ترجمہ/رسم الخط کی تبدیلی: اعجاز عبید
دوسری اور آخری قسط
4
لاہور میں میری کمپنی کو چین سے لکڑی سپلائی کرنے کا ایک بڑا آرڈر ملا۔ کمپنی کے مالک اور ایم۔ روشن حبیب، جنہیں ستارۂ پاکستان کا خطاب بھی مل چکا ہے، میرے باس تھے۔ انہوں نے آرڈر دیا کہ میں لکڑی کا سودا کرنے سرینام جاؤں، جو لکڑی کے انٹرنیشنل بازار کا ایک سینٹر ہے۔ میں پارا ماری بو کے لیے روانہ ہو گیا۔ وہاں بڑی تعداد میں وہ لوگ بھی بسے ہوئے ہیں جنہیں ڈیڑھ دو سو سال پہلے ہندوستان سے وہاں لے جایا گیا تھا، تاکہ اس علاقے میں گنے کی کھیتی کرائی جا سکے۔ ان میں سے کچھ تو لوٹ آئے تھے لیکن زیادہ تر وہیں بس گئے ہیں۔
اپنے پاراماری بو میں کام کے دوران میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملا جن کے پرکھے ہندوستان سے وہاں گئے تھے۔ ان لوگوں میں ڈاکٹر عزیز بھی تھے۔ اب میں جن کی کہانی سنانے جا رہا ہوں۔ وہ ہیں ڈاکٹر عزیز، جو پاراماری بو کے جانے مانے ڈاکٹر ہیں۔ ان کی بڑی اچھی پریکٹس ہے۔ دوسرے کاروباروں میں بھی انہوں نے پیسہ لگایا ہے۔ شہر سے سو کلومیٹر دور ان کا ہزاروں ایکڑ کا فارم ہے۔ شہر میں کئی عمارتیں ہیں۔ ملک کے با عزت اور مالدار لوگوں میں جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک رات مجھے گھر کھانے پر بلایا تھا، جہاں زبیدہ بھی تھی۔ زبیدہ بھی پڑھی لکھی خاتون ہیں اور کئی طرح کے سماجی کام کرتی ہیں۔ کھانا کھانے، کافی پینے کے لیے ہم ان کی کوٹھی کے پیچھے سوئمنگ پول کے کنارے آ گئے۔ پول کے اندر روشنیاں جل رہی تھیں اور نیلے پانی میں لہروں کی پرچھائیاں تیر رہی تھیں۔ ایک طرف پام کے درختوں کا عکس پانی میں پڑ رہا تھا، دوسری طرف کیربین کے پھولوں کے پودے لگے تھے۔ سوئمنگ پول کے کنارے کافی پیتے ہوئے ڈاکٹر عزیز اور ان کی بیگم زبیدہ نے مجھے اپنی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا، جو میں انہیں کی زبانی میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
’’ہمارے پردادا، علی دین گرمٹیا بن گئے تھے۔ کلکتہ سے ’کوین آف یوروپ‘ جہاز پر سوار ہوئے اور دو مہینے میں یہاں پہنچے تھے۔ یہاں اس وقت کچھ نہیں صرف جنگل تھا۔ ایسا ویسا جنگل نہیں۔۔۔ ’رین فاریسٹ‘ جیسا جنگل۔ اتنا بھیانک جنگل تھا کہ اس میں دو قدم بھی نہیں گھسا جا سکتا تھا۔ ان مزدوروں نے اس جنگل کو صاف کرنے کا کام شروع کیا جو اس زمانے میں جان لیوا کام تھا، کیونکہ مشین کے نام پر کچھ نہیں تھا۔ سب کچھ ہاتھ سے کرنا پڑتا تھا۔ کچھ سال پہلے دادا کی شادی انہیں خاندانوں میں سے کسی خاندان کی لڑکی سے ہوئی۔ دادا پیدا ہوئے۔ دادا کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ہماری نسلیں یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے؟ ان کا گاؤں گھر کہاں تھا؟ انہوں نے ایک گیت بنایا جس میں اپنی ذات، دھرم، پشتینی گاؤں اور علاقے کا نام تھا۔ دادا نے یہ گانا ابا کو یاد کرا دیا اور ابا نے یہ گانا مجھے یاد کرا دیا۔ یعنی تین پیڑھیوں سے ہوتا ہوا یہ گانا مجھ تک پہنچا تھا۔ میں ہندی نہیں سیکھ سکا اور نہ بول سکتا ہوں، کیونکہ میری پڑھائی لکھائی ہاسٹل میں ہوئی تھی۔ سالوں در سال گزرتے رہے اور جب یہ گانا میں اپنے بیٹے کو یاد کرا رہا تھا تو خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے گاؤں، دیس، وطن کو چل کر دیکھا جائے۔ پیسہ میں نے کافی کما لیا تھا۔ وہ فکر نہ تھی جو شاید ابا یا دادا کو رہی ہو گی۔ میں نے زبیدہ سے اس بارے میں بات کی تو وہ بھی تیار ہو گئی۔ ہمارے پاس پتے کے طور پر وہی گانا تھا اور اکا دکا باتیں پتہ تھیں کہ ہمارا گاؤں پہاڑوں کے بیچ میں ہے۔ گاؤں تک جانے کے لیے ایک چھوٹے پہاڑ پر چڑھنا پڑتا ہے۔ گاؤں کے پاس ایک جھرنا ہے، جہاں سے گاؤں والے پانی لاتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا تالاب ہے جہاں جانور پانی پیتے ہیں اور لوگ نہاتے دھوتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عزیز واقعہ سناتے سناتے رکے اور اپنا سگار سلگانے لگے۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور پوچھا، ’’وہ گانا کیا ہے؟‘‘
ڈاکٹر عزیز ہنسنے لگے۔ سنیے
’’جت پٹانا
گؤ سمنا
ملک دیس ہریانا۔‘‘
’’میں کچھ نہیں سمجھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’یہی حال بمبئی (ممبئی) میں تھا۔‘‘
’’بمبئی میں؟‘‘
’’ہاں، میں اور زبیدہ بمبئی پہنچ گئے اور وہاں لوگوں کو ہم نے یہ پتہ بتایا تو کوئی کچھ نہیں سمجھ پایا۔۔۔ لمبا سفر کر کے بمبئی پہنچے تھے۔ پاراماریبو سے ایمسٹرڈم گئے تھے۔ وہاں سے لندن آئے تھے۔ وہاں سے بمبئی کی فلائٹ لی تھی۔۔۔ غضب یہ کہ وہاں کوئی ہمارا پتہ ہی نہیں سمجھ رہا تھا۔ خیر، ہم تاج ہوٹل میں ٹھہر گئے۔ ہوٹل میں بھی کئی لوگوں کو گانا سنایا، لیکن کوئی نہ سمجھ پایا۔‘‘
’’پھر کیا کیا؟‘‘
’’اچانک میری سمجھ میں ایک بات آئی۔ اگلے دن میں نے بازار سے انڈیا کا ایک بڑا نقشہ خریدا اور ہوٹل کے کمرے میں نقشہ پھیلا کر کوئی ایسا لاج تلاش کرنے لگا جو میرے گانے میں ہے۔ ہر لاج کو تلاش کیا، کیونکہ مجھے خود کسی بھی لاج کا مطلب نہیں معلوم تھا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔
’’ایک لاج ملا۔‘‘ ڈاکٹر عزیز نے بتایا۔
’’کون سا لاج؟‘‘
’’ہریانہ۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’دلی کے نزدیک ایک سٹیٹ ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر اگلے دن ہم نے فلائٹ پکڑی اور دلی آ گئے۔ وہاں ایئرپورٹ پر ٹیکسی والوں کو یہ گانا سنایا۔ ہریانہ کو چھوڑ کر کوئی کچھ نہیں سمجھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’اب کیا کرتے؟ اتنی دور آنا بیکار تو نہیں جانا چاہیئے تھا۔ ٹیکسی والے سے کہا، ہریانہ چلو۔۔ ۔۔‘‘
’’اس نے پوچھا ہو گا ہریانہ میں کہاں؟‘‘
’’بالکل یہی ہوا۔‘‘
’’تب کیا کیا؟”
’’آخر ایک چالاک قسم کا ٹیکسی والا تیار ہو گیا۔‘‘ زبیدہ بولی۔
’’…اور اس کی چالاکی ہمارے کام آ گئی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’اس نے تو یہ سوچا تھا کہ دو مورکھ مل گئے۔ انہیں ہریانہ میں ادھر ادھر گھماتا رہوں گا اور خوب پیسے بناؤں گا، لیکن ہم لوگ بے فکر ہو گئے تھے کہ اب ہمیں ہمارے پتے پر پہچانے کی ذمے داری ٹیکسی والے کی ہے۔ ہم نے اسے پتہ بتا دیا ہے اور اس نے ہمیں ٹیکسی میں بیٹھا لیا ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’دن بھر ٹیکسی چلتی رہی۔ ہم جگہ جگہ رک کر اپنا گانا سناتے رہے۔ کچھ لوگوں کو مزہ بھی آتا تھا۔ کچھ ہماری بیوقوفی پر ہنستے تھے۔ کچھ ہمیں تعریفی نظروں سے دیکھتے تھے۔ پورا دن گزر گیا، رات ہو گئی۔ ٹیکسی والا ہمیں ایک ڈھابے پر لے گیا۔ ڈھابے کے مالک نے پتہ نہیں اسے کیا سمجھایا کہ ٹیکسی والا ہمیں لے کر پولس اسٹیشن آ گیا۔ پولس کو بھی ہم نے اپنا گانا سنایا۔ وہ بھی نہیں سمجھ سکے، پر ایک بھلے پولس افسر نے مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ ہمیں قریب ہی ایک ہوٹل میں ٹھہرا دیا گیا۔ اگلے دن پولس افسر آیا اور ہمیں لے کر پولس اسٹیشن آیا۔ یہاں بہت سے بڑے بوڑھے لوگ موجود تھے۔ ہم سے پولس نے کہا کہ انہیں وہ گیت سناؤ۔ میں نے ایک بار سنایا۔۔۔ بار سنایا۔۔۔ سناتا رہا۔ وہ لوگ آپس میں بات چیت کرتے رہے۔ گانا سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ میں نے بیس بار سے بھی زادہ بار گانا سنایا ہو گا، تب کہیں جا کر دھیرے دھیرے گانا کھلنے لگا۔ گتھی سلجھنے لگی۔ ایک بوڑھے نے پوچھا کہ کیا ہم پٹھان ہیں۔ یہ تو مجھے معلوم تھا۔ میں نے کہا، ’’ہاں، پٹھان ہیں۔۔ ‘‘۔ وہ لوگ آپس میں صلاح کرنے لگے۔ پتہ چلا کہ گاؤں کا نام ساپنا ہے جہاں اب بھی پٹھانوں کی آبادی ہے، لیکن ان میں بہت سے پاکستان چلے گئے ہیں۔
ٹیکسی کر کے ہم لوگ ایک گائڈ کے ساتھ ساپنا گاؤں پہنچے، وہاں چوپال پر پورا گاؤں جمع ہو گیا۔ میں نے اپنے پردادا کا نام علی دین بتایا۔ یہ سنتے آئے ہیں کہ خاندان کا کوئی لڑکا سات سمندر پار چلا گیا تھا، پر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آیا۔ علی دین کے خاندان کا گھر اسی گاؤں میں تھا۔ لوگ مجھے گھر دکھانے لے گئے۔ خاندان پاکستان جا چکا تھا۔ ہم نے اپنا گھر دیکھا۔۔۔ سو سال بعد وہاں علی دین کی طرف سے کوئی گیا۔‘‘
’’گاؤں والوں کا کیا ’ری ایکشن‘ تھا؟‘‘
’’آج ہم وی۔ آئی۔ پی۔ ہو گئے تھے۔ زبیدہ نے گاؤں پر فلم بنائی۔ ہم گاؤں کے پاس بنے ایک ’ٹورسٹ رزارٹ‘ میں رہے۔ روز گاؤں جایا کرتے تھے۔ ہمیں وہ کھیت دکھائے گئے جو کبھی ہمارے تھے۔ چوپال پر ادھر ادھر سے لوگ آتے تھے۔ ہم سے ملتے تھے۔‘‘
’’خاندان والوں کا کچھ پتہ چلا؟‘‘
’’وہ پاکستان چلے گئے تھے۔۔۔ ضرور پتہ چلا کہ جو پاکستان گئے تھے ان کا نام رفیق الدین تھا اور وہ راولپنڈی میں جا کر بسے تھے۔‘‘
’’بس آگے کا کام آپ میرے اوپر چھوڑ دیجیے۔۔۔ پاکستان جا کر انہیں تلاش کر لوں گا۔‘‘ میں نے کہا۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر عزیز بولے، ’’اگر میں ہریانہ میں اپنے گاؤں نہ جاتا تو اسی طرح اپنے کو ادھورا محسوس کرتا جیسے میرے والد اور دادا کیا کرتے تھے۔‘‘
میں حیرت سے انہیں دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭
…اور اب آخر میں آپ لوگوں کو ایک واقعہ اور سناتا چلوں۔ یہ آپ بیتی نہیں ہے، جگ بیتی ہے، لیکن جو کچھ ہے بالکل سچ ہے۔ سولہ آنا سچ ہے۔ دلی میں میرے ایک دوست ہیں، جو کچھ عجیب قسم کے آدمی ہیں، لیکن میں ان کے عجیب ہونے کی داستان نہیں سناؤں گا، کیونکہ صرف اسی میں صبح ہو جائے گی۔ بس، یہ سمجھ لیجئے کہ وہ شوربے میں ڈال کر جلیبی کھاتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے اپنے انجکشن لگاتے ہیں۔ وہ پکے سیلانی بھی ہیں۔ ان کا وطن ٖفتح پور ہے۔ یہ کانپور اور الہ آباد کے بیچ جی۔ ٹی روڈ پر ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ لیجئے، اتنی باتیں بتا دیں اور دوست کا نام تو آپ کو بتایا ہی نہیں۔ ان کا نام شفیق الحسنین نقوی ہے۔ نام کچھ ٹیڑھا لگ سکتا ہے، لیکن اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ ان کے والد فارسی عربی کے عالم تھے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ عالم لوگ ہمیشہ ٹیڑھا کام کرتے ہیں، لیکن عام لوگ اس ٹیڑھے کام کو سیدھا کر لیتے ہیں تو ان کے نام کو بھی شہر والوں نے سیدھا کر کے سپھو میاں کر لیا ہے۔ جب تھوڑا لحاظ برتا جاتا ہے تو انہیں سپھو نقوی بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ گاؤں والے انہیں سپھو میاں کہتے ہیں، کیونکہ ’ف‘ کا تلفظ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
سپھو میاں بڑے بیٹھک باز اور باتونی ہیں۔ لاہور آئے تھے، تو ان کے ساتھ محفل جما کرتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جوانی کے دنوں میں انہیں سیر سپاٹے کا شوق تھا۔ کسی طرح امریکہ چلے گئے۔ حالت یہ تھی کہ جیب میں پیسہ کم تھا، لیکن گھومنے کی آرزو کی کوئی تھاہ نہ تھی۔ گرے ہاؤنڈ بس پر بیٹھے چلے جا رہے تھے۔ اگلی منزل امریکہ کا مشہور اور خوبصورت شہر میامی تھا، لیکن یہ پتہ نہ تھا کہ میامی میں کہاں ٹھہریں گے؟ سوچا تھا پہنچ جائیں گے تو سوچیں گے۔ خیر، صاحب ہوا یہ کہ بس میں ان کے برابر جو لڑکا بیٹھا تھا، اس سے تعارف ہوا تو وہ پاکستانی نکلا۔ دونوں میں بات چیت ہونے لگی۔ اس نے ان سے پوچھا میامی میں آپ کہاں ٹھہریں گے؟ انہوں نے بتایا کہ اب تک تو کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ کیا آپ کچھ پاکستانی سٹوڈینٹس کے ساتھ ٹھہرنا پسند کریں گے؟ انہیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ تیار ہو گئے۔
ان کا قصہ اپنی زبانی سنانے سے بہتر ہے انہیں کی زبان سے ان کا قصہ سنیے۔
٭٭٭
5
’’میں نے فلیٹ کی گھنٹی بجائی۔ ایک پنجابی جیسے لگنے والے لڑکے نے دروازہ کھولا۔ انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ میں وہاں ٹھہرنے آ رہا ہوں۔ اچھا خاصہ فلیٹ تھا۔ تین لڑکے رہتے تھے۔ مجھے ایک رات ہی رکنا تھا۔ میرا سامان لونگ روم میں رکھ دیا گیا۔ میں تینوں سے ملا۔ کچھ دیر بعد ایک مجھ سے بولا، ’’آپ آرام کریں۔ ہم پارٹی میں جا رہے ہیں۔ رات دیر سے آئیں گے۔‘‘
میں کیا کہہ سکتا تھا۔ دو لڑکے چلے گئے اور تیسرا کچن میں کچھ کھانا وانا پکانے میں لگ گیا۔ میں نے سوچا، کھانا تو میں بھی کھاؤں گا۔ اٹھ کر کچن میں آ گیا۔ اس نے میرے سامنے ایک بیر کا کین رکھ دیا اور بولا، ’’بیر تو لیتے ہوں گے؟‘‘
’’ہاں، لیتا ہوں۔‘‘ وہ بھی بیر پی رہا تھا۔
’’پاکستان میں تو بڑی پابندی ہو گی؟” میں نے بیر کین کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
’’پیسہ نہیں ہے تو بڑی پابندی ہے، پیسہ ہے تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ ’’وہ بولا۔ اس کی صاف گوئی مجھے پسند آئی۔
’’یہی حال ہندوستان میں بھی ہے۔‘‘ میں نے پاکستان اور ہندوستان کے برابری ظاہر کرنے کی کوشش جان بوجھ کر کی تھی، کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں بات دونوں ملکوں کے مقابلے یعنی ’کون زیادہ اچھا ‘پر نہ آ جائے۔ اس سے پہلے میں ایک دو ایسے پاکستانیوں سے مل چکا تھا اور اس طرح کی بحث میں پھنس چکا تھا جس کا خاتمہ ہمیشہ کچھ تلخی پر ہی ہوا تھا۔ ایک رات کی بات ہے، ہندوستان چھوٹا ہی ثابت ہو گیا تو کون سی مصیبت آ جائے گی؟
’’آپ کے دوست جس پارٹی میں گئے ہیں وہاں آپ نہیں گئے؟” میں نے بات موڑنے کی کوشش کی۔
’’پارٹی وارٹی میں کہیں نہیں گئے ہیں۔‘‘ وہ کافی تلخی سے بولا، ’’انہیں بھارت کے سکھوں کے ساتھ گل کرنے میں مزہ آتا ہے۔‘‘
اس نے مزہ لفظ اس طرح استعمال کیا کہ اس کی ساری کڑواہٹ میرے منھ میں بھر گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اس بات پر ’’واہ واہ کیا بات ہے‘‘ جیسی بات کہوں یا یہ کہوں کہ ’’ارے صاحب، حد ہوتی ہے، یعنی انہیں آپ جیسے پاکستانی کے ساتھ بات چیت میں مزہ نہیں آتا اور وہ بھارت کے سکھوں کے ساتھ گل کرنے جاتے ہیں۔‘‘ میں اسی پس و پیش میں تھا کہ اس نے بات بدل دی۔ بولا، ’’ٹھیک ہے۔۔۔ یہ تو اپنی اپنی مرضی کی بات ہے۔‘‘
میں نے جلدی سے کہا، ’’ہاں، یہ تو ٹھیک ہے۔۔جہاں جو خوش رہے وہاں جائے۔‘‘ میں نے پہلی بار محسوس کیا تھا کہ پاکستان میں اردو بولنے والوں اور پنجابی بولنے والوں کے بیچ اتنا ٹکراؤ ہے۔
کچھ دیر کے بعد میں نے پوچھا، ’’آپ کی فیملی کہاں سے ہے؟‘‘ اس نے عجیب طرح سے میری طرف دیکھا اور بولا، ’’کراچی سے۔‘‘
کراچی؟ میں سوچنے لگا۔ یار مہاجر تو ہندوستان سے کراچی گئے ہیں۔ یہ لڑکا اپنے کو کراچی کا کیوں کہہ رہا ہے؟ شاید پاکستانیت اس کے دماغ میں زیادہ ہی گھس گئی ہے۔ مجھے کچھ عجیب لگا۔ میں نے پوچھا، ’’آپ کی فیملی کراچی کہاں سے گئی تھی؟‘‘
وہ اپنے کو مزید بے قرار سا محسوس کرنے لگا اور کچھ دیر چپ رہا۔
پھر بولا، ’’بھارت سے۔‘‘ یہ بات اس نے کافی نفرت سے کہی تھی جیسے بھارت کے تئیں اس کے دل میں غصہ اور نفرت بھری ہو، اسے اس بات کا افسوس ہو کہ اس کا خاندان بھارت میں کیوں تھا اور پاکستان میں یعنی اس علاقے میں کیوں نہیں تھا، جو پاکستان میں ہے۔
کچھ دیر تک ہم لوگ خاموش رہے۔ وہ جانتا تھا، اس نے مجھے گھائل کر دیا ہے۔ میں بے شرمی پر اتر آیا اور میں نے پوچھا، ’’بھارت میں کہاں سے؟‘‘
اس نے گھور کر مجھے دیکھا۔ اسے یہ بالکل نا قابلِ برداشت لگ رہا تھا کہ میں اس کے خالص پاکستانی ہونے پر سوالیہ نشان لگا رہا ہوں۔ اس نے اپنا جبڑا سخت کر کے اور ہونٹ بھینچ کر کہا، ’’یو۔ پی۔ سے۔‘‘
اب مجھے اگلا سوال نہیں پوچھنا چاہیئے تھا، لیکن بیر کے دو کین میں پی چکا تھا اور میری ہمت بڑھ گئی تھی۔ میں نے پوچھا، ’’یو۔ پی۔ تو بہت بڑا ہے بھائی۔۔۔ یو۔ پی۔ میں کہاں سے؟” وہ کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا، ’’آپ نہیں جانتے ہوں گے۔ یو۔ پی۔ کا ایک چھوٹا سا، گمنام ضلع ہے ٖفتح پور۔ وہیں سے ہم لوگ کراچی آئے تھے۔‘‘
’’کون سا ٖفتح پور۔ جو الہ آباد اور کانپور کے بیچ ہے؟‘‘
وہ چڑھ کر اور جیسے حقارت سے بولا، ’’ہاں، وہی۔‘‘
’’وہاں تو میں رہتا ہوں۔ فتح پور ہسوا بھی کہتے ہیں اسے۔‘‘
’’ہاں، وہی۔‘‘ وہ بے خیالی میں بولا اور پھر چوکنا ہو گیا۔
میں بھی خاموش ہو گیا۔ میں جانتا تھا کہ اب ’بال اس کے کورٹ‘ میں ہے۔ دیکھو کیا ہوتا ہے۔ کچن میں مسالوں کی خوشبو پھیل رہی تھی۔ کچھ سیکنڈ کی خاموشی بھاری پڑنے لگی۔
’’آپ ٖفتح پور کے ہیں۔‘‘ وہ مری ہوئی آواز میں بولا۔
’’ہاں۔ وہیں کا ہوں۔ پتہ نہیں کتنی پیڑھیوں سے وہاں رہ رہا ہوں۔‘‘
وہ پھر خاموش ہو گیا۔ میں نے اس کے خاموش چہرے پر طوفان دیکھ لیا تھا۔ ایک رنگ آ رہا تھا اور دوسرا جا رہا تھا۔ تیز روشنی میں اس کے چہرے کے عضلات تھرک رہے تھے۔
’’وہاں کوئی کھیلدار محلہ ہے۔‘‘ اس نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’ہاں، ہے؟‘‘
اب وہ جو کچھ کہہ یا پوچھ رہا ہے، وہ اس طرح جیسے اسے اپنے اوپر قابو ہی نہ رہ گیا ہو۔
’’ٖفتح پور جی۔ ٹی روڈ پر بسا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’جی۔ ٹی روڈ پر تحصیل ہے؟‘‘
’’ہاں، ہے؟‘‘
’’اس کے سامنے سے کوئی گلی کھیلدار محلے تک جاتی ہے؟‘‘
’’ہاں، جاتی ہے۔‘‘
’’گلی آگے جا کر مڑتی ہے تو وہاں مسلم اسکول ہے؟‘‘
’’ہاں، ہے۔‘‘
’’اسکول کے پیچھے تالاب ہے؟‘‘
میں اس کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا اور میرے دماغ میں عجیب طرح کی اتھل پتھل چل رہی تھی۔ وہ ٖفتح پور کا آنکھوں دیکھا احوال دے رہا تھا۔ اس کی بتائی ہر بات ٹھیک تھی۔
’’ٖفتح پور میں للّو میاں کوئی زمیندار تھے؟‘‘
’’ہاں، بڑے زمیندار تھے۔‘‘
’’وہاں کوئی محلہ باقر گنج ہے؟ جہاں جانوروں کی بازار لگتی ہے؟‘‘ امریکہ کے میامی شہر کے ماڈرن فلیٹ میں یہ سب نام، جگہیں اور لوگ اپنی حاضری درج کرا رہے تھے۔ کچن کی کھڑکی سے ہائی وے نظر آ رہا تھا، جس پر دوڑتی کاروں کی ہیڈ لائٹیں چمک رہی تھیں۔
’’کیا آپ ٖفتح پور گئے ہیں؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں، کبھی نہیں گیا؟‘‘ وہ بولا۔ اس کے لہجے میں کچھ نہ تھا۔ نہ دکھ، نہ سکھ، نہ شرم، نہ دکھ۔
’’کبھی نہیں گئے؟‘‘
’’ہاں، کبھی نہیں گیا؟‘‘ وہ پھر بولا۔
’’لیکن وہاں کے بارے میں جو آپ بتا رہے ہیں وہ ایسا لگ رہا ہے جیسے دیکھا ہوا ہو۔‘‘
’’نہیں، میں نے وہ سب نہیں دیکھا۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
وہ سٹول پر بیٹھ گیا۔ چکن شاید پک چکا تھا۔ اس نے گیس بند کر دی۔ بیر کا ایک اور کین کھول لیا اور بولا، ’’کراچی میں دادی ہم لوگوں کو جو کہانیاں سنایا کرتی تھیں، وہ ٖفتح پور کی ہوتی تھیں۔ روز رات کو ہم دو بچے دادی کے ساتھ ٖفتح پور پہنچ جاتے تھے۔ وہاں گلیوں میں گھومتے تھے۔ امرود کے باغ میں ’لل گدیا‘ امرود کھاتے تھے۔۔ ۔۔‘‘
وہ بہت دیر تک بولتا رہا اور مجھے کئی باتیں یاد آتی رہیں۔ مجھے ‘صاحب’ یاد آئے جو لندن میں تیس سال رہنے کے بعد اپنے گاؤں واپس آئے تھے اور گاؤں کے گلیاروں میں لوٹ پوٹ کر رویا کرتے تھے۔ مجھے ڈاکٹر عزیز یاد آئے، جو ایک گیت کے سہارے اپنا وطن تلاش کرنے سورینام سے انڈیا چلے آئے تھے۔ مجھے ڈبائی یاد آیا جو میری نس نس میں بسا ہوا ہے۔
اگر آپ لوگوں کو میری باتوں پر یقین نہ آ رہا ہو تو میں گواہی کے طور پر اپنے ایک دوست پریاگ شکل کو آپ کے سامنے کھڑا کر سکتا ہوں۔
پریاگ شکل ہندی کے مشہور اور جدید ادیب ہیں۔ وہ بھی ٖفتح پور کے رہنے والے ہیں۔ ہم دونوں کا بچپن ایک ہی ضلعے میں بیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جب پریاگ جی کو دیکھتا ہوں تو میرے دل کے کونے میں ایک خوشی کی امنگ اٹھتی ہے۔ پریاگ جی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہو گا۔
پریاگ جی نے مجھے بتایا ہے کہ وہ سفر بہت کرتے ہیں۔ ان سفروں کے دوران دلی ہاؤڑہ لائن پر چلنے والی ایکسپریس ٹرینوں سے بھی آتے جاتے ہیں، جو ٖفتح پور جیسے چھوٹے اسٹیشن پر نہیں رکتیں۔ اب دیکھیے، کیا نا انصافی ہے۔ بڑے شہر، بڑے شہروں سے جڑ رہے ہیں اور چھوٹے شہر پیچھے چھوٹ گئے ہیں۔
بہرحال، پریاگ جی نے مجھ سے کئی بار کہا ہے کہ رات کا چاہے جو وقت ہو، گاڑی جب ٖفتح پور اسٹیشن سے گزرتی ہے تو ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ گاڑی کس اسٹیشن سے گزر رہی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ ٖفتح پور سے۔
جی، میں کوئی عالم نہیں جو آپ کو کیوں؟ کیسے؟ کس لئے؟ وغیرہ وغیرہ سوالوں کے جواب دے سکوں۔ آپ خود ماشاء اللہ عقل مند ہیں۔ جواب کھوج سکتے ہیں۔
٭٭
ماخذ:
https://www.rachanakar.org/2007/12/blog-post_16.html
٭٭٭