میزان ادب اور ’’ میزان نو ‘‘ ۔۔۔ ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل / ڈاکٹر عشرت ناہید

’’میزان نو‘‘ ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل کی ایسی تصنیف جو اپنے عنوان، جاذب نظر اور معنویت سے پر سر ورق کے بنا پر قاری کو پہلی ہی نظر میں متوجہ کر لیتی ہے۔ سرورق پر مرکز میں ایک ترازو بنا ہوا ہے جس کے دونوں پلڑے متوازن ہیں جو دلیل ہیں اس بات کی کہ اندرون کتاب کے مضامین کو اسی پیمانے کو ملحوظ رکھ کرسمجھا اور سمجھایا گیا ہے۔ در اصل یہ تصنیف فاضل مصنف کے ان تبصروں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے وقتاً فوقتاً اردو شعری و نثری اصناف، چند رسائل کے خاص نمبرات اور ایک دینی کتاب پر کیے ہیں۔ تبصرہ کرتے وقت تبصرے کا فن ان کے پیش نظر رہا ہے جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں :۔

’’ تبصرے میں مبصر کتاب کے مطالعے کے بعد اس کے محاسن و معائب بیان کرتا ہے جس سے قاری کو کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں جس سے قاری کو کسی کتاب کے بارے میں رائے قائم کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے ، در اصل کسی کتاب کے وجود میں آنے کو تخلیق کہا جاتا ہے اور محاسن و معائب کا تعلق تنقیدی عمل سے ہے۔ تبصرے میں کتاب کے مندرجات اور اسلوب بیان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور مواد کے مثبت و منفی پہلوؤں کو اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔ ـ‘‘(میزان نو : ص۔ ۲۶)

مصنف میں تنقیدی شعور بدرجہ اتم موجود ہے جس کی غماز ان کی اس تصنیف سے پہلے کی ادبی کاوشیں بعنوان ’’ ادبی نگینے ‘‘ ( ادبی و معلوماتی مضامین)، ’’ ڈاکٹر شیلا راج کی تاریخی و ادبی خدمات ‘‘ اور ’’ سماجی علوم کی اہمیت، مسائل اور امکانات ‘‘ کے علاوہ وقتاً فوقتاً معیاری رسائل میں شائع ہونے والے تحقیقی و تنقیدی مضامین ہیں۔ اپنے اسی ذوق و شوق کی بنا پر زیر نظر کتاب میں بھی ان اہم کتابوں پر تبصرے اور جائزے نظر آتے ہیں جو عصری لحاظ سے معنویت سے بھر پور ہیں۔

انہی باتوں کے پیش نظر فاضل مصنف نے زیادہ تر ادب کے ان موضوعات جنہیں عصری موضوعات کہا جا سکتا ہے پر شائع ہونے والی تصانیف پر غیر جانبدارانہ انداز سے تعارفی تبصرے لکھے ہیں۔ ۱۹۲ صفحات پر مشتمل زیر نظر تصنیف کو تین حصوں میں منقسم کیا گیا ہے جس کے حصہ اول میں بائیس تبصرے اردو ادب کی مختلف شعری و نثری کتب پر، حصہ دوم میں اردو کے سات مقتدر رسائل کے خاص نمبرات پر اور حصہ سوم میں دینی کتب کے سلسلے میں ایک کتاب پر ہیں۔

ابتدائی صفحات پر مصنف کا مختصر تعارف ہے۔ پیش لفظ پروفیسر مجید بیدار ( سابق صدر شعبہ اردو، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد ) نے رقم کیا ہے ، اس کے بعد حلیم بابر ( صدر بزم کہکشاں، محبوب نگر ) نے مصنف کی شخصیت کی پرتوں کو بے نقاب کرتے ہوئے انہیں ہر دل عزیز علمی و ادبی شخصیت کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ میزان نو کا دیباچہ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم ( چئیرمین بورڈ آف اسٹڈیز اردو اورینٹل جامعہ عثمانیہ حیدرآباد ) نے تحریر کیا ہے وہ مصنف اور ان کی ادبی صلاحیتوں کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’موجودہ مبصروں میں ڈاکٹر عزیز سہیل نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بیسیوں کتابوں پر تبصرے کیے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مصنف اور قاری کے درمیان رشتہ استوار کر سکیں، ان کے بعض تبصرے تعارف کے زمرے میں آتے ہیں اور کچھ تبصروں پر انہوں نے مفصل گفتگو کی ہے۔ وہ روایتوں کے پاسدار ہیں۔ مثبت سوچ و فکر کے علمبردار ہیں سچ کہا جائے تو ڈاکٹر سہیل نے تاثراتی تبصرہ نگاری کو فروغ دیا ہے۔ ‘‘(میزان نو : ص۔ ۱۹)

تبصروں سے پہلے ’’تبصرہ نگاری کا فن ‘‘ مصنف کا وہ اہم مضمون ہے جو اس فن کے معائب و محاسن پر مدلل بحث کرتا ہے۔ جسے مصنف نے تبصروں سے پہلے پیش کر دیا ہے جو اس امر کا ضامن بھی ہے کہ انہوں نے اس فن کے تمامتر اصول و ضوابط سے آشنائی رکھنے کے بعد ہی کے مختلف تصانیف پر خامہ فرسائی کی ہے۔

زیر نظر کتاب کا مطالعہ کرنے پر مصنف ایک اور خوبی کی طرف بھی دھیان مبذول ہوتا ہے کہ انہوں نے حصہ اول میں صرف ان ادیبوں کی تصانیف کو پیش نظر نہیں رکھا ہے جو ادب میں ایک مقام کی حامل ہیں بلکہ ان طلاب کی کتب پر بھی حوصلہ افزا انداز میں تبصرے کیے ہیں جو ابھی ابھی ادب کے منصہ شہود پر وارد ہوئے ہیں۔ ان کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ رفیع الدین ہاشمی کی تبصرے کی اس تعریف پر کھرے اترتے ہیں کہ :

’’تبصرہ مصنف کو حوصلہ بخشتا ہے اور اسے سوچ کے نئے زاویے عطا کرتا ہے اور اسے اپنی تخلیق پر نظر ثانی کا مشورہ دیتا ہے۔ ‘‘      (میزان نو : ص۔ ۲۵)

فاضل مصنف چونکہ تبصرہ نگاری کے فن سے کماحقہ واقف ہیں وہ کسی بھی کتاب پر بات کرتے وقت سخت رویے کے قائل نہیں سادہ انداز بیان اپناتے ہیں اور نہایت سلیقے سے الفاظ کو برتتے ہوئے مدعا بیان کر دیتے ہیں۔ میزان نو کا پہلا تبصرہ اقبال متینؔ کے ناولٹ ’’چراغ تہہ داماں۔ تفہیم و تعبیر۔ ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ مصنف۔ طارق سعید، ہے یہ ناولٹ چونکہ موضوع کے اعتبار سے خاصا متنازعہ رہا ہے اس لیے ڈاکٹر محمد عبدالعزیز اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

’’ چراغ تہہ داماں کی اردو ادب میں ایک علیحدہ پہچان ہے۔ اقبال متین ؔکا یہ ناول اردو ادب میں متنازعہ سمجھا گیا اس کی وجہ ناول کی کہانی   ہے جسے بیشتر ناقدین فحش و عریاں تصور کرتے ہیں لیکن ناول کے فنی تقاضوں کے اعتبار سے اس کا مطالعہ کرنے والے ناقدین کا گروہ اس ناول کا حمایتی بھی ہے جس نے بطور فن اس ناول کا مطالعہ پیش کیا ہے اور اس کا تجزیہ سماجی، نفسیاتی اور اقتصادی انداز میں بھی کیا ہے جو اس ناول کو اردو ادب میں ایک سنگ میل کا درجہ دیتا ہے۔ ‘‘

فاضل مصنف نے تصانیف کے تبصروں میں اس بات کا شعوری طور پر خیال رکھا ہے کہ تصنیف کے ساتھ ساتھ مصنف کا بھی تعارف دیا جائے تاکہ دونوں کا حق برابر ادا ہو۔ ڈاکٹر عابد معز کے انشائیوں کے مجموعے ’’ فارغ البال ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ ڈاکٹر معز کا تعارف کچھ یوں بیان کرتے ہیں :  ’’فارغ البال‘‘ ڈاکٹر عابد معز کی تیرہویں کتاب ہے اور ادبی اعتبار سے ان کی یہ پانچویں تصنیف ہے اس سے پیشتر ’واہ حیدر آباد، یہ نہ تھی ہماری قسمت، عرض کیا ہے ، بات سے بات، کو اردو کے حلقوں میں کامیابی کے ساتھ متعارف کرا چکے ہیں۔ ڈاکٹر معز کی صحت اور تغذیہ سے متعلق تحریریں روزنامہ اعتماد حیدرآباد سے سائنس و طب کے کالم کی صورت میں اردو کے قارئین کو اپنی صحت بہتر بنانے اور اس کی حفاظت سے متعلق معلومات فراہم کر رہی ہیں۔ یہاں یہ بات بیان کرتا چلوں کہ عابد معز کی تحریریں ہندوستان سے باہر بھی پسند کی جاتی ہیں جس سے ان کی بین الاقوامی ادبی شہرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ‘‘      (میزان نو : ص۔ ۵۵)

فاضل مصنف نے تبصرے کے لیے کتاب کا انتخاب کرتے وقت اپنی دانشمندانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور نئے موضوعات کا احاطہ کرنے والی تصانیف پر خصوصی توجہ دی ہے یہ کتابیں موضوعات کے اعتبار سے بھی قابل قدر ہیں ساتھ ہی عصری ادبی تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہیں۔ مثلاً  ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’ سنگ و ثمر ‘، جس کے بیشتر مضامین صحافت اور جدید ٹیکنالوجی پر ہیں اسی طرح محمد مصطفیٰ علی سروری کی تصنیف ’برقی صحافت ‘ جو کہ ٹی۔ وی جرنلزم پر سیر حاصل مواد فراہم کرتی ہے ان کے علاوہ حیدرآباد ’مشاہیر کی نظر میں ‘‘ مصنف ڈاکٹر سیدداؤد اشرف، اردو کی شعری و نثری اصناف ( پروفیسر مجید بیدار )، سایوں بھرا دالان ( یٰسین محمد )، مضامین نو ( ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی )، متاع ادب ( ڈاکٹر ضامن علی حسرتؔ)، دکن کے درخشاں ستارے ( محمد ارشد مبین ظہری ) وغیرہ۔ مصنف نے نئے طلبا اور ریسرچ اسکالرز جن کی کاوشیں اہمیت کی حامل ہیں اور ادب کی مختلف جہتوں کا احاطہ کرتی ہیں ان کی تصانیف پر تعارفی اور تاثراتی تبصرے رقم کر کے ان کی حوصلہ افزائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ان میں شاہانہ مریم کی کاوش ’ ہندوستان کی یونیورسیٹیوں میں اردو تحقیق ‘، ناصر کاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی، (سمیہ تمکین )، بچوں کی کہانیاں اور حقیقت ( عرشیں فردوس )، اردو میں منی افسانہ ( آمنہ آفرین ) وغیرہ ہیں۔

زیر نظر کتاب میں مصنف نے چند اردو رسائل پر مفصل تبصرے کر ان کی اہمیت و افادیت کو واضح کیا ہے۔ جن میں سب سے پہلا تبصرہ سہ ماہی ’ ادب معلیٰ ‘ لاہور ہے ، ظہیر انصاری کی ادارت میں شائع ہونے والے ’’ تحریر نو‘‘ اردو اکیڈمی تلنگانہ کا رسالہ ’ قومی زبان‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح حصہ سوم کے تحت دینی کتاب ’’ دین اسلام ‘‘( محمد عبداللہ ) پر مختصر مگر جامع تاثرات قلمبند کیے ہیں۔

 

مختصراً میزان ادب پر ’ میزان نو‘ کا جائزہ لینے پر اردو ادب کی بہترین تصانیف، ان کے موضوعات، مصنفین کے تعارفات کو پیش کر نے میں اور قاری میں شعر و ادب کا شعور و فہم پیدا کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نظر آتی ہے جس کے لیے نہ صرف مصنف بلکہ اردو ادب بھی بجا طور پر مبارکباد کا مستحق ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے