غالب آشنائی سے غالب شناسائی تک حالی کا ذہنی ارتقا۔ ۔ ۔ اسیم کاویانی

 

مولانا حالی، اردو زبان کی عہدِ جدید کی تاریخ میں تنقیداورسوانح نگاری کے بنیاد گزار کی حیثیت سے ایک دائمی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ مولانا محمدحسین آزاد کے ساتھ جدید نظم کے پیش رو بھی ہیں۔ قلم روئے ادب کی محفلِ سخن میں اپنے مسدّس اور ارتدادِ شعری کے باعث اور بزمِ نثر میں کم از کم اپنی تین تصانیف (مقدّمۂ شعر و شاعری، یادگارِ غالب، اور حیاتِ جاوید) کی شہرت و مقبولیت کے سبب سے وہ ایک صدی کے بعد بھی بحث و فکر کا موضوع بنتے رہے ہیں اور ہمارے ادبی رویّوں پربھی کسی نہ کسی پہلوسے اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ میرے اس مضمون کا مقصد ’یادگارِ غالب‘ کی تشکیل و تکمیل کے پس منظر میں حالی کے فکری ارتقا کا مطالعہ کرنا ہے۔ ٰ

ٰ حالی نے مرزا غالب کی وفات کے اٹھائیس برس بعد ’یادگارِ غالب‘ مکمل کی تھی۔ درمیان میں اُنھوں نے ایک بار اسے لکھنا شروع تو کیا تھا، لیکن دوسرے کاموں میں پڑ کر ادھورا چھوڑ دیا تھا (1)۔ آخر برسوں بعد اپنی یادداشتوں کے اُن پلندوں کو کھول کر اُنھوں نے ازسرِ نو محنت کی اور 1897ء میں اسے پیش کیا۔ اگرچہ ’یادگارِ غالب‘ اردو کی مقبول کتابوں میں سے ایک ہے، لیکن محققینِ غالب کا یہ اعتراض بے جا نہیں کہ مولانا حالی نے جو زمانہ پایا تھا اور اُنھیں مرزا غالب کے معاصرین تک جو رَسائی حاصل تھی، اُسے دیکھتے ہوئے اُنھوں نے خاطر خواہ تحقیق و تفحص سے کام نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا غالب کے سوانحی حالات میں جہاں تشنگی کا احساس پایا جاتا ہے وہیں کچھ تحقیقی لغزشیں بھی در آئی ہیں، جن کی طرف مولانا غلام رسول مہر، شیخ محمد اکرام، ڈاکٹر سید عبداللہ، قاضی عبدالودود اور ڈاکٹر وحید قریشی وغیرہ توجہ دلا چکے ہیں۔ اس کے باوجود مرزا غالب کے حالاتِ زندگی اور اُن کی شخصیت کے تعلق سے جو بنیادی معلومات مولانا حالی نے جمع کر دی ہیں ، اُن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص ’یادگارِ غالب‘ کے دو تہائی سے زیادہ حصّے میں جہاں حالیِ نکتہ داں نے غالب کے اردو اور فارسی کلام کی تشریح کے ذریعے غالب فہمی کی مشعل روشن کر رکھی ہے، ایک زمانے سے شارحینِ غالب اپنی فکر و نظر کے چراغ جلاتے آئے ہیں۔ بلاشبہ آج غالبیات کی تحقیق و تشریح نے حالی کی ’یادگارِ غالب‘ سے لے کر نارنگ کی ’غالب، معنی آفرینی۔ ۔ ۔ ۔ ‘ (2) تک ایک بہت بڑا فاصلہ طے کر لیا ہے اور اب یہ راہ پُر خار نہیں رہی۔ یہ تو پہلا قدم ہے جس کا اُٹھانا دشوار ہوا کرتا ہے اور وہ بلا حالی نے سرکر لی تھی۔

نہ جانے کیوں محققینِ غالب نے حالی اور غالب کے تعلقات پر زیادہ توجہ نہیں کی۔ ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ 1854ء میں بعمر سترہ سال اپنی شادی کے بعد اس اطمینان پر کہ بیوی کا میکہ آسودہ حا ل ہے، حالی حصولِ علم کی غرض سے دلّی چلے آئے تھے۔ یہاں 1854-55ء میں اُن کا کوئی ڈیڑھ سال قیام رہا تھا۔ اُسی دور میں اُنھوں نے قلعۂ معلّا کے مشاعرے میں غالب کو اپنا اردو اور فارسی کلام پڑھتے ہوئے سُنا تھا، لیکن اُن سے حالی کی ملاقات کے شواہد نہیں ملتے۔ یہ بات بھی قیاس میں نہیں آتی کہ ان کی اس عمر کی شعر گوئی نے غالب سے داد پائی ہو۔ جن محققوں نے حالی کے اُسی دورے میں اُن کی غالب سے ملاقات کرا دی ہے، انھوں نے عجلت پسندی سے کام لیا ہے۔ دراصل حالی کے خود نوشتہ ’ترجمۂ حالی ‘میں ان کے طرزِ بیاں کے ابہام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ غدر کے بعد پانی پت میں بیکاری کے چارسال گزارکربعمرچوبیس سال دوبارہ دلّی آئے تھے۔ (3) اس بار وہ 1861ء تا 1863ء کے درمیان دو برس تک غالب سے اُن کی اردو اور فارسی غزلوں اور قصیدوں کا درس لیتے رہے تھے اور اپنے کلام پر اصلاح بھی۔ قرائن کہتے ہیں کہ اسی زمانے میں غالب نے حالی کی شاعری کے تعلق سے اپنی یہ مشہور رائے ظاہر کی تھی کہ ’اگرچہ میں کسی کو فکرِ شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا، لیکن تمھاری نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔ ‘

1863ء میں حالی کی شناسائی نواب مصطفیٰ خان بہادر شیفتہ سے ہوئی، جو دلّی کے ایک رئیس اور جہانگیر آباد کے تعلقہ دار تھے۔ حالی اُن سے بطور مصاحب وابستہ ہو گئے، پھر اُن کے بچوں کے اتالیق بھی مقرر ہوئے۔ حالی کا یہ تعلق تقریباً سات برس، دوسرے لفظوں میں 1869ء میں نواب شیفتہ کے دم آخر تک برقرار رہا۔ (4)اس دور میں نواب شیفتہ مرزا غالب کو اپنا کلام دکھایا کرتے تھے۔ حالی نے لکھا ہے کہ نواب شیفتہ کے ساتھ وہ بھی اپنا کلام جہانگیر آباد سے دلّی بھیجا کرتے تھے۔ شیفتہ جب کبھی دلّی جاتے ہوں گے تو غالباً حالی بھی اُن کے ساتھ رہا کرتے ہوں گے لیکن ’یاد گارِ غالب‘ میں ہمیں غالب کی زندگی کے صرف آخری دو برسوں میں نواب شیفتہ کے ساتھ ان کے دلّی میں موجود ہونے اور اُن کی مرزا غالب سے ملاقاتوں کا حال ملتا ہے۔ 1868ء میں اُس وقت جب کہ غالب ’قاطع القاطع‘ کے مقدمے کے عدالتی فیصلے سے دل شکستہ تھے (5)اور فروری 1869ء میں اُس وقت جب مرزا غالب کی کشتیِ عمر کنارے پر آ لگی تھی۔ حالی نے اُن کے آخری دنوں اور وداعی سفر کا حال بھی لکھا ہے۔

اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 1861ء تا 1869ء کی آٹھ برسوں کی شناسائی میں حالی کو زیادہ سے زیادہ ڈھائی سال کی غالب کی صحبت حاصل رہی ہو گی۔ حالی نے ’یاد گار غالب‘ میں لکھا ہے کہ اُنھیں اپنے کلام پر غالب کی اصلاح سے چنداں فائدہ نہیں ہوا تھا البتہ نواب شیفتہ سے مشورۂ سخن کرنا اُن کے لیے سود مند رہا تھا۔ وہ نواب شیفتہ کے صوفیانہ مزاج اور ان کے کلام کی سادگی اور اصلیت سے بھی متاثر تھے۔ حالی کے نام ہمیں غالب کا کوئی خط نہیں ملتا۔ خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ اُن سے دلّی میں اصلاح و درس لیا کرتے تھے، اس لیے مراسلت کی نوبت نہ آئی ہو گی، لیکن غالب کے کوئی نوسو اردو خطوط میں کہیں حالی کا ذکر تک نہیں ملتا۔ صرف منشی سیل چند کے نام لکھے ایک خط میں ضمنی طور پر لکھے چند ناموں میں ایک جگہ اُن کا نام ’سن پت کے رئیس، عالم، شاعر اور نواب شیفتہ کے رفیق ‘کی حیثیت سے نظر آتا ہے۔ (6) حالی کی جہانگیر آباد سے دلّی کی بغرض اصلاح کی گئی مراسلت بھی ہماری دست رس میں نہیں۔ نواب شیفتہ کے نام غالب کے جو مراسلات دستیاب ہیں اُن میں بھی حالی کا ذکر نہیں ملتا۔ (7)لگتا نہیں کہ حالی، غالب کے کوئی محبوب شاگرد رہے ہوں گے۔ جن ناقدوں نے یہ لکھا ہے کہ مرزا غالب نے حالی کے کردار کی تشکیل میں نمایاں رول ادا کیا تھا یا یہ کہ حالی غالب کے مقلّد تھے، آنے والی تفصیلات کی روشنی میں ممکن ہے کہ اُن کی رائے ترمیم کی محتاج نظر آئے۔

حالی نے اگر مرزا غالب کی وفات کے فوراً بعد یا اس کے کچھ ہی مدت بعد ’یادگارِ غالب‘ لکھی ہوتی تو اُس کی صورت کچھ اور ہوتی۔ یہ تو اٹھائیس برسوں پر محیط قلزمِ زمانہ ہے، جس میں اس اثنا میں کافی پانی بہ چکا تھا۔ حالی ’حیاتِ سعدی‘ لکھ چکے تھے اور ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ بھی۔ وہ قوم کو اپنا مسدس بھی سونپ چکے تھے اور سرسید کی تعلیمی تحریک اور ’تہذیب الاخلاق‘ کی اصلاحی تحریک سے اپنا پیمانِ وفا بھی باندھ چکے تھے۔ وہ ملّت کے درد و درماندگی کا درماں اکبر و شبلی کی طرح ماضی کی طرف مُڑ مُڑ کے دیکھنے کی بجائے سرسید کی طرح مستقبل کی تیاری اور پیرویِ مغربی میں دیکھ رہے تھے۔

’حالی، اب آؤ پیرویِ مغربی کریں ‘کے پیام رساں حالی نے تقلید و روایت پرستی سے بیزار اور ’آئینِ اکبری‘ کی تقریظ میں انگلستان کی تہذیب نوی کی برکتوں کے ستایش گر مرزا غالب کی بائیو گرافی کی تکمیل کو مناسب جانا۔ وہی غالب، جنھیں اُن کے ماضی کا زربفت کے تورہ پوش سے ڈھکا چاندی کا تشت بیسنی روٹی، مونگ کی دال اور سیم کے بیج ہی پروس سکا تھا اور جن کی بیوہ مرحوم کا آٹھ سو روپیوں کا قرض چکانے کے لیے نواب خُلد آشیاں کو مدد کے لیے درخواستیں بھیجتی رہی تھی۔ ستم ظریفی یہ کہ غالب کو اس دال، روٹی اور بیجوں کی سوغات کی شکر گزاری میں قطعات لکھنے پڑے تھے اور اُن کی بیوہ کی درخواست تحقیق اور سفارش کی منزلوں سے گزر کر بھی اُسے پوری رقم نہ دلا سکی تھی!(8)

حقیقت یہ ہے کہ ان اٹھائیس برسوں کی مدت میں لاہور کے نظمِ جدید کے مشاعروں، مسدس، مقدمے اور سب سے بڑھ کرسر سیّد کی رفاقت کے انقلابات نے حالی کو حالی بنایا تھا۔ ورنہ اپنے دلّی کے ابتدائی قیام میں تو اُنھوں نے دلّی کالج تک کو نظر اُٹھا کر نہ دیکھا تھا۔ وہ اور لوگوں کی طرح اسے’ مجہلے ‘سمجھتے تھے۔ (9)وہ اس دور میں ایک تقلید پسند اور تنگ نظر مولوی سے زیادہ کچھ نہ تھے۔ حیرت تو یہ دیکھ کر ہوتی ہے کہ غالب کی حیات و صحبت میں بھی حالی نے اُن کا کوئی اثر قبول نہ کیا تھا اور اُن کی پروازِ فکر ’مولود شریف‘((1864، ’تریاق مسموم‘ (1867ء) اور ’طبقات الارض‘ (1868ء)   جیسی کتابوں تک محدود تھی۔ (10)

’مولود شریف‘ ایک قدیم طرز کا میلاد کی محفلوں میں پڑھا جانے والا انتہائی جلی خط میں اٹھانوے صفحات کا کتابچہ تھا۔ ’تریاق مسموم‘ ایک عیسائی پادری عماد الدین کی ’ہدایت المسلمین ‘کے جواب میں لکھی گئی روایتی قسم کی مناظرے کی کتاب تھی۔ ’طبقات الارض‘ جیالوجی کے ابتدائی علم کی فرنچ سے عربی میں ترجمہ شدہ کتاب کا اردو ترجمہ تھا، جو کہ138 صفحات پر مشتمل تھا۔ بقول حالی ’اصل و ترجمہ دونوں غلطیوں سے خالی نہ تھے۔ ‘

ہمیں حیرانی ہے کہ مرزا غالب سے شناسائی کے ساڑھے سات برس بعد اور اُن کی موت سے چھے ماہ قبل تک حالی نے اپنی مدرسانہ ذہنیت کی بنا پر غالب کے مزاج اور طرزِ زیست سے کوئی ہم دردانہ رشتہ تک استوار نہ کیا تھا۔ اس کے برعکس ان دنوں وہ مذاہب کو ’سرابستان‘ قرار دینے والے (11)اور ناکردہ گناہوں کی حسرت کے داد خواہ غالب کو اپنے مولویانہ جوش میں نماز پنچ گانہ کی تاکید کر رہے تھے۔ اُن کی ضعیفی اور بیماریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انھیں کھڑے ہو کر نہیں تو بیٹھ کر، یہ بھی ممکن نہ ہو تو اشاروں میں، وضو نہ ہوسکے تو تیمم ہی سے سہی نماز کی لازمی ادائیگی پر حالی نے انھیں ایک طویل پند نامہ تک لکھ مارا تھا۔ اُن دنوں غالب کے جذبات ’قاطع القاطع‘ کے مقدمے کے ناموافق فیصلے سے مجروح تھے اور وہ اپنے عقائد و نظریات پر مخالفوں کے گالیوں بھرے خطوط کا الگ سامنا کر رہے تھے۔ ایسے میں حالی کی پر جوش مذہبیت نے اُنھیں کس ذہنی اذیّت میں مبتلا کیا ہو گا اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان ہی دنوں ایک موقع پر جب حالی غالب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو قاصد ایک گم نام لفافہ دے گیا۔ غالب نے انھیں پڑھنے کے لیے دیا۔ حالی نے مکتوب کھول کر دیکھا تو ہچکچا کر رہ گئے اس لیے کہ وہ فحش و دشنام سے بھرا ہوا تھا۔ غالب نے اُن کے ہاتھ سے لفافہ چھین کر فرمایا: "شاید آپ کے کسی شاگردِ معنوی کا لکھا ہوا ہے۔ ” (12)اس کے بعد غالب نے اُس ’قرم ساق‘ (مکتوب نگار) کی گالیوں پر جو تبصرہ کیا وہ قارئین جانتے ہی ہیں، اُن کا جواب اُن کی ذکاوتِ طبع اور شگفتگیِ مزاج کا آئینہ دار ہے۔ یہاں میں قارئین کی توجہ حالی کی طرف ’آپ کے شاگردِ معنوی‘ کے طنزیہ طرزِ تخاطب پر مبذول کرانا چاہتا ہوں، جس کے پسِ پشت حالی کے پند نامے اور اس پر ہوئی اُستاد و شاگرد کی بیت بحثی کی تلخی کا اثر صاف دیکھا جا سکتا ہے، لیکن بہتر ہو گا کہ اُس کی تفصیل پیش کر دی جائے۔

حالی کا پند نامہ پا کر دوسرے ہی دن غالب نے اُنھیں 13اشعار کی ایک فارسی غزل لکھ کر بھیجی تھی، جس میں اُنھیں طنز کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ غزل کا مطلع ہے   ؎

بہ مقصدے کہ مرآں را رہِ خدا گویند

برو برو کہ ازاں سو بیا بیا گویند

اِس غزل کے مطالب کا خلاصہ یہ ہے کہ ان راہِ خدا کی باتیں کرنے والوں کی بے مزا اور بیکار کی گفتگو دل پر کوئی اثر نہیں کرتی، جو نہ تو کتابوں میں پڑھیں نہ ہی فقہا سے سُنیں۔ یہ ’حق پرست‘ خدا کی بات کرتے ہیں ، لیکن خود انا کے گرفتار ہیں۔ غالب صوفیا کا یہ قول یاد دلاتے ہیں کہ وجودِ انسانی ایک عطیۂ الہٰی ہے پھر اسے ہمارا گناہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے! البتہ دعوائے وجود ایک گناہ ہے، اس بات کو اُن جیسے اہلِ نظر تسلیم کرسکتے ہیں۔ کہیں پر غالب نے عُذرِ لنگ سے بھی کام لیا ہے کہ ’جو پانْو ہی نہ رکھتا ہو وہ کس طرح چلے!‘ (کسے کہ پاے ندارد چگو نہ راہ رود!) اُن کا کہنا ہے کہ جو لوگ نیکو کاری کے مدّعی ہیں ، وہ اگر مجھے نیک نہیں سمجھتے تو بُرا بھی نہ کہیں۔ ایک جگہ انھوں نے طعنہ دیا ہے کہ جو لوگ اپنے تانبے کو سونا نہیں بنا پائے وہ اپنے فریب کے مال کے لیے لوگوں کے سامنے کیمیا کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔

نہ کردہ زر مسِ خود را و بہرِ عرضِ فریب

بہ پیشِ خلق حکایت ز کیمیا گویند

غزل کے آخری شعر میں اُنھوں نے حالی پر یوں چوٹ کی ہے   ؎

طمع مدار کہ یابی خطابِ مولانا

بس است ہم چو توئی را کہ پارسا گویند

یعنی تُو مولانا کا خطاب پانے کا لالچ نہ کر، یہ کافی ہے کہ تجھ ایسے کو لوگ پارسا کہتے ہیں۔

حالی نے غالب کی ناراضی کو محسوس کیا اور اُن کی مدح میں انیس اشعار کا ایک قطعہ بزبان فارسی لکھ کر اُن کا غصّہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی   ؎

تُو اے رونقِ پیشینیاں بہم شکست

ز نظم و نثر تو کاندر زبانِ ماگفتی

حالی کے قطعے کے چیدہ چیدہ اشعار کا ترجمہ یہ ہے کہ تو نے ہماری زبان میں اپنی نظم و نثر میں وہ باتیں کہیں کہ اگلے با کمالوں کی رونق ماند پڑ گئی۔ تُو نے اپنے سازِ موزوں سے کیسے(اچھے) نغمے چھیڑے اور کیا ہی پُر لطف باتیں دل رُبا انداز سے کہیں۔ جب تُو نے شراب کا ذکر کیا تو لوگوں کو نشۂ عرفاں کا سرور پہنچا۔ صبا کی بات کی تو یاروں کے دل کھِل اُٹھے۔ تیرے ذکرِ وفا سے نخلِ تمنّا سرسبز ہو گیا۔

تُو نے ہزار عقدۂ سربستہ منکشف اور ہزار نکتۂ پوشیدہ ظاہر کر دیے۔ تُو نے (دنیا کے) تمام قصّوں کے اختلاف کا راز بیان کیا اور انفس و آفاق کی سیر سے بھیدوں کو کھول دیا۔ وہ لطیف نکات جو لفظ و بیاں میں نہیں سماتے تھے، تو نے فرشتۂ غیبی کی طرح آ کر اُنھیں برملا کہہ دیا۔

تیری ہر انوکھی بات دل میں سمانے والی ہے، سواے اس کے جو تو حالی کے بارے میں کنایے میں کہتا ہے۔ اگر میری حرف گیری کو تو غلط سمجھتا ہے تو میں خطا کار ہوں، لیکن اگر میں نے چند باتیں حجت و تکرار کی اپنی طرف سے نہ کہی ہوتیں تو یہ سب باتیں تُو کہاں کہتا!

حیرت ہے کہ تو حالیِ نیازمند کو کم عقل، عجیب، خود بین و خود نُما کہتا ہے۔ اُس خاکسار کو تُو اَنا پسند بتاتا ہے! تعجب ہے کہ اپنے کھوٹے سکّے پر جو منفعل ہے، اُسے تو فریب سے کیمیا کے مال کا رہن کرنے والا بتاتا ہے   ؎

عجب کہ منفعلی را ز نقدِ ناسرہ اش

بہ زرق درگروِ عرضِ کیمیا گفتی!

آخری شعر میں حالی نے یُوں معذرت خواہی کی ہے   ؎

و لیک شرطِ ادب نیست بر تو خوردہ گرفت

ہر آں چہ در حقِ من گفتۂ بجا گفتی

لیکن یہ بات تقاضائے ادب کے خلاف ہے کہ میں تجھ پر اعتراض کروں۔ تُو نے جو کچھ بھی میرے بارے میں کہا، صحیح کہا۔

غالب نے حالی کی رنجیدگی کو محسوس کر کے چار اشعار لکھ کر نواب شیفتہ کے پاس بھجوائے، جن کے ساتھ حالی رہا کرتے تھے:

تُو اے کہ شیفتہ و حسرتی لقب داری

ہمی بہ لطف تُو خود را اُمیدوار کنم

چو حالی از منِ آشفتہ بے سبب رنجید

تُو گر شفیع نہ گردی، بگوچہ کار کُنم

دوبارہ عمر دہندم اگر بفرضِ محال

برآں سرم کہ در آں عمر ایں دوکارکنم

یکے اداے عباداتِ عمرِ پیشینہ

دگر بہ پیش گہِ حالی اعتذار کُنم

غالب نے نواب شیفتہ سے اپنے تعلقات کا واسطہ دے کر لکھا ہے کہ حالی اُن سے بلاوجہ ناراض ہو گئے ہیں۔ وہ اُن کی ناراضی دور کرنے میں مدد کریں۔ اگرچہ یہ بات محال ہے، پر اُنھیں دوبارہ زندگی دے دی جائے تو وہ اُس زندگی میں دو کام کریں گے۔ ایک تو اپنے پچھلے جنم کی عبادتوں کی ادائیگی اور دوسرے حالی کے سامنے اعتذار۔

حالی کی طبیعت کی روانی تو دیکھیے، اُنھوں نے پھر ایک نو اشعار کا قطعہ لکھ بھیجا:

تُو اے کہ عُذر فرستادۂ بسوی رہی

سزد کہ جانِ گرامی برآں نثار کُنم

اِس قطعے کا خلاصہ بزبان حالی یوں ہو گا کہ ’تُو جو کہ اِس غلام سے عُذر خواہ ہو رہا ہے، مناسب ہے کہ میں اِس بات پر اپنی جان نثار کر دوں۔ جو شکایت کی گئی ہے وہ عین اُس کے اخلاص پر مبنی ہے۔ اگر تُو مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے تو ہزار بار کروں گا۔ میں پاک طینت اور صاف دل ہوں اور حرفِ تلخ بغیر کسی کدورت کے کہتا ہوں۔ حالی نے کسی حد تک چھیڑ چھاڑ جاری رکھنے کی کوشش کی تھی، مثلاً اُن کا ایک شعر ہے   ؎

خوش آں کہ ساز کنم از تُو شکوۂ بے جا

تو اعتذار کنی و من افتخار کنم

حالی نے بھی غالب کی طرح آخر میں صلح کا پیغام دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر انھیں ایک اور زندگی ملے تو وہ دنیا کے کاموں میں یہ تین کام خاص طور پر کریں گے کہ وہ اپنی کرنی پر توبہ اور کہنی پر استغفار کریں گے اور غالب کی تحسین پنہاں بھی کریں گے اور آشکار بھی۔

زکردہ توبہ نمایم زگفتہ استغفار

دگر سپاسِ تو پنہاں و آشکار کنم

اِس قطعے کے بعد غالب نے اُنھیں لکھ بھیجا کہ’ بس اب یہ بیت بحثی موقوف کرو۔ ‘ تب جا کر یہ نوک جھونک ختم ہوئی۔ بہرکیف اس بیت بحثی سے حالی کی پختگیِ کلام ظاہر ہے، حالاں کہ اُس وقت اُن کی عمر کوئی اکتیس برس رہی ہو گی۔

یہ حالی کی شریف النفسی اور عالی ظرفی ہے کہ اُنھوں نے نہ صرف یہ سارا ماجرا ’یادگارِ غالب‘ (ص:47-48)میں محفوظ کر دیا ہے بلکہ اُس زمانے کی اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں اعتراف کیا ہے کہ ’وہ مذہبی خود پسندی کے نشے میں سرشار تھے۔ وہ خدا کی تمام مخلوق میں صرف مسلمانوں کو، مسلمانوں میں صرف اہلِ سنت کو اور اہلِ سنت میں سے صرف حنفیہ کو، اُن میں سے بھی صرف صوم و صلات اور دیگر احکامِ ظاہری کے سختی سے پابند لوگوں ہی کو نجات و مغفرت کے لائق سمجھتے تھے۔ حالی نے لکھا ہے کہ اُس دور میں اُن کا دائرۂ رحمتِ الہٰی کوئن وکٹوریا کی سلطنت سے بھی محدود تھا۔ کوئن وکٹوریا کی سلطنت میں کم از کم ہر مذہب و ملّت کے آدمی امن و امان کی زندگی بسر کرتے تھے۔ حالی کو یہ فکر بھی لاحق تھی کہ روضۂ رضواں میں اُن کا غالب سے ساتھ چھوٹ جائے گا، اس لیے کہ غالب کے اعمال میں جنت میں جانے کے لائق کوئی کام اُنھیں نظر نہ آتا تھا۔ مختصر یہ کہ غالب کی حیات میں حالی کی ذہنی بساط کا یہ عالم تھا۔

غالب کے انتقال کے تین برس بعد حالی نے اپنی سابقہ کتابوں ’تریاق مسموم‘ اور ’مولود شریف‘ کی طرز پر 1872ء میں دو کتابچے اور لکھے تھے۔ ایک ’شواہد الالہام‘ جو الہام اور وحی کی ضرورت و اہمیت پر کل بائیس صفحات پر مشتمل تھا اور دوسرا سابق مُناظَر پادری عماد الدین کی کتاب ’تاریخِ محمدی‘ پر منصفانہ رائے کا کتابچہ پچیس صفحات پر مشتمل تھا۔ اگرچہ یہ امر محقق ہو چکا ہے کہ حالی 1867ء یا 1868ء میں سرسید سے مل چکے تھے (13) جیسا کہ ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ میں 1871ء میں چھپے اُن کے مضمون ’سید احمد خاں اور اُن کے کام‘ سے بھی جھلکتا ہے، جس میں اُنھوں نے اعتراف کیا ہے کہ سرسید کے سلسلے میں لوگوں کی عام بد گمانیوں کے پسِ منظر میں وہ بھی تذبذب اور اُلجھن میں مبتلا تھے، لیکن اب اس تذبذب اور تردّدِ بے جاسے نکل چکے ہیں۔ اُنھوں نے سرسید کی کتاب ’خطباتِ احمدیہ‘ کی ستایش کی تھی اور نو آمدہ جرید ے ’تہذیب الاخلاق‘ (پہلا شمارہ : 24؍ دسمبر 1870ء) اور کمیٹی ’خوستگارانِ ترقیِ تعلیم‘ کے مقاصد کو بھی سراہا تھا۔ بہ ایں ہمہ اُن کی روایت پرست اور تقلید پسند فطرت میں ابھی کسی بڑی تبدیلی کے امکانات ظاہر نہ ہوئے تھے۔

رفتہ رفتہ اُن کے مذہبی رجحان میں اتنی کُشادگی پیدا ہو گئی کہ اُنھوں نے مناظرے، عقائد اور دیگر مذہبی مباحث کی بجائے اپنی تحریروں کو اخلاقیات مرتکز رکھنا بہتر سمجھا۔ اس کی شاہد نہ صرف اُن کی اگلی تصنیفات ’سوانح عمری حکیم ناصر خسرو‘ (1872ئ) اور ’مجالس النسائ‘ (1874ئ) ہیں، بلکہ اُن کی مستقبل کی تصنیفی زندگی کا سارا سفر ہی شاہراہِ اخلاقیات پر رواں دواں نظر آتا ہے۔ جس طرح اسٹیفن تسوئیگ نے کہا تھا کہ گورکی کی تصنیفات میں رچے اس کے ذہن کی بنیادی خصوصیت کو کسی ایک لفظ سے تعبیر کرنا ہو تو وہ ’سچائی‘ ہو گا، اُسی طرح ادبیاتِ حالی کی ترجمانی کسی ایک لفظ میں سمونی پڑے تو وہ ہو گا ’اخلاق‘۔

لاہور میں ’پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو‘ کی 1870ء تا 1874ء کی ملازمت کے چار برسوں میں وہ انگریزی سے اُردو میں کیے گئے ترجموں کی اصلاحِ زبان پر مامور تھے۔ وہیں وہ مغربی افکار و اسالیب سے آشنا ہوئے۔ پھر کرنل ہالرائڈ اور مولانا محمد حسین آزاد کے اشتراک سے منعقدہ نئی طرز کے مشاعروں میں موضوعاتی شاعری میں طبع آزمائی نے اُن کے ذہن و فکر کو مزید صیقل کیا۔ 1875ء میں حالی اینگلو عربک کالج دلّی میں عربی و فارسی کے مدرس کے طور پر متعین ہوئے۔ یہاں اپنی ملازمت کے تقریباً چودہ برس کے سب سے پائیدار عہد میں وہ ذہنی، فکری اور عملی ہر اعتبار سے سرسید کی تحریک سے قریب ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ اُنھوں نے اپنے دمِ آخر تک سرسید کے مشن سے وفاداری نبھائی۔ اپنی تصنیفی زندگی کے اسی حصّے میں اُنھوں نے وہ کارنامے انجام دیے جنھوں نے حالی کو حالی بنایا، یعنی 1879ء میں ’ مسدس حالی‘(مدّوجزرِاسلام)، 1886ء ’حیاتِ سعدی‘، 1893ء میں ’مقدمہ شعر و شاعری‘، 1897ء میں ’یادگارِ غالب‘ اور 1901ء میں ’حیاتِ جاوید‘ کے ساتھ اُن کے سلسلہء تصانیف کا خاتمہ بالخیر ہوا۔

ان تصانیف میں سے خاص طور پر دو کے تعلق سے حالی کے فکری انقلاب کا اظہار یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اول ’مسدّس ‘جس میں انھوں نے اسلام کی عظمتِ ماضی کے حوالے سے موجودہ پستی و زوال اور اُمّت کی غفلت و بے حسی کو آئینہ دکھایا تھا۔ دوم ’مقدّمہ ‘ جس میں انھوں نے روایتی اردو شاعری کے فرسودہ مضامین، دروغ، مبالغے، اور تصنّع کے فاسدمادّوں پر اصلاحی و افادی تنقید کا نشتر چلایا تھا۔ اگرچہ آج ان دونوں حوالوں سے وہ ہماری تاریخِ ادب میں ایک ریفارمر کی حیثیت سے سربلند ہیں، لیکن اس زمانے میں انھیں روایت پرستوں اورتقلیدپسندوں کی مخالفت کے بڑے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ’مسدّس ‘ کے سلسلے میں کوئی پچیس برس اور ’مقدّمہ‘ کے سلسلے میں تقریباً تین سال تک اُنھیں طعن و ملامت اور طنز و تنقید کے وار جھیلنے پڑے تھے۔ تصانیفِ حالی کے اس تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے لیے ’یادگارِ غالب‘ میں حالی کے ذہنی روّیے کو سمجھنا زیادہ آسان ہو گا۔

حالی نے ’یادگارِ غالب‘ کے دیباچے میں غالب کے کلام میں ترجیحی طور پر ظرافت و بذلہ سنجی، پھر عشق بازی و رند مشربی اور اس کے بعد تصوف اور حبِّ اہلِ بیت کے موضوعات کو اہم گردانا ہے۔ نوٹ کرنے کے قابل بات یہ ہے کہ سنجیدہ مزاج و خشک طبع حالی نے غالب کے محاسنِ نظم و نثر میں ظرافت و بذلہ سنجی کو سب سے اہم مقام دیا ہے(اگرچہ شاعری کے تجزیے میں یہ ترتیب بدل گئی ہے)۔ غالب کے کلام پر ریویو کے ضمن میں اُنھوں نے لکھا ہے کہ غالب کی طبیعت میں شوخی ایسی بھری ہوئی تھی جیسے ستار کے تار میں سُر۔ عشق بازی اور رند مشربی کے مضامین میں غالب کی نکتہ پردازیوں کو سراہتے ہوئے حالی نے لکھا ہے کہ شراب کی مدح میں وہ کسی طرح حافظ و خیام سے کم نہیں ہیں اور معاملاتِ عشق میں بھی اُن کی نازک خیالیوں نے اچھوتے مضامین نکالے ہیں اور متاخرین سے الگ راہ اختیار کی ہے۔

حالی نے کلامِ غالب میں استعارے و تمثیل کی نادرہ کاری، تخیل کی رعنائی اور اسلوبِ بیان کی پہلو داری کو متعدّد مثالوں کے ذریعے ’یادگارِ غالب‘ کے تشریحی حصّے میں ایسی خوبی اور تفصیل سے پیش کیا ہے جو کہ ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کے نکتہ سنج مصنف ہی کے بس کا کام تھا۔ غالب کے یہاں تصوف، صلح کُل اور ہمہ مشربی کے خیالات کو اُن کی نظم و نثر کا بنیادی جوہر کہا جا سکتا ہے۔ اُن کی فکر و فہم کے اس وصفِ خاص کو نمایاں کرنا ’حیاتِ سعدی‘ کے مصنف کے خاص اپنے ذوق کا معاملہ تھا، سو اس میں اُنھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہ سرسید کی صحبت کا کتنا بڑا اثر ہے کہ غالب کے توحیدِ باری کے عقیدے اور اُن کی نبی و اہلِ بیت سے عقیدت کو حالی نے کافی جانا اور دیگر مذہبی فرائض و عقائد سے اُن کی بیزاری اور حشر و نشر، جنت و دوزخ اور عذاب و ثواب کی مادّی حیثیت سے اُن کے انکار سے وہ بے نیازانہ گزر گئے!

سرسید کے نظریات سے حالی کی وابستگی کا اثر کلامِ غالب کی تشریحات میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک واضح مثال ملاحظہ ہو:

دولت بغلط نبود، اَز سعی پشیماں شو

کافر نتوانی شد، ناچار مسلماں شو

حالی نے لکھا ہے کہ غالباً کفر سے مُراد وہ کُفر ہے جو صوفیائے کرام کے نزدیک ایک بڑا مرتبہ فقر و درویشی میں شمار کیا جاتا ہے۔ پھر وہ اس شعر کا دوسرا حسبِ زمانہ مفہوم سرسید کے کارناموں پر منطبق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سرسید نے قوم کی خیر خواہی اور بہتری کی تدبیر میں کافر، ملحد، نیچری اور دجّال کہلانا گوارا کر لیا، لیکن قوم کی بھلائی کے خیال سے دست بردار نہ ہوئے۔ شاعر کہتا ہے کہ دولت (سعادت) کبھی غلطی نہیں کرتی۔ اُسی کو ملتی ہے جو اس کے لائق ہوتا ہے۔ ایسا کافر ہونے کی سعادت تُو نہ پا سکا تو اپنی سعی پر پشیمان ہو اور ناچاری میں مسلمان ہونے پر اکتفا کر لے۔ (14)

ایک زمانے کے تقلید پسند حالی کے انقلابِ ذہنی کا اب یہ عالم تھا کہ اُن کی وسعتِ فکر و نظر میں رسوم و عقائد کی اہمیت ثانوی رہ گئی تھی اور نظریۂ اخلاق کی وسعت میں ساری انسانیت کا درد سمایا ہوا تھا۔

ہیں نمازیں اور روزے اور حج بیکار سب

سوز اُمت کی نہ چنگاری ہو گر دل میں نہاں

(حالیؔ)

حالی نے ایک فن کار غالب کے ساتھ ساتھ اُس کے بشری وجود کے ہفت رنگ پہلوؤں کو روشناس کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ غالب اپنے آپ کو آدھا مسلمان کہنے والا، ہر رات فرنچ (شراب) کا عادی، چوسر و قمار کا شوقین، قرض داری اور قصیدہ گوئی پر مجبور شخص ہی نہیں بلکہ ایک احباب نواز، صاف گو، صلح پسند، مرنجاں مرنج، حیوان ظریف اور خوش خلق انسان بھی ہے۔ نوکروں پر ایسا مہربان کہ قرض سے گراں باری کے عالم میں بھی اُنھیں اپنے سے جُدا نہ کرے اور اقربا کا ایسا محبّتی کہ دیکھ لو، عارف اور اُ س کے بچوں کے ذکر میں لفظ لفظ سے اُس کی محبت پھوٹی پڑتی ہے۔

تہذیب اور سماجی روابط کی پاس داری میں حالی نے بیان کیا ہے کہ ایک بار غالب کسی سے مل کر بعد میں نواب شیفتہ کے یہاں پہنچے۔ شیفتہ نے اُن سے پوچھا کہ وہ مکان سے سیدھے تشریف لائے ہیں یا راہ میں کہیں ہو کر آئے ہیں۔ غالب نے کسی کا نام لے کر بتایا کہ اُن کا ایک آنا دینا تھا (15) اس لیے اوّل وہاں گیا تھا پھر یہاں آیا ہوں۔ ‘

وضع داری کی مثال یہ کہ اُن کی موت سے ایک دن قبل بھی حالی نے اُنھیں نواب علاء الدین خاں کے خط کا جواب لکھواتے ہوئے پایا تھا۔ تقلید و روایت سے بیر اور آزاد مزاجی ایسی کہ ایک بار غالب کے خسر مرزا الٰہی بخش نے اُن سے اپنے مریدوں کے لیے سلسلہء مشائخ کے شجروں کی نقلیں بنانے کے لیے کہا تو اُنھوں نے نقل نویسی کرتے ہوئے ہر نام کے بعد ایک نام غائب کر دیا تھا۔ پوچھنے پر جواب دیا تھا کہ جب شجرے کو خدا تک پہنچنے کا زینہ باور کر لیا گیا ہے تو کیا حرج ہے اگر درمیان کی ایک ایک سیڑھی نکال دی گئی۔ آدمی ذرا اُچک اُچک کر چڑھ لے گا۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالی نے مرزا غالب کے شاگرد و معتقد ہونے کے باوجود اُ ن کی سوانح عمری میں حتی المقدور غیر جانب داری ملحوظ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ پنشن کے مقدمے میں غالب کی صحیح یا غلط اُمیدوں کا مایوسی میں بدلنا ہو یا اُن کی ازالۂ حیثیت عرفی کی نالش میں صلح و صفائی کی مجبوری ہو یا بازی بد کر چوسر کھیلنے کی پاداش میں گرفتاری ہو۔ اُنھوں نے کہیں بھی عیب پوشی کی کوشش نہیں کی۔ غالب کے فارسی نژاد استاد کے وجود پر شک کا اظہار، غالب ہی کے خطوط کے تضادات سے ’یادگار غالب‘ میں حالی نے کیا ہے۔ اُن کا ان باتوں کو زیادہ مفصلاً اور محاسبانہ طریقے سے نہ پیش کرنا، اس لیے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے کتاب کے دیباچے ہی میں واضح کر دیا تھا کہ اُن کا بنیادی مقصد غالب کے کلام اور انشا کے محاسن کو متعارف کرانا ہے۔

اُنھوں نے کچھ لفظوں کے املے کے سلسلے میں غالب سے اپنے اختلاف کا اظہار کیا ہے اور اس بات کی نکتہ چینی کی ہے کہ غالب عوام الناس کی زبان پر جاری الفاظ و محاورات سے تا بمقدور گریز کرتے تھے۔ حالی کے نقطۂ نظر سے یہ طرزِ عمل زبان کا دائرہ تنگ کرنے کے مترادف تھا۔

اسی طرح غالب کے درونِ خانہ کی سچّی تصویر بھی حالی نے بغیر کسی آرایش کے کھینچ کر رکھ دی ہے۔ چوں کہ غالب کا خرچ اُجلا تھا اور آمدنی کم، اس لیے تنگ دستی میں بسر ہوتی تھی۔ وہ خاص مواقع پر حاصل ہونے والی خلعت و رقومِ جواہر گھر پہنچتے ہی فروخت کرنے کے لیے بازار بھیج دیتے تھے۔ ایک بار خود حالی کے سامنے غالب نے بخشش کے لیے آئے ہوئے چپراسیوں کو اتنی دیر ٹھیرائے رکھا تھا، جب تک کہ خادم خلعت فروخت کر کے نقد نہیں لے آیا۔ جب نقد رقم آئی تو چپراسی بخشش لے کر گئے۔

مختصر یہ کہ غالب آشنائی سے لے کر غالب شناسائی تک کے سفر میں حالی کو شیفتہ کے صوفیانہ تصوّرات، کرنل ہالرائڈ کے شعری تجربات اور سرسیّد جیسے مجدّد، عقلیت پسنداور پیکرِ عمل کے فیضِ صحبت نے زندگی اور زمانے کو سمجھنے کا ایک وسیع افق فراہم کیا، ایک نیا اندازِ فکر دیا اور یہ وہ عوامل ہیں جنھوں نے حالی کے ذہنی ارتقا میں بنیادی کردار ادا کیا۔

حالی نے مرزا غالب کے کمالِ فن اور اُن کی عصری قدر دانی کی مثال زالِ مصر کے ذریعے سوت کی انٹی کے عوض یوسف کی خریداری پر قائم کی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ غالب کے کمالِ فن کی گراں قدری کا کسی نے اس سے بہتر لفظوں میں اظہار کیا ہو گا۔

 

حواشی:

_________________________________________

( 1) بحوالہ دیباچۂ ’یادگارِ غالب‘ (مولانا حالی)، ص:3,4۔ راقم کے پاس ’یادگارِ غالب‘ کا جو قدیم اڈیشن موجود ہے، اُس پر ’مطبع مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ‘ اور ’بہ اہتمام محمد مقتدیٰ خاں شروانی‘ طبع ہے، سالِ طباعت نہیں ہے۔ محترمی گوپی چند نارنگ اور ڈاکٹر وحید قریشی کے یہاں بیشتر اسی اڈیشن کے حوالے آئے ہیں۔

(2) کتاب کا پورا نام ہے، ’غالب: معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات‘

(3) بقول شیخ محمد اسماعیل پانی پتی ’مولانا حالی نے اپنی مختصر سوانح عمری نواب عماد الملک بہادر کی فرمایش پر لکھ کر حیدر آباد بھیجی تھی اور اس کی ایک نقل اپنے مستعملہ ’دیوانِ حالی‘ کے ابتدائی اوراق پر لکھ لی تھی۔ ‘ جو کہ اب ’مقالاتِ حالی‘ جلد اول میں شامل ہے۔ یہ خودنوشت مجمل ہے اور بہت سی تفصیلات سے خالی ہے۔

(4) تقریباً تمام محققینِ اردو اور تذکرہ نگار اس بارے میں ایک رائے ہیں کہ شیفتہ کا انتقال 1869ء میں ہوا تھا۔ معین احسن جذبی نے اپنی کتاب ’حالی کا سیاسی شعور‘ میں غلطی سے شیفتہ کا سالِ وفات 1872ء لکھ دیا ہے (ص: 62) اور اسی بنا پر یہ نتیجہ نکلا ہے کہ شیفتہ کی صحبت میں حالی آٹھ نو سال (1863ء تا 1872ئ) رہے، (ص: 60)

(5) ’قاطع القاطع‘ پٹیالہ کے ایک مدرس امین الدین امین دہلوی نے ’قاطع برہان‘ کے جواب میں لکھی تھی اور یہ مطبع مصطفائی سے 1283ھ میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب فحش و دشنام سے بھری ہوئی تھی اسی لیے غالب نے ازالۂ حیثیتِ عرفی کی نالش کی تھی۔ جب کامیابی کی اُمید نظر نہ آئی تو مجبور ہو کر اُنھوں نے راضی نامہ داخل کر دیا تھا۔ بحوالہ: ’یادگارِ غالب‘ (مولانا حالی)، ’ذکر غالب‘ (مالک رام)

(6) ’غالب کے خطوط‘ جلد چہارم، ص: 1540، (مرتبۂ خلیق انجم) ’پانی پت‘ کی بجائے ’سون پت‘ غالب کا سہوِ قلم ہے۔

(7) کلیاتِ مکتوباتِ فارسی، غالب، (مرتبۂ پرتو روہیلہ) مطبوعہ 2010ء غالب انسی ٹیوٹ (دہلی) میں نواب مصطفا خاں بہادر شیفتہ کے نام غالب کے سترہ خطوط شامل ہیں اور اغلباً یہ جہانگیر آباد کے پتے پر بھیجے گئے ہیں۔ ان میں حالی کا ذکر کہیں نہیں ہے۔

(8) اُمراؤ بیگم نے نواب خلد آشیاں کی خدمت میں غالب پر واجبِ ادا آٹھ سو روپیوں کے قرض کی ادائیگی کے لیے یکم اگست 1869ء کو درخواست بھیجی تھی۔ کوئی جواب نہ ملنے پر 2؍ ستمبر 1869ء کو دوبارہ لکھا تھا۔ اس پر 9؍ستمبر 1869ء کو نواب مرزا خاں داغ کو تحقیق کر کے رپورٹ کرنے کا حکم ہوا۔ آخر میں نواب خلد آشیاں نے 30؍اکتوبر 1869ء کو حکم دیا کہ امراؤ بیگم کو چھے سو روپیوں کی ہنڈی بھیج دی جائے۔ (بحوالۂ ’ذکرِ غالب‘ (مالک رام)، چوتھا اڈیشن، ص: 176، 177۔ اس واقعے کی مزید تفصیلات سے مترشح ہوتا ہے کہ قرض کی کچھ رقم کا معاف کرا لینا فرض کر لیا گیا تھا، اس لیے آٹھ سو روپیوں کی بجائے چھے سو روپیے ہی بھیجے گئے تھے۔

(9) بحوالہ، ’ترجمۂ حالی، مشمولہ ’مقالاتِ حالی‘، ‘ (ص: 264) جلد اول، (مرتبہ مولوی عبدالحق) مطبوعہ : 1957ء

(10) ڈاکٹر عبد القیوم نے اپنی کتاب ’حالی کی اردو نثر نگاری‘ (مطبوعہ: مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور۔ پہلا اڈیشن 1964ء ) میں حالی کی کتابوں کی تفصیل بہم پہنچانے میں کافی تحقیق و تدقیق سے کام لیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے حالی کے ادبی اثاثے اور مسودات کے کسٹوڈین شیخ محمد اسماعیل پانی پتی کے یہاں حالی کی ابتدائی کتابوں کے مسوّدے بھی ملاحظہ کیے تھے۔ ’مولود شریف‘ کے مسوّدے پر1864کی مہر ثبت تھی جب کہ اس کی اشاعت کئی برس بعد میں عمل میں آئی۔ ’طبقات الارض‘ یا ’مبادیِ علمِ جیولوجی‘ کا سنِ اشاعت متنازعہ فیہ ہے۔ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی اور حامد حسن قادری نے اس کا سنِ اشاعت1868لکھا ہے، جب کہ چند محققین نے اسے مولانا حالی کے قیامِ لاہور کا ترجمہ قرار دے کر اس کا سنِ اشاعت 1972ء لکھا ہے۔ ’تریاقِ مسموم ‘ جسے’تحقیق الایمان‘ کے رد میں لکھی گئی کتاب سمجھا جاتا رہا ہے، ڈاکٹر عبد القیوم نے حاشیۂ کتاب میں بڑی تحقیق سے تفصیلات فراہم کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ دراصل ’ہدایت المسلمین‘ کے جواب میں لکھی گئی تھی، لیکن سوئے اتّفاق سے وہ متن میں اسے’تحقیق الایمان‘ کے جواب میں لکھی گئی کتاب بیان کر گئے ہیں۔

(11) ع بہ لب خُشکی چہ میری در سرابستانِ مذہبہا! (غالب)

(12) بحوالہ ’یادگارِ غالب‘ ایضاً، ص: 49

(13)   مالک رام کا یہ قیاس کہ حالی جب 1875ء کے شروع میں اینگلو عربک کالج دلّی میں فارسی اور عربی کے مدرس مقرر ہوئے تب سرسید احمد خاں سے ان کی یہیں ملاقات ہوئی، (بحوالہ ’تلامذۂ غالب‘، ص: 86) قابلِ اعتبار نہیں۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے ڈاکٹر سید عبداللہ کا یہ نتیجۂ تحقیق تسلیم کیا ہے کہ سرسید سے حالی کی ملاقات شیفتہ کی وَساطت سے علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی کی مجلس میں ہوئی تھی۔ بقول قریشی یہ ملاقات 1864ء سے 1869ء درمیان کسی زمانے میں ہوئی ہو گی۔ (بحوالہ ’مقدمہ شعر و شاعری‘ مرتبہ : ڈاکٹر وحید قریشی) اس کے علاوہ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں نے رسالہ ’اردو‘ (کراچی) کے جولائی 1952ء کے شمارے میں چھپے اپنے ایک مقالے ’مولانا حالی کا ذہنی ارتقا ‘ میں لکھا تھا کہ’ غالباً 1868ء میں حالی کو خود بھی شیفتہ کے یہاں سرسید سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا‘۔

(14) ’یادگارِ غالب‘، ایضاً، ص: 232,233کا خلاصہ

(15) اُن کا ایک آنا دینا تھا۔ ‘ سے مراد یہ ہے کہ کسی کی ایک آمد کی پاس داری میں غالب بھی اُن کے یہاں ہو کر آئے ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے