مشفق خواجہ اردو ادب کی ایک جامع الحیثیات شخصیت تھے، وہ نقاد تھے، شاعر تھے، کالم نویس تھے، طنز و مزاح نگار تھے، ادبی رسائل کے مدیر تھے، سیاسی تجزیہ نگار تھے، ادب کے اعلیٰ اصناف شناس ہونے کے علاوہ ملک کے متعدد ادبی اداروں کے مشیر اور ادیبوں کے تحقیقی و تنقیدی کام میں ان کے معاون تھے لیکن ان کا فطری رجحان تحقیق کی طرف تھا، "یہ صورت گر کچھ خوابوں کے ” مولف طاہر مسعود صاحب کو انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا:
"میرے والد خواجہ عبدالوحید مرحوم مختلف نوعیت کے علمی و ادبی کام انجام دیتے رہتے تھے، انہیں دیکھ کر میں تحقیق کی طرف مائل ہوا۔ بعد میں جب میں نے ہوش سنبھالا تو پرانی چیزوں میں میری دلچسپی بڑھ گئی، میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پرانے رسائل پڑھتا تھا۔ اب بھی یہی کیفیت ہے کہ اگر میرے سامنے ا یک پرانا اور ایک نیا علمی و ادبی رسالہ پڑا ہو تو میں پرانے رسالے کو پہلے پڑھتا ہوں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہمجھے نئی چیزوں سے دلچسپی نہیں ہے یا کم ہے بلکہ بات یہ ہے کہ پرانے رسال کو پڑھتے ہوئے میں خود کواسی عہد میں سانس لیتا ہوا پاتا ہوں "۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق سے ان کا تعارف طالب علمی کے زمانے میں اس وقت ہوا جب وہ قلمی کتابوں کے مطالعے کے لیے انجمن ترقی اردو کے کتب خانے میں جایا کرتے تھے۔ ایک دن مولوی صاحب نے اس لڑکے کو جس کا خاندانی نام عبدالحی تھا، دیکھا تو دریافت کیا:
"تم کون ہو؟ اور یہاں کیوں آتے ہو؟”
انہوں نے بتایا کہ "میں طالب علم ہوں اور مجھے قلمی کتابوں سے دلچسپی ہے۔ ”
بابائے اردو بہت خوش ہوئے اور جب ان کے ارشاد پر کسی قلمی نسخے کے چند اقتباسات درست نقل کر دیے تو بولے :”حیرت ہے تم نے اس دکنی زبان کے مسودے کو بالکل صحیح پڑھ لیا ہے۔ ”
مشفق خواجہ نے جواب دیا”میں پنجابی ہوں، اس وجہ سے اسے پڑھنے میں دقت نہیں ہوئی۔ پنجابی اور دکنی زبان میں بڑی مشابہت ہے، اس لیے پنجابی جاننے والوں کے لیے دکنی زبان کو پڑھنا اور سمجھنا بہت آسان ہے۔ ”
اس کے بعد مولوی عبدالحق انہیں نہ صرف مختلف کام دینے لگے بلکہ جب مراسم گہرے ہو گئے اور وہ جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہو گئے تو مولوی صاحب نے ان کا تقرر انجمن ترقی اردو میں کر دیا جہاں انہوں نے اپنی نوجوانی کے ساڑھے چار سال ان کے سایہء عاطفت میں گزارے اور تحقیق کے اس شوق کو پروان چڑھایا جو انہیں اپنے والد مرحوم سے ورثے میں ملا تھا۔ انجمن ترقی اردو میں انہوں نے ماہنامہ "قومی زبان” اور سہ ماہی”اردو” کی ادارت کی جو بنیادی طور پر تحقیق ادب کے رسائل تھے۔ مولوی صاحب نے انہیں "قاموس الکتب ” کا مدیر مقرر کرنے کے علاوہ ان سے "لغت کبیر” کی تدوین میں بھی مدد لی۔ خواجہ صاحب راوی ہیں کہ:
"ان (مولوی صاحب ) کے پاس لغت کا مسودہ ہوتا اور میرے پاس پر چیاں، جن پر اسناد لکھی ہوتی تھیں ……میں سند پڑھتا اور مولوی صاحب متعلقہ جگہ اسے درج کر دیتے تھے۔ یہ کام بعض اوقات تین چار گھنٹے تک جاری رہتا تھا۔ ”
تحقیق کا کام چونکہ بنیادی طور پر حقیقت کی دیدو دریافت کا کام ہے اس لیے اس میں دستاویزی شہادت اور سندی ثبوت بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے ـ”لغت کبیر ” کے سلسلے میں ان سے جو ریاض کرایا تھا، اس کے ثمرات مشفق خواجہ نے بعد میں اپنے تحقیقی کارناموں کی صورت میں سمیٹے۔ تاہم اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ خواجہ صاحب نے اس دور میں جن بزرگ ادیبوں کی مجالس سے فیض اٹھایا ان میں سیّد ہاشمی فرید آبادی، ڈاکٹر شوکت سبزواری، اور شان الحق حقی کے نام اہم ہیں جن کے قاموسی مزاج میں تحقیق و جستجو کے عناصر بے پایاں تھے، انجمن ترقی اردو کے ساتھ وابستگی، مولوی عبدالحق کی سرپرستی اور موخرالذکر محققین سے تعلق خاطر سے مشفق خواجہ نے بطور محقق اپنی جو مزاج سازی کی وہ اس شعر کے مصداق تھی۔
سودا نگاہ دیدہ تحقیق کے حضور جلوہ ہر ایک ذرے میں ہے آفتاب کا
تاہم میرا خیال ہے کہ مشفق خواجہ نے اردو کے قدیم سرمائے کی تحقیق جس خضوع و خشوع کے ساتھ کی ہے وہ ذرے میں آفتاب کا جلوہ دیکھنے کا عمل ہی نہیں ہے بلکہ گم شدہ خورشید کی بازیافت کرنے کی کوہ کنی بھی ہے۔
مشفق خواجہ کاپہلا تحقیقی کارنامہ "تذکرہ خوش معرکہ زیبا” ہے جو ۱۸۴۸ء میں سعادت خان ناصر نے مرتب کیا تھا۔ اس تذکرے کی تحقیق ترتیب و تدوین اور تقابلی تصحیح پر انہوں نے مولوی عبدالحق کے مشورے سے کام کیا تھا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تالیف "اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری” کے مطابق اب تک اس تذکرے کے چار مخطوطوں کا سراغ لگا ہے جن میں سے ایک خدا بخش لائبریری پٹنہ میں، دوسرا مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ میں، تیسرا لکھنو یونیورسٹی کے کتب خانے میں اور چوتھا خطی نسخہ انجمن ترقی اردو کراچی کے کتب خانے میں موجود ہے۔ مشفق خواجہ نے "تذکرہ خوش معرکہ زیبا” کے مقدمے میں ان چاروں مخطوطوں کی تفصیلات کے علاوہ متون اور شعرا کی تعداد کا فرق بھی واضح کر دیا ہے۔ ان چاروں نسخوں کی روشنی میں اس تذکرے میں شعرا کی تعداد کا تعین ۸۲۴ کیا گیا ہے اور یہ مشفق خواجہ کی تحقیقی ژرف نگاہی کا نتیجہ ہے۔ اس تذکرے کی خوبی یہ ہے کہ گلشن ہند مولفہ مرزا علی لطف، گلدستہ حیدری مولفہ حیدری، انتخاب دواوین مولفہ امام بخش صہبائی اور گلدستہ نازنیناں مولفہ کریم الدین کے بعد یہ تذکرہ پانچواں تھا جو فارسی زبان کے برعکس اردو میں لکھا گیا اور اس میں زیر تذکرہ شاعر کے علاوہ اس کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کا ذکر بھی کیا گیا۔ شعرا کے حالات حیات کی تفصیل اور ادبی معرکہ آرائیوں کے علاوہ ادبی، سماجی اور معاشرتی فضا اور لطائف و حکایات کا تذکرہ بھی درج ہے جن سے بعد کے تذکرہ نگاروں بالخصوص محمد حسین آزاد نے "آب حیات” میں استفادہ کیا۔ مشفق خواجہ کے بقول
"ناصر نے تذکرے کا نام "خوش معرکہ ” محض اس بنا پر لکھا تھا کہ اس میں شعرا کی معرکہ آرائیوں کی تفصیلات درج ہیں۔ ”
میر علی اوسط رشک نے تاریخ اس مصرع سے نکالی:
"تاریخ یہی پائی خوش معرکہ زیبا”
چنانچہ اس کا نام ہی "تذکرہ خوش معرکہ زیبا ” رکھ دیا گیا۔ اس تذکرے میں میر تقی میر اور مرزارفیع سودا سے لے کر مولف سعادت خان ناصر تک قریباً ایک صدی کے شعرا کا تذکرہ موجود ہے جس کی تحقیق شدہ دو جلدیں مجلس ترقی ادب لاہور سے ۱۹۸۰ء اور ۱۹۷۱ء میں پروفیسر حمید احمد خان کے دور میں شائع ہوئیں۔ تیسری جلد جو تعلیقات پر مشتمل ہے تا حال شائع نہیں ہوئی اور مشفق خواجہ کی وفات کے بعد شاید کبھی منظر عام پر نہ آئے۔ اس تذکرے پر ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے رائے دی ہے۔
"مشفق خواجہ اس وقت ……نسبتاً نو مشق اور نو عمر تھے لیکن انہوں نے ذہن کی جس پختگی اور تلاش و توازن کی جس مزاولت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے، اس کا اندازہ اس تذکرے کے طویل مقدمے اور اس کے ساتھ شامل تحقیق نامے سے ہوتا ہے۔ تعلیقات اور مختلف مسائل اور مباحث پر علمی گفتگو کے لیے ” تحقیق نامے ” کی یہ اصطلاح بھی مشفق خواجہ ہی کی ایک دین ہے۔ ”
مشفق خواجہ کا تحقیقی نوعیت کا دوسرا بڑا کام "جائزہ مخطوطات اردو” ہے جو ۱۲۴۸ء صفحات پر مشتمل ہے اور یہ صرف پہلی جلد ہے جو ۱۹۷۹ء میں مرکزی اردو بورڈ (حال اردو سائنس بورڈ) لاہور سے شائع ہو چکی ہے۔ جائزہ مخطوطات اردو کا منصوبہ مشفق خواجہ کے ذہن سے ان کے تحقیقی کام کے دوران پیش آنے والی مشکلات سے پیدا ہوا تھا۔ اس کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کے بارے میں انہوں نے طاہر مسعود صاحب کے انٹرویو میں بتایا:
"جب میں تحقیقی کام شروع کیا تو مجھے اس میں بڑی دقتیں پیش آئیں، مثلاً میں نے کسی شاعر کے حالات جاننا چاہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ اس کے بارے میں میں اب تک کیا کچھ لکھا گیا ہے تو مجھے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کسی شاعر کے قلمی نسخے کہاں کہاں دستیاب ہوں گے تو اس سلسلے میں راہنمائی کے لیے کوئی بھی کتاب موجود نہیں تھی۔ لہٰذا یہ سوچ کر کہ تحقیق کرنے میں جو دقتیں مجھے پیش آ رہی ہیں وہ دقتیں یقیناً دوسروں کو بھی در پیش ہوں گی، میں نے جائزہ مخطوطات اردو پر کام شروع کر دیا۔ ”
"اس کتاب کی افادیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ فرض کیجئے آپ ناسخ پر کام کرنا چاہتے ہیں تو میری یہ کتاب آپ کو بتائے گی کہ دنیا بھر میں ناسخ کے دیوان کے کتنے قلمی نسخے ہیں اور ان کی کیا کیا خصوصیات ہیں۔ کس دیوان کے کتنے ایڈیشن چھپے ہیں، غرض کہ ناسخ کے بارے میں قدیم تذکروں سے لے کر آج تک جتنے مضامین لکھے گئے ہیں ان سب کی تفصیل آپ کواس کتاب میں مل جائے گی۔ اس طرح میری یہ کتاب محققوں کے لیے تحقیق کی راہ میں بہت سی آسانیاں اور سہولتیں پیدا کر ے گی۔ ”
جائزہ مخطوطات کی اس پہلی جلد میں دو سو مخطوطات پر ضروری، کار آمد اور مفید معلومات ہی نہیں دی گئیں بلکہ متعدد کتابوں اور ان کے مصنفین کے بارے میں تحقیقی مسائل بھی چھیڑے گئے ہیں اور مشفق خواجہ نے خود اپنے نتائج اخذ کرنے کی کاوش بھی کی ہے۔ مزید براں مخطوطات کے مصنفین کے سوانح اور ان پر لکھی گئی کتابوں کی تفصیلات بھی پیش کی گئی ہیں، مشفق خواجہ کا یہ منصوبہ دس جلدوں پر مشتمل تھا۔ وہ اس پر اپنے دوسرے ادبی کاموں کے ساتھ ساتھ مسلسل کام کر رہے تھے اور دوستوں کو اس کی تفصیلات سے بھی آگاہ کرتے رہتے تھے لیکن اب ان کی اشاعت معرض خطر میں میں پڑ گئی ہے۔ مشفق خواجہ کی وفات سے اپنی نوعیت کا یہ پہلا اور اعلیٰ ترین کام بھی ادھورا رہ گیا ہے۔ جائزہ مخطوطات اردو کی پہلی جلد پر ممتاز محقق رشید حسن خان نے لکھا تھا:
"بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ خواجہ صاحب نے تن تنہا وہ کام کر دکھا یاہے جو بظاہر ایک ادارے کا کام معلوم ہوتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں دل لگا کر اور نظر جما کر کام کرنے کا جذبہ اور حوصلہ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اب تک جو کام کیے ہیں وہ ان کی قابل رشک صلاحیت کے شاہد عادل ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو گروہ بندی سے اور ادبی و غیر ادبی جوڑ توڑ اور خفیف الحرکاتی سے دور رکھا ہے۔ وہ حصول دنیا کے سلسلے میں ابھی تک ہوس کے اسیر نہیں ہو پائے ہیں اور علم او ادب کی عظمت اور تحقیق کی صبر آزمائی کے قائل ہیں "۔
دل لگا کر اور نظر جما کر کام کرنے کی ایک اور مثال مشفق خواجہ کی کتاب "غالب اور صغیر بلگرامی” ہے۔ صغیر بلگرامی شاگردانِ غالب میں اس لیے نمایاں مقام رکھتے ہیں کہ غالب سے ۱۸۶۴ء میں تعلق پیدا ہونے اور صرف دو اڑھائی ماہ کی صحبت غالب سے استفادہ کرنے کے باوجود ان کا معنوی سلسلہ اب تک زیر بحث رہتا ہے۔ ان کے نام غالب کے چھ خطوط بھی شائع ہو چکے ہیں لیکن ان کی شخصیت کو ” تذکرہ جلوۂ خضر ” کے متعدد مبالغہ آمیز اور غلط بیانات نے داغدار کر رکھا ہے۔ مشفق خواجہ نے ان کے پوتے سیّد نور احمد بلگرامی کے صاحبزادے سیّد وصی احمد بلگرامی سے وہ کاغذات، مسودات اور خطوط حاصل کیے جو انہیں وراثت میں ملے تھے۔ وصی بلگرامی کے ذخیرہ کتب کو بالا ستیعاب دیکھا اور پھر یہ کتاب تحقیقی ژرف نگہی سے تالیف کی جس سے غالب اور صفیر بلگرامی کے تعلقات کی پوری تفصیل سامنے آ جاتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف صفیر بلگرامی کی زندگی کا مرقع ہے بلکہ بقول مالک رام "غالب اور صفیر بلگرامی کے ذریعے سے کئی چیزیں پہلی مرتبہ منظر عام پر آ گئی ہیں، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ مآخذ میں سے کوئی ایسی تحریر جس سے ان دونوں کے تعلقات پر روشنی پڑتی ہو اب غیر مطبوعہ نہیں رہ گئی” یہ کتاب ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ ربع صدی کے عرصے میں کسی محقق نے اس کی معلومات میں نیا اضافہ کیا ہے اور نہ اس کی کسی بات کی تردید کی ہے۔ چنانچہ یہ کتاب بھی مشفق خواجہ کی تحقیق نگاری کی منفرد مثال ہے۔
مشفق خواجہ کی تحقیقی بازیافت کا ایک اور ثمر ” اقبال از احمد دین” ہے۔ یہ کتاب مولوی احمد دین نے اقبال کی زندگی میں ۱۹۲۳ء میں لاہور میں چھاپی تھی لیکن اشاعت سے پہلے ہی اقبال نے اس کاوش کو پسند نہ کیا، کتاب نہ شائع کرنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں اقبال کی بعض طویل نظمیں شامل تھیں جن میں اقبال نے ترمیم و تنسیخ کر دی تھی، انہیں دنوں اقبال اپنا مجموعہ کلام "بانگ درا” مرتب کر رہے تھے چنانچہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر مولوی احمد دین کی کتاب شائع ہو گئی تو اقبال کے مجموعہ کلام کی فروخت پر منفی اثر پڑے گا۔ مولوی احمد دین اقبال کے مداح تھے، انہیں اقبال کے تاثر کا پتہ چلا تو انہوں نے تمام نسخے نذر آتش کر دیے۔ تاہم تین سال کے بعد ۱۹۲۶ء میں کچھ ترامیم کے ساتھ دوسرا ایڈیشن شائع کر دیا۔ ڈاکٹر خلیق انجم کا خیال ہے کہ دوسرے ایڈیشن کا خاکہ تیار کرنے میں اقبال کے مشوروں یا کم از کم اعتراضوں کو بہت ممکن ہے پیش نظر رکھا گیا ہو۔ حسنِ اتفاق دیکھیے کہ پہلے ایڈیشن کے دو نسخے بھی کسی طرح ضائع ہونے سے بچ گئے تھے۔ مشفق خواجہ نے ان دونوں ایڈیشنوں کو بازیافت کیا اور انہیں سامنے رکھ کر ایک نیا نسخہ تیار کیا جو ۱۹۷۹ء میں انجمن ترقی اردو کراچی سے شائع ہوا۔ انہوں نے ان تمام تبدیلیوں کی نشاندہی کی جو مولوی احمد دین نے دوسرے ایڈیشن میں کی تھی۔ اردو ادب میں مولوی احمد دین کی شخصیت "سرگزشت الفاظ” کے مولف کی حیثیت میں بہت معروف ہے۔ اقبال کی زندگی میں ان پر تنقیدی کتاب لکھنے کا شرف بھی انہیں حاصل ہے۔ اس وقت تک اقبال پر چند چھوٹے چھوٹے مضامین اور مختصر سی ضخامت کی انگریزی کتاب” مشرق سے ایک آواز”(A Voice From East ) چھپ چکی تھی لیکن تنقید کی پہلی با قاعدہ کتاب مولوی احمد دین ہی نے لکھی جو اقبال کی شخصیت کے بھی شناسا تھے۔ مشفق خواجہ کو اس کتاب کی بازیافت اور تدوین نو ہی کا اعزاز حاصل نہیں بلکہ منفرد عطا یہ بھی ہے کہ انہوں نے مولوی احمد دین کے مستند سوانح بھی مرتب کیے ہیں جو ان کی تحقیقی دیدہ ریزی کا ایک اور بے مثال نقش ہے۔
مشفق خواجہ کی ایک غیر مدون کتاب "پرانے شاعر۔ نیا کلام” ہے جو رسالہ "غالب” کراچی میں قسط وار شائع ہوتی رہی۔ یہ تذکرہ ان شعرا کا ہے جو زمانے کی نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں لیکن اپنے زمانے میں "تازہ گویانِ سر آمد روزگار” میں شمار ہوتے تھے۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں۔ فضل علی ممتاز، جسونت سنگھ پروانہ، ولی اللہ محب، خواجہ احسن الدین خان بیان، مرزا محمد رضا قزلباش خان امید۔ اردو کے ان کلاسیکی شعرا کا وجود اب تذکرہ میں تو مل جاتا ہے لیکن ان کے کارناموں کو کسی محقق نے شمار کرنے کی کوشش نہیں کی، مشفق خواجہ نے اپنے مخصوص تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی اسلوب میں انہیں اس طرح بازیافت کیا کہ بیسویں صدی میں ان کی نشاۃ ثانیہ برپا ہو گئی۔ خواجہ صاحب نے ان پرانے شعرا کے کلام سے ایسے اشعار کا انتخاب کیا جو آج بھی پسند کیے جا سکیں۔
"تحقیق نامہ ” مشفق خواجہ کے چھ مضامین پر مشتمل تحقیقی کتاب ہے۔ ان میں سے دو مضامین ” سعادت خان ناصر اور اس کا تذکرہ خوش معرکہ زیبا ” اور احمد دین ( مصنف : اقبال) ان کی مرتبہ کتابوں کے مقدمے ہیں جو ان کتابوں کے ساتھ بالترتیب ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئے تھے۔ خواجہ صاحب نے لکھا ہے کہ انہوں نے ان مضامین میں نہ صرف یہ کہ اپنی بعض غلطیوں کی تصحیح کی بلکہ بعض نئے مآخذ کی روشنی میں مباحث کا اضافہ بھی کیا۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مشفق خواجہ اپنی تحقیق کو "حرف آخر ” شمار نہیں کرتے تھے بلکہ نیا مواد سامنے آ جاتا تو نہ صرف اپنی رائے میں تبدیلی پیدا کرتے بلکہ نئے مباحث بھی ابھار دئیے۔ میر زا محمد رضا قزلباش خان امید، مرزا جعفر علی حسرت اور شاہ قدر ت اللہ قدرت کو بھی انہوں نے مکمل حوالوں اور نئے مواد سے استفادہ کے بعد پیش کیا ہے۔ "تذکرہ گلشن مشتاق” پر مضمون ۱۹۷۴ء میں لکھا گیا تھا۔ اس وقت حسین قلی خان عاشقی عظیم آبادی کا تذکرہ ” شتر مرغ” شائع نہیں ہوا تھا۔ "گلشن عشق” میں اس تذکرے سے استفادہ کیا گیا تھا۔ چنانچہ خواجہ صاحب کو بھی اپنی رائے میں تبدیلی کی ضرورت لاحق ہو گئی جس کا ذکر انہوں نے اس کتاب کے دیباچے میں کر دیا ہے۔ یہ تفصیلی مطالعے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ یہ کتاب ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں چلنے والی ” مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور” سے ۱۹۹۱ء میں شائع ہوئی اور اسے برصغیر کے ایک ممتاز محقق کے نام معنون کیا گیا ہے جس سے مشفق خواجہ کی بزرگ شناسی کا زاویہ سامنے آتا اور ان کی عقیدت کا نقش قائم ہو جاتا ہے۔ انتساب یوں ہے :
"نہایت ادب کے ساتھ
محترم مالک رام صاحب
کی خدمت میں
جن کی تحریروں سے میں نے لکھنا سیکھا اور جن سے
مل کر بقول حالی لفظ آدمیت کے معنی معلوم ہوئے۔ ”
مشفق خواجہ کی زندگی کی آخری تحقیقی کتاب میرزا یاس یگانہ چنگیزی پر ہے جو ۱۹۸۳ء میں اس وقت شائع ہوئی جب علالت کا ایک دور ہسپتال میں گزار کر وہ بظاہر صحت مند ہو کر گھر آ گئے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ میرزا یگانہ دستبرد زمانہ کی نذر ہو چکے تھے۔ ان کی خوش قسمتی سے کون انکار کر سکتا ہے کہ انہیں اپنی وفات کے بہت عرصے کے بعد مشفق خواجہ جیسا قدر دان میسرآ گیا جنہوں نے یگانہ کہ نہ صرف ایک مستقل موضوع کی حیثیت میں جزو حیات بنا لیا بلکہ یگانہ کی تحقیق میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کر دیں اور اپنی بصارت و بصیرت کے چراغوں سے وہ کرنیں جمع کیں جو آج یگانہ کی زندگی کو نہ صرف منور کر رہی ہیں بلکہ تحقیق کا ایک ایسا مثالی نقش بھی پیش کرتی ہیں جو اپنی نظیر آپ ہے۔ یگانہ پر اپنے تحقیقی کام کا آغاز مشفق خواجہ نے کئی برس پہلے اس وقت کیا تھا جب انہوں نے اپنے رسالہ "تخلیقی ادب ” میں یگانہ پر ایک گوشہ مختص کیا اس کے بعد خواجہ صاحب اپنی تحقیقی فطرت کے مطابق مواد کی تلاش میں سرگرم جستجو ہو گئے۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ اس کتاب کی تکمیل کے لیے مشفق خواجہ نے کتنی دیدہ ریزی کی اور اپنی زندگی کے متعدد ماہ و سال کے علاوہ اپنی صحت بھی اس کتاب کی نذر کر دی۔ اس کتاب کی خوبی صرف یہ نہیں کہ اس میں یگانہ کا تمام مطوعہ، غیر مطبوعہ، مدون اور غیر مدون کلام تحقیقی صحت کے ساتھ جمع کر دیا گیا ہے بلکہ ہر تخلیق کا زمان و مکان، اشاعت کا ماہ و سال اور کتاب یا جریدے کا نام بھی دیا گیا ہے جس ادیب سے کتاب کا مواد حاصل کیا ہے اس کا نام اور پتہ بھی درج ہے۔ اہم بات یہ کہ متن کی تصحیح کے ساتھ یگانہ کی فرہنگ بھی پیش کر دی گئی ہے۔ جو صرف یگانہ سے مخصوص ہے۔ اس طرح صد ہا ایسے الفاظ اس کتاب میں از سر نو دریافت ہوئے ہیں جو خزینہ یگانہ میں مدفون تھے۔ مزید خوبی یہ ہے کہ یگانہ کی سب کتابوں کا پورا متن، خود نوشت حالات، دیباچے اور بعض غزلوں کے قلمی عکس اور سابقہ بعض ایڈیشنوں کے سرورق بھی شامل کیے گئے ہیں۔ مشفق خواجہ کا معراج کمال اس کتاب کے حواشی میں ظاہر ہوتا ہے جو ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایسی کتاب ہے جو ایک نظر میں آپ کے دل و نگاہ کو مغلوب و مسحور کر دیتی ہے۔ بلاشبہ یہ کلیات یگانہ ہے لیکن اب یہ بجا طر پر "نسخہ مشفق خواجہ” بھی معروف ہو گی اور آئندہ جو کام بھی یگانہ پر ہو گا اس کا بنیادی ماخذ یہ کتاب ہو گی۔ میرے دوست نقاد احمد زین الدین نے درست لکھا ہے :
"مشفق خواجہ نے کلیات یگانہ کی ترتیب و تدوین کے اس مشکل ترین اور صبر آزما تحقیقی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر اپنی بقا کا سامان فراہم کر دیا اور ہمیں بیگانگی کی "سحر آسا” دھند سے نکال کر "یگانہ آشنا” کر دیا”۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ مشفق خواجہ نے یگانہ پر جن سات مزید نایاب کتابوں کی اشاعت کا اعلان کیا تھا، وہ اب ان کی نا گہانی وفات کی وجہ سے شاید تا دیر منظر اشاعت پر نہ آسکیں۔ کیونکہ۱۲ فروری ۲۰۰۵ء کو وہ آفتاب تحقیق غروب ہو گیا جس کے تحقیقی کار نامے لوح ادب پر ہمیشہ تابندہ رہیں گے۔ اردو ادب کی صفوں سے ایک بے مثل انسان اپنا رخت حیات سمیٹ کر راہے ملک عدم ہو گیا۔ افسوس، اے وائے افسوس!
٭٭٭