افسانچے ۔۔۔ عبد الرحمان واصف

گندی نسل

 

مار کھانے والے کی چیخوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا اور وہ بچاؤ بچاؤ کی فریاد کیے جا رہا تھا۔ مگر ہجوم میں سے کوئی بھی اس کی مدد کو آگے نہ بڑھ رہا تھا۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ پرائی آگ میں کودنے کا کیا فائدہ۔

اتنے میں چند اجنبی لوگوں کا وہاں سے گزر ہوا جن میں سے ایک نے بستی والوں کو شرم دلائی کہ مار کھانے والے کو بچاتے کیوں نہیں۔

مجمع میں سے تو کوئی نہ بولا البتہ فٹ پاتھ پر بیٹھے فقیر نے ہانک لگائی

’’بچائے کون صاحب، بچانا تو مردوں کا کام ہے، اور یہاں تو سب سالے ہیجڑے ہیں ہیجڑے‘‘

اور یہ سن کر شرم دلانے والے کا سر جھک گیا۔

٭٭

 

غزہ

 

اسے بستی کے بھرے بازار میں بیچ چوراہے بیس سے بائیس افراد ٹھوکروں پر رکھا ہوا تھا۔ دائیں بائیں بستی کے کئی لوگ تماش بین بن کر سارا منظر دیکھ رہے تھے۔

ان میں سے ہر دو منٹ بعد کوئی نہ کوئی مارنے والا مجمع کو للکارتا

’’ہے کوئی مرد کا بچہ جو اس پِلے کو ہمارے ہاتھوں بچا سکے‘‘

’’مرد بن رہا تھا نا سالے؟ اب چکھ سزا کا مزا، زبان چلاتا ہے؟‘‘

’’بلا اپنے ہمدردوں کو‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے