افسانہ، تنقید، انشائیہ، خاکہ، ادارت، شاعری، تبصرہ، اَدبی صحافت، جائزہ نویسی، شخصیت نگاری جتنی بھی اَدب کی معلوم جہات و اصناف ہیں، اگر کسی نابغہ عصر ہستی نے سب میں اور سب سے زیادہ تاریخ ساز، بے مثال اور یادگار کارکردگی اور تخلیقی سطح پر اظہار کیا ہے تو وہ صرف اور صرف بابائے اَدب ڈاکٹر انور سدید کی ذات با صفات ہے۔ خوش گوار حیرت یہ ہے کہ اُنھوں نے کسی بھی صنف کو قلم کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے مَس نہیں کیا بلکہ ہر شعبہ اَدب میں پورے پورے داخل ہو کر تخلیقات کے دریا بہا دئیے ہیں۔ جس سے اُردو اَدب کی تاریخ پر اتنے گہرے نقوش مرتب ہو چکے ہیں کہ تاریخِ اَدب کا کوئی بھی طالبِ علم اُن کو نظر انداز کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ موصوف کی عمر اسی سال سے تجاوز کر چکی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عزمِ سدید کے طفیل آج بھی قلمی لحاظ سے نوجوان ادیبوں سے زیادہ متحرک اور فعال ہیں۔ بقول شاعر
یہ چیز تھی کہاں کہاں ڈال دی گئی
بوڑھے بدن میں روح جواں ڈال دی گئی
گذشتہ دنوں اُن سے مصاحبہ انٹرویو کے دوران ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے
کاظم جعفری: ڈاکٹر صاحب کچھ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں آگاہ فرمائیں؟
ڈاکٹر انور سدید: 4دسمبر1928 ء کو سرگودھا کے ایک نواحی قصبہ میانی میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ 1944ء میں ایف ایس سی کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا لیکن تحریک پاکستان میں سرگرمیوں کی وجہ سے امتحان نہ دے سکا۔ گورنمنٹ انجینئرنگ سکول منڈی بہاؤ الدین سے سول انجینئرنگ کا ڈپلوما اوّل بدرجہ اوّل میں گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کیا اور محکمہ آبپاشی پنجاب میں ملازمت اختیار کی، ڈھاکہ سے بی ایس سی سٹیڈرز کا امتحان اے ۔ایم۔ آئی۔ ای پاس کیا، پہلے ایس ڈی او پھر ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے پر ترقی حاصل کی، دسمبر 1988ء میں ریٹائر ہوا تو سپرنٹنڈنگ انجینئر کے گریڈ میں داخل ہوچکا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے عملی صحافت میں قدم رکھا، قومی ڈائجسٹ، زندگی، روزنامہ خبریں کے بعد اب روزنامہ”نوائے وقت” سے وابستہ ہوں۔ پانچ سال قبل میں نے ریٹائرمنٹ کی درخواست کی تو جناب مجید نظامی نے فرمایا کہ صحافی اور اَدیب کبھی ریٹائر نہیں ہوتے اور زندگی کے آخری لمحے تک لکھتے ہیں۔ یہ کہہ کر اُنھوں نے مجھے اپنے عظیم ادارے کا ساتھ وابستہ رکھا اور گھر پر کام کرنے کے لیے نیا پیکج دے دیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ دریں اثناء میں نے ایم اے تک کے امتحانات پرائیویٹ حیثیت میں پاس کیے اور مقالہ”اُردو اَدب کی تحریکیں” لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی، اس مقالے کے داخلی نگران ڈاکٹر وزیر آغا تھے جبکہ ممتحین میں ڈاکٹر شمس الّدین صدیقی اور ڈاکٹر سید عبداللہ تھے۔
کاظم جعفری: اُردو اَدب میں آپ نثر کی وساطت سے آئے یا شاعری کے دروازے سے، کچھ اپنے اَدبی سفر کی تفصیلات بتلانے کی زحمت کریں گے؟
ڈاکٹر انور سدید: یاد پڑتا ہے کہ پرائمری کے آخری درجے میں ہمارے اُستاد مرزا ہاشم الّدین نے ہمیں مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب”قصص الہند” غیر نصابی کتاب کے طور پر پڑھائی تھی، اس لیے ان کے مطالعے کا رجحان پیدا ہوا۔ چھٹی جماعت میں مولوی محمد بخش ممتاز شعرا کے اشعار املا کراتے اور اُن کی تشریح کرتے تھے، اس سے شاعری کی طرف رغبت پیدا ہوئی۔ آٹھویں جماعت میں ماسٹر عبدالکریم نے اُردو کی چند معروف بحروں کی مشق کرائی، اس نے بھی شاعری کے ذوق کو استوار کیا۔ پہلی کہانی 1966ء میں بچوں کے رسالہ”گل دستہ” میں چھپی جس کے مدیر رگھو نتھ سہائے تھے۔ اُس دور میں فلمی پرچے” چترا” نے میری کئی نا پخت کہانیاں شایع کیں۔ یزدانی جالندھری نے مجھے” بیسویں صدی” میں اور مظہر انصاری دہلوی نے رسالہ”ہمایوں” میں میری افسانے شایع کیے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے جنوری 1966ء میں”اوراق” جاری کیا تو مجھے سابقہ مطالعے کی اساس پر تنقید لکھنے کا مشورہ دیا،”مولانا صلاح الدین احمد کااُسلوب” میرا پہلا تنقیدی مضمون تھا۔ جس کی پذیرائی نے مجھے مزید تنقید لکھنے پر مائل کیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ انشائیہ نگاری اور شاعری بھی رسالہ”اوراق” کے ساتھ وابستگی کی ہی عطا ہے۔
کاظم جعفری:آپ کی جن لوگوں سے قلبی و ذہنی قربتیں رہیں اور ہیں،اُن کی کچھ تفصیل بتائیں؟ جن کو آپ نے پڑھا، پسند کیا، اپنے پیش رو، ہم عصر شعرا و ادبا میں کن کے نام لینا چاہیں گے؟
ڈاکٹرانورسدید: طالب علمی کے زمانے میں مجھے دارالحکومت پنجاب لاہور کی کہانیوں کی کتابوں مثلاً”قصر صحرا”۔”عمرو عیار”۔” عجیب عینک”اور رسالہ”پھول” وغیرہ نے بہت متاثر کیا اور مطالعے کی عادت ڈالی۔ رسائل میں سے”ہمایوں”۔”ادب لطیف”۔”ساقی” اور”آج کل”نے نئے اَدب سے متعارف کرایا۔ اَدبی زندگی پر سب سے زیادہ مثبت اثرات ڈاکٹر وزیر آغا نے ڈالے، اُنھوں نے انگریزی اَدب پڑھنے کی عادت ڈالی۔میں نے اُردو کے سب اَدیبوں کو اور انگریزی کے چیدہ چیدہ اَدیبوں کو پڑھا ہے۔ اَب ہر اچھی کتاب کا مطالعہ میرا شوق ہے اور اَدیبوں میں امتیاز کرنا میری عادت نہیں اس لیے سب نام گنوانا تو ممکن نہیں۔
کاظم جعفری: اُردو اَدب کا موجودہ دور آپ کو کیسا لگتا ہے؟
ڈاکٹر انور سدید: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا پر منفی اثرات ڈالے ہیں اور یہ اَدب کے زوال کا دور ہے۔ میں اس سے متفق نہیں، کتاب کا اپنا تہذیبی مدار ہے اور یہ اَدب کا مستقل حوالہ ہے۔ اُردو اَدب میں بھی لکھنے والوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ کتابوں کی اشاعت کی رفتار بھی تیز تر ہو گئی ہے اگر صرف ناول کو معیار بنایا جائے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ صرف ایک سال کے عرصے میں”غلام باغ” مرزا اطہر بیگ ۔”دھنی نجش کے بیٹے” حسن منظر۔”مسافتوں کی تھکن”عذرا اصغر۔” اندر جال” دردانہ نوشین خان۔”سانجھ بھئی چوریس”سلمٰی یاسمین نجمی۔”راستہ بند ہے” مصطفےٰ کریم اور” میرے ناولوں کی گم شدہ آواز”محمد علیم شایع ہوئے، جو اپنی قدر آ پ ہیں۔ افسانہ ، سفرنامہ، انشائیہ، خاکے اور تنقید کی چند اعلیٰ پائے کی کتابیں سامنے آئیں، یاد نگاری اور خطوط نگاری کی طرف خصوصی توجہ دی جا رہی ہے تاہم شاعری میں افراطِ تخلیق ہے اور معیار بھی متاثر ہو رہا ہے۔لِہٰذا حسبِ سابق یہ دور بھی اُردو اَدب کا ایک اہم دور ہے۔
کاظم جعفری: آپ کی شناخت محقق اور ناقد کی حیثیت سے زیادہ مسلمہ ہے جبکہ آپ شعر گوئی بھی کرتے ہیں۔ شاعری کی نسبت تحقیق و تنقید کی طرف زیادہ راغب ہو جانے کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر انور سدید: تنقید میرے مطالعے کی تفہیم کا عمل ہے۔ مطالعے کے دوران جو سوالات پیدا ہوتے ہیں میں اُنھیں تنقید کے دوران حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور یوں اپنی طالب علم حیثیت کو قائم رکھتا ہوں۔ شاعری کے لیے تخلیقی لمحے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور لاشعور سے ارادةً رابطہ قائم کرنا ممکن نہیں۔ تنقید شعوری عمل ہے۔ جس کے لیے طبیعت کو آمادہ کیا جاسکتا ہے اور سوچ کی لہر کو ارادے کے تحت بھی موجزن کرنا ممکن ہے۔
کاظم جعفری: تنقید کے نظریات میں جدیدیت، مابعد جدیدیت اور ساختیات، پس ساختیات جیسی اصطلاحات منظر عام پر آئی، موجودہ عہد میں اِن نظریات کے کیا خد و خال ہیں؟
ڈاکٹر انور سدید: جدیدیت ، ما بعد جدیدیت ، ساختیات، پس ساختیات وغیرہ مغرب سے درآمد شدہ نظریات میں اور تا حال اُردو اَدب کے گملے میں پرورش پا رہے ہیں۔ اِن کی جڑیں ابھی زمین میں نہیں اتریں، پاکستان میں ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر ناصر عباس نیّر اِن کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں لیکن اُن کی اصطلاحات اور مفاہیم واضح کرنے کے لیے لفظیات اتنی مشکل ہے کہ اِن نظریات کا دائرہ وسیع نہیںہوسکا۔ بھارت کے بعض نقّادوں پر الزام ہے کہ وہ اِن نظریات کو تراجم کے ذریعے پیش کر رہے ہیں۔ مزید برآں ایک حزب اختلاف بھی پیدا ہوکا ہے جو مشرقی اَدب پر اِن نظریات کے اطلاق کو قبول ہی نہیں کرتا۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ یہ نظریات فی الحال اُردو اَدب میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
کاظم جعفری: تنقید و تحقیق میں وہ کون سے نام ہیں جن سے آپ متاثر رہے اور موجودہ دور میں اَدب میں ایسے کون سے نام ہیں جن سے تنقید و تحقیق کو اعتبار حاصل ہے؟
ڈاکٹر انور سدید: میں نے تنقید کے ہر مکتبِ فکر سے استفادہ کی کاوش کی ہے۔ چنانچہ سید احتشام حسین، محمد حسن عسکری اور وزیر آغا صاحب سے میں نے فراوانی سے فیض حاصل کیا ہے۔ تحقیق میں مجھے سب سے زیادہ راہنمائی ڈاکٹر وحید قریشی نے عطا کی اب تنقید و تحقیق میں متعدد نئے نام اُبھر رہے ہیں، تاہم تنقید میں ڈاکٹر ناصر عباس نیرّ، رضی مجتبیٰ، رؤف نیازی اور ڈاکٹر ضیاء الحسن چند اہم نام ہیں۔ تحقیق میں محمود شیرانی کا آخری نمائندہ شاید ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی قرار پا جائے، رفاقت علی شاہد کا رجحان خالص تحقیقی ہے، پی ایچ ڈی کے معاملات اب تحقیق کی بجائے تنقید کا حق زیادہ ادا کر رہے ہیں اور الزام یہ بھی لگ رہا ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے مناسب اجرت دے کر بھی لکھوا لیے جاتے ہیں۔ یہ اَدبی بددیانتی ہے۔ جس کا سدّ باب ضروری ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی جامعات میں پی ایچ ڈی کا معیار زوال پذیر ہے۔ بیشتر مقالات پر ڈگری دی جاتی ہے لیکن اُن کی اشاعت کی نوبت نہیں آتی اور نہ اُن کے معیار کا پتہ چلتا ہے۔ پانچ ہزار روپے ماہانہ کے وظیفے نے اس مقدسّ عمل میں پیشہ ورانہ سرمایہ کاری کو داخل کر دیا ہے۔
کاظم جعفری: آپ کے خیال میں ترقی پسند تحریک کی ضرورت کیوں پیش آئی نیز اُردو اَدب میں اس تحریک کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
ڈاکٹر انور سدید: ترقی پسند تحریک مارکسیت کے عروج کے دور میں اُبھری تھی۔ متحدہ ہندوستان میں اِس کا آغاز مشہور مارکسٹ سجاد ظہیر سے منسوب ہے۔ اُنھوں نے اس تحریک کے ذریعے اَدب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی اور غربت و غلامی کے خلاف اَدب تخلیق کرنے کے دعوت دی۔ اہم بات یہ ہے کہ اِس تحریک نے خرد مندانہ رویے کو فروغ دیا۔ آزادی اظہار کی تحریک پیدا کیا اور”ترقی” کے نام پر ایک ایسے ہجوم کو جمع کر لیا جو سوشلسٹ نظریے کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اَدب کی تخلیق کا معیار گر گیا۔ حکومت کے عتاب نے بھی اس تحریک کو نقصان پہنچایا اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد اِس تحریک کی تنظیم ختم ہو گئی۔ اب نظریہ تو موجود ہے لیکن اِس کے تحت اَدب تخلیق کرنے والے نایاب ہیں۔ بالفاظ دیگر ترقی پسند تحریک کے مثبت اثرات پورے اَدب میں پھیل گئے ہیں لیکن اُن کی تحریکی نشان دہی شاید ممکن نہیں ہے۔
کاظم جعفری: اَدبی گروہ بندیوں سے تو آپ یقیناً واقف ہوں گئے، آپ کے نزدیک اَدب میں گروہ بندی کی کیا ضرورت یا اہمیت ہے؟
ڈاکٹر انور سدید: اَدبی زاویے سے دیکھیے تو تخلیقی عمل آزاد ماحول میں پرورش پاتا ہے اور اس کے لیے گروہ بندی قطعاً ضروری نہیں، جو تقلید کو فروغ دیتی ہے۔ سب سے بڑی گروہ بندی ترقی پسند تحریک نے پیدا کی تھی۔ جس نے ایک خاص نظریّے کا اَدب پیدا کرنے کی تلقین کی اور اَدب کے نام پر سیاسی پمفلٹ لکھے جانے لگے۔ تاہم وہ اُدبا جو ذاتی نمود و نمائش کے برعکس گروہ کی صورت میں فن پارے پر تخلیقی اور فنّی زاویوں سے بحث و نظر کو فروغ دیں، اُسے اَدب کے لیے مفید قرار دیا جاسکتا ہے۔اس ضمن میں”حلقۂ اَربابِ ذوق” کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ تاہم اب یہ ادارہ بھی زوال پذیر ہے۔
کاظم جعفری: ڈاکٹر وزیر آغا اور آپ کی احمد ندیم قاسمی گروہ سے آپ کے کیا اختلافات تھے؟
ڈاکٹر انور سدید: نظریاتی طور پر تو وجہ یہ نظر آتی ہے کہ احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک کے نمائندہ ادیب کہلواتے تھے اور ڈاکٹر وزیر آغا اپنے اندر کی آواز سن کر تخلیق کاری کرتے ہیں۔ دونوں کا تخلیقی عمل مختلف ہے۔ دنیاوی طور پر قاسمی صاحب کو شکایت تھی کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اُن کی تعریف و تحسین میں مبالغہ آمیزی سے وہ کام نہیں لیا جو ممتاز حسین اور فتح محمد ملک انجام دیتے رہے اور اُنھیں اقبال اور فیض سے بڑا شاعر ثابت کرتے رہے۔ قاسمی صاحب اپنے اوپر تنقید کو گوارا نہیں کرتے تھے۔ مَیں نے اُن کے افسانوں کا تجزیہ اپنی کتاب”اُردو افسا نے میں دیہات کی پیشکش” میں کیا تو اُنھوں نے پسند نہ کیا اور ناراض ہو گئے۔ حتیٰ کہ دشنام طرازی پر اتر آئے لیکن میں وزیر آغا کی طرح اُنھیں بھی اپنا محسن تصور کرتا ہوں۔ اُنھوں نے مجھے ہمیشہ متحرک اور سرگرمِ اَدب رکھا، دُکھ کی بات یہ ہے کہ اُن کی وفات کے بعد”فنون” کے آشیانے میں چہچہانے والے سب پنچھی قاسمی صاحب کو بھُلانے پر مائل ہیں۔
کاظم جعفری: اَدب میں مصاحبہ انٹرویو کی اہمیت و افادیت کیا ہے؟
ڈاکٹر انور سدید: مصاحبہ انٹرویو اَدیب کے باطن کو ٹٹولنے اور کھنگالنے کا عمل ہے۔ میں اِسے اَدب کے لیے مفید تسلیم کرتا ہوں۔ آپ مختلف سوالات اُٹھا کر وہ باتیں معلوم کرسکتے ہیں جو بالعموم رسمی یا روایتی مضامین میں بیان نہیں کی جاتیں۔ تاہم اس کے لیے انٹرویو کرنے والے کو پورا”ہوم ورک” کرنا چاہیے اور گہرے اَدبی اور نظریاتی سوالات پوچھنے چاہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اَدبی صفحے پر اور رسائل میں انٹرویو سب سے زیادہ دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ اَدیب کے حقیقی باطن کو منکشف کرتے ہیں۔
کاظم جعفری: اَدب میں تنقید و تحقیق کی کیا اہمیت و ضرورت ہے؟
ڈاکٹر انور سدید: تنقید و تحقیق اَدب کے لیے اہم بھی ہیں اور ضروری بھی۔ تحقیق نایاب مواد کی جستجو اور صداقت کی تلاش کا نام ہے، جبکہ تنقید میں فن پارے کے حُسن و قبح پر فنی بحث کے علاوہ فنکار کی قدر افزائی کا عنصر بھی شامل ہیں۔
کاظم جعفری: نئی نسل کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں، کیا اِن میں شعر و اَدب کے امکانات موجود ہیں؟
ڈاکٹر انور سدید: ہر نئی نسل سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صادق روایات کو توسیع دے تو جدیدیت کے پیوند سے نئی شجر کاری بھی کرے، اُردو اَدب میں جو نئے اُدبا نمودار ہو رہے ہیں اُن میں یہ صفات نمایاں نظر آتی ہیں اور مجھے اُردو اَدب کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔
٭٭٭