‎وہ لمحہ ۔۔۔ اسنیٰ بدر

‎کل رات کی محفل میں

‎اک رنگ اٹھا دل میں

‎جب رقص قدم اٹھے

‎پتھر کے صنم اٹھے

‎نغموں کا نشہ چھلکا

‎سو رنج و الم اٹھے

 

‎اک آن تو سانسوں میں

‎بارود کی وحشت نے

‎کچھ شور کیا برپا

 

‎تاریک محلّوں سے

‎کانوں کو سنائی دیں

روتی ہوئی ماؤں کی

‎ٹوٹی ہوئی آوازیں

مرتے ہوئے بچوں کی

بکھری ہوئی پروازیں

 

‎ملبوس کی لہروں میں

‎شعلے بھی نظر آئے

دیوار کے شیشوں میں

‎بھوکے بھی نظر آئے

‎مشروب کے پیالوں میں

‎پیاسے بھی نظر آئے

 

‎دامن میں مرے خالی

‎سویا ہوا وہ لمحہ

‎آنکھوں میں مری کالی

‎رویا ہوا وہ لمحہ

‎جس کا نہ کوئی والی

‎کھویا ہوا وہ لمحہ

 

‎محفل کی کہانی میں

اوجھل ہوا کچھ ایسے

‎خود اپنی روانی میں

‎بوجھل ہوا کچھ ایسے

 

‎پھر میں نے نہیں دیکھا

‎اس شور سلاسل میں

وہ لمحہ کہاں ڈوبا

کل رات کی محفل میں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے