دور سبز اور آتشی رنگ کا زمین سے آسمان تک ایک ہیولا ناچ رہا تھا۔ جس منزل کی خاطر میں دوسری بار فن لینڈ آیا تھا اس کو دیکھ کر مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ میں خوفزدہ ہو گیا۔ میں اس اندھیرے میں، رات کے اس لمحے، سمندر کی طرح پھیلے میدان میں اکیلا تھا، میرے ہمراہی دور خیموں میں تھے اور ایک جگنو کی سی روشنی مجھے ان کی سمت کی طرف بتا رہی تھی- میں کل ہی اورا یا شمالی روشنیاں دیکھنے ہیلسنکی سے اس دور دراز قصبے پہنچا تھا کہ یہ قدرت کا ایسا عجوبہ تھا جو کم ہی لوگوں نے دیکھا تھا اور میں بھی ان کم لوگوں میں شمار چاہتا تھا۔
میں نے خود کی ہمت بندھائی اور کندھے سے کیمرہ اتار کر تصاویر اتارنا شروع کیں۔ مجھے احساس ہونے لگا کہ میں خوف سے نہیں بلکہ مایوسی سے کانپ رہا تھا۔ فقط زمین سے آسمان تک اٹھتے رنگ رنگ کے سایوں کے لیے میں یہاں تک دوڑا چلا آیا تھا۔
کیا کیا مقام نہ دیکھے تھے میں نے۔ نیاگرا آبشار دیکھی، اہرام مصر دیکھے، ریو کا قد آدم مسیح کا مجسمہ دیکھا، پیرو میں ماچو پیچو میں انکارا کے عجائب دیکھے غرض جو انہونی کا پتہ چلا میں وہ دیکھنے نکل پڑا لیکن اندر کا خلا پر نہ ہوتا تھا، اللہ جانے کیا دیکھنے کی تمنا تھی۔ کس عجوبے کی تلاش تھی۔ کس مقام کی جستجو تھی کہ کسی انجانی شے کی تلاش ختم نہ ہوتی تھی، دل سکون نہ پاتا تھا۔
کیا یہ سلیمی تھا؟ مجھے روشنیوں سے واقفیت سے محسوس ہونے لگی۔ سلیمی اور میں اکٹھے اسکول جایا کرتے تھے اور وہ تہہ دل سے مجھ پر فدا تھا۔ وہ میری خاطر استاد سے مار کھا سکتا تھا، بڑے لڑکوں سے لڑائی کر سکتا تھا، مولوی صاحب کو جھوٹ بول سکتا تھا، درخت پر چڑھ کر جامن توڑ کر لا سکتا تھا، میرے سرہانے بیٹھ کر میرے اٹھنے کا انتظار کر سکتا تھا، میرا کھانا کھائے بغیر اپنا کھانا مجھے کھلا سکتا تھا الغرض کیا وہ کام تھا جو میں اس سے کہتا اور وہ انکار کرتا لیکن جیسے میں بڑا ہوتا گیا مجھے وہ اچھا لگنا کم ہوتا گیا۔ بھلا موم کے گڈے کا میں نے کیا کرنا تھا۔ اس کو جیسے موڑ دو وہ وہی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ میں محبت کی بجائے قابلیت کا معترف تھا اور وہ محبت میں لبریز شیرا۔ وہ نئی شرارتیں نہیں کر سکتا تھا نئے کھیل نہیں سوچ سکتا اس کو نئی بات نہیں سوجھتی تھی بس جو بات کریں ایک ہی جواب ٹھیک ہے جو مشورہ مانگو ایک ہی صلاح جیسے آپ کو اچھا لگے۔ میٹرک کے بعد میں اس سے کبھی نہیں ملا شاید مجھے مزید سلیمی مل گئے تھے جو میرے مزاج جتنی منافقت بھی کرسکتے تھے لیکن میں تو سلیمی کو بھول گیا تھا وہ یہاں کہاں سے آ گیا۔ کیا میں دل میں سلیمی کو لیے پھر رہا تھا؟ ناقابل یقین بات تھی۔ مجھے ہنسی آ گئی۔ مجھے اپنے چہرے پر گیلاہٹ محسوس ہوئی میں نے دستانہ اتار کر ہاتھ پھیرا تو میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میں نے رومال نکال کر سلیمی جس کو آٹھویں جماعت سے پہلے اپنا بھائی بتایا کرتا تھا کی یاد پوچھنے لگا اور دل پر بڑھتے بوجھ کے ڈر سے اس کو دوبارہ دل کے اسی کونے دفن کرنے لگا جہاں ہم آخری بار ملے تھے۔
لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ یادوں کا منہ زور گھوڑا ہنہناتا پھر رہا تھا۔ تنہائی دل پر کچوکے لگاتی تھی اور میرے پاس میرے خیمے کے علاوہ کوئی جائے فرار نہ تھی لیکن میں کیسے بھاگتا جبکہ میں اتنی دور سے جو شے دیکھنے آیا تھا وہ میرے سامنے تھی اور کیا اعتبار تھا کہ کل بادل ہوتے برف باری ہو جاتی اور زمین پر رنگ برنگی بتیاں گرتی کپاس سی برف کی اوٹ میں چھپ جاتیں۔ میں نے دوبارہ توجہ کیمرے پر لگائی اور اب کی بار مجھے اپنے ایک استاد صاحب کی بات یاد آ گئی کہ ہم جس سے ملتے ہیں اس کا ڈی این اے DNA ہمارے دل میں تھوڑا تھوڑا محفوظ ہوتا جاتا ہے، کسی کسی بیج کو دل کی زمین خوب راس آتی ہے اور اندر ہی اندر پودا پنپتا رہتا ہے اور ہمیں تب احساس ہوتا ہے جب وہ ہمارے سامنے تناور درخت بن کھڑا ہوتا ہے تب ہم دل کی زرخیزی پر ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔
مجھے لرزتے سائے میں پوری آبادی نظر آنے لگی۔ ا سکا نقشہ بالکل شاہ آباد جیسا تھا۔ یہ تو واقعی شاہ آباد تھا۔ میرا گاؤں شاہ آباد۔ پچھلے تیس سال گوروں کے ساتھ گزار کر بھی میرے گاؤں کا پودا میرے دل میں ہرا تھا میں حیران رہ گیا۔
گھٹنے گھٹنے مٹی والی سڑکوں پر میرے بھاری بھرکم بوٹوں کے نشان بنتے جا رہے تھے اور میں بے خودی میں کچی سڑک سے نہر کی پگڈنڈی پر مڑ گیا تھا۔ ٹاہلی کے درختوں کو کوئی بیماری کھائے جاتی تھی اور وہ بالکل ٹنڈ منڈ طلسم بکھیر رہے تھے۔ سرس اور کیکر کے درخت پیلے پھولوں سے دلہن بنے ہوئے تھے۔ میرا دل للچایا کہ میں نہر میں چھلانگ لگاؤں لیکن منفی دس درجہ حرارت نے مجھے روک دیا اور میں چپ چاپ آگے چلتا رہا۔ مجھے امید تھی میں جاؤں گا تو گاؤں میں ہلچل ہو جائے گی، لڑکے بالے مجھے گھیر لیں گے بوڑھے مجھ سے میری کہانیاں سننے کو بے چین ہوں گے لیکن چوپال میں انگیٹھیاں تو گرم پڑی تھیں لیکن وہاں کوئی بندہ بشر نہ تھا۔ میں بدستور چلتا گیا۔ تاروں پر کپڑے سوکھ رہے تھے، آوارہ کتے بھونک رہے تھے، بھینسوں کے گلے پڑی گھنٹی کی آوازیں ادھر ادھر سے آ رہی تھیں لیکن انسان وہاں سے مفقود تھے۔ میں چلتا گیا اور قبرستان آ گیا۔ وہ میرے دل کا قبرستان تھا۔ وہاں میرے سب جاننے والوں کی قبریں تھیں۔ گاؤں میں جن کو میں جانتا تھا وہ زندہ ہی نہیں رہے تو گاؤں میں کیسے ہوتے ؟ وہ تو اس قبرستان میں آبسے تھے۔ شفیق کمہار، کریم موچی، خلیق نائی، ملک تاجی۔ میں ٹھٹھک گیا ملک تاجی۔ میرے ابو۔ میں تو آج تک ان کی قبر پر نہ جا سکتا وہ کیسے سامنے آ گئی۔ مجھے لگا کہ میں فن لینڈ نہیں بلکہ شاہ آباد گیا تھا اور یہ روشنی میرے والد کی قبر سے اٹھ رہی تھی۔ میرے والد مجھے ایک بڑا انسان بنانا چاہتے تھے میں بڑا تو بن گیا تھا لیکن انسان بننا بھول گیا تھا۔ شاید وہ روشنی میرے والد کے سینے میں لگی انتظار اور امید کی آگ تھی جو آسمان تک بلند ہو گئی تھی۔ کہتے ہیں انتظار مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا کیا واقعی یہ شاہ آباد تھا؟ کیا واقعی یہ روشنی میرے والد کی قبر سے اٹھ رہا تھا، کیا ان کا انتظار کبھی ختم نہیں ہوا تھا لیکن وہ تو کبھی میرے خواب میں نہیں آئے تھے کبھی کسی کو ان کی روح بھٹکتے ہوئے نہیں ملی تھی پھر یہ سلگن کیسی؟ کیا پتہ تمام عمر اپنی خواہشات کی اپنے بیٹے کی خاطر قربانی دینے دیتے، اپنا آپ مار کر، وہ دوسری دنیا میں بھی اپنی خواہشات سینے میں دبائے ہوں اور وہ دنیا یہ والی دنیا تو نہیں۔ وہاں تو سب کو اس کے کیے کا اجر ملے گا۔ کیا پتہ دنیا کی قربانیوں کا صلہ ان چھوٹتی ان پھلجھڑیوں سے مل رہا ہو۔
میرے پاس کوئی راہ فرار نہ بچی تھی۔ مجھے ہیولا جانا پہچانا لگنے لگا۔ میں نے غور کیا تو کوئی عورت اس دھندلے غبار سے مجھے اشارہ کر کے اپنی طرف بلانا چاہ رہی تھی۔ مجھے دھچکا سا لگا وہ تو امی تھیں۔ میرا جسم بے اختیار کانپنے لگا۔ تمام عمر امی ایسے اشارہ کر کے مجھے اپنی طرف بلاتی رہیں لیکن میں ہمیشہ دوسری طرف کھنچتا رہا۔ کبھی عورتوں کے پیچھے بھاگا کبھی پیسے کی پیچھے بھاگا کبھی شوق کے پیچھے دوڑا تو کبھی ذمہ داریوں نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مجھے اداسی نے پوری طرح لپیٹ لیا۔ منفی بیس درجہ حرارت میں میں تنہا تا حد نگاہ پھیلے میدان میں روشنیوں کے سحر میں مبتلا کھڑا تھا۔ ایک خوف میں سراپا میں دوڑ گیا۔ مجھے بیک وقت خوف، اداسی، خوشی اور بے بسی نے گھیر لیا۔ میری امی مجھے بلاتی تھیں۔ آواز لگاتی تھیں مختلف رنگ بدل بدل کر ممتا کا پیار ظاہر کرتی تھیں۔ میں جو تمام عمر سرابوں کا پیچھا کرتا رہا تھا حقیقت سے تہہ دامنی کرتا رہا تھا بے مقصد زندگی گزارتا رہا تھا کو مقصد مل گیا تھا۔ میں اپنی والدہ کی آواز کیسے رد کر سکتا تھا- میں نے پچھلے بیس سالوں میں اپنی والدہ کی خبر نہ لی تھی۔ میں نہ جانتا تھا کہ وہ زندہ ہیں یا وفات پا چکی ہیں۔ وہ مجھے یاد رکھتی ہیں یا بھول گئی ہیں۔ وہ پاکستان میں شاہ آباد میں رہتی ہیں یا فن لینڈ اور شمالی کرے کی ان روشنیوں میں۔ مجھے لگا میں دس سال کا بچہ ہوں اور رونے کے لیے امی کی گود ڈھونڈ رہا ہوں۔ مجھے تمام عمر کی بے چینی، کمی، جستجو، کھوج، خلا کا سراغ مل گیا-مجھے والدہ کو بھولنے کی بے چینی تھی، میرے اندر امی کے پیار کی کمی تھی، مجھے اپنوں کی جستجو تھی، مجھے اپنے اصل کی تلاش تھی، میرے اندر میری والدہ سے دوری کا خلا تھا۔ وہ میں جو دنیا کی خواہش میں غرق ہو کر کہیں کھو گیا تھا دراصل وہاں شمالی روشنیوں کے تعاقب میں نہیں اپنی تلاش میں آیا تھا۔ میں نے دور نصب خیموں اور ان کے اندر اپنے ہمراہیوں پر ایک نگاہ غلط ڈالی، ایک مسکراہٹ میرے چہرے پر جم گئی۔ میں نے کیمرہ زمین پر پھینکا اور دیوانہ وار چمکیلے غبار کی طرف دوڑا۔ میں بھلا کیسے رکتا؟ کس کو زندگی دوسرا موقع دیتی ہے ؟ میری امی مجھے بلا رہی تھیں اور میں ان کی طرف دوڑے جاتا تھا۔
٭٭٭