فلسطین کے نام
تاریخ کے کالے پنوں پر
تقدیس کی سرخ عقیدت سے
کچھ منظر سینچے جائیں گے
کچھ باتیں لکھی جائیں گی
بارود پہ جن کا نم ہو گا
دنیائے رنگ و نُور کے ہاتھ میں
بندِ قبا کا غم ہو گا
اور بڑے بڑے ایوانوں میں
ارفع اور زرّیں باتوں کی دستار اچھالی جائے گی
تاریکی بچے جنمے گی
اور علم کو تلچھٹ خانے سے
دو گھونٹ پلائے جائیں گے
سچائی کا ویرانے میں اسقاطِ حمل ہو جائے گا
سب سوچنے والے ذہنوں میں
تشکیک پروئی جائے گی
اور اِندر خانے میں جب جھوٹ کے پاؤں بنائے جائیں گے
تم دیکھنا عریاں لاشوں پر
سورج کی چادر پھیلے گی
صہیونی توپوں کے لشکر پر
خوف کے بادل چھائیں گے
تب راکھ کے رحم سے پھُوٹے گا
اک پھول ضیا پھیلاتا ہُوا
ننھے بچوں کی قبروں پر
جب صبح کا تاج سجا ہو گا
اور خندق خندق غزہ کو ہم
دستارِ فلک پر دیکھیں گے۔
بس وقت کی نیلی چرخی میں
جس سُوئی نے آگے چلنا ہے
وہ سُوئی ہمارے ساتھ نہیں
ہم ہاتھوں والے لوگوں میں
بس اک دوجے کا ہاتھ نہیں
٭٭٭
زعمِ ناخدائی کا طلسم
بموں کے سرخ حاشیے پہ
زعمِ ناخدائی کا طلسم دیکھیے ذرا
گلاب سے بنا ہُوا لطیف گال
چیر کر عدو کے تازیانے سے
صدف مثال خون سنگِ مرمریں میں ڈھل گیا
پھسل پھسل رہے ہیں اُمتِ ملال کے قدم
مراقبوں میں غرق اشتعال سے پرے پرے
سپاہ کا مزاج ناگہانیوں سے ڈر گیا
اُدھر یہود اور نصاریٰ آشنائے سامری
گھروں کو راکھ کر رہے، زمیں کو تنگ کر رہے
لباس تار تار ہے حریم سرزمین کا
نہ عصمتوں کی بے دری کسی شمار میں پڑی
نہ مرقدوں کی شکل ہے، نہ آئنے بچے ہوئے
مسجدوں پہ گر رہے بموں سے پھوٹتی ہوئی
اذاں نہیں سُنی گئی
فقط مذمتوں کی دھُن میں چیختے ہیں قافلے
جو اک ملالِ محض ہے
یہ امتِ ضعیف ہے جو وہن میں گندھی ہوئی
کھڑی ہوئی ہے اک طرف
بس اپنی اپنی بار کا سبھی کو انتظار ہے
یہ دولتوں میں کھیلتے عساکرانِ مضطرب
یہ رہنمائے امتِ ملال دیکھیے ذرا
شراب اور شباب کی مجاوری میں ڈولتے
توقعات کا لہُو سجا ہے اِن کے ہاتھ پر
انہیں ضلال جانیئے
مرے عظیم ساتھیو! غزہ کی سرخ شام میں
عمارتوں کے ڈھیر پر پڑی ہوئی ہے زندگی
لہُو کے بازوؤں میں جھولتے ہوئے مسافرو
تمھیِں حیات آشنا، تمھیں فروغِ زندگی
تمام شائقین ہیں مرے ہوئے، کٹے ہوئے
تعفنِ قبیح کی صلیب پر جڑے ہوئے
ہم اہتمامِ اضطراب موج موج ظلم ہیں
مِرے عظیم ساتھیو! تمھیں حیات آشنا، تمھِیں فروغ زندگی
تمھِیں شعورِ وقت ہو۔
٭٭٭