کثیف دھند کی اوٹ سے جھانکتا سورج اداس اور بوڑھا نظر آ رہا تھا شام ہونے کو تھی اور وہ پریشان تھی کہ آخر کس کے ساتھ کھیلے؟ اس کا کوئی ہمجولی کہیں دکھائی نہیں دے رہا؟ – –
اچانک گلی کی مغربی نکڑ پر اسے ایک غبارے والا دکھائی دیا جو ایک لمبے بانس کے ڈنڈے پر کئی چھوٹے بڑے غبارے لٹکائے جا رہا تھا ـ وہ اس غبارے والے کو پکارتی پیچھے بھاگنے لگی مگر اُس نے پلٹ کر نہیں دیکھا ـ بھاگتے بھاگتے اس کی سانس پھول گئی مگر اسے غبارے ملنا تھے نہ ملے ـ وہ ننھی لڑکی اداس دل سے واپس پلٹی تو دیکھا چند گھڑیوں میں ساری عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی ہیں دھوئیں گرد اور انسانی جسموں کے جلنے کی بساند نے فضا کو مسموم کر دیا ہے ـ کھجور اور پام کے تنے مردہ انسانوں کے ساتھ زمین پر اوندھے منہ پڑے ہیں اور سبزہ زاروں میں ہریالی کی بجائے بارود کی بساند نتھنوں کو چیر رہی ہے
وہ ہرنی کے سہمے ہوئے بچے کی مانند مخالف سمت میں بھاگنے لگی اِس بار اُسے پھر ایک غبارے والا دکھائی دیا – اس کا گھر محلہ گلیاں سب ملبے کا ڈھیر بنے اپنی شناخت کھو چکے تھے ـ اور وہ سرپٍٹ بھاگتی جا رہی تھی جب غبارے والے کے قریب پہنچی تو دیکھا بانس کے ڈنڈے پر رنگ برنگے غباروں کی بجائے ہینڈ گرنیڈ اور مختلف اشکال کے بمب لٹک رہے ہیں ـ وہ دہشت زدہ ہو کر پھر الٹے قدموں دوڑنے لگی ـ اس بار سمتوں کا تعین معدوم ہو چکا تھا گرد و غبار اور دھوئیں میں سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا کہ اچانک اسے کسی نے بازو سے پکڑ کر ایک عمارت کے اندر کھینچ لیا –
گول گنبد کے نیچے بنی ہال نما عمارت میں کئی بچے پہلے سے ہی موجود تھے جنہوں نے دائرہ نما حلقہ بنایا ہوا تھا- وہ مبہوت کھڑی سب بچوں کے چہرے تکنے لگی جو ہر رنگ اور ہر نسل سے تھے -ان سب کے چہروں پر گہری اداسی اور سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ کہیں دور سے کورس میں کچھ پڑھنے کی آواز آ رہی تھی۔ وہ لڑکی کان لگا کر سننے لگی
______
سورج کو گرہن نہیں لگا پھر بھی دن کے وقت اندھیرا چھا چکا ہے۔ دشت کے سینے میں کوئی ایسی آگ بھڑکی کہ ریت بے قرار ہو کر اوپر کو اٹھی اور ایک پیالے کی مانند بستی کی آنکھوں کو ڈھانپ لیا۔ ہاتھ کو دوسرا ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا گردو غبار کے طوفان نے دور کہیں لوگوں کا سانس لینا بھی دوبھر کر دیا۔
ہم کہاں جائیں؟
راستے کیا ہوئے؟
ہم سب مصلحتوں کی چادر میں بکل مارے اپنی اپنی بغلوں میں چور چھپائے بیٹھے ہیں۔ مگر چور کیا چوری کرے گا؟
یہاں تو فقط ریت کا چھلاوا ہے
اور منرل آئل کی بساند
جو عطر کی شیشیوں میں بھری ہے۔
——–
دوستو! سب کواڑوں کو مقفل کر دو تاکہ باہر کی آوازیں اندر نہ آئیں اب ہمیں اُن پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے دماغ سے کچھ سوچنا ہو گا۔
قریب کوئی نو سال کا لڑکا کھڑا ہو کر دیگر سب بچوں سے مخاطب تھا اس لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے غباروں کے پیچھے بھاگتی بچی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس حلقے میں آ کر بیٹھ گئی۔
اسی دائرے میں موجود ایک کم سن لڑکی جس کے تن پر کوئی چیتھڑا تک نہیں تھا خوف سے ستا ہوا چہرہ اور آنکھوں کی پتلیوں میں ٹھہرا ہوا سوال اورنج بمب سے متاثرہ عجیب الخلقت بچوں کی بگڑے اعضاء کی مانند نظر آ رہا تھا۔ شاید بہت دنوں سے اس کی ماں نے اس کا چہرہ نہیں دھویا تھا یا بمباری کے بعد اڑنے والے غبار کو لاج آ گئی تھی جو اس کے بے ستر جسم پر ایک تہہ کی صورت جم چکا تھا-
اس کے ساتھ ہی ایک شیر خوار سوختہ تن، کھیلنے والی رنگین کنکریاں ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔ اس کے قریب بکھری راکھ بجائے خود ایک داستان تھی۔
نو سالہ لڑکا کہنے لگا دوستو چلو اپنی اسمبلی شروع کرتے ہیں۔ ہمیں اس مسئلے کی تہہ میں اترنا ہو گا ورنہ ان بستیوں میں کوئی ذی روح نہ بچے گا۔
تو سنو! ہماری زمین پیغمبروں کی سر زمین تھی پیغمبر زیادہ وہیں آتے رہے جہاں ضرورت زیادہ ہو۔
مگر اب ہماری زمینوں پر کہ جن کے کھیتیوں پھلوں اور زیتون کی پیداوار میں برکت دی گئی تھی ۔ ہمارے لوگوں کی رنگت سیبوں کی مانند سرخ اور چہرے تر و تازہ تھے ان کے بالوں کی رنگت گندم کی بالیوں سے زیادہ سنہری تھی ان کی زبان شستہ اور نرم تھی ہمارے مزاج میں نرم دلی اور ہمدردی تھی۔ مگر اب یہاں خدا کے نام پر لڑنے کے لیے دنیا کے ہر کونے سے انسان نما عفریت آ گئے ہیں جن کے پاس گولہ بارود کیمکل ہتھیار اور میزائیلوں سے لیس وہ آہنی پرندے جو بچوں کو چوہے سے بھی حقیر سمجھ کر ان کا شکار کرتے ہیں۔ ہمارے کھیت اور باغ ویران ہوئے باغبان مارے گئے اور جو باقی بچے ان کی پسلیاں ماس سے باہر جھانکتی ہیں اور پیٹ کمر سے جا لگے ہیں۔ ہماری بستی کے بچے رسیلے پھلوں کی بجائے اب بارود سے اجڑے کھیتوں میں اگنے والی خود رو گھاس ابال کر کھاتے ہیں۔ ان پر دنیا کا بہترین اسلحہ چلا کر تباہی کے اس کیل کی پیمائش کی جاتی ہے۔ ہمارے ہم جنس تجربہ گاہوں میں پالے گئے سفید چوہوں کی مانند بے بس ہیں جن پر دواؤں کی آزمائش کرنے کے بعد انہیں بھٹی میں راکھ کر دیا جاتا ہے۔ پھر ٹی وی پر یہ مناظر دکھا کر ساتھ لکھا جاتا ہے بچے نہ دیکھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچے تو یہ سب اپنی جانوں پر سہہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بچے نہ دیکھیں؟ ان میں سے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ بچے یہ سب نہ سہیں!
یہ سن کر ایک سنہرے بالوں والی لڑکی کہنے لگی: خدا کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں گولڈ آئل اور ڈرگس کی تجربہ گاہیں ہیں جہاں دنیا کی طاقت ور اور جنونی اقوام اپنے تجربات کر رہی ہیں۔
قریب ہی بیٹھی کیمکل حملے سے بری طرح مجروح اور بینائی سے محروم کم سن لڑکی کہنے لگی ۔
اب ان بستیوں میں مصلح نہیں بلکہ خود کو سپر ہیرو سمجھنے والے آسیب نازل ہونے لگے ہیں۔ جانے ہمارے بڑوں نے مصنوعی ہیرو بے مہار طاقت سے آراستہ کردار کیوں بنا دیے گئے تھے۔ بہترین تقویم پر پیدا کیے گئے انسان کو سپر ہیروز کے سامنے کمتری کا احساس کیوں دلایا گیا؟
آج کے انسان نے اپنی معراج ان جنگجو کرداروں کو سمجھ لیا ہے۔ یہ باہر سے آئے جنگجو کیپٹاگون کھا کر خود کو سپر مین سمجھتے جیتے جاگتے انسانوں کو کسی ویڈیو گیمز کے ہیولوں کی مانند مارتے چلے جاتے ہیں۔
نہ خون دیکھ کر ان کا دل لرزتا ہے اور نہ ہی قتل و غارت گری سے یہ اکتاتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی سفید گولیاں نگل کر یہ ایسے عفریت بن جاتے ہیں جنہیں ننھے گلابی پھولوں کو سفیدی پہناتے کسی ملامت کا احساس تک نہیں ہوتا انہیں نیند آتی ہے نہ ماڑ دھاڑ کی تکان ان پر غالب آتی ہے۔
یہ آج کا نیا سپر مین ہے ۔ ۔ ۔ ۔
یہ سن کر سرخ دھبوں سے اٹے سبز کوٹ اور خاکی پتلون میں ملبوس سکول کا لڑکا کہنے لگا
اچھا تو کیا تم لوگوں کی بستی میں بھی جنگ اور ڈرگس ساتھ ساتھ چلتی ہیں؟
دودھیا گلابی رنگت پر جا بجا زخم اور جلے بارود کے سیاہ داغ لیے دوسرا کم سن بچہ پوچھنے لگا!
تم سکول سے سیدھے یہاں آ گئے ہو؟ کیا تمہاری بستی میں جنگ اچانک شروع ہوئی تھی؟
نہیں یہ جنگ تو عشروں پہلے انہی کھلاڑیوں نے شروع کی جو اب تمہاری بستی میں آئے ہیں۔ ہمارے دادا نانا نے جو پرائی جنگوں میں پوست کی فصل کاشت کی تھی ہم اس کی کٹائی پر مجبور ہوئے ۔ ہمارے ہیروں جیسے جوان اپنی توانائیوں سے بستی کی تعمیر کی بجائے ببولوں سے اٹی خاردار جھاڑیاں کاٹ رہے ہیں۔ ہمارے ہاتھ ان کانٹوں سے فگار ہو چکے ہیں اور ماؤں نے کمسن بچوں کے تابوتوں پر نوحوں کی لوریاں پڑھی ہیں۔ ہمارے لوگ اور ہمارے محافظ آئے دن کہیں بھی لاشوں میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ کم سن بچوں کو یوں زخم لگائے جیسے وہ پوست کے ڈوڈوں کو چِرکا لگاتے ہیں۔
میر و سلطاں نرد باز و کعبتینِ شان دغل
جانِ محکوماں ز تن بردند و محکوماں بخواب
——
کہیں دور سے کورس میں ہائم پڑھنے کی آواز پھر بلند ہونے لگی جس کے سُر نوحوں میں ڈھل رہے تھے۔ معبد خانوں کے مقفل دروازوں سے آوازیں چھن چھن کر آ رہی تھیں جو کبھی مدھم ہو جاتیں تو کبھی بلند۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرے ساتھیو! اگر ان نوحوں سے زخم مندمل ہو سکتے جنگیں رک سکتیں تو ہم اتنا روتے اتنا روتے کہ آنسوؤں کی جھڑی سے لہو کے سب دھبے دھل جاتے۔ ہمارے کم سن بچوں نے بغیر نوحہ کیے اپنے نازک ہاتھوں سے چمکیلے فرشوں پر پونچھا لگا لگا کر بیسیوں انسانوں کے لہو دھوئے ہیں ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے گریہ کچھ فائدہ نہ دے پائے گا۔ انسانی تہذیب کے ارتقاء نے ہم سب بچوں کو ایسی تنزلی میں دھکیلا ہے جس کا ادراک ان بڑوں کو ہو ہی نہیں رہا۔ یا پھر وہ اس زمین پر سرخ لال نیلے پیلے بھورے انسانوں کی بجائے فقط گوشت پوست کی پتلیاں اور مشینیں باقی رکھنا چاہتے ہیں۔
بے ستر جسم پر راکھ اوڑھے پیلے چہرے والی کم سن لڑکی، جس کی دہشت زدہ تصویر دنیا کے بیشتر اخبارات کا حصہ بن چکی تھی، کہنے لگی:
ساتھیو! بچوں کا کوئی برانڈ نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ رنگ نسل ملک وطن کے خانوں میں بٹے ہوتے ہیں۔ ہم بڑوں کی سازشوں، سیاستوں اور تعصبات سے پاک ہیں اسی لیے ہم سب ایک دوسرے کا درد جانتے ہیں۔ ہمیں دنیا بھر کے بچوں کے حقوق کی لڑائی لڑنا پڑے گی۔
یہ وحشی درندے سادیت پسندی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے ساتھ مل کر زمین آگ و خون کی ہولی کھیلتی اور دھواں اگلتی ہے۔ خون ماس جلنے کی بساند اور دھواں ان درندوں کی اشتہا میں اضافہ کرتا ہے ۔ ان کے لیے میزائل اور کیمیائی حملے بھرے سگریٹ کا کش لگانے جیسے لذت انگیز ہو چکے ہیں۔ زمینوں پر حکمرانی کا خواب اور طاقت کی ہوس ان کی ایکسٹیسی ہے۔
ان سادیت پسندوں نے کم سن لڑکیاں ملیں یا بڑی بوڑھیاں سب کو اپنی جنسی درندگی کا نشانہ بنایا۔ طاقت کے وحشی رقص پر جنگی جنون کی بھینٹ چڑھتے بچوں اور عورتوں کی سیکس ٹریڈ دنیا بھر کے روٹس پر جاری رکھی گئی۔ جنگ سے متاثرہ پناہ گزین خیمہ بستیوں نے ان تاجروں کی راہیں مزید آسان کر دیں۔ چند عشروں میں دنیا بھر سے تیس ملین بچے جنسی تجارت کی بھٹی میں جھونکے جا چکے ہیں جو اپنے گھروں اور ماؤں کی شفقت میں کبھی واپس نہ لوٹ سکے۔
اس کی بات جاری تھی کہ گہرے نیلے پانیوں سے اٹھی لہروں نے ایک شیر خوار کو اوندھے منہ ان کے بیچ لا کر لٹا دیا۔ اس بچے کی آمد کے ساتھ ہی پھر سسکیوں میں ڈوبے مرثیے فضاؤں میں ارتعاش پیدا کرنے لگے ۔ کسی ہلچل اور بے چینی کے آثار شدت سے ابھرنے لگے
۔ ۔ ۔ ۔
حد نظر محدود ہو چکی ہے
قف!
قف!
آگے مت بڑھو! آگے خطرہ ہے
درد کی رگیں نیلی ہوتیں تو آج سمندر درد کا استعارہ ہوتا
درد کی رگیں سرخ ہوتیں تو سورج محض آگ کا گولا ہوتا
مگر سمندر تو موتی اگل رہا ہے
اور روشنی کے گولے کو
ریت کے طوفان نے ڈھانپ رکھا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عبادت گاہوں کے روشندان بھی بند کیے جا چکے تھے۔ دعاؤں کی آواز مدھم پڑھنے لگی۔
پو پھٹی تھی یا جھٹپٹے کا وقت تھا کچھ اندازہ نہ ہوا ۔ اس شیر خوار کے بعد بھی بے شمار بچے وہاں آتے اور اس اجتماع میں شامل ہوتے جا رہے تھے گویا کسی شاطر پائپ پائپر نے گلابوں کا شہر اجڑنے کے بعد سارے دریدہ بدن بچوں کو اپنے پیچھا لگا کر اس ہال کے اندر جمع کر لیا ہو۔
تیز سائرن بجنے کی آوازیں مدھم پڑنے لگیں تو اسکول یونی فارم میں ملبوس لڑکا پھر اٹھا کھڑا ہوا۔
بچو! ہمیں دنیا کا دستور نئے سرے سے لکھنا ہو گا ہمیں پرانے پیمانے الٹنا ہوں گے ہمیں اب بڑوں سے جرح کرنا ہو گی آخر یہ جنگیں کس لیے اور کیوں؟
ایک چپٹی ناک اور پیلی رنگت والا گول مٹول لڑکا کہنے لگا۔ یہ جرح اتنی آسان نہیں ہے۔ ماؤ کے ثقافتی انقلاب میں ایسا ہی کچھ تجربہ کیا گیا تھا اور نوجوانوں نے اپنے اساتذہ افسران صنعتکاروں حتی کہ خاندان کے بزرگوں پر ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیے تھے۔ کہیں جوان پیروں کے استاد بن کر وہی ستم نہ ڈھانے لگیں۔
نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ یہ سب جوان نہیں بلکہ سو سالہ شخص سے بھی زیادہ بوڑھے بچے ہیں ۔ خون ریزیوں جنسی درندگیوں انسانی جان کی ارزانی اور حالات کی سختیوں نے انہیں وقت سے بہت پہلے بوڑھا اور سیانا بنا دیا ہے۔ ان ننھی جانوں نے اپنی زندگی کے چند برسوں میں ایسے تلخ تجربات سہے ہیں جو بزرگوں کو عشروں اور صدیوں میں وہ شعور وہ فہم بخشتے ہیں۔
نہیں اب مزید خونریزی نہیں ہمیں پھول اور پودے اگانا ہیں ہمیں محبت کا درس دینا ہے گروہ بندیاں اور تعصبات ختم کرنا ہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ رنگ نسل مذہب اور قومیت کے نعرے تلے بہتا خون روک کر دھرتی کو پھولوں اور آزاد پرندوں سے رنگین کیا جائے ۔
بچوں کے دائرے کے قریب ہی موجود بال بیرینگ اور بارود سے بنی جیکٹ کے چیتھڑے تن پر لیے ایک کم سن لڑکا جو سر تا پا تاسف کی تصویر بنا چپ چاپ سب سنتا چلا آ رہا تھا، بولنے کی اجازت طلب کرنے لگا۔
ہال میں موجود سب بچے خاموش ہو گئے ان کے چہرے کی شکنوں میں تفکرات، اندیشے مستقبل کا خوف اور مجروح بدن پر اٹی گرد انہیں سو سالہ بوڑھے جیسا خستہ حال اور ضعیف دکھا رہی تھی۔
خود کش حملہ آور کہنے لگا پیارے ساتھیو سب سے پہلے ان بڑوں سے وہ خود ساختہ نصاب چھین لو وہ درس گاہیں لپیٹ دو جو تمہارے اذہان پر پٹی باندھ کر تمہیں ایک روبوٹ بنا کر ان کے ہاتھ میں تھما دے اور وہ جب چاہیں ریموٹ کا بٹن دبا کر انسانی مشین کو پھاڑ دیں۔
ان خون آشامیوں پر روک اور نسل انسانی کی بقا کا یہی حل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ان متعصب اور جنونی بڑوں کے ہاتھ روک دو ان سے سوال کرو ان سے پوچھو آخر اتنی جنگیں کیوں اور کب تک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ہم۔ بچے آخر کب تک ان جنگوں کا ایندھن بنتے رہیں گے اٹھو اور سب کچھ پلٹ کر رکھ دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سب بچے غبارے کے پیچھے بھاگتی ننھی لڑکی کی طرف دیکھنے لگے۔ پھٹا ہوا خود کش حملہ آور اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا جاؤ اس عمارت سے باہر نکلو اور باقی بچ جانے والے بچوں کو ہمارا پیغام دے دو۔ بچوں کا کوئی برانڈ نہیں ہوتا اٹھو اور مل کر ان جنگوں کے خلاف سینہ سپر ہو جاؤ۔ زمین کی گود پھر سے سبزہ اگانے لگے گی اور دھواں اگلنے کی بجائے آسمان چھاچھوں مینہ برسائے گا جاؤ اور دنیا کا نظام اپنے ہاتھوں میں لے لو۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گنبد سے باہر دعاؤں، مرثیوں، ہائم اور قوالوں کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
با ضعیفاں گاہ نیروے پلنگاں می دہند
شعلہ شاید بروں آید ز فانوسِ حباب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب
بعض دفعہ کمزوروں کو شیروں کا جسم و طاقت مل جاتی ہے۔ شاید پانی کے بلبلوں سے شعلہ برآمد ہو جائے۔
الٹا ڈالو
بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو
ننھی لڑکی ہوائی حملے کے بعد منہدم ہو جانے والی عمارتوں کے پاس حیران کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر معصومیت کھلونوں کے اشتیاق اور شرارت کی جگہ لاتعداد جھریاں پڑ چکی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں بزرگوں کی سی متانت اور چہرے پر سمندروں کا سا ٹھہراؤ تھا۔ اپنے سابقہ خوف پر قابو پاتے ہوئے وہ ملبہ بنی عمارتوں میں زندہ بچ جانے والے بچوں کو نام لے کر پکارتی آوازیں دیتی، تلاش کرنے لگی۔
٭٭٭