سانپ ہمیشہ سانپ رہے گا
کسی بھی رنگ کا ہو
کوئی بھی روپ ہو اس کا
حسیں دلکش وہ جتنا ہو
مگر سن لو
’’سپولا‘‘ سانپ کا بیٹا
ہمیشہ سانپ رہتا ہے
٭٭٭
پردیس میں عید
سنو….اے دیس کے لوگو
کہ یہ جو عید کا دن ہے
اگر پردیس میں آئے
نہ خوشیاں پاس ہوتی ہیں
نہ کوئی مسکراتا ہے
خوشی غم سے لپٹتی ہے
اُداسی مسکراتی ہے
سنو….اے دیس کے لوگو
تمھاری یاد آتی ہے
ہمیں پھر یاد آتی ہیں
سہانے دیس کی یادیں
وہ بچپن اور جوانی کے سہانے دن
نہ پوچھو کس طرح سے ہم
گھروں کی بات کرتے اور پھر آنسو چھپاتے ہیں
بجھے دل مسکراتے ہیں
سنو….اے دیس کے لوگو
ہمیں شدت سے بچپن کا زمانہ یاد آتا ہے
ہمیں ماؤں کی میٹھی میٹھی ممتا یاد آتی ہے
ہنساتی ہے رُلاتی ہے
تسلی کے لیے ہم ایک دوجے سے یہ کہتے ہیں
دنوں کی بات ہے ہم بھی وطن کو لوٹ جائیں گے
یقیناً عید اگلی اپنے اپنے گھر منائیں گے
سنو….اے دیس کے لوگو
اگر سچ بات پوچھو تو
گھروں کو
یاد کرنے سے
کوئی فریاد کرنے سے
تھکن سے چور ہونے سے
بہت مجبور ہونے سے
کسی کو کچھ نہیں ملتا
کوئی در بھی نہیں کھُلتا
٭٭٭