دو غزلیں — مدحت الاختر

دو غزلیں
مدحت الاختر

مدت ہوئی ملے بھی نہیں بات بھی نہ کی
اس ے سوا کسی سے ملاقات بھی نہ کی

ہم اپنے گوشۂ غمِ دل کے رہے اسیر
چشمِ طلب سے سیرِمضافات بھی نہ کی

ساری دعائیں صرف ہوئیں ان کے واسطے
اپنے لۓ تو ہم نے منا جات بھی نہ کی

پر مارتے ہی پھیر میں بچوں کے آ گئیں
پھولوں سے تتلیوں نے ملاقات بھی نہ کی

ظالم بدن چرا کے گیا میرے پاس سے
اس صاحبِ نصاب نے خیرات بھی نہ کی

اس کو اپنا نہ سکے جس سے محبت پائی
جس کو دیکھا بھی نہ تھا اس کی رفاقت پائی

خیر اتنا تو کیا ہم نے کسی ی خاطر
شعر کچھ کہہ لۓ اور تھوڑی سی شہرت پائی

ذائقے خون میں شامل ہیں ہزاروں لیکن
جب ترا نام لیا، اور ہی لذت پائی

یہ بھی احسان رہا میرے خدا کا مجھ پر
جس سے اک بار ملا، اس سے محبت پائی