غزلیں
مصحف اقبال توصیفی
۔۱۔
ہمیں دنیا سے کچھ لینا نہیں تھا
ہمارے ہاتھ میں کاسہ نہیں تھا
سُنا تھا تو حسیں ہے ، بے وفا بھی
تجھے اے زندگی دیکھا نہیں تھا
یہی انعام۔ اس کے کام آئیں
نہ لیں احساں اگر لیتا نہیں تھا
نئے کچھ خواب لے کر رات آئی
ابھی بستر پہ میں لیٹا نہیں تھا
مرے بچّوں کے اپنے اپنے آنگن
مرے گھر میں کوئی رہتا نہیں تھا
۔۲۔
بدن کی اندھیری گپھا میں نہیں
زمیں پر نہیں میں ، خلا میں نہیں
وہ مٹّھی نہ کھولے تو میں کیا کروں
ابھی میری خوشبو ہوا میں نہیں
اُسی رنگ کا پھول اس نے چُنا
جو اک رنگ میری وفا میں نہیں
شکستہ پروں کو سمیٹو ذرا
زمیں پر رہو بس خلا میں نہیں
یہ اطلس، یہ کم خواب رہنے بھی دو
یہ پیوند میری قبا میں نہیں
مرا کھیل ہی سارا اُلٹا ہوا
اثر شعر میں ہے دُعا میں نہیں
سنیں شعر کس سے ، سنائیں کسے
وہ کیفے نہیں اب، وہ شامیں نہیں
یہ اطلس، یہ کم خواب رہنے بھی دو
یہ پیوند میری قبا میں نہیں