گاڑی شہر کی سڑکوں کو چھوڑتی ہوئی گاؤں کی طرف بڑھنے لگی تھی۔ اڈمنسٹرٹیو آفسر اور ان کا عملہ گڈھے بھرے راستے کو بڑے دھیان سے دیکھ رہے تھے۔ پہلے اس گاؤں میں آنے کے لئے ریل کی پٹری کے متوازی پتھریلے راستے سے آنا پڑتا تھا۔ اب گاؤں تک پہنچنے کے لئے راستہ بن گیا ہے۔ گاؤں میں پہنچتے ہی گاؤں کے دوسرے سرکاری افسران اور ملازمین سواگت کے لئے تیار کھڑے تھے۔ افسرایس ڈی سنگھ نے پہلے سے حکم دے رکھا تھا کہ سبھی لوگ گاؤں کے سکول میں ہی اکٹھے ہوں۔ ۔ ۔ تحقیقات وہیں ہوگی۔ سکول کا پتہ ایک دو لوگوں سے پوچھا۔ سرکاری گاڑی اپنی لے اور تال سے فرّاٹے بھرتی ہوئی رکی۔ ۔ ۔ تین لوگ اترے۔ عملے میں سے افسر کو جلدی ہی پہچان لیا ہیڈماسٹر کی نگاہوں نے۔ رعب، دم خم، کپڑوں کی سفیدی، چہرے کی چمک، آنکھوں کی سختی، قدموں کی کساوٹ۔ ان سب سے ہیڈماسٹر نے تاڑ ہی لیا۔ وہ اپنی سانسیں تھامے ان کے سواگت کے لئے کھڑا تھا۔
سکول کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے انہوں نے دیکھا کہ سکول میں کچھ دنوں پہلے تعمیری کام ہوا ہے۔ نئے کمرے بھی بن گئے ہیں۔ کھیل کے لئے الگ میدان ہے ۔ ۔ ۔ فرش بھی پکا ہو گیا ہے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ ان کے پاس آنے کو بے چین ہیں۔ افسر کی ایک نظر ان پر پڑے تو وہ نہال ہو جائیں اور افسر نے عزت سے بات کر لی تو پھر کہنا ہی کیا ہے، مانو سارا جہان مل گیا۔ ایس ڈی سنگھ کے من میں کسیلا پن چھا رہا تھا۔
انہوں نے پیچھے آ رہے ہیڈماسٹر سے پوچھا "کتنے ٹیچر ہیں یہاں ؟”
ہیڈماسٹر ان کے احترام میں لگ بھگ جھکتے سے بولے "جی سر پانچ۔ ”
گھنی داڑھی کے بیچ چہرہ پہچانتے ہوئے انہوں نے کہا "آپ یہاں کب سے ہیں ؟”
"۔ ۔ ۔ ۔ مجھے لگ بھگ بیس برس ہو گئے۔ ”
ہیڈماسٹر صاحب انہیں اپنے کمرے کی طرف لے گئے۔ کمرے کے باہر تختی لگی تھی اودھ نارائن سکسینہ۔ ہیڈ ماسٹر۔ ایس ڈی سنگھ نے کمرے کا معائنہ کیا۔ گدی دار کرسیاں اور ایک اچھی ٹیبل بھی رکھی تھی۔ چھت کا پنکھا بھی اچھی حالت میں نظر آ رہا تھا۔
کرسی پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے کہا – "اب مجھے پورا معاملہ سنائیے۔ ”
ہیڈماسٹر جی نے کولڈ ڈرنک ان کے سامنے رکھ کر کہا ” سر پہلے ٹھنڈا پی لیجیے۔ ”
ایس ڈی سنگھ نے بوتل ایک طرف ہٹا دی۔ ہیڈماسٹر نے ان کا عندیہ بھاپ لیا اور بتانا شروع کر دیا "سر یہاں ایک ماسٹر ہے افضل۔ وہ شہر سے سکول میں پڑھانے آتا ہے۔ ” تھوڑا رک کر گلا صاف کرتے ہوئے بولے "سرپنچ جی نے اس پر الزام لگایا ہے کہ افضل نے ان کی بیٹی کے ساتھ برا سلوک کیا ہے۔ اسی بات کو لے کر گاؤں میں تناؤ ہے۔ افضل کو گاؤں میں یہ لوگ آنے نہیں دے رہے۔ ”
ایس ڈی سنگھ نے کہا "یہ واردات کہاں ہوئی ؟”
اب تو اور بھی پریشان ہو گئے ہیڈماسٹر جی۔ گھبراتے ہوئے بولے ’سر! یہیں سکول میں چھٹی کے بعد ہوئی تھی واردات۔ میں اپنے گھر چلا گیا تھا۔ ” آخری بات کہہ کر جیسے انہوں نے اس واقعے سے اپنا پلہ جھاڑنا چاہا۔
"افضل اور وہ لڑکی یہاں کیا کر رہے تھے ؟”
"سر! افضل کمزور بچوں کی الگ سے کلاس لیتا تھا۔ اس دوران ہوا سب۔ ”
لمبی سانس کھینچ کر وہ بولے ۔ ۔ ۔ تو کوئی چشم دید گواہ ؟
ایس ڈی سنگھ نے ان کا چہرہ پڑھنا چاہا۔ ان کے چہرے پر پسینہ بہہ رہا تھا جیسے لائٹ جانے کے بعد فرج میں پانی کی بوندیں اگ آتی ہیں۔
گھبراتے ہوئے بولے "نہیں سر”
"افضل کب سے نوکری کر رہا ہے ؟”
"سر اسے یہاں آئے دو سال ہو گئے ”
ہیڈماسٹر پسینہ پسینہ ہوئے جا رہے تھے۔
ہوا کا رخ طے کرتا ہے کہ چنگاری سے آگ جلانا ہے یا آگ لگانا۔ ضلع ہیڈ کوارٹر کے افسران کو فکر تھی کہ واقعہ فرقہ وارانہ فساد کی نوعیت نہ اختیار کر لے۔ گاؤں کا تناؤ شہر میں نہ پھیل جائے۔ ذرا سی بات طوفان کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور بھیڑ کے پاس پہنچتی ہے تو بھیڑ بپھر کر عقل کا دامن چھوڑ دیتی ہے اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش بھی نہیں کرتی۔
گہری سوچ میں ڈوبے سنگھ صاحب نے کہا "پہلے بھی ٹیچروں پر ایسے الزامات لگے ہیں ؟”
ہیڈ ماسٹر سٹپٹا گئے۔ وہ کیا جواب دیں، اسے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔ ” جی ۔ ۔ ۔ جی۔ ۔ ۔ نہیں سر”
انہوں نے حاکمانہ لہجے میں کہا "فریادی کو بلاؤ”
ایس ڈی سنگھ کے ساتھ آئے لوگ باہر چلے گئے۔ سناٹا بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ اس کی اپنی بھاشا ہوتی ہے۔ حالات اپنے آپ اپنا ماحول تیار کر لیتے ہیں۔ تبھی تو تیرویں کا کھانا، بھنڈارے کا دعوت اور کسی تقریب وغیرہ کے کھانے میں ویسا ہی ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ یہاں کا سناٹا بھی راکھ کے نیچے دبی چنگاری کی آمد درج کرا رہا تھا۔
رام ناراین چودھری کو بلایا گیا۔ ان کے سر میں سفیدی چھا رہی تھی۔ آنکھوں پر چشمہ چڑھا تھا۔ کلف لگے کپڑوں کا کڑک پن ان کی چال میں نظر آ رہا تھا۔ اپنی ٹھسک میں ایک ہاتھ اوپر کو تھوڑا سا اٹھاتے ہوئے چودھری رام ناراین نے نمستے کی۔ فخر سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا "میں سرپنچ رام ناراین چودھری ”
سنگھ صاحب نے دیکھا بڑھاپا سر چڑھ کر بول رہا تھا پر اکڑ ابھی بھی جیوں کی تیوں تھی، مردے کی اکڑ کی طرح۔ رسی جل گئی پر بل نہیں گیا۔ مونچھیں اوپر کی اور تلوار کی نوک کی طرح اٹھی ہوئی تھیں۔ چہرے اور چال کا کردار سے گہرا ناطہ ہوتا ہے۔ اس نے سرپنچ لفظ پر کچھ زیادہ ہی زور دیا۔ رسوخ دار کو وقت اور اقتدار بدلنے سے کوئی مطلب نہیں ہوتا، وہ تو ہر حال میں اپنا اثر جمائے رکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے سرپنچ کی اور اشارہ کرتے کہا ” ہوں، آپ بتائیے کیا واقعہ ہے ؟”
سرپنچ نے کہنا شروع کیا "۔ ۔ ۔ ارے صاب یہ افضل ماسٹر نے ہماری لڑکی کے ساتھ غلط سلوک کیا ہے۔ سکول اور گاؤں کی عزت کی بات تھی جو ہم نے بات گاؤں سے باہر نہیں جانے دی۔ وہ پڑھاتا لکھاتا کچھ نہیں بس ہماری لڑکیوں کو غلط نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس دن تو حد ہی ہو گئی صاب۔ اس نے میری لڑکی کا ہاتھ پکڑا، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ۔ ۔ ۔ اور صاب کیا کہوں ۔ ۔ ۔ کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ ۔ ۔ ہم اپنی بیٹی کے ساتھ ہوئی گھٹنا کیسے بتائیں۔ ۔ ۔ ”
"تو آپ لڑکی کو بلوا دیجیے ” ایس ڈی سنگھ نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
سرپنچ تھوڑا طیش میں بولا” ارے صاب وہ چھوٹی ہے اور بہت ڈری ہوئی ہے۔ میں بتا تو رہا ہوں آپ کو سب کچھ !”
سنگھ صاحب نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا "کس کلاس میں ہے تمہاری لڑکی ؟”
"جی آٹھویں میں ”
” تو تمہاری لڑکی اتنی چھوٹی کلاس میں ہے ؟”
"نہیں صاب وہ میرے بیٹے کی بیٹی ہے۔ میری بیٹیاں تو اپنی اپنی سسرال ہیں۔ ”
سنگھ صاحب نے کہا "آپ کی لڑکیاں بھی اسی سکول میں پڑھی ہیں ؟”
"جی صاب”
"تو کیا ان کے ساتھ بھی کبھی کسی نے غلط سلوک کیا تھا؟”
یہ سوال سن کر سرپنچ چونک گیا۔ اس کی بوڑھی آنکھیں ایس ڈی سنگھ کے چہرے کو گہرائی سے دیکھنے لگیں۔ اس نے جھجھکتے ہوئے کہا "نہیں صاب۔ ”
سنگھ صاحب نے ہیڈماسٹر کی اور مخاطب ہوتے ہوئے کہا "آپ بتائیے کیا آپ کے سکول میں پہلے بھی ایسا کبھی ہوا ہے ؟”
ہیڈماسٹرجی گھبرا گئے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کیا کہیں۔ اگر سچ کہتے ہیں تو سرپنچ پریشان کرے گا۔ جھوٹ بھی کیسے کہیں، اگر سچ پتہ چل گیا تو پھر ان کی خیر نہیں۔ وہ بے چین رہتا ہے کہ کہیں سچ سب کے سامنے نہ آ جائے۔
سنگھ صاحب نے ہیڈماسٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا "ماسٹر جی ماسٹر کا کام سچ بولنا ہوتا ہے۔ اگر یہ کام ماسٹر نہیں کرے گا تو سماج کس سے امید رکھ سکتا ہے۔ دھرم بھی یہی کہتا ہے کہ سو گنہگار چھوٹ جائیں پر ایک بے گناہ کو سزا نہ ملنے پائے۔ ”
ہیڈماسٹر نے ماتھے پر چھلک آئے پسینے کو پونچھا پھر سرپنچ کی طرف دیکھنے لگے۔
سنگھ صاحب سب کچھ سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا "ماسٹر جی آپ نے مجھے پہچانا ؟”
ہیڈماسٹر صاحب انہیں غور سے دیکھ رہے تھے اور یادداشت پر زور ڈال رہے تھے۔
اپنا نام بتاتے ہوئے وہ بولے "میں شودت سنگھ۔ ۔ ۔ ۔ پہچانا ؟”
وہ آگے بتانے لگے، میں اسی سکول میں ٹیچر بن کر آیا تھا۔ میں اونچی ذات سے نہیں تھا اس لئے پورا گاؤں میری مخالفت کرتا تھا، بطور خاص یہ سرپنچ جی۔ مجھے طعنے دیئے جاتے تھے – دیکھو وہ ماساب جا رہے ہیں۔ اب ایسے لوگ آئیں گے ہمارے بچوں کو پڑھانے۔ ۔ ۔ ۔ سرپنچ کا دباؤ تھا کہ میں ان کے گھر جا کر ان کے بچوں کو پڑھاؤں۔ پر میرا جواب تھا کہ میرے لئے سب بچے برابر ہیں، میں سکول میں ہی سب بچوں کی ایکسٹرا کلاس لیتا ہوں، وہیں پڑھا دوں گا۔ وہ چاہتے تھے دوسرے لوگوں کی طرح میں ان کے گھر جا کر جی حضوری کروں، ان کی حویلی پر جا کر ماتھا ٹیکوں۔ میرے منع کرنے پر انہوں نے اسے پر سٹیج پوئنٹ بنا لیا اور مجھ پر الزام لگا دیا کہ میں نے ان کی لڑکی کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔ ”
سنگھ صاحب نے ان دونوں کے چہرے پڑھے۔ پھر بولے ” اگر پولیس کیس ہو جاتا تو میرا مستقبل برباد ہو جاتا۔ میں نے سمجھداری سے کام لیا اور لمبی چھٹی پر چلا گیا۔ میں نے طے لیا کہ اس قابل بنوں گا کہ سب مجھے سلام کریں۔ قسمت نے میرا ساتھ دیا اور میرا پی ایس سی سے نائب تحصیلدار کے لئے سلیکشن ہو گیا۔
وہ پانی پینے کے لئے رکے۔ پھر بولے۔ "وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں آخری دن سکول آیا تو آپ سب مجھے بس تک چھوڑنے گئے تھے۔ سب کے سلوک میں اچانک بدلاؤ آ گیا۔ سب میری عزت کرنے لگے تھے۔ جو عزت مجھے ٹیچر بن کر ملنا چاہئیے وہ عزت مجھے افسر بن کر ملی۔ ہے نہ تعجب کی بات ؟”
سرپنچ حیران ہو گیا۔ اس کی حالت خراب ہو رہی تھی۔
سنگھ صاحب نے ان دونوں کی اور دیکھا اور کہا "استاد کی عزت کرنا سیکھو۔ ہم جیسوں کو افسر بنانے کے پیچھے استاد کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ ”
ہیڈماسٹر گھگھیاتے ہوئے سے بولے "سر آپ تو سب جانتے ہیں، ہم پانی میں رہ کر مگر سے بیر کیسے کر سکتے ہیں ؟”
سنگھ صاحب بولے "ہیڈماسٹر جی ٹیچر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہیں کہے گا تو ہم بچوں کو کیا سکھائیں گے ؟ میں تو ٹیچر ہی بنے رہنا چاہتا تھا۔ ۔ ۔ پر آپ سب نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اس عہدے کو حاصل کروں، جسے لوگ سلام ٹھونکتے ہیں۔ سلام ٹھونکنا اور احترام کرنا دونوں میں بہت فرق ہے۔ افسر جب تک اپنے عہدے پر رہے گا، تب تک لوگ اسے سلام ٹھونکیں گے پر استاد کے رٹائر ہونے کے بعد بھی لوگ اس کا احترام کریں گے۔ ”
ہیڈماسٹر گھبرا کر پسینہ پسینہ ہوئے جا رہے تھے۔ سنگھ صاحب بولے۔ "یہ میں جانتا ہوں افضل بے گناہ ہے۔ جو میرے ساتھ ہوا وہی اس کے ساتھ ہوا۔ فرق بس اتنا ہوا وہ آپ کے جال سے بچ نہیں پایا۔ میں نے اس کے بھی بیان درج کئے ہیں۔ اسے پیٹنے کی کوشش بھی کی گئی۔ بچوں کو اس کے خلاف بھڑکایا گیا، بچوں نے منع کیا تو انہیں فیل کرنے کی دھمکی دی گئی۔ ۔ ۔ سکول میں اس کے خلاف جانے کیا کیا لکھا تم لوگوں نے ”
سرپنچ کی جانب دیکھتے ہوئے بولے "ایک اور شو دت سنگھ مت بننے دو۔ لوگوں کا وشواس اٹھ جائے گا ٹیچر کی نوکری سے۔ افضل کا ریکارڈ دیکھا ہے میں نے، وہ بہت انٹیلی جینٹ ہے، اس کے علم کا فائدہ اڑھاؤ، تو وہ کئی شو دت تیار کر دے گا۔ ۔ ۔ اس گاؤں کی تصویر بدل دے گا۔ میں نے سکول کے بچوں اور ان کے ماں باپ سے بات کی ہے وہ لوگ بہت پسند کرتے ہیں اسے۔ ۔ ۔ اس گاؤں کو ذات پات اور خود غرضی سے دور رکھو۔ ”
انہیں لگا لوہا گرم ہے، وہ آگے بولے۔ ” دیکھ لو اپنی غلطی سدھار لو یا پھر میں جھوٹا کیس لگانے کے الزام میں جیل بھیج دوں ؟” کہہ کر وہ باہر نکل گئے۔
سرپنچ کا برا حال تھا۔ وہ دوڑتے ہوئے پیچھے بھاگا اور پیر چھونے لگا ” صاحب ہمیں بخش دو، ہمیں معاف کر دو۔ میں یہ کیس واپس لے لوں گا اور آگے سے ایسا کبھی نہیں کروں گا۔ ”
سرپنچ نے کیس واپس لینے کے لئے درخواست لکھی اور ساتھ میں معافی نامہ بھی۔ ہیڈماسٹر نے بھی افضل کی حمایت میں اپنے بیان لکھ کر دیئے۔
ایس ڈی سنگھ نے ان سبھی کاغذات کو فائل میں رکھ کر اسے بند کر دیا، جیسے کیس بھی بند ہو گیا ہو۔ سنگھ صاحب نے فائل کو سینے میں بھینچ کر کس کر پکڑ لیا جیسے انہوں نے سالوں پہلے ہوئے اپنے ہی کیس پر آج فتح حاصل کر لی ہو۔
٭٭٭