جب آدمی کی عمر بڑھ جائے
تو اس میں
وہ قوت آ جاتی ہے کہ
وہ چاہے تو شجر بن جائے
چاہے تو پرندہ
چاہے تو ندی بن جائے
چاہے تو پہاڑ
چاہے تو مر جائے
اور چاہے تو زندہ رہے
آج کل وہ بڑی عمر کا آدمی
ہم میں رہ رہا ہے۔
اور ہدیہ ظفر کی عمر جب بڑھ گئی اور اس نے اس کے چھیاسویں زینے پہ اچھی طرح قدم جما لیا، تو ایک دن اس کا سارا جیون سمٹ کر قلم کی نوک میں آ گیا اور چمکدار روشنائی کے ایسے دھارے کی صورت بہہ نکلا جس کی زد میں پہاڑ، کھائی، پھول، پتھر، ساحل، بھنور، سبھی آ جاتے ہیں۔
جیون کے اس ’’تند رو دھارے‘‘ میں عمر گزشتہ کے متعدد اور رنگارنگ عکس ہیں۔
اجنبی زمینوں کی خاک چھانتے، اپنے آباء کی دھندلی تصویریں۔۔۔۔ ان کے پیچھے پیچھے آنکھ بند کر کے چلتی اولادوں کے مٹیالے نقش پا، ماضی کے شیشوں پہ جمی گرد سے جھانکتے مانوس چہرے،
بچپن کے قصے، تتلیوں کے پر، بصرہ و بغداد کی یادیں، عربی آنکھوں والی نانی، آبائی گھر اور ان کے کاسنی دکھ، ہجرت کی مسافتیں،
برصغیر کے گندم گوں، نمکین چہرے، لڑکپن کے شیریں خواب، بہن بھائی، ان سے وابستہ خوشیاں اور غم اور ماں کا محبت بھرا مہربان دل۔۔۔۔
غم جاناں سے غم دوراں تک، اس سادہ دل اور دلکشا خود نوشت کے لکھنے والی کا نام ہدیہ ظفر ہے اور کتاب کا نام ہے ’’جیون دھارا‘‘
موگرے کی مہک جیسا یہ نثر پارہ مجھ تلک ڈاکٹر تیمیہ صبیحہ کے توسط سے پہنچا۔
کتاب کیا ہے؟
وقت کے گہرے سمندر کے بیچ اتر کر زندگی کی ناؤ کھیتی عورت کی کتھا۔۔۔ جس نے کسی جزیرے، کسی ٹاپو پہ وقتی طور پہ اتر کر آرام کی خواہش کو رد کر کے اس سمندر ہی کو خود پہ اوڑھ لیا ہے۔
اس نے ان پانیوں کی روپہلی سطح پہ گھٹتے بڑھتے چاند کی پرچھائیوں میں رت بدلنے کا انتظار کیا ہے۔
جدائیوں کی کن من کن من برساتوں میں بوند بوند تنہائی کاٹی ہے۔
زمین پر اتر کر اپنے بچوں کے پاؤں تلے مٹی ہموار کی اور سر پہ آسمان تانا ہے۔ پھر بہار کی اولین صبح کے آنے سے پہلے ان کے لیے ایک خوبصورت گھروندے کا انتظام کیا ہے۔
سرورق بے حد معنی خیز، گویا کل داستان کا منہ بولتا تصویری خلاصہ ہے۔ یہ درون ذات امڈنے والے طوفانوں اور ان کے نتیجے میں در آنے والی اس شکست و ریخت کا عکاس بھی ہے، جو روایت کی چٹانوں کو توڑ کر، دشت خرد کو سیراب کرتی، خوف کی گھاٹیوں میں پناہ گزین وہم کو نکال باہر کرتی ہے۔
صفحہ اول پہ موتیوں جیسی لکھائی میں کتابی تحفے کی نوید کے ساتھ ’حامل کتاب ہذا‘ کے لیے دعا لکھی ہے۔
انتساب اپنے تین جگر گوشوں کے نام ہے۔ جو مصنفہ کی ساری زندگی کا مدار ہیں۔
کہ یہ حقیقت اس روداد کے مطالعے سے خوب اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔
لکھتی ہیں۔
’’یہ ڈر بھی تھا کہ بچے کسی محرومی کا شکار نہ ہوں۔ اس سے بچوں کی روحانی اور ذہنی نشو و نما متاثر ہوتی ہے۔ مالی تنگی، ترشی سے تو وقت گزر ہی جاتا ہے میں اس سے بالا تر ہو کر سوچتی تھی۔ محرومیوں کا شکار بچے زندگی کے سفر میں کہیں نہ کہیں مار کھا جاتے ہیں جو میرے لیے بہت دکھ کی بات تھی اور میں ہرگز ایسا نہ چاہتی تھی۔‘‘
گھر بنانا اور اسے سنوارنا عورت کی فطری خواہش ہے۔
مگر اس گھر کے لیے ’مکان‘ اسے مرد فراہم کرتا ہے۔
اب چاہے اس مکان کی چھت گھاس پھونس کی ہو، دیواریں بانس، سرکنڈوں سے کھڑی کی گئی ہوں اور دروازے کی جگہ ٹاٹ کا ٹکڑا ہی کیوں نہ لٹک رہا ہو، عورت اپنی محنت اور کوشش سے اسے بہشت بنا دیتی ہے۔
لیکن یہاں ہمیں ایک ایسی عورت سے ملاقات کا موقعہ ملتا ہے۔۔۔ جس نے گھر بنانے کی خاطر مکان کی تعمیر کا انتظام بھی خود کر لیا۔ اور راج مزدوروں کے سر پہ کھڑے ہو کر اسے مکمل کروایا ہے۔
’’میں صبح، سویرے امی کے گھر سے نکلتی، اڈے پر پیدل ہی چلی جاتی کیونکہ اس وقت سڑک پر تانگے کا ملنا نا ممکن تھا۔ وہاں سے لوکل بس پر بیٹھ کر جوہر آباد جاتی۔ تقریباً دس منٹ کا راستہ تو تھا ہی۔ پھر اڈے سے تانگا لیتی اور 19 بلاک پہنچتی۔ لان والے حصے میں ایک 5 ضرب 5 ضرب 6 کی حوضی بنوا لی تھی اور کنارے پر ہینڈ پمپ بنوایا تھا۔ ابھی بجلی تو تھی نہیں اسی لیے مستری کے آنے سے پہلے ہی کسی مزدور کو، جو اوور ٹائم لگانا چاہتا تھا ہینڈ پمپ چلوا کر، حوضی میں پانی بھروا لیتی تاکہ کاریگر اور باقی مزدوروں کے آنے پر وقت ضائع نہ ہو۔۔۔۔۔۔ سب سے پہلے 44 مرلے یعنی تقریباً سوا دو کنال رقبے کے اردگرد چھ فٹ چاردیواری تعمیر کروائی کیونکہ مجھے روز وہاں جا کر بیٹھنا ہوتا تھا‘‘
زندگی محبت ہے اور اس کی سبھی رعنائیاں خون کے رشتوں کی مرہون منت ہیں۔ ان خونی رشتوں میں پہلے نمبر پہ ماں باپ، اور ایک ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے، ماں جائے ہیں۔ محبت کے یہ سانولے، سندر روپ مرتے دم تک دل کی سرزمین پہ آسن جمائے بیٹھے رہتے ہیں۔ مر جائیں تو اسی زمین پہ نہال غم کی صورت جڑ پکڑ لیتے ہیں۔ جس کی شاخیں سدا ہری رہتی ہیں۔
اور اگر ان ماں جایوں میں سے کوئی ایک ہوش و خرد سے بیگانہ ہو تو زندوں اور مردوں کے بیچ آشفتہ حالی اور جذب و سر مستی کا استعارہ بن کے جیتا ہے۔
شہ بیخودی نے عطا کیا، مجھے وہ لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی۔
مصنفہ کا سگا بھائی عبد القادر بھی ایک طرح کا مجذوب تھا۔ اسے مینٹل ہسپتال لاہور میں داخل کروایا گیا۔
بقول ہدیہ ظفر۔۔
’’امی کبھی اسے ملنے جاتی تھیں۔ بھائی بھی امریکہ سے آئے تھے، ملنے گئے۔ امی کے سامنے ہسپتال والوں نے اسے دوپہر کا کھانا دیا تو کیا دیکھا کہ مٹی کے پیالے میں کالے سیاہ رنگ کی دال جسے دیکھ کر کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ کیا پکا ہوا ہے اور جلی تنور کی روٹیاں۔۔۔۔۔۔
بی بی کا دل بہت دکھی ہوا کہ میرا بیٹا یہ کچھ کھاتا ہے، اس کے بعد جب بقر عید آتی، امی قربانی کا گوشت سارے کا سارا بڑے پتیلے میں خوب اچھی طرح بھون کر رات گیارہ بجے کی ٹرین انڈس ماڑی سے لاہور روانہ ہو جاتیں۔ ایک بڑی سی چادر کو ڈبل کر کے پتیلے کو اس میں اچھی طرح باندھ لیتیں، لاہور پہنچ کر تانگہ لیتیں اور سیدھی ہسپتال جاتیں اور وہ سب گوشت مریضوں میں تقسیم کر دیتیں۔۔۔۔۔۔۔۔
عبد القادر بات نہ کرتا تھا۔ ہمیشہ چپ رہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر ایک روز اسے اپنڈکس کے مرض نے آن گھیرا، ہسپتال والوں نے خاطر خواہ توجہ نہ دی۔ اور وہ فوت ہو گیا‘‘
اور ماں کے دل پہ وہ کٹاری پھر گئی جس سے تا دم مرگ قطرہ قطرہ خون ٹپک کر دل کو لہو کرتا رہا۔
پھر رت بدلی۔۔۔۔ جد و جہد نے کامرانی کا منہ دیکھا اور ہدیہ ظفر کے تینوں بچے کامیاب انسان بن کر معتبر مقامات پہ پہنچ گئے۔
دو بیرون ملک سدھار گئے اور ایک تدریس و تحقیق کے میدان سے وابستہ ہو کر مختلف قومی اداروں میں خدمات سر انجام دینے لگی۔
فراغت میسر آئی تو ہدیہ ظفر نے دنیا گھومنے کی ٹھانی اور شوہر کے ساتھ جہاں گردی کو نکل گئیں۔
آخر عمر میں شوہر سے جدائی کا صدمہ، پوتے پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کے دل آویز تذکرے، ان کے بچوں کی دنیا میں آمد کی خوشیاں۔۔۔۔ زندگی کی گہری پڑتی شام میں کوچ کی تیاری اور پیچھے رہ جانے والوں کے لیے دعائیں اور نیک تمنائیں۔ اور کیا کیا کچھ۔۔
’’رب ذوالجلال نے مجھے عزت کی زندگی سے نوازا ہے۔ اب یہی تمنا ہے کہ عزت کی موت سے بھی نوازے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختصر ہے یہ ہماری داستان زندگی
اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے‘‘
خود نوشت اتنے دلچسپ پیرائے میں لکھی گئی ہے کہ اس کے رواں اسلوب، عمدہ نثر، زبان و بیان کے معجزوں نے مجھے پہلی قرات میں ہی باندھ لیا۔
اور میں نے ایک ہی نشست میں اسے پڑھ ڈالا۔
کتاب کا مطالعہ تمام ہوا تو دل میں صاحب کتاب سے ملنے کی ہڑک جاگی۔۔۔۔
سوچا اب کے اسلام آباد جانے کا موقعہ ملا، تو تیمیہ کو ساتھ لے کر ان خاتون سے ملنے ضرور جاؤں گی۔
اور پھر یہ موقعہ بھی جلد آ گیا۔
ستمبر کی ایک ڈھلتی شام تھی جب میں ساتھیوں کے ساتھ ہدیہ ظفر کی رہائش گاہ القادر میں داخل ہوئی۔ گیٹ سے رہائشی کمروں تک جاتی گزرگاہ، وسیع و عریض صحن میں پھیلے سبزہ زار، راہداری، ڈرائنگ روم حتی کہ اس میں رکھی نشستوں پہ، ہر جگہ ہدیہ ظفر کے لفظوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ وہ خود وہاں نہ تھیں۔ مگر ہر جگہ موجود تھیں۔ ان کے مادی وجود کا اس دنیا کو الوداع کہے تیسرا دن تھا۔ وہ تہِ خاک سکون کی نیند سوتی تھیں۔ اور ان کی نشانی، جسے وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر گئی تھیں۔۔ لوگوں سے ان کا پرسہ وصول کر رہی تھی۔ وہی، جو میرے نزدیک سر تا پا محبت کا دوسرا نام ہے۔۔ اس دنیا کے لوگ البتہ۔۔۔۔ اسے ڈاکٹر نجیبہ عارف کہتے ہیں۔
٭٭٭