خوف کے مارے ہوائیں خود بخود ہی رک گئیں
جب چراغوں کی لوؤں سے شب کا چہرہ جل گیا
رت جگوں سے جل رہی تھیں کس قدر آنکھیں مری
بس ذرا جھپکی تھیں پلکیں، خواب سارا جل گیا
لفظ ومعانی نے پناہیں ڈھونڈ لیں اشعار میں
فکر کے آتش کدے میں، میں اکیلا جل گیا
شوق تھا کتنا مجھے بھی کھیلنے کا آگ سے
سب شرر تو بجھ گئے پر میں سراپا جل گیا
آئے دن جلتی ہوئی ان بستیوں کو دیکھ کر
وحشتیں غالب ہوئیں ایسی کہ صحرا جل گیا
٭٭٭
پھر سے کوئی منظر پسِ منظر سے نکالو
ڈوبے ہوئے سورج کو سمندر سے نکالو
لفظوں کا تماشا تو بہت دیکھ چکے ہم
اب شعر کوئی فکر کے محور سے نکالو
گر عشق سمجھتے ہوتو رکھ لو مجھے دل میں
سودا ہوں اگر میں تو مجھے سر سے نکالو
میں کب سے صدا بن کے یہاں گونج رہاہوں
اب تو مجھے اس گنبدِ بے در سے نکالو
وہ درد بھری چیخ میں بھولا نہیں اب تک
کہتا تھا کوئی بت مجھے پتھر سے نکالو
یہ شخص ہمیں چین سے رہنے نہیں دے گا
تنہائیاں کہتی ہیں اسے گھر سے نکالو
٭٭٭