کل رات کی محفل میں
اک رنگ اٹھا دل میں
جب رقص قدم اٹھے
پتھر کے صنم اٹھے
نغموں کا نشہ چھلکا
سو رنج و الم اٹھے
اک آن تو سانسوں میں
بارود کی وحشت نے
کچھ شور کیا برپا
تاریک محلّوں سے
کانوں کو سنائی دیں
روتی ہوئی ماؤں کی
ٹوٹی ہوئی آوازیں
مرتے ہوئے بچوں کی
بکھری ہوئی پروازیں
ملبوس کی لہروں میں
شعلے بھی نظر آئے
دیوار کے شیشوں میں
بھوکے بھی نظر آئے
مشروب کے پیالوں میں
پیاسے بھی نظر آئے
دامن میں مرے خالی
سویا ہوا وہ لمحہ
آنکھوں میں مری کالی
رویا ہوا وہ لمحہ
جس کا نہ کوئی والی
کھویا ہوا وہ لمحہ
محفل کی کہانی میں
اوجھل ہوا کچھ ایسے
خود اپنی روانی میں
بوجھل ہوا کچھ ایسے
پھر میں نے نہیں دیکھا
اس شور سلاسل میں
وہ لمحہ کہاں ڈوبا
کل رات کی محفل میں
٭٭٭