گئے برس بھی لاہور گیا تھا، مگر انور سدید صاحب سے ملاقات نہیں کر پایا تھا، مگر اس بار طے تھا کہ ڈاکٹر صاحب سے ضرور ملنا ہے۔ خبریں تو ملتی رہتی تھیں کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اور وہ ملاقاتوں سے پرہیز کرنے لگے ہیں، مگر مجھے ان سے ضرور ملنا تھا سو اس بار لاہور پہنچتے ہی دوستوں سے کہہ دیا کہ مجھے ڈاکٹر انور سدید صاحب کے گھر چھوڑ دیں۔ دوست میری فرمائش پر جزبز سے ہو رہے تھے۔ اور آخر انھوں نے کہہ ہی دیا کہ ڈاکٹر انور سدید صاحب کسی سے نہیں ملتے۔ مجھے دوستوں کی یہ بات بہت بری لگی کہ وہ میرا شمار "کسی” میں کرتے ہیں۔ میں بہت کم غصے میں آتا ہوں مگر اس روز مجھے غصہ آگیا۔
میں نے دوستوں سے کہا "یار! تم عجیب بے خبرے قسم کے لوگ ہو کہ مجھے بھی "کسی” میں شمار کرتے ہو۔ مانا کہ میں کچھ بھی نہیں، مگر میرا حوالہ تو بہت بڑا ہے۔ میں نے مزید کہا کہ لاہور میں بہت "لوگ” ہیں مگر میرا دل ہر "کسی” سے ملنے کو نہیں چاہتا، مگر انور سدید صاحب کی حبیب جالب سے عقیدت و محبت نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا ہے۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود ڈاکٹر صاحب حبیب جالب کی شاعرانہ عظمت اور کردار کے بارے میں مضامین لکھ کر اظہار کر چکے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 1978 میں جالب صاحب کی پچاسویں سالگرہ منائی گئی تھی اور لوممبا یونیورسٹی ماسکو سے لاہور، کراچی تک تقریبات ہوئی تھیں۔
لاہور کے ادیبوں شاعروں نے بھی اس موقع پر اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ایک کتاب بھی شایع کی تھی۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز اس کتاب کے ناشر تھے اور بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور صادقین صاحب نے خود خواہش ظاہر کر کے کتاب کا سرورق بنایا تھا۔ "حبیب جالب۔فن اور شخصیت” نامی اس کتاب میں سبط حسن، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر وحید قریشی، فارغ بخاری، انتظار حسین، عبداللہ ملک، محمد خالد اختر، محسن احسان، سلیم اختر، (اب ڈاکٹر سلیم اختر) تبسم کاشمیری (یہ بھی اب ڈاکٹر ہو چکے) انور سدید (اب ڈاکٹر ہیں) ڈاکٹر عندلیب شادانی، قسور گردیزی، اصغر ندیم سید، حسن رضوی و دیگر کی تحریریں شامل تھیں۔
بات ہو رہی تھی ڈاکٹر انور سدید صاحب سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر صاحب ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں رہتے ہیں۔ یہ 2 اپریل 2015 جمعرات کا دن تھا۔ دوپہر 2 بجے ملاقات طے ہوئی تھی۔ لاہور کا موسم بہت خوشگوار چل رہا تھا۔ بادل چھائے ہوئے تھے، ٹھنڈی ہوائیں اور ہلکی پھلکی بوندا باندی میں لاہور کے سبزہ زار خوب بہار دے رہے تھے۔
ہم ڈاکٹر صاحب کے ہاں پہنچے، ڈاکٹر صاحب کے گھر کے عین سامنے حکیم شفیق صاحب رہتے ہیں۔ حکیم صاحب نے گھر ہی میں مطب کھول رکھا ہے اور ڈاکٹر انور سدید صاحب کے فوری معالج کے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان کے سیکریٹری کی ڈیوٹی بھی ادا کرتے ہیں۔ حکیم شفیق صاحب نے بتایا کہ انور سدید صاحب اپنی ماہانہ پنشن لینے قریبی بینک گئے ہوئے ہیں۔ حکیم صاحب کے مطب میں ہم بیٹھ گئے، باتوں باتوں میں حکیم شفیق صاحب نے بتایا کہ جالب صاحب کی کتاب اس شعر کے ساتھ میرے پاس محفوظ ہے:
لہو روئیں گے مغرب کی فضائیں
بڑی تیزی سے سورج ڈھل رہا ہے
آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد میرے ساتھ آنے والے دوست چلے گئے۔ ان کے اور بھی کام تھے۔ جب کہ اس وقت میرا واحد کام تھا ڈاکٹر انور سدید سے ملاقات۔ دوست مجھے حکیم شفیق کے حوالے کر گئے تھے۔ مزید پون گھنٹہ گزر گیا باہر ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ انور سدید صاحب اکیلے گئے ہیں۔ بارش ہو رہی ہے۔ طبیعت بھی خراب رہتی ہے۔ بڑھاپا بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ حکیم شفیق بتا رہے تھے کہ وہ اپنے سارے کام خود ہی کرتے ہیں۔ کسی کی مدد یا سہارا انھیں پسند نہیں۔ حکیم صاحب کے مطب کی کھڑکی سے انور سدید صاحب کے گھر کا بیرونی گیٹ صاف نظر آ رہا تھا اور آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہو گئیں۔
انور سدید صاحب اپنے گھر کا گیٹ کھول کر اندر داخل ہو رہے تھے۔ کچھ دیر بعد حکیم صاحب نے انور سدید صاحب کے دروازے پر دستک دی۔ انھوں نے دروازہ کھولا۔ حکیم صاحب بولے "ڈاکٹر صاحب! حبیب جالب کے بھائی آئے ہیں۔” دراز قد انور سدید صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گئے۔ وہ کہہ رہے تھے "آج کا دن میرے لیے بہت خوش نصیبی کا دن ہے کہ حبیب جالب کا بھائی میرے گھر آیا ہے۔” میں ڈاکٹر صاحب کے استقبالی جملے پر بہت خوش تھا۔ میں نے اپنی ضخیم کتاب (1200صفحات) "میں طلوع ہو رہا ہوں” ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ اور انھیں بتایا کہ اس کتاب میں جالب کے انتقال پر آپ کا لکھا ہوا مضمون اور دو قطعات بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید 87 برس کے ہو چکے، مگر وہ آج بھی لکھ رہے ہیں۔ مگر میں نے انھیں کہا کہ آپ میری پیش کردہ کتاب کے بارے میں کچھ مت لکھیے گا۔ آپ اب تک جالب صاحب کے بارے میں جو لکھ چکے ہیں وہ بہت کافی ہے۔
دراصل میرے پیش نظر ان کی ناساز طبیعت تھی، مگر وہ بولے "اس بارے میں آپ نہ بولیں” وہ بہت خوش نظر آرہے تھے۔ پھر اچانک وہ بولے "زیست نامی رسالے میں ظفر اقبال نے جالب کے خلاف لکھا ہے، میں اس کا جواب لکھ رہا ہوں۔” وہ کہہ رہے تھے جالب کا مزاحمتی کلام بھی زندہ رہے گا۔ "اس کی غزل بھی بہت مضبوط ہے۔” پھر وہ ساتھ والے کمرے میں گئے اور اپنا پرانا مضمون (جو انھوں نے جالب صاحب کی پچاسویں سالگرہ پر لکھا تھا) لے کر آئے اور بولے "یہ مضمون میں نے جالب کے بارے میں لکھا تھا” میں نے انھیں بتایا کہ آپ کا یہ مضمون جس کتاب میں شائع ہوا تھا وہ میرے پاس محفوظ ہے۔
ڈاکٹر انور سدید صاحب کو میں نے بیس سال پہلے کا واقعہ یاد دلایا جب وہ ترقی پسند کانفرنس میں کراچی تشریف لائے تھے اور میری ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی یادداشت آج بھی بحال ہے۔ انھیں وہ کانفرنس یاد ہے۔
میں خود بھی زیادہ دیر ان کے پاس رکنا نہیں چاہ رہا تھا۔ تاکہ وہ آرام کریں۔ میں نے اجازت لی۔ میرے منع کرنے کے باوجود وہ بیرونی گیٹ تک مجھے رخصت کرنے آئے۔ خدا انھیں صحت تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے۔
باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، لاہور کا موسم بہت سہانا تھا۔ اور میرے اندر کا موسم بھی سہانا تھا۔ ایک بڑے قلم کار سے ملاقات کہ جس کا لمحہ لمحہ لکھنے پڑھنے میں گزرا۔ ان کا کام ہزاروں صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے "اوراق” سے احمد ندیم قاسمی کے "فنون” تک اور بعد کو اظہر جاوید کے "تخلیق” کا سفر ابھی جاری ہے اور یہ سفر تو جاری ہی رہے گا۔ نظریات اپنی جگہ مگر سچ ہی لکھتے جانا چاہیے۔
٭٭٭