غزلیں ۔۔۔ ظہیر احمد ظہیرؔ

البم سے کئی عکس پرانے نکل آئے

لمحات کے پیکر میں زمانے نکل آئے

 

بھولے ہوئے کچھ نامے ، بھلائے ہوئے کچھ نام

کاغذ کے پلندوں سے خزانے نکل آئے

 

تھے گوشہ نشیں آنکھ میں آنسو مرے کب سے

عید آئی تو تہوار منانے نکل آئے

 

حیرت سے سنا کرتے تھے غیروں کے سمجھ کر

خود اپنے ہی لوگوں کے فسانے نکل آئے

 

پتھریلی زمینیں تھیں ، مگر حوصلہ سچا

ہم تیشہ لئے پیاس بجھانے نکل آئے

 

اک ناوکِ بے نام تھا ہر روز عقب سے

ہم باندھ کے سینوں پہ نشانے نکل آئے

 

گھر سے نہ نکلنا بھی روایت تھی ہماری

بس اپنی روایات بچانے نکل آئے

٭٭٭

 

 

 

 

ہر گام اُس طرف سے اشارہ سفر کا تھا

منزل سے دلفریب نظارہ سفر کا تھا

 

جب تک امیدِ منزلِ جاناں تھی ہمقدم

دل کو ہر اک فریب گوارا سفر کا تھا

 

رہبر نہیں نصیب میں شاید مرے لئے

جو ٹوٹ کر گرا ہے ، ستارہ سفر کا تھا

 

رُکنے پہ کر رہا تھا وہ اصرار تو بہت

مجبوریوں میں اُس کی اشارہ سفر کا تھا

 

آتی تھی اُس کے پاؤں سے زنجیر کی صدا

سامان گرچہ کاندھوں پہ سارا سفر کا تھا

 

نکلا تلاشِ ذات کا ساحل بھی نامراد

دریا کے اُس طرف بھی کنارہ سفر کا تھا

 

رستہ کٹا تو ساتھی یہ کہہ کر الگ ہوئے

منزل بخیر ! ساتھ ہمارا سفر کا تھا

 

لوٹا تو پھر ملی مجھے تحفے میں اک کتاب

دیکھا تو ایک تازہ شمارہ سفر کا تھا

 

بستی میں ہم ٹھہر کے تو بے آسرا ہوئے

خانہ بدوش تھے تو سہارا سفر کا تھا

 

راہیں الگ ہوئیں تو یہ مجھ پر کھُلا ظہیر

وہ ہمسفر نہیں تھا ، خسارہ سفر کا تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے