ندا فاضلی۔ ۔ ۔ ڈاکٹر کمار وشواس

ندا فاضلی صاحب کے ساتھ میں نے سینکڑوں کوی سمیلنوں میں شرکت کی۔ وہ میرے محبوب شاعر تھے، ہم نے ایک ساتھ دبئی میں، مسقط میں، شارجہ میں، ہندستان کے کئی حصوں میں اردو ہندی مشاعروں /کوی سمیلنوں میں حصہ لیا۔

خاص طور پر جب دو ہزار چار میں پہلی بار آئی آئی ٹی کھڑگ پور میں انہوں نے اپنی غزلیں  پڑھیں تو ان کی غزلوں کو کافی سراہا گیا۔ وہ بہت ہی سپرہٹ ہوئے وہاں۔

ندا فاضلی صاحب نے کافی سنگھرش بھری زندگی گزاری تھی۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے شاعر تھے، اس بات پر کبھی کسی کو شک نہیں تھا، لیکن باوجود اس کے، انہیں شعری دنیا میں کافی دیر سیے کامیابی ملی۔

بہت ہی کام لوگ یہ جانتے ہیں کہ نجی زندگی میں ندا فاضلی صاحب بہت دکھی اور پریشان رہے، خاندانی زندگی کی ابتدا بھی انہوں نے کافی دیر سے کی اور تقریباً 45 سال کی عمر میں انہوں نے شادی کی۔ 50 سال کی عمر میں انہیں بیٹی ہوئی۔ جس پر انہوں نے وہ نظم لکھی کہ ‘چھوٹی بچی بن کر پورا جے پور ناچ رہا تھا’۔

لیکن اس کے باوجود ان کی پہچان ہمیشہ ایک خوش مزاج اور اچھی طبیعت والے شخص کے طور پر رہی۔

میرے ساتھ ان کے بہت ہی گہرے روابط تھے، میری کتاب پر انہوں نے لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ‘نیرج کے بعد اگر کوئی آدمی منچ پہ ہندی گیت کو زندہ کر پایا تو وہ کمار وشواس ہے ’۔

کچھ سال پہلے ہم اندور میں ایک کوی سملین میں حصہ لے رہے تھے، وہاں ندا فاضلی صاحب کی طبیعت تھوڑی خراب ہو گئی۔ وہ کہنے لگے کہ اب وہ اس حالت میں پتہ نہیں کیا پڑھیں گے اور کیسے پڑھیں گے۔ تب میں نے سٹیج سے کہا کہ ندا فاضلی کیا پڑھیں گے، کتنا پڑھیں گے یہ سوال ہی بے معنی ہے، کیونکہ ندا فاضلی صاحب کا کسی مشاعرے میں ہونا ہی اس مشاعرے کو دنیا کا سب سے بڑا مشاعرہ بنانے کے لئے کافی ہے۔

یہاں پر ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ کچھ سال پہلے ہم دونوں انڈمان نکوبار میں ایک کوی مہوتسو میں گئے ہوئے تھے۔ میں انہیں روز گارڈن گھمانے لے گیا تھا جہاں نیتا جی سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج کا ہیڈ کوارٹر بنایا تھا۔ ہم دونوں روز گارڈن میں پیدل چل رہے تھے، جب ندا فاضلی صاحب نے کہا کہ وہ تھک گئے ہیں اور انہیں آرام کرنا چاہئیے۔ میں نے یونہی ہنستے ہوئے انہیں کہا کہ ‘ندا بھائی، تھوڑی دیر اور چلتے ہیں، آگے پھر آپ کی منزل آ جائے گی۔ سامنے کئی بورڈس لگے ہوئے تھے جن میں سے ایک پر قبرستان کی طرف جانے کا نشان تھا، یہ دیکھ کر ندا فاضلی صاحب مسکرا پڑے اور کہا کہ ہاں میاں، صحیح فرمایا، تھوڑی دیر کے بعد منزل واقعی آ ہی جائے گی۔

دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے

مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے

وداع، بڑے بھائی ندا فاضلی! آپکے ساتھ اردو شاعری کا ایک باب ختم ہو گیا۔ آپ کی شاعری ہم نئے ادیبوں کو ہمیشہ راستہ دکھائے گی۔ آپ کے ساتھ گزاری ان گنت شامیں اور وہ ڈھیر سارے سفر ہمیشہ یاد آئیں گے۔ فون اٹھاتے ہی وزن دار آواز میں "ارے ڈاکٹر! کمال کئے ہوئے ہو یار…” سے بات چیت شروع کرنا ہمیشہ یاد رہے گا۔ آرام کریں، ددو!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے