میں ڈرا نہیں میں دبا نہیں میں جھُکا نہیں میں بِکا نہیں
مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں
نہ وہ حرف و لفظ کی داوری نہ وہ ذکر و فکرِ قلندری
جو مرے لہو سے لکھی تھی یہ وہ قرار دادِ وفا
میں صلیبِ وقت پہ کیسے ہوں مُجھے اب تو اُس سے اتار لو
کہ سزا بھی کاٹ چکا ہوں میں مرا فیصلہ بھی ہوا نہیں
مرا شہر مُجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
وہ چراغِ راہ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بُجھا نہیں
٭٭٭