جیل روڈ سے ملحقہ گلی کے اندر میں بے شمار دفعہ گیا ہوں مگر جانے کیوں اس شام کو اس گلی میں داخل ہوتے وقت افسردگی کا احساس جنوری کی سرد شام سے بھی زیادہ تھا۔ جب میں اس گھر کی چوکھٹ میں داخل ہوا۔ گھر کا سیاہ دروازہ خلاف توقع کھلا ہوا تھا۔ سامنے صحن میں رکھی کرسیوں میں زاہد ڈار اداسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ ایرج مبارک بھی افسردہ کھڑے تھے۔ تھوڑی دیر بعد عاصم بٹ، اصغر ندیم سید، اکرام اللہ سب نظر آئے۔ یہ سب عہد ساز افسانہ نگار انتظار حسین کے سفرِ آخرت میں شریک ہونے آئے تھے۔ انتظار صاحب چلے گئے۔ اگلے روز امام بارگاہ خواجگان میں اسی غم اداسی کی کیفیت میں مبتلا میں نے مسعود اشعر، ڈاکٹر سعادت سعید، وجاہت مسعود، پروفیسر اعجاز الحق، ضیاءالحسن، امجد طفیل، زاہد حسن، علی اصغر عباس کو بھی دیکھا۔
انتظار صاحب کی نماز جنازہ ادا ہوئی ان کو فردوسی قبرستان مین سپردخاک کر دیا گیا۔ میں گئے برسوں پر نظر ڈالتا ہوں تو انتظار صاحب سے ہونے والی ملاقاتیں یاد آ جاتی ہیں۔ ان سے مل کر ایسا لگتا ہے جیسے گنگا جمنا تہذیب سے بالمشافہ ملاقات ہوئی ہے۔ گنگا جمنا تہذیب کی خوشبو نوشاد صاحب کی موسیقی میں ملتی ہے یا انتظار حسین کی تحریروں میں بستی ہے۔ وہ عہد ساز افسانہ نگار، ناول نگار اور صحافی تھے۔ روزنامہ آج کل میں وہ ’قصہ کوتاہ ‘ کے عنوان سے کالم لکھتے تھے۔ جب میں نے وہاں لکھنا شروع کیا تو میری ایک ہی خواہش تھی کاش ادارتی صفحے میں میرا کالم انتظار حسین صاحب کے کالم کے نیچے شائع ہو جائے۔ اور ایک دن میرا یہ خواب سچ ثابت ہو گیا۔ میرا کالم ان کے کالم کے نیچے شائع ہو گیا۔ میں نے وہ اخبار سنبھال لیا۔ برسوں تک وہ اخبار میرے پاس محفوظ رہا۔ مگر سیاہ بختی کہ ایک حادثے کے باعث وہ اثاثہ میرے سے چھن گیا۔ ایک ہی اخبار میں لکھنے کے باوجود کبھی میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ادبی محفلوں میں بے شمار دفعہ ان کو دیکھا ان کی گفتگو سنی مگر کبھی بھی ان سے بات نہیں کی۔ ایک عجیب سا سحر تھا ان کی شخصیت میں۔ وہ تہذیب کے آدمی تھے ایک دن میں نے مسعود اشعر صاحب سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ مسعود اشعر ایک باکمال افسانہ نگار، صحافی اور صاحب علم ہستی ہیں۔ وہ مسکرائے انہوں نے کہا اتوار کی شام ہم لوگ نیرنگ آرٹ گیلری میں جمع ہوتے ہیں۔ وہاں آ جانا ملاقات ہو جائے گی۔ میں مقررہ وقت پر وہاں پہنچا تو ان سے زندگی میں پہلی بار بات چیت کی۔ کیمرے سے ان کی تصویریں اتاری مگر خواہش اور کوشش کے باوجود ان کے ساتھ تصویر نہ اتار سکا۔ اس ملاقات کے چند ماہ بعد حلقہ ارباب ذوق کے الیکشن میں ان سے ملاقات ہوئی تو ان کے ساتھ تصویر اتار کر محفوظ کر لی۔ ذاتی زندگی کے ایک حادثے نے اپنی سینکڑوں کتابوں کے ساتھ اس تصویر کو بھی کھو دیا۔
ڈاکٹر مبشر حسن کے ساتھ بطور محقق ایک کتاب لکھنے کا آغاز کیا تو مجھے ڈاکٹر صاحب نے کہا 1965ءجنگ کے دوران شائع خبروں پر تحقیق کرو۔ وہاں مجھے اس وقت کے امروز اخبار کے مطالعے کے دوران حلقہ ارباب ذوق کے ایک اجلاس کی خبر ملی۔ ہم نے طے کیا اس عہد کے ادیبوں اور صحافیوں سے ملاقات کر کے ان کا انٹرویو کیا جائے۔ میں خالد محبوب صاحب کے ساتھ انتظار حسین صاحب کے گھر گئے۔ یہ ان کے گھر میری پہلی آمد تھی۔ وہ بہت خوش دلی سے ملے اس روز چائے کے ساتھ ان سے طویل گفتگو ہوئی۔ اس دن انتظار صاحب کی شخصیت کھل کر سامنے آئی۔ ان کے لہجے کی مٹھاس آج بھی میرے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ میں نے ان کو اپنے افسانوں کی کتاب پیش کی۔ 1965ءکی جنگ کے دوران کے انہوں نے بے شمار واقعات سنائے۔ میں بہانے سے ان کو 1965ءسے پیچھے 1947ءمیں لے گیا۔ اور ایک ناسلٹجیا تھا جو انتظار صاحب کے وجود پر طاری ہو گیا۔ دہلی بلند شہر ……..وہ ہمیں بھی 1947سے بھی پہلے لے گئے۔ جانے کیوں جی نہیں چاہ رہا تھا ہم لوگ واپس حال میں آ جائیں۔ میں انتظار صاحب کے ناسٹلجیا کے سحر میں جکڑا ہوا بلند شہر کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ مجھے ان کی کہانیاں، ناول سب یاد آ رہے تھے۔
ماضی کا رومان میرے اندر بھی ہے۔ ماضی کے مزاروں پر پھول چڑھانا میری کہانیوں کا بھی موضوع ہے۔ لہٰذا میں بھی اسی بیماری عشق میں مبتلا ہوں۔ ان کے ناول نیا گھر، بستی، آگے سمندر ہے۔ مجھے سب اسی کیفیت میں لکھے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ خیر ملاقات تو ختم ہونی تھی۔ ہمیں واپس حال میں آنا تھا۔ سو آ گئے۔ کئی روز تک ان کی اس ملاقات کا خمار میرے وجود کا حصہ بنا رہا۔ اس کے بعد گاہے بگاہے ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں نے لارنس گارڈن میں صبح جاگنگ کے لیے جانا شروع کیا تو مجھے وہاں اکثر انتظار صاحب چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آتے۔ میں اپنی کسرت چھوڑ کر ان کے پاس سلام کرنے چلا جاتا۔ وہ مسکراتے آپ تو یہاں سے خاصے دور رہتے ہیں، پھر بھی یہاں آتے ہیں۔ میں نے جواب دیا، آپ کے دیدار کی حسرت مجھے یہاں لے کر آتی ہے۔ وہ مسکرائے اور چل دیئے۔
آج وہ ہم میں نہیں ہیں۔ دبستان لاہور خالی ہو گیا ہے۔ کیسے کیسے چاند تھے جو اس شہر کے آسمان پر چمک رہے تھے۔ گذشتہ سال عبداللہ حسین رخصت ہوئے۔ آج انتظار صاحب بھی چلے گئے۔ مگر ان کی تخلیقات ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گی۔ ان کی رخصت کے بعد حکمرانوں کے جاری پیغامات پڑھ کر افسوس ہوا۔ اورنج لائن ٹرین کے نام پر جاری اس شہر کے تاریخی ثقافتی ورثے کو تباہ کرنے کے درپے یہ بے مغز، بے ادب حکمراں کیا جانیں کہ انتظار صاحب کس تہذیب کے آدمی تھے۔ میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو میں وہاں گوتم بدھ کا مجسمہ پڑا دیکھا۔ کاش ان کے گھر کو ثقافتی ورثہ قرار دے کر محفوظ کر لیا جائے۔ اور انتظار صاحب کا بھی ایک ایسا ہی مجسمہ نصب کر دیا جائے۔
مگر یہ توقع ہم کس سے رکھیں۔ ان کمیشن خور حکمرانوں سے تو ہرگز نہیں رکھنی چاہیے۔ دبستان لاہور کے ماتھے کا جھومر اجڑ چکا ہے۔ اب تو انتظار صاحب کو یاد کریں گے تو مسعود اشعر صاحب سے ملنے چلے جائیں گے۔ وقت بدلے گا، آنے والی نسل اس شہر لاہور کو بدلا ہوا دیکھے گی۔ روزنامہ مشرق میں وہ "لاہور نامہ "لکھا کرتے تھے۔ 1965ءکی جنگ کے حوالے سے انہوں نے لکھا۔ جنگ ہو رہی تھی۔ میں پاک ٹی ہاﺅس میں داخل ہوا۔ وہاں ناصر کاظمی بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا انتظار آج میرے بیان پر کالم لکھو۔ میں نے کہا کیا بیان ہے۔ ناصر کاظمی بولے۔ لکھو آج شاعر کا دل اداس ہے۔ انتظار صاحب نے کالم لکھ دیا۔ آج لاہور شہر میں انتظار صاحب نہیں ہیں۔ آج لاہور کا دل ان کے جانے سے اداس ہے۔ اور افسوس کہ اس اداسی کو لاہور نامے میں بیان کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
٭٭
ماخذ:
http://humsub.com.pk/3697/husnain-jamil/
٭٭٭