اردو میں ناول کے تعلق سے ذہن بہت صاف نہیں ہے۔ ناول کی تکنیک پر گفتگو ای ایم فوسٹر کے میکان کی تصور سے آگے نہیں بڑھی، بات گھوم پھر کر پلاٹ، کردار، قصہ، مکالمہ وغیرہ تک پہنچ جاتی ہے۔ ٹیری ایگلٹن ناول کو ایک ایک ایسی صنف قرار دیتا ہے جو کسی بھی حتمی تعریف کی مزاحمت کرتی ہے۔
"The truth is that the novel is a genre which resists exact definition.”
عصری مغربی ناول نگاری سے صرف ایک مثال میلان کندیرا کی لیں تو ہمارے ناقدین کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہو گا کہ کسی ناول میں یادداشتیں، باقاعدہ فلسفیانہ مضمون، سوانحی بیان اور سیاسی سماجی حالات کو ایک ساتھ پرویا جا سکتا ہے۔ اپنے ناول ’دا ان بیریبل لاٹٹنیس آف یینگ‘ کی شروعات کندیرا ایک فلسفیانہ مکالمہ میں سے کرتا ہے جس میں لائٹنیس اور ویٹ کی فلسفیانہ موشگافی پر کئی صفحات سیاہ کرتا نظر آتا ہے، اس بحث سے ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ کوئی ناول ہے یا فلسفے کی کتاب؟ اس بحث کے بعد ہم ناول کے دو اہم کرداروں سے ملتے ہیں۔ محبت، جنس، بخار، سیاست اور سماج سے گزرتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخ کی اگر باطنی واپسی ممکن ہو تو تاریخ کی بعض سچائیوں پر افسوس ممکن ہے، لیکن در حقیقت تاریخ کی باطنی واپسی ممکن ہی نہیں۔ اس مختصر بیان کا مقصد یہ ہے کہ اردو ناول نگاری نہ صرف یہ کہ فارم کے لحاظ سے بلکہ موضوعاتی سطح پر بھی جس میں انسانی تجربات اور آج کے بدلتے انسان، سماجی، سیاسی، فکری اور معاشی روابط کی پیچیدہ صورت گری ہونی چاہئیے، سے تہی دامن ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے تصور میں ناول کا اسٹریو ٹائپ اپنی جڑ جمائے بیٹھا ہے۔ دوسری وجہ ہمارے من پسند موضوعات ہیں، مثلاً مسلمانوں کی زبوں حالی، ماضی کی عظمتوں کا نوحہ، ٹوٹی حویلیاں، سونے چوبارے، بکھری بارہ دریاں، اسلامی حکومت اور اسلامی ثقافت کا غلط تصور، گنگا جمنی تہذیب کے مٹتے نقوش اور تقسیم ہند کا عظیم سانحہ۔ کسی بھی اہم اردو ناول کو اٹھا لیں، اہم سے مراد جن ناولوں کی قصیدہ خوانی ہمارے ناقدین نے کی، ان میں سے کسی ایک ناول کو اٹھائیں، مثلاً چاندنی بیگم یا اداس نسلیں یا خدا کی بستی یا آگ کا دریا، ہر ناول آپ کو ایک مخصوص ذہنی رویے سے جڑا یا یوں کہیں کہ ایک غیر مرئی تار سے جڑا نظر آئے گا۔ ان ناولوں میں سب کچھ ہے، پلاٹ، کردار، قصہ، مکالمہ، زبان کے کرشمے لیکن یہ ناول ناول نگار کے وژن سے عاری ہیں۔ یہ ناول ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ ناول نگار جس معاشرے کو پیش کر رہا ہے، جو کہ زوال آمادہ ہے، جس پر ہم نوحہ گر ہیں، ہمارا لوگ ورثہ، ہماری زبان، کلچرل نمائندگی میں ہماری اہمیت کا خاتمہ، یہ سب ہے لیکن ہم یہ نہیں جان پاتے کہ ثقافتی زوال کے اندیکھے تار کہاں پوشیدہ ہیں، کردار کی فکر اور اس کی روح تک ہماری رسائی نہیں ہوتی، ہم اس کے منہ سے اردو تہذیب کی کلکاریاں سنتے ہیں لیکن کوئی کردار، پس منظر، حالات اس طرح بیان نہیں ہوئے کہ ہم زوال کی کسی گہری بصیرت سے دوچار ہوتے۔
اردو ناول کی عمر بہت طویل نہیں ہے، لیکن یہ اردو افسانے سے پہلے وجود میں آیا۔ 1869 میں لکھے گئے ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’’مراۃ العروس‘‘ کو اردو کا پہلا ناول تسلیم کیا گیا ہے۔ نذیر احمد کے ناولوں میں اسلامی اخلاقیات کی تشہیر کا سارا سامان موجود ہے گو کہ وہ انگریزی سے واقف تھے اور ممکن ہے انگریزی کے بعض اچھے ناول ان کی نظر سے گزرے ہوں۔ اسی کے ساتھ ہمارے سامنے مولانا عبد الحلیم شرر آتے ہیں۔ نیم رومانی، تصوراتی تاریخ، مسلم فاتحین کی عظمتوں کا بیان اور عشق وغیرہ۔ نوآبادیاتی عہد میں اردو ناول کی شروعات اور ناول نگاری کے دو رنگوں کا سامنے آنا بذات خود ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ ان ناولوں میں نوآبادیاتی معاشرے میں بسر کرنے والے انسانوں کے کردار نہیں ہیں۔ مثلاً ’’توبۃ النصوح‘‘ میں سماوی آفت جو ہیضے کی وبا کی صورت نازل ہوتی ہے انسانوں کو نگلنے لگتی ہے۔ ناول ہمیں ڈیفو کے جنرل آف پلیگ کی طرح یہ نہیں بتاتا کہ ہیضہ کے اسباب میں محکمہ حفظان صحت کی لاپرواہی ذمہ دار ہے، نہ یہ ناول کامیو کے پلیگ کی طرح کوئی سیاسی استعارہ ہے، یہ مارکیز کے ناول لو ان دا ٹائم آف کالرا کی طرح انسانی رشتوں کی نزاکت اور سر بلندی سے بھی آشنا نہیں کرتا، گوکہ اس عہد میں توبۃ النصوح ایک ایسے ناول کی صورت لکھا جا سکتا تھا جس میں نوآبادتی حالات کے سیاسی اور سماجی جبر کو پیش کیا جا سکے۔ لیکن اردو ناول نگاروں کا پہلا مسئلہ مذہب اور اس کی اخلاقیات ہے، آج بھی ہمارے ناول نگار بہت ڈرے سہمے انداز میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ڈپٹی صاحب ہوں یا مولانا صاحب دونوں کو اسلام کی عظمت بہت عزیز تھی اور ڈپٹی صاحب اپنے ناول میں ہیضہ کا مسئلہ توبہ اور پابندی شرع کے ذریعہ حل کرتے ہیں تو مولانا صاحب مسلمانوں کے تاریخی ہیرو کو سامنے لا کر عظمت کی ایک فضا قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ تاریخ یا اسلام کی رومانی تاریخ، یا مسلمانوں کی نام نہاد ثقافتی برتری کی تاریخ جس میں عظمت رفتہ کے نشانات ہیں اور مجاہدین، جاں باز مسلم ہیرو آج تک روپ بدل بدل کر ناول کے حوالے سے ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ہماری اخلاقی اقدار، خدا اور انسان کا رشتہ، جنت جہنم، بلائے سماوی وغیرہ وغیرہ ہمارے آرکی ٹائپ میں پیوست ہیں۔ ہم اپنے معاشرے کا ننگا چہرہ، عام انسانی روابط، جنسی تعلقات، سیاسی اور سماجی حالات کا فرد پر اثر، زندگی کی جزئیات کے باریک مشاہدے اور ان کو پیش کرنے کی صلاحیت سے بہت حد تک عاری ہیں۔ نعرہ، اخلاقی درس، نوحہ وغیرہ ہمارے ناول کے مرغوب موضوعات ہیں۔
نذیر احمد اور مولانا عبد الحلیم شرر سے الگ ایک مختلف مزاج کا ناول مرزا ہادی علی رسوا کا ہے جسے اردو کا بہترین ناول ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس ناول میں مصنف کی ذات خود ایک کردار ہے جس کی وجہ سے مصنف کو اپنی بات کہنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ امراؤ جان کے حوالے سے لکھنؤ کی تہذیب کے مٹتے نقش و نگار، شعر و ادب کی محفلیں، طوائفوں کی نفاست، فہم و فراست، تہذیب شائستگی، نشست و برخاست، زبان دانی کے کرشمے، نوابوں کی زندگی، عیاشی وغیرہ کو بے حد فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ واقعی ایک معاشرے کے زوال کی کہانی ہے۔ لیکن یہ معاشرہ یعنی لکھنو کا کلچر بذات خود مغلوں کے زوال کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اس معاشرے اور اس کے حکمرانوں کی زندگی کا مقصد ہی عیش کوشی اور عیش پرستی تھا۔ اسی عیش کی محفلوں کے درمیان کہیں انسانوں کا وہ ہجوم بھی موجود ہے جو تہی دامن ہے، بھوکا، مجبور اور استحصال کا شکار۔ ہمارا ناول نگار سماج کے ایک ٹکڑے کو اپنے محدود وژن سے دیکھتا ہے، جب وہ اگلا ناول لکھتا ہے تو اسے ایک آئیڈیل کی تلاش ہوتی ہے یعنی اس معاشرے میں ایک شریف زادے کی۔ بہرحال اپنے عہد کے لحاظ سے رسوا نے آج کے بعض اچھے لکھنے والوں سے عمدہ ناول لکھا۔
کہتے ہیں پریم چند تک آتے آتے اردو ناول حقیقت پسند ہو گیا۔ مغرب میں حقیقت پسند ناول نگاروں میں فاکنر اور ایمل زولا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ پریم چند نے ہندوستانی دیہات، خاص طور سے مشرقی اتر پردیس کے گاؤں میں رہنے والے نچلے طبقے کی عکاسی کی ہے۔ کسی حد تک اشتراکیت سے بھی متاثر تھے لیکن ان کے ناولوں میں بھی سماجی اخلاقیات کا گہرا اثر پایا جاتا ہے۔ ژولا کے نانا کی طرح ان کے یہاں سفاک حقیقت نگاری نہیں ہے۔ البتہ افسانہ کفن میں انہوں نے سماجی حقیقت نگاری کی ایک عمدہ مثال پیش کی۔ لیکن اس افسانے میں بھی ایک دو جگہ وہ منبر پر کھڑے ہو کر سماج کی نا انصافی کے خلاف تقریر کرنے لگتے ہیں۔ تقریر آرٹ نہیں ہے، ناول نگار یا فکشن نگار کا عجز ہے، جو کام اسے اپنے کردار، پیش کردہ معاشرے، ان میں موجود روابط، واقعات سے لینا چاہیئے وہ کام ہمارا ناول نگار اپنی تقریر سے لینے کی کوشش کرتا ہے۔
مقصد انفرادی ناولوں کا جائزہ نہیں، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اردو میں ناول نگاری کے اتنے سالوں بعد بھی ہم اس قابل کیوں نہ ہو سکے کہ ناول نگاری کا غیر جانبدار، کھرا اور واقعی تنقیدی جائزہ لے سکیں۔ اردو فکشن یا ناول نگاری کی تنقید کا ایک جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اس میدان میں کوئی شہسوار نہیں۔ ادھر ادھر مضامین یا یوسف سرمست کی کتاب۔ اگر کلیم الدین احمد کے ایک جملے کو لے کر میں یہ کہنے کی جرآت کروں کہ اردو ناول اور اس کی تنقید محبوب کی موہوم کمر ہے یا اقلیدس کا خیالی نقطہ ہے تو لوگ نہ صرف یہ کہ معترض ہوں گے بلکہ بہت ممکن ہے چیخ بھی پڑیں۔ معاملہ یہ ہے کہ اردو فکشن تو موجود ہے لیکن ناول نگاری کی تنقید کچھ اور ہی منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔ ہماری تنقید آج بھی اس بحث میں الجھی ہوئی ہے کہ ناول کیا ہے؟ یہاں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہماری تنقید نے اردو ناول نگاری کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ، ہمارے فنی تصورات، معاشرتی، تاریخی اور کلچرل در و بست کے پس منظر میں پوری غیر جانبداری سے مطالعہ ہیں نہیں کیا۔ اردو ناول کی تنقید پر جب ہم غیر جانبداری سے نظر ڈالتے ہیں تو ہماری تنقید ایک ایسی سہاگن کی طرح نظر آتی ہے جس کی مانگ میں سیندور نہیں۔
اردو فکشن یا ناول نگاری کی تنقید نے خود ساختہ تصورات، کچھ مغربی خیالات کی بنیاد پر فکشن سے مطالبات کی روش قائم کی اور ناول میں موجود علاقائیت اور کلچر کے مسائل کو یکسر مسترد کر دیا۔ تنقید جب مطالبات پر اتر آتی ہے تو تخلیق کی ندی خشک ہو جاتی ہے، تخلیق کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں اور تنقید کی حاکمیت کو فروغ ملنے لگتا ہے۔ یہ حاکمیت تخلیقی فنکاروں کو مصاحب کے درجہ پر لے آتی ہے، جو ناقد کی سلطنت میں آداب دربار کی رسم کو نبھاتے ہوئے مسندِ تنقید کو فرشی سلام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اردو میں فکشن کی تنقید نے ایسا ہی گل کھلایا۔ ہمارے یہاں ایک صنف کا موازنہ اور مقابلہ دوسری صنف سے کر کے ایک صنف ادب کو سرے سے خارج کرنے کے جارحانہ تنقیدی رویے کی مثال موجود ہے۔ یہ رویہ اگر ایک طرف فن کے جواز پر سوالیہ نشان لگاتا ہے تو دوسری طرف فنکار کے صنفی رویے اور انتخاب کی آزادی کو خارج کر دیتا ہے۔ ساری دنیا میں تنقید نے اتھارٹی کے بیانیوں اور کلامیوں سے خود کو الگ کر لیا ہے لیکن اردو تنقید ابھی تک اسی رویے کی اسیر ہے۔ اردو ناول کی کائنات ضرور پھیل رہی ہے لیکن تنقیدی جواز اور عدم جواز کی معرکہ آرائی تخلیقی جوہر کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنی۔ اردو تنقید کا یہ رویہ فکشن کی تھیوری پر سنجیدہ مکالمہ کا آغاز نہیں کرتا بلکہ ہر طرح کے مکالمے کے لیے کھلے منہ پر قفل لگا کر تنقید کی مطلق العنانیت کا اعلان کرتا ہے۔
اردو ناول نگاری میں نئے رجحانات کی کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تنقید نے عالمی ڈسکورس پر غور و فکر کر کے اس مکالمے کو فروغ نہیں دیا کہ راوی اور بیانیہ کا رشتہ کیا ہے؟ نریشن میں نریٹر کا کیا رول ہے۔ افسانے کی حمایت میں فاروقی صاحب نے ایسے کچھ اہم سوالات قائم کئے لیکن دوستو نے ان پر سنجیدگی سے کبھی غور نہیں کیا۔ تنقید کا فکشن پر غور و فکر کا کیا طریقہ کار ہو اور وہ اپنا رول کس طرح متعین کرے اس سوال پر بھی کبھی غور نہیں کیا گیا۔ کیا ناول نگار ایک بنے بنائے سانچے کا غلام ہے؟ یا تخلیقی عمل ایک ناول نگار کو اس کے اپنے تصور فن اور زندگی کے تئیں اس کے رویے اور فکر کے آزادانہ اظہار اور ناوابستگی یا وابستگی سے ہم آہنگ ہونے کی آزادی دیتا ہے۔ گورکی کو کیا ہم اس لیے ناول نگار نہیں مانیں گے کہ وہ کمیونسٹ موومنٹ سے وابستہ تھا۔ اسی طرح کامیو کی الجیریا کی آزادی کی تحریک سے وابستگی کیا اسے بے وقعت کر دیتی ہے۔ ناول کی تنقید کا دوسرا مسئلہ ناول کے نقاد کا متنی رویہ ہے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ناول کے بیانیہ میں نقاد اپنی مرضی یا اپنے تصورات فن اور نظریاتی تعصب یا غیر نظریاتی تعصب کی بنیادوں پر متنی سچائیوں کو تلاش کرے گا یا بیانیہ میں موجود حقیقت کا حقیقی ادراک حاصل کر کے متنی تناظر کو پیش کرے گا۔ ایک مخصوص دور میں لکھے گئے ناولوں کو ہمارے یہاں صرف اس لیے رد کر دیا گیا کہ وہ کسی ازم یا نظریے سے وابستہ فنکاروں کے تحریر کردہ تھے۔ ان متون کا ایک غیر جانبدار جائزہ اردو فکشن کی تنقید پر قرض ہے۔ آپ اپنے نظریاتی تعصبات، خواہ وہ نظریہ نظریاتی وابستگی کے رد ہی میں کیوں نہ ہو، کا فن کار کے متون پر اطلاق کر کے اسے سرے سے خارج نہیں کر سکتے۔ یہ اردو فکشن کی تنقید کا ایک کارنامہ ہے کہ اردو فکشن میں موجود نظریاتی فکر کی شناخت کر کے اسے نان آرٹ کے زمرے میں ڈال دیا۔ تنقیدیا تھارٹی کی یہ صورت فن میں نظریاتی وابستگی کو زہر ہلاہل سمجھتی ہے، خاص طور سے ایسے نظریات جو سماجی ناہمواری اور استحصال کے خلاف ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ناول کا فن یا فکشن نگاری مصنف کی سماجی شناخت اور اس کی نفسیاتی وابستگی کے بغیر کوئی شے نہیں ہے۔ بلکہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ناول کی تنقید کے لیے اس بات کا ادراک بہت ضروری ہے۔ چوں کہ فکشن کا بیانیہ صرف حقیقت بیان نہیں کرتا بلکہ اس کی صورت بھی بدلتا رہتا ہے۔ حقیقت کی بدلتی ہوئی یہ صورت در اصل جمود توڑنے کا ایک عمل ہے۔ ہماری تنقید ناول نگار کے اس تناظر کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے یا اس بدلی ہوئی حقیقت کی شناخت سے قاصر ہے کہ ناول کا بیانیہ حقیقت کو بدل کر ایک نئی حقیقت پیدا کرتا ہے۔ فکشن کے فنکار کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ تنقیدی مطالبات ایک ادبی لسانی سیاست ہے اور اس سے دامن بچانا ضروری ہے۔
اردو میں ناول نگاری کی مبہم فضا اور تنقیدی رویے پر مزید گفتگو ممکن ہے، آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد، مولانا شرر، ہادی علی رسوا، منشی سجاد حسین، اس کے بعد پریم چند وغیرہ کے بعد اردو ناول نگاری ادب کی مرکزی بحث سے باہر نظر آتی ہے۔ آج بھی اردو ناول نگاری پر جب گفتگو ہوتی ہے تو ہمارا ناقد قرۃ العین حیدر تک پہنچتے پہنچتے ہانپنے لگتا ہے۔ یہاں سے پھر ایک خلا نظر آنے لگتا ہے۔ پتہ نہیں لوگ انور سجاد کے ناول خوشیو کا باغ اور صلاح الدین پرویز کے ناول نمرتا پر گفتگو کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں، بہرحال یہ سوچنا غلط ہے کہ حیدر کے بعد ناول نگاروں کا قلم زنگ آلود ہو گیا یا نئے ناول نگار ابھر کر سامنے نہیں آئے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ حیدر کے بعد لکھے گئے ناولوں پر گفتگو نہیں ہوئی۔ یہاں ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ اردو ناول نگاری اپنی رفتار سے جاری ہے لیکن ناول کے مطالعے کے لیے ہمارے ناقدین کے پاس وقت نہیں۔ حیدر کے بعد اردو میں ناول نگاری کی اہم آوازوں کو نظر انداز کیا جانا ایک سانحہ ہے۔ حیدر کے بعد لکھنے والوں کی ایک لمبی قطار ہے، ان میں بلا شبہ چند ایک نے عمدہ ناول بھی لکھے ہیں۔ ہندوستانی ناول نگاروں میں الیاس احمد گدی، شفق، پیغام آفاقی، جیلانی بانو، ذکیہ مشہدی، شموئل احمد، حسین الحق، عبد الصمد، مشرف عالم ذوقی، خالد جاوید، اشعر نجمی، محسن خان، ترنم ریاض، شائستہ فاخری، صادقہ نواب سحر، ثروت خان، پاکستان میں مرزا اطہر بیگ، محمد حامد سراج، نثار بٹ، کاشف رضا، رفاقت حیات، علی اکبر ناطق، الطاف فاطمہ وغیرہ اہم نام ہیں۔
چند اہم ہندوستانی ناولوں کا ذکر کیا جائے تو شمس الرحمن فاروقی کا کئی چاند تھے سر آسماں، انیس اشفاق کا خواب سراب، پیغام آفاقی کا مکان، شموئل احمد کا ناول ندی، حسین الحق کا فرات، عبد الصمد کا دو گز زمین، گیان سنگھ شاطر کا ناول گیان سنگھ شاطر، الیاس احمد گدی کا کا فائر ایریا، مشرف عالم ذوقی کا لے سانس بھی آہستہ، ترنم ریاض کا برف آشنا پرندے، صادقہ نواب سحر کا کوئی کہانی سناؤ متاشا، سید محمد اشرف کا آخری سواریاں، خالد جاوید کا نعمت خانہ، محسن خاں کا اللہ میاں کا کارخانہ اور اشعر نجمی کا صفر کی توہین خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ان ناولوں میں کلچرل ڈسکورس، نفسیاتی دروں بینی اور زندگی کو اس طرح دیکھنے کا عمل ملتا ہے کہ حقیقت ایک حیرت کا انکشاف بن جاتی ہے۔ آج کی ناول نگاری میں حقیقت کا وہ عمل نہیں ہے جو مثال کے طور پر ترقی پسند ادب کا شیوہ رہا ہے، نہ ہی ان ناولوں میں قرۃالعین حیدر کے ماضی کا ناسٹلجیا ہے۔ ان ناولوں کی قرآت سے انکشاف ہوتا ہے کہ حقیقت اور طلسم کے درمیان کوئی خط فاصل کھینچنا ممکن ہی نہیں۔ ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں حقیقت کو دوام نہیں۔ نہ صرف حقیقت بلکہ اقدار کی صورت بھی ہر پل مختلف ہو جاتی ہے۔ جادوئی حقیقت نگاری کا بڑا چرچا رہا لیکن مارکیز کی جادوئی حقیقت نگاری اپنی روایت، اساطیری کہانیوں سے معنویت تلاش کرتی ہے، کسی حد تک یہ کام ہمارے یہاں انتظار حسین نے کیا ہے۔ مارکیز کے یہاں تہذیب کی رگوں میں دوڑتی ہوئی پر اسرار رسومیات حقیقت کو گہری بصیرت عطا کرتی ہے۔ اردو کا ناول نگار مذہبی اساطیر، رسومیات یا اساطیری قصوں سے معنویت تلاش نہیں کرتا۔ یہ ایک واضح فرق ہے اور بہت حد تک اردو مزاج اور اس کی فکری جڑوں سے وابستہ ہے، اردو کا ناول نگار آج حقیقت کو یا حقیقت کے پل پل بدلتے رنگوں کو دیکھ کر ایک سحر میں مبتلا ہے۔ ہمارے ناولوں میں گائے بولتی ہے اور لوگ مر جاتے ہیں۔ یعنی ہمارے فکشن میں حقیقت بذات خود جادو کا روپ دھارن کر لیتی ہے۔ ہمارے یہاں جادوئی حقیقت نگاری کا عہد نہیں حقیقی جادو سازی کا عہد ہے،
سامری کا طلسم قائم ہے
چند آزاد ہیں اسیر کئی
٭٭٭