تین نظمیں فلسطین کے لئے ۔۔۔ قاسم خیال

ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟

 

فلسطین کے فطری

دِلکش و حسیں نظاروں کے

گداز بدن پر

قاتل اسرائیل کے

جنونی ڈرون

آگ برساتے

۔۔ زہر اُگلتے

میزائیل برس رہے ہیں

اور غزہ کے سبز بدن کی نرماہٹ پہ

لاکھوں بے بس اور نادار

نو زائیدہ!

دُودھِیا جسموں کی۔۔۔۔۔ راکھ پڑی ہے

دشمن کی خونی آنکھوں سے گِرنے والی

منجنیقوں سے۔۔۔۔۔

گَڑے پڑے ہیں

ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟

انسانیت اور قومیت کے گُلدستے کو

پتی پتی۔۔۔ ریزہ ریزہ۔۔۔ کرنے والے

یزیدی لشکر کے

مردہ سرمائے کی کچرا کُنڈی کے

رکھوالوں کے

آہنی پنجے

مسلم اُمہ کے

پاکیزہ بدن کی عظمت پر

اپنے ظلم کی ضرب لگاتے

نوچ رہے ہیں۔۔۔

محنت کرنے والے کومل ہاتھوں کو

اپنی نسلِ نو کی بے قدری

اور پائمالی کے

مسخ شدہ سب رنگ لیئے

بھیگ چُکی ہے

اور اِدھر ہم

احتجاج کی تسبیح تھامے

ہمدردانہ بزدلانہ

دِکھلاوے کا شور مچاتے

۔۔۔۔ عمرانیات میں

ایم فِل کرتے جاتے ہیں

سوشل میڈیا کی لذت میں گُم ہیں

اور ایک طرف

سنہری اربوں ڈالروں کے کہُسار

لا وارِث لاشوں کی طرح

ہمارے۔۔۔۔۔

بینکوں میں پڑے ہیں

ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟

ہم حق پرستی کے داعی

ہڑپا کی تہزیب کے وارث!!

اہلِ ہنر

ہم اہلِ سخن!

صرف لفظوں کی کمندیں ڈالتے

اندھے جذبوں!!

اور بانجھ دماغوں والی

اِک بھیڑ لئے

یہ سوچ رہے ہیں

ہم ایمان و جرات میں بھی

سب سے بڑے ہیں

ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟؟؟؟

ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟؟؟؟

٭٭٭

شکوہ

 

اے مالکِ کُن

وارثِ کون و مکاں

یہ جو غزہ میں تڑپتی تری

احسن مخلوق ہے

کیوں

موت جیسی زندگی کو ترس رہی ہے

اور تری رحمت کہاں پر برس رہی ہے

٭٭٭

 

فلسطین کی پکار

 

رات کے پُورے تین بجے ہیں

بوجھل آنکھیں

نیند سے خالی ہونے پر

فوراً

جب دروازہ کھولا تو چوکیدار

وِسل بجاتا گزر گیا ہے

 

میز پہ رکھی اخباروں میں

اک تصویر کو دیکھ کے یارو

ذہن میں سکتا ٹھہر گیا ہے

اور میرا ہمزاد _____ بیچارا

سوتے سوتے چونک اُٹھا ہے

لرز گیا ہے

 

غزہ کے سیکڑوں بھوکے پیاسے بچوں کی

نوحہ کرتیں

سِسکیاں

گُونج رہی ہیں

اجلے چہروں اور میلے کپڑوں میں

بِلکتی آہیں

مرے ساکت کانوں کی پگڈنڈیوں پر

شور مچاتی رینگ رہی ہیں

فلسطین کے سِتم رسیدہ لاکھوں بوڑھے

تِشنہ لب

لاچاری اور مجبوری کی تصویر بنے

حُر، حسنین اور شیرِ خدا کی راہ تکتے

محمود غزنوی، قاسم اور ایوبی کو

آوازیں دیتے

خون میں لت پت

ماتم کرتے درد میں ڈوبے

ہجرت کرتے جاتے ہیں

 

اُن لاغر پیروں سے رِستے

خون کے چھینٹے

اور پیاسی دوشیزاؤں کے پینے والا

گدلا پانی

میری آنکھوں سے قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے