حضور رسالتؐ ۔۔۔ سر محمد اقبال / ترجمہ: شفیق فاطمہ شِعریٰ

مرسلہ : ارشد مسعود ہاشمی

 

نوٹ از ارشد مسعود ہاشمی، مدیر معاصر مجلہ اردو سٹدیز

 

اس ترجمے کا صرف ایک حصہ ‘سرود رفتہ’ کے عنوان سے ”شعرو حکمت“ کے شمارہ 7-6، 1974 میں شائع ہوا تھا۔ مکمل ترجمہ شعریٰ نے کبھی شائع نہیں کروایا۔  موجودہ ترجمہ شعریٰ کی بہن ڈاکٹر ذکیہ فاطمہ، اور شعریٰ کے فرزندوں کی عنایت سے ’اردو اسٹڈیز ‘کے لیے موصول ہوا تھا۔ ’شعرو حکمت‘ میں شائع شدہ حصے اور پیش نظر مسودے کے مصرعوں میں جا بجا فرق موجود ہے۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اولین اشاعت کے بعد اسے از سر نو مکمل کیا گیا تھا۔ باقر مہدی کے نام نومبر 1956 کے مکتوب میں شعریٰ نے لکھا تھا کہ وہ ’ارمغان حجاز‘ کا منظوم ترجمہ مکمل کر چکی ہیں۔ (’شفیق فاطمہ شعریٰ کے کلام کا ایک جائزہ‘۔ ’جامعہ‘، جنوری تا مارچ 2004۔ ص  63) اس لحاظ سے یہ ترجمہ شعریٰ کی نوجوانی کے زمانے کا ہے۔ ’جاوید نامہ‘ کے ’فلک قمر‘ کے چند حصوں کے ترجمے ”سوغات“ (چھٹا شمارہ 1961) میں شائع ہوئے تھے۔ شعری اس ترجمے کو بہت عزیز رکھتی تھیں۔ اس کی اشاعت مقصد اس سرمایہ کی حفاظت ہے۔

٭٭

 

 

 

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنیدؓ و بایزیدؓ اینجا

عزت بخاری

 

۱

 

تو اے خیمہ نشیں خیمہ کو چھوڑ اب

کہ پیش آہنگ منزل تک رواں ہے

خرد تھک تھک کے پیچھے رہ چکی ہے

جنوں کے ہاتھ اب دل کی عناں ہے

 

تڑپ ہو یا سکوں سر چشمہ ان کا

یہی محفوظ اپنا جوہر دل

نہ راس آئی ہوائے قریہ و شہر

کشادہ دشت میں پایا در دل

 

قرار یک نفس سے جو ہے محروم

یہ دل کس کا شہید آرزو ہے

ہوا کچھ اور صحرا میں فسردہ

تو اشک افشاں کنار آبجو ہے

 

یہی ہے کاروان جلوہ مستاں

نہیں جویا جو اسباب جہاں کے

جرس کا شور سن کر ان کے دل میں

بھڑک اٹھے شرر آہ و فغاں کے

 

شب پیری میں یثرب لے چلا ہے

مجھے جذب و سرود عاشقانہ

کہ جیسے طائر صحرا سر شام

اڑے بے تاب سوئے آشیانہ

 

۲

 

گناہ عشق و مستی عام ہے آج

دلیل پختہ کاری خام ہے آج

حجازی لے میں پھر نغمہ سرا ہوں

ازل کے کیف سے پر جام ہے آج

 

نہ پوچھو ان مقامات نوا کو

ندیموں کو خبر کیا میں کہاں ہوں

اسی خلوت میں دشت بیکراں کی

جو تنہا ہوں تو تنہا نغمہ خواں ہوں

 

۳

 

چل آہستہ کہا ناقہ سے میں نے

کہ راکب پیر ہے اور ناتواں ہے

مگر مستانہ قدموں سے رواں وہ

کہ گویا ریگ صحرا پرنیاں ہے

 

مہار اے سارباں اس کی ہٹا دے

اسے بھی دی گئی ہے چشم بینا

یہ بتلاتی ہے اس کی طرز رفتار

کہ درد دل سے پر ہے اس کا سینہ

 

جو دیکھی میں نے اس کی چشم پرنم

تو یاد آنے لگے مجھ کو مرے غم

وہی مے جس سے روشن ہے مرا دل

چھلکتی ہے نظر سے اس کی پیہم

 

۴

 

یہ کیسا دشت ہے جس میں مسافر

کھنچے آتے ہیں مشتاق و ثنا خواں

کرو اس ریگ سوزاں پر وہ سجدے

جبیں جن سے ہو مثل مہ درخشاں

 

یہاں کی شام میں جلوے سحر کے

فضائیں نو دمیدہ اور پر نور

مسافر اور آہستہ قدم رکھ

ہر اک ذرہ کا دل زخموں سے ہے چور

 

۵

 

امیر کارواں کون اجنبی ہے

جو آہنگ عرب میں گا رہا ہے

کہ اس کے گیت کی شادابیوں سے

بیاباں لہلہاتا جا رہا ہے

 

عجب آتش ہے اس کے آب و گل میں

مقام عشق و مستی اس کی منزل

مسافر اس کے نغمہ کو یہ سمجھے

کہ ہے وہ خود انھیں کا نالۂ دل

 

۶

 

غم دل بے کہے خود ہی عیاں ہے

زباں تک آئے تو اک داستاں ہے

دیا بھی بجھ گیا تاریک شب میں

رہِ پر پیچ و راہی خستہ جاں ہے

 

بہاروں سے بنے صحرا بھی گلزار

ہوئے احباب یکجائی سے سرشار

مجھے راس آئی بس تنہا نشینی

تو آ بیٹھا کنار جوئے کہسار

 

 

۷

 

کبھی ورد زباں شعر عراقیؔ

کبھی جامی ؔ سے میں آتش بجاں ہوں

نہیں معلوم آہنگ عرب اور

شریک نغمہ ہائے سارباں ہوں

 

غم راہی نشاط آمیز تر ہو

فغاں اس کی جنوں انگیز تر ہو

کوئی راہ دراز اے سارباں ڈھونڈ

مرا سوز جدائی تیز تر ہو

 

۸

 

ادھر اے کشتۂ شان جمال آ

کہ ہم مل کر بہائیں اشک پیہم

جبینیں رکھ کے سنگ آستاں پر

سنائیں ان کو بھی افسانۂ غم

 

متاع جلوۂ مستانہ پا کر

سمجھتا ہے کہ حکمت نارسا ہے

وہ قسمت کا دھنی درویش جس پر

در سلطان کھلتا جا رہا ہے

 

جہان چار سو باطن میں ہے گم

ہوائے لامکاں سودائے سر ہے

ہوئی اس اوج تک کیوں کر رسائی

پر پرواز بھی خود بے خبر ہے

 

اسی وادی کی خاک بے بہا سے

اگیں گے بے صور ایسے معانی

کلیمی اور حکمت جن سے ہم دوش

کہ کہہ سکتا ہے مشکل لن ترانی

 

۹

 

وہ درویش فلک رتبہ مسلماں

نہیں سینہ میں اس کے آہ سوزاں

نہ جانے اس کا دل کیوں رو رہا ہے

کرم اے غم گسار بے نوایاں

 

تڑپ ہے دل میں تیرے سوز غم سے

مرے نغمے تری تاثیر دم سے

یہ رونا ہے کہ ارض ہند میں اب

نہیں واقف کوئی میر امم سے

 

خبر ہندی غلاموں کی بھی لیجے

شب غم کو نوید صبح دیجے

وہ ہیں مشرق کی اک بیچارہ تر قوم

نگاہ فیض اک ان پر بھی کیجے

 

گہر میں ارجمندی جس کی پہچان

یہی ملت وہ رفعت کا ستارہ

خدا اس محنت جاں کا پاسباں ہو

نہ ہو افتاد سے یہ پارہ پارہ

 

بتا کر اس کی حالت فائدہ کیا

کہ ہے پنہاں بھی تجھ پر آشکارا

یہی ہے اپنی دو صدیوں کی روداد

کہ ضرب غم سے دل ہے پارہ پارہ

 

فلک کی گردشیں اب بھی وہی ہیں

نہ بدلے دہر کے آئین و دستور

نہیں سالار کوئی کارواں کا

مسافر منزلوں سے ہیں بہت دور

 

نہ اس کے خوں میں باقی وہ تب و تاب

نیام و کیسہ بے شمشیر و بے زر

کتاب اس کی رہین طاق ویراں

گلستاں اس کا محروم از گل تر

 

دل اس کا اب اسیر رنگ و بو ہے

نظر بھی بے فروغ آرزو ہے

اسے قلزم کے طوفاں کی ہو کیا تاب

فقط وہ آشنائے آبجو ہے

 

دل آگاہ سے محروم ہے وہ

نہیں اس کی خودی اب آسماں گیر

حریم ذکر بھی مدت سے ویراں

ضمیر اس کا تہی از بانگ تکبیر

 

۱۰

 

گریباں چاک و بے فکر رفو ہے

نہیں معلوم کیوں بے آرزو ہے

ہے مرگ ناتمام انجام اس کا

کہ وہ بیگانۂ اللہ ہو ہے

 

حق اس کا بخش چاہے وہ نہ مانگے

کہ غیرت مند ہے اس کی فقیری

در مے خانہ پا کر بند اب موت

وہ چاہے جان لیوا تشنگی کی

 

جہان نو ہو پیدا اس کے دل میں

جو اس کی خاک ہو دوبارہ روشن

چراغ اس کا کہیں گل ہو نہ جائے

ہوا ہے تیز اور وہ چاک دامن

 

مقام نیستی کے بے بصر کو

عروس زندگی خلوت میں ہے غیر

گنہگار اک ہے پیش از مرگ در گور

نکیریں اک کلیسا اور اک دیر

 

نہیں نور و سرور آنکھوں میں اور دل

نہیں سینہ میں محو نالۂ زار

خدا اس قوم کا یار و مددگار

کہ جس سے چھن چکی ہے روح بیدار

 

مسلماں زادہ اور نامحرم مرگ

ہراساں مرگ سے وہ تا دم مرگ

دل آگاہ سے محروم سینہ

تنفس سرد و دھیما اور غم مرگ

 

۱۱

 

 

ملوکیت سراپا شیشہ بازی

نہ ایمن اس سے رومی نے حجازی

غم یاراں سنا دوں پیش خواجہؐ

یہی شاید ہو وقت دل نوازی

 

یہ ملت مٹ نہیں سکتی جہاں سے

کہ ہے اس کی بنا میں پائیداری

کسی نباض نے کی ہے یہ تشخیص

خودی پر اس کی رعشہ سا ہے طاری

 

خجل کرتی ہے اس کو بے کلاہی

ملا دیں کھو کے فقر خانقاہی

جہاں میں کیا ہے میراث مسلماں

گلیم اک رشک تاج بادشاہی

 

نہ مجھ سے پوچھ حال زار اس کا

زمیں ہے سخت اور دور آسماں ہے

ترا پروردۂ انجیر طائر

تلاش دانہ میں گم گشتہ جاں ہے

 

کیے دور زماں کے راز افشا

سراغ منزل ہستی بتایا

مگر کچھ اور ہوتی شرح و تعبیر

کبھی نطق عرب مجھ کو جو ملتا

 

مسلماں بے سپاہ و اسلحہ ہے

مگر اس کا ضمیر اک شاہ کا ہے

مقام گم شدہ پا لے اگر وہ

جمال اس کا جلال حق نما ہے

 

اساطیر کہن ہے دولت شیخ

حدیث اس کی وہی تخمین و ظن ہے

ابھی اسلام زناری ہے شاید

حرم اک دیر ہے وہ برہمن ہے

 

مٹا دے گی یہ لادینی جہاں کو

بدن کا اک اثر کہتے ہیں جاں کو

وہ بادہ جس سے تھے صدیقؓ سرشار

عطا کر آج پھر لب تشنگاں کو

 

حرم بھی رنگ و بوئے دیر میں گم

بت اپنا پیر ہے آشفتہ مو اب

نہیں ہم تیرہ بختوں کا مقدر

دل روشن بہ نور آرزو اب

 

یہ صف بستہ رہے مسجد میں جب تک

ہلا ڈالے شہنشاہوں کے ایواں

وہ آتش جب ہوئی افسردہ دل کی

تو درگاہوں میں کھنچ آئے مسلماں

 

وہ باہم بر سر پیکار ہیں آج

محبت میں جو تھے مشہور دوراں

جو ٹوٹے خشت مسجد کی تو برہم

رہے جس سے ہمیشہ خود گریزاں

 

جھکائیں پیش غیر اللہ ماتھے

یم پر شور اور محتاج شبنم

خطا اپنی ہے کیا شکوہ کسی سے

ترے شایان شاں ہرگز نہ تھے ہم

 

پیالے مے گساروں کے ہیں خالی

نہیں غم خواہ محفل اپنا ساقی

فقط اک آہ ہے محفوظ دل میں

کہ جس کی اصل ہے وہ نور باقی

 

سبوئے خانقاہاں خالی از مے

تو مکتب طے شدہ راہوں کے درپے

حریم شعر بھی ویران و بے سوز

سرود زندہ سے نا آشنا نے

 

مسلماں ہوں سدا کا بے وطن ہوں

مجھے اس خاکداں سے کیا سروکار

شکستوں نے جو اکسایا تو پھر ہوں

میں غیراللہ سے سرگرم پیکار

 

تری بخشی ہوئی رفعت سے اڑ کر

خود اپنے نغمہ کی آتش میں تڑپا

وہ مسلم موت بھی ہو جس سے لرزاں

بہت ڈھونڈا کہیں اس کو نہ پایا

 

بہت پیش خدا رویا میں اک رات

مسلماں کیوں ہیں زار و خوار و مضطر

ندا آئی وہ دل رکھتے ہیں لیکن

نہیں ان کا کوئی دلدار و دلبر

 

شکوہِ رفتہ کے قصے کہوں کیا

بیاں کرنا ہے بس احوال دوراں

دو صدیوں کی مخالف آندھیوں نے

بجھا دی دل کی شمع نور افشاں

 

نگہبان حرم صورت گر دیر

یقیں کھویا ہوا نظریں سوئے غیر

پتہ چلتا ہے انداز نگہ سے

کہ ہے نومید باب رحمت و خیر

 

تڑپ سے اس فقیر رہ نشیں کی

عطا اس کو ضمیر آتشیں ہو

دل افسردہ میں جاگیں امیدیں

امیدوں میں نہاں نور یقیں ہو

 

یہ خوں ریزی مری بے تیغ و شمشیر

یہاں گر گر کے پھر اٹھنا روا ہے

ذرا تو بھی تو آ جا بر سر بام

کہ عصر نو سے اپنا معرکہ ہے

 

سوئے یثرب سفر بے کارواں ہو

یونہی تنہائی و آہ و فغاں ہو

ادھر مکتب ادھر میخانۂ شوق

تو خود فرما دے اب منزل کہاں ہو

 

اڑایا مجھ کو نم دیدہ پروں نے

وہ باران حرم میں میری پرواز

مرے دل سے مرے تار نفس سے

نکلتی تھی حرم کے دل کی آواز

 

نہ میرے نخل سے خرما کبھی وہ چکھ پائے

نہیں سمجھے وہ میرا راز پنہاں

سن اے میر امم فریاد میری

مجھے سمجھا گیا بس اک غزل خواں

 

نہ سمجھو شاعری تم اس نوا کو

کہ موتی آگہی کے جس نے دمکائے

تپایا اس توقع پر مس خام

کہ فیض عشق سے اکسیر ہو جائے

 

ترا فرمان ہے اے میر امم یہ

کہ مردوں کو پیام زندگی دے

مگر مجھ سے کیا جاتا ہے اصرار

کہ تاریخ وفات مردہ لکھیے

 

غم پنہاں سے چہرہ زعفرانی

لہو روتی ہے چشم ارغوانی

مری آواز بھی تھرا گئی اب

سن اک افسانہ آنکھوں کی زبانی

 

زباں اپنی زبانِ بے زبانی

تجھے خود دل کی حالت کا پتہ ہے

خطا ہے اپنے فن میں لب کشائی

زباں خاموش ہے اور چشم وا ہے

 

دیا میں نے پیام خود شناسی

جگایا آب و گل میں اس کے زمزم

مجھے وہ آہ سوزاں دے کہ جس سے

غمِ دیں کے سوا مٹ جائے ہر غم

 

بجز دود نفس سینہ میں کیا ہے

ہمیں تیرا ہی بس اک آسرا ہے

کہیں افسانۂ غم اور کس سے

کہ تو ہی درد اپنا جانتا ہے

 

غریب و درد مند و بے نوا ہے

سخن کے سوز سے پگھلا ہوا ہے

یہ دل جو بے نیاز دو جہاں ہے

تجھے معلوم ہے کیا چاہتا ہے

 

نسیم صبح سے کیوں رنگ و نم لوں

کہ ہوں پروردہ تیرے فیض دم کا

مزاج ناکساں نظروں میں رکھ کر

نہ آیا مجھ کو اب تک شعر کہنا

 

یہ دریا بے کنار و پر خطر ہے

بجز دل کون اپنا راہبر ہے

ترے کہنے سے چن لی راہ بطحا

وگرنہ تو ہی مقصود سفر ہے

 

نہ مشتاقوں کو لوٹا آستاں سے

کہ دل بے تاب ہے سوز نہاں سے

ہوئے ہیں دست کش پھر تاب و توں سے

شکیب و صبر ہم پائیں کہاں سے

 

کبھی دل میں فرنگی بت بسائے

کبھی دامن کشاں تھا جلوۂ دیر

رہا خود سے مگر یوں بے خبر میں

کہ اپنی ضو کو سمجھا جلوۂ غیر

 

چکھی ہے میں نے بھی ہمدم مے غرب

نہ اس میں سوز و ساز درد مندی

ہیں یاد اب تک وہ خوبان فرنگی

کہ اب تک روح میں باقی ہے اک کرب

 

مرا تنکا پہاڑوں کو ہلا دے

اسی ہنگامہ کا میں منتظر ہوں

یہ درد سر ہے میرا درس حکمت

کہ میں پروردۂ فیض نظر ہوں

 

مجھے ملا و صوفی سے غرض کیا؟

میں اپنی راہ خود پہچانتا ہوں

فقط اللہ لکھ دے لوح دل پر

کہ خود کو اور اس کو جان پاؤں

 

دلِ ملّا اسیر غم نہیں ہے

کبھی اس کی نگہ پر نم نہیں ہے

کنارہ کش ہوں میں مکتب سے اس کے

کہ اس کے نجد میں زمزم نہیں ہے

 

سر منبر خطابت، اس پہ نازاں

کہ ہے وہ خود مجسم اک دبستاں

مگر کہتے ہوئے تجھ سے خجل ہوں

وہ ہے ہم پر عیاں اور خود سے پنہاں

 

دل صاحب دلاں کس نے لبھایا

پیام شوق پہنچایا ہے کس نے

کمان دین کے ہم دونوں دو تیر

ہدف اپنا مگر پایا ہے کس نے

 

کوئی محرم نہیں محفل میں میرا

میں اپنی مشکل اب کس کو بتاؤں

نہ ہو جائے کہیں راز نہاں فاش

غم دل سب سے کہتے ڈر رہا ہوں

 

کسی کے دام میں یہ دل نہ الجھا

رہا خود اپنے ہی بادہ سے مخمور

بنایا جب کبھی غیروں کو رہبر

تو کوسوں اپنی منزل ہو گئی دور

 

وہی سوز جنوں ہے اب بھی سر میں

وہی ہنگامے برپا ہیں نظر میں

ابھی طوفان رفتہ کے اثر سے

تلاطم سا ہے اک موج گہر میں

 

ابھی یہ خاک دارائے شرر سے

ابھی سینہ میں اک آہ سحر ہے

تجلی تیری ہے آنکھوں میں اپنی

بسا لوں اب بھی وہ تاب نظر ہے

 

نظاروں سے نظر ہے بے نیاز اب

کہ دل سوز دروں سے گھل رہا ہے

کہاں یہ عصر بے اخلاص و بے سوز

کہاں میں اے خدا یہ راز کیا ہے

 

جب ایسے دور میں پیدا ہوا میں

تو کیوں بخشی مجھے یہ روح پر شور

بنی یہ زیست تعزیر مسلسل

کیا اس کشمکش نے زندہ در گور

 

رہے بیگانہ مجھ سے لالہ و گل

نہ لب تک آ سکا حرف تمنا

رہے مکتوم دل میں راز کتنے

اگر کہتا بھی میں تو کس سے کہتا

 

میں خود کو اس جہاں کی وسعتوں میں

ہمیشہ بے وطن پاتا رہا ہوں

بنایا دل کو آخر محرم راز

یونہی غربت کو بہلاتا رہا ہوں

 

کیا باطل طلسم عصر حاضر

اٹھایا دانہ اور دام اس کا توڑا

خدا نے مثل ابراہیم مجھ کو

بچایا آگ سے گلشن میں چھوڑا

 

ہوئی بینا فروغ لا الہ سے

نظر میری تو شاید منتظر ہے

وہ صبح من رآنی جس کے انوار

طلوع دمبدم ہیں تیرے دم سے

 

نہ خود اپنی جھلک جب دیکھ پایا

تری ضو نے مقام اپنا بتایا

نوائے صبح سے میں نے زمیں پر

جہان عشق و مستی اک بسایا

 

بہشت جاوداں ہے اک جہاں میں

مرے اشکوں سے سبزی جس کا تر ہے

نہیں وہ ہاو ہو اس کی فضا میں

کسی آدم کی گویا منتظر ہے

 

اسے ہے انتظار اس نوجواں کا

جو خود آگاہ ہو اور پاک جاں ہو

قوی بازو ہو جو مانند حیدر

دل اس کا بے نیاز دو جہاں ہو

 

ہے کب سے میکدہ ویران ساقی

اٹھا پھر اپنے جام زر فشاں کو

مرے سینہ میں دل ہو ایسا جس سے

بدل دوں جس سے تقدیر جہاں کو

 

مدار عالم امکاں ہے وہ عیش

کہ سرچشمہ ہے جس کا سینہ تیرا

بتا دوں یہ کہ ہے روح الامیں کون

وہ ہے اک جوہر آئینہ تیرا

 

مرے ساغر کی مے تیرا ہی زمزم

مرا یہ سوز تیرے فیض دم سے

ترا مسکن ہے جب سے میرے دل میں

ہے روشن تر مرا دل جام جم سے

 

کسی سے جب نہ میں نے دل لگایا

ہوا یہ بتکدہ تاراج مجھ سے

وہی بت کل جسے توڑا تھا میں نے

طلب کرتا ہے سجدے آج مجھ سے

 

مری مشت غبار اب سرخرو ہے

کہ اس میں ایک لالہ کھل رہا ہے

نہ کیجے گا قبول اس ارمغاں کو

بجز دل میرے پاس اب اور کیا ہے

 

حضور ملت بیضا میں تڑپا

نوا کی دلگدازی پائی پیہم

یہی ہے مختصر روداد میری

تپیدم آفریدم آرمیدم

 

یہ صدق فطرت رندانہ میرا

طفیل اس کے مراد دل بر آئے

برس جائے سحاب فیض کھل کر

مرا نخل تمنا بار لائے

 

کوئی معمورۂ گیتی میں میری

متاع دل کا غارت گر نہیں ہے

مرے سینہ میں ہو تیرا بسیرا

کہ مجھ سے کوئی تنہا تر نہیں ہے

 

اذاں دی ہے حرم میں مثل رومی

اسی کی نے سے ہوں آتش بجاں میں

بہ دور فتنۂ عصر کہن وہ

بہ دور فتنۂ عصر رواں میں

 

کھلا دے خاک میں میری گلستاں

شگوفوں کو مرا خون جگر دے

نہیں گر اہل میں تیغ علیؓ کا

تو ان کی تیغ جیسی اک نظر دے

 

ہوا آسودۂ ساحل مسلماں

کہ سہماتا ہے اس کو شور طوفاں

بجز مجھ بے نوا کے کس کو معلوم

وہ زخم اس کے دل مضطر میں پنہاں

 

کہا کس نے کہ اب سجنے کو ہے بزم

دیا کس نے پیام نو بہاراں

ہوا سوز کہن جب اس کا رخصت

شرر نے کس کے بھڑکایا نیستاں

 

گہر دے بحر دے اس آبجو کو

وہی دولت بہ کوہ و دشت و در دے

نہ راس آیا مجھے طوفان بے جوش

مجھے پر گوش طوفان دگر دے

 

یہ میری جلوتوں کی نے نوازی

یہ میری خلوتوں کی خود گدازی

بزرگوں کی عطا اک نکتۂ فقر

در سلطاں سے میری بے نیازی

 

میں جس حالت میں تھا نغمہ سرا تھا

نقاب روئے معنیٰ ہٹ رہا تھا

نہ پوچھ اب مجھ سے راز قربت دوست

ابھی میں تھا ابھی میں گم شدہ تھا

 

دل ہر نالہ کا میں ترجماں تھا

ضمیر زندگی کا راز داں تھا

نہ جانے کون تھا میرا مخاطب

کہ میں تنہائیوں میں نغمہ خواں تھا

 

تجلی تیری نظروں میں بسا لوں

کہ دیکھوں دل میں کیا ہے مہر و مہ کے

لرزتا ہوں مسلماں کہہ کے خود کو

کہ واقف ہوں مقام لا الہ سے

 

ترے در پر گداز یک نوا بس

مری یہ ابتدا یہ انتہا بس

کہا یزداں سے ہم کو مصطفے بس

 

۱۲

 

مجھے بخشا گیا وہ نغمۂ شوق

جو پتھر سے نکالے آبجو کو

یہ ہے اب آرزو میری کہ جاوید

تری الفت سے پا لے رنگ و بو کو

 

یہ زنگی کج کلاہوں سے نہ بچ پائے

وہ گل رخسار و شوخ شنگ و طرار

مرا شاہیں ہے نو آموز پرواز

نہ ہو جائے اسیر زلف زرتار

 

جو غیر اللہ کو دل دے نہ پائے

انھیں میری جہاں تاب اک نظر دے

اس آتش سے جو بھڑکی میرے دل میں

مسلماں زادگاں کو کچھ شرر دے

 

۱۳

 

وہ خاک پاک وہ خاک در دوست

مژہ سے اپنی چومی ہے جو جھک کر

اسے عبد العزیز اک سجدہ سمجھا

رکھا بے دینی کا الزام مجھ پر

 

تو سلطان حجاز اور میں ہوں نادار

مگر اک قطرۂ قلزم نما ہوں

جہان لا الہ جس میں ہے آباد

میں اس معمورۂ دل کی صدا ہوں

 

سراپا درد بے درماں ہوں لیکن

نہ سمجھو زار و پیر و ناتواں ہوں

میں تیر شیر افگن ہوں تمھارا

ابھی افتادہ و دور از گماں ہوں

 

ہر اک ذرہ ہے رقصاں آؤ ہم بھی

جہاں سے دل ہٹا کر رقص کر لیں

حریم دوست بن جائے شفق زار

نظر سے خوں بہا کر رقص کر لیں

 

بیاباں سے ترا وہ دشت روشن

کہ جس کی شام بھی ہے صبح پیکر

جہاں چاہے وہاں خیمہ لگا دے

طناب غیر سے لیکن حذر کر

 

مسلماں ہیں اور آزاد از مکاں ہیں

غبار راہ اپنے آسماں ہیں

وہ ذوق سجدہ پایا ہے کہ جس سے

ہر اک بت کے بہا کے راز داں ہیں

 

نہ روشن کر سکے گی رہگذر کو

فرنگی شمع کی دم توڑتی لو

نگاہیں قرض لو از چشم فاروقؓ

وہ دیکھو سامنے اک عالم نو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے