’ندا فاضلی( مقتدا حسن، 12۔ 10۔ 1938، دہلی–8۔ 2۔ 2016، ممبئی) سے گھنٹوں بات کر لیجیے، وہ سیاست، سماج، فلسفہ، دینیات، ادب، صحافت وغیرہ بیسیوں ٹاپکوں پر بیدھڑک بول سکتا تھا، سنیمائی دنیا پر بھی، لیکن اپنے یا دوسروں کے فلمی گیتوں پر بہت ہی کم کچھ کہتا تھا۔ ایک وجہ تو یہ بھی رہی ہو گی کہ ا س کی ایسی بیٹھکیں جے پرکاش چوکسے اور مجھ جیسے ا س کے پرانے فلمی کیڑے دوستوں کے ساتھ ہی ہوتی تھیں جو اسے ا س کے گوالیر کے دنوں سے جانتے تھے، اور جے پرکاش نے تو اس سے اپنی 1978 کی پہلی فلم "’شاید” میں محمد رفیع، آشا بھوسلے اور منا ڈے کے لئے لکھوایا بھی تھا، لہذا ا س کا اور دوسروں کا ادبی اور فلمی کلام ہم سے اتنا چھپا نہ تھا۔ زیادہ تر فلمی ’شعرا‘ تب بھی فقط گھٹیا تھے، آج تو قریب سبھی گھٹیا سے بھی بدتر ہیں۔
ندا شائد واقعی فلموں کا آخری انٹیلیکچؤل شاعر تھا۔ اسے گوالیر کے شاندار قلعے کے سائے کی وہ فضا حاصل ہوئی تھی جسمیں شوائی مراٹھی رجواڑوں کی تیغوں اور پازیبوں کی جھنکاریں ؛ تان سین، بیجو باورا اور ہرداس کے اکبری دھرپددھمار کی گمک، بڑے لڑیّا بندیل کھنڈ کی آلھااودلی بنک، انگریزوں کی 1857 کے بعد کی کولونئل ریزیڈینسی اور آزادی کے بعد کے گجانن مادھو مکتی بودھ، شوم نگل سنگھ سمن اور نریش سکسینہ جیسوں کی کوتا اور شانی کی بستری چھتیس گڑھی بھوپالی انڈو مسلم فکشن کی موجودگی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ جتنا ندا ہندی ادب جانتا، پڑھتا تھا، شائد کالج کے زمانے میں وہ ا س کا مضمون بھی تھا، اتنا اردو کا کوئی دوسرا نہیں، بلکہ اس پیڑھی کے کئی ہندی والے بھی نہیں۔ فلم سٹی میں تو ہندی کے نام پر جہالت ہی جہالت ہے۔
ندا خوش قسمت تھا کہ اسے اپنی پہلی فلم حاصل کرنے کے لئے جدوجہد نہیں کرنی پڑی۔ جے پرکاش ’شاید‘ کے کئی پہلوؤں سے جڑا ہوا تھا اور ندا آج سے چالیس برس پہلے شاعری میں ایک پر امکان اور جانا پہچانا سا نام ہو چکا تھا۔ فلم میں نوجوان نصیرالدین شاہ، اوم پوری، وجییندر گھاٹگے اور نینا گپتا تھے لیکن ا س کا موضوع کینسر اور یوتھینیزیا تھے اور اس قبل از وقت تھیم کو چلنا نہیں تھا۔ کوئی گانا سپرہٹ تو نہیں ہوا، مگر سنگیت چلا اور ان دنوں وودھ بھارتی پر گیت کار کا نام بتایا جانا لازمی تھا، اس لئے ندا کا نام پورے جنوبی ایشیاء میں سنا جانے لگا۔
دیکھا جائے تو ندا کے نام پر تیس سے زیادہ فلمیں نہیں ہیں لیکن ان میں ‘ہرجائی‘، ’ناخدا‘، ’سلسلہ‘، ’اس رات کی صبح نہیں ‘، ’ دیو‘، ’سویکار کیا میں نے ‘، ’یاترا‘، ’سر‘، ’رضیہ سلطان‘، ‘کھاپ‘، ’امیر آدمی غریب آدمی‘، ’انوکھا بندھن‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ا س کے مقبول گانوں میں ‘اجنبی کون ہو تم‘، ’کبھی کسی کو مکمل جہاں ‘، ’تو اس طرح سے میری زندگی میں ‘، ’ہر طرف ہر جگہ بیشمار آدمی‘، ’ہوش والوں کو خبر کیا‘، ’اب خوشی نہ کوئی درد‘، ’کس کا چہرہ‘، ’چپ تم رہو‘، ’کوئی اکیلا کہاں ‘، ’ترا ہجر میرا نصیب ہے ‘ وغیرہ شامل کئے جاتے ہیں اور لاکھوں قدردانوں کی زبان پر ہیں۔ جگجیت سنگھ کی گلوکاری نے بھی ا س کی مدد کی۔ ہم اسے سنیمائی گیت کاروں میں سجاد کہہ سکتے ہیں جو اپنے آگے نوشاد کو بھی سنگیت کار نہیں مانتے تھے۔ ندا میں ایسا اہنکار نہ تھا، خود داری بہت تھی۔ لیکن اسے بھی وہ کسی گنڈے تعویذ کی طرح پہنتا نہ تھا۔
فلمی گیت کاروں کی کتابیں کئی دوسری وجہوں سے ہندی میں آئی ہیں اور ان کی قلعی اس بات سے کھل جاتی ہے کہ انہیں ہندی اردو نثر کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ لیکن ناگری لپی میں ندا کی پہلی کتاب شاید 1980 کی دہائی کے آخر میں چھپی۔ یہ سکمار چٹرجی کے کور ڈزائن والی ’مور ناچ‘ تھی، جسے ’شانی‘ کے اصرار پر نیشنل کے ہمارے اب مرحوم پیارے بزرگ دوست کنہیا لال ملک نے شایع کیا تھا اور پھر دہلی میں ’شانی‘ اور وشنو کھرے کی کوششوں سے خود ندا کی موجودگی میں تروینی میں ا س کا شاندار اجراء ہوا جس میں میں نے ندا کو غالب کی روایت میں شامل کر دیا تھا جس وجہ سے پہلی بار اسے سب کے سامنے شرم کے مارے کتھئی ہوتے دیکھا گیا۔ ممبئی سے اسی کے آس پاس شائع شدہ "آج کے پرسدھ شاعر – ندا فاضلی” کو کنہیا لال نندن مرحوم نے مرتب کیا تھا۔
پھر ہندی میں ندا کا انبار لگ گیا۔ ’آدمی کی طرف‘، ’دیواروں کے بیچ‘، ’آنکھوں بھر آکاش‘، ’چہرے ‘، ’موسم آتے جاتے ہیں ‘، ’کھویا ہوا سا کچھ‘ (جس پر اسے مرکزی ساہتیہ اکادیمی انعام بھی ملا) ناگری میں بھی آئیں۔ ان میں سوانح، ناول، یادداشتیں، اور شاعری سب شامل ہیں۔ میں اسے ہندی کا آدمی ہی مانتا تھا۔ بی۔ بی۔ سی۔ کی بلاگزین کے لئے اپنا مقبول کالم وہ سیدھے ناگری ہندی میں لکھتا تھا اور ہندی کے بیسیوں لیکھکوں کو جانتا پڑھتا تھا۔ حال ہی میں اس نے پرویز احمد کا ناول ‘’مرزا واڑی” بہت سراہا تھا۔ ممبئی میں ہری مردل اور وجے کمار ا س کے گہرے دوست تھے۔ میری نگاہ میں اس نے جگر مراد آبادی، داغ دہلوی، جانثار اختر، محمد علوی و بشیر بدر کے جو انتخاب ترتیب دئے ہیں، وہ ایودھیاپرساد گویلی، رام ناتھ سمن، علی سردار جعفری اور پرکاش پنڈت کے بڑے، تاریخی سلسلے میں شامل کئے جا سکتے ہیں، ۔ یہ ہندی کا خزانہ ہیں اور بیحد قابلِ مطالعہ یں۔
صد افسوس کہ ندا کم سے کم دس ایسے انتخاب ایڈٹ نہیں کر پایا۔ اس نے ان میں دیباچوں اور تدوین کے اپنے دوہرے فرضوں کو بہت سنجیدگی سے نباہا ہے اور سردار اور پرکاش پنڈت کے ہندی ترجموں سے آگے لے گیا ہے، سچ تو یہ ہے کہ جے پرکاش اور میں ندا کے دیباچوں کو پڑھ کر ہنستے رہے کیونکہ ہمیں ندا جیسے گھر کے جوگی چھچھورے گلیر دوست سے اتنی عمدہ ہندی نثر اور شاعروں اور شاعری کی ایسی دو ٹوک سمجھ کا اندازہ نہیں تھا۔ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے، پتہ نہیں ندا کو بھی علم تھا یا نہیں، کہ اگر گجراتی اینگل نہ ہوتا تو اس برس کا بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ ندا کو جانے والا تھا۔ گلزار کا نام، اللہ خیر کرے، اس سے نیچے تھا۔ ’پدم شری’ اسے مل ہی چکا تھا۔
اردو میں شاعروں پر چٹکیاں لیتے ہوئے لکھنے کی ایک حوصلہ مند اور پیاری روایت ہے جسے ندا نے نہ صرف نباہا ہے بلکہ سنجیدہ تنقید کے ساتھ ا س کی کیمیا گری اور ویلڈنگ بھی کی ہے۔ اس نے اپنے بغض بھی چھپائے نہیں ہیں۔ ساحر لدھیانوی جیسے عظیم شاعر کے ساتھ ا س کے تعلقات "لو۔ ہیٹ” کے، نفرت زیادہ محبت کم، کے رہے جو جانثار اختر والے انتخاب کے دیباچے میں ابل گئے ہیں۔ بشیر بدر کو بھی اس نے بخشا نہیں ہے۔ وہ نڈر تھا۔ مئی 2014 کے بعد وہ اپنے کئی دوستوں کو ملک کے حالات پر شعر، دوہے اور چھوٹی نظمیں ایس۔ ایم۔ ایس۔ کرتا رہتا تھا۔ یار باشی کی نشستوں میں وہ بلیک لیبل کے ساتھ ہم سے لیکھکوں، سیاست دانوں دھرم گروؤں وغیرہ کو بہت ’نان ویج‘ اور غیر پارلیمانی گالیاں دینے کے نئے نئے نسخوں اور سلیقوں کا آدان پردان کرتا تھا۔
ایک زمانہ تھا جب یاری روڈ پر ندا، جے پرکاش اور میں چہل قدمی کی دوری پر رہتے تھے۔ مشاعرے پڑھنے کے اپنے ہر طرح سے کامیاب ملکی یا غیر ملکی دوروں کے بعد ندا جب لوٹتا تب ہم تینوں تنہا جے پرکاش کے یہاں بیٹھتے تھے۔ بات چیت میں اس نے کبھی کسی مرض کی شکایت نہ کی، البتہ بھابھی اور بٹیا کی حساسیت کا لحاظ رکھتے ہوئے مے نوشی کچھ کم کر دی تھی، اس لئے بھی کہ ا س کا فلیٹ اتنے نزدیک تھا کہ اسے پیدل ہی لوٹنا پڑتا تھا۔ مشاعروں میں البتہ سٹیج کے پیچھے منگوا کر کافی کھینچ لیتا تھا۔ آپ ایک ذمے دار چشم دید بادہ خوار گواہ کا بیان پڑھ رہے ہیں۔
وہ ایک ہی جہت کی شخصیت کبھی نہ تھا لیکن اپنے مشہور شعر
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
کی نیگیٹو نظیر بھی نہ تھا۔ وہ زندگی میں ایک ٹرانسپیرینسی کا قائل تھا۔ اسے لگتا تھا کہ پاکستان میں ا س کے والد کی قبر میں وہ لیٹا ہوا ہے جبکہ مرتضیٰ حسن یہاں ا س کے ہڈی گوشت میں زندہ ہیں۔ وہ ایک طرفہ سیکولرزم کا قائل نہ تھا، ا س کے قلم کی تیغ سبھی دقیانوسیتوں پر برابری سے چلتی تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ جنوبی ایشیاء کے کسی بھی شاعر میں یہ کہنے کا تو کیا، سوچ پانے کا بھی مادہ ہو گا :
وقت کی پیشانی پہ اپنا نام جڑا ہے تو نے
جھوٹے مکتب میں سچا قرآن پڑھا ہے تو نے
اندھیاروں سے لڑنے والی تیرا نام اجالا
ملالہ۔ ۔ ۔ ملالہ
اور ملک کی دہشت کے بیچ یہ شعر ہی پر خطر ہے :
جو چہرہ دیکھا وہ توڑا، نگر نگر ویران کئے
پہلے اوروں سے ناخوش تھے اب خود سے بیزاری ہے
اور
مسجدیں ہیں نمازیوں کے لئے
اپنے گھر میں کہیں خدا رکھنا
اور ا س کے پہلے کہ تہمت لگے کہ خود کو بہت پاک صاف سمجھتا ہے، ندا اپنے بہانے ہم سب کو یہ طنزیہ چٹکی کاٹ لیتا ہے۔
اوروں جیسے ہو کر بھی ہم با عزت ہیں بستی میں
کچھ لوگوں کا سیدھا پن ہے، کچھ اپنی عیاری ہے
یہ ا س کی عیاری ہی ہے کہ جب ا س کی ضرورت سب سے زیادہ تھی، ندا بن بتائے چوری چھپے بستی سے اٹھ گیا۔
٭٭٭