار سر کے نکلیں گے

 

اصولِ عشق میں گویا یہ بات شامل ہے

اِدھر سے ہو کے دَلِدّر اُدھر کے نکلیں گے

 

غبارِ خاطر و گردِ سفر کو بیٹھنے دو

ہم انتظار کریں گے، ٹھہر کے نکلیں گے

 

ہوئے ہیں عشق میں راحیلؔ خانماں برباد

کہیں سنیں گے تو بھیدی بھی گھر کے نکلیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

چھن گئے خود سے، تمھارے ہو گئے​

تم پہ عاشق دل کے مارے ہو گئے​

کچھ دن آوارہ پھرے سیارہ وار​

رہ گئے تم پر، ستارے ہو گئے​

تجھ پہ قرباں، اے جمالِ عہد سوز​

جس کے بیاہے بھی کنوارے ہو گئے​

کیا اسی کو کہتے ہیں ربطِ دلی؟​

چور دل کے جاں سے پیارے ہو گئے​

ہم تھے تیرے خاکساروں میں شمار​

حاسدوں میں چاند تارے ہو گئے​

چار نظریں چار باتیں چار دن​

ہم تمھارے، تم ہمارے ہو گئے​

اک نظر کرنے سے تیرا کیا گیا؟​

اہلِ دل کے وارے نیارے ہو گئے​

کچھ تو خود دل پھینک تھے راحیلؔ ہم​

کچھ اُدھر سے بھی اشارے ہو گئے​

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے