ایک نظم
کسی کی آخری ہچکی پہ لکھا تھا
دعا
مرے بچے ابھی اس دیس میں
کچھ اور دن
زندہ رہیں گے
٭٭٭
8 سال بعد
میں مدت بعد آیا تھا
مرے گاوں میں میرے گھر کے دروازے پہ
جو تالا لگا تھا
گلی کی گرد سے مرجھا گیا تھا
مکاں کے باہری دیوار کی کچھ جالیوں میں
مکڑیوں نے گھر بنائے تھے
اسی دیوار پہ بچے گھروں کو لوٹ کر جاتے ہوئے
کچھ لکھ کے جاتے تھے
میں اس تحریر کو پانی سے اکثر دھو کے سوتا تھا
کبھی کچھ پڑھ کے ہنستا تھا
کبھی ناراض ہوتا تھا
مگر وہ لفظ
اب اک دوسرے میں اسطرح پیوست ہیں جیسے
لکیروں کا کوئی گچھا
جہاں تک ہاتھ جاتا تھا انہیں معصوم بچوں کا
وہاں کچھ اور لکھنے کے لیے دیوار پر
کوئی جگہ نہ تھی
وہی کمرے وہی نقشہ وہی ساماں
جنہیں اب کے ہوا کے تیز جھونکوں میں
چھپی کچھ گرد نے دھندلا دیا ہے
کئی سالوں کی بارش نے
ہر اک دیوار پر کچھ سیاہ رنگ کے بد نما سے داغ چھوڑے ہیں
مکاں کی آخری دیوار سے جو سیڑھیاں ہیں
چھت کو جاتی ہیں
مگر ان سیڑھیوں پر
اب گزشتہ سال کے طوفان نے
گاوں کے بوڑھے پیڑ سے لا کر
بہت سی ٹہنیوں اور گھونسلوں کی کرچیوں کو باندھ رکھا ہے
مکاں کی اوپری منزل کو میں نے خود بنایا ہے
وہاں بس ایک کمرہ ہے
جہاں ہم گرمیوں کی بارشوں میں لیٹ جاتے تھے
وگرنہ چھت پہ سوتے تھے
میں جس کمرے میں سوتا تھا
وہاں پر آج بھی بستر لگا ہے
وہی تکیہ، وہی چادر، وہی سلوٹ
جو میں نے آخری کروٹ لیے اس پر بنائی تھی
وہی بادِ صبا کی قید بُو تھی
کہ جس نے مدتوں پہلے مجھے آ کر جگایا تھا
مرے مہمان خانے کے سبھی تکیے اسی ترتیب میں تھے
مگر پردوں کی حالت وہ نہیں تھی
مسلسل دھوپ پڑنے سے دو رنگے ہو چکے تھے
مرے بچپن کی یادیں اور ادھورے خواب سارے
اب مرے آنگن کے کونوں میں چھپے
کچھ اسطرح سے دیکھتے ہیں آج
وہ جیسے نہیں مانوس اب مجھ سے
کہ جیسے حسن کی مورت
کسی اک اجنبی کو دیکھ کر چہرہ چھپاتی ہے
مجھے کچھ یاد پڑتا ہے
کہ میں نے ہجر سے پہلے
مرے بھائی کے بستر کے تلے سکہ چھپایا تھا
وہ سکہ آج بھی اس جا پڑا ہے
٭٭٭