محترمہ ڈاکٹر عارفہ شہزاد نے اپنی دو سو سے زائد نظموں کے مجموعے کا نام بہت سوچ سمجھ کر ہی رکھا ہو گا کہ اس عنوان کی کئی جہتیں ہیں یہ جملۂ استفہامیہ بھی ہے اور استقراریہ بھی اور اس کی نفسیاتی توجیہہ یہ کہہ کر نہیں پیش کی جا سکتی کہ ہم لوگ ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جسے مردوں کے زیرِ تسلط قرار دیا جاتا ہے۔ کیا فاطمہ جناح سے پہلے بی اماں اور نصرت بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو کا دور بھی میلڈ و می نے ٹیڈ سوسائیٹی کی عورت بھی اسی بے بسی کا اظہار کرتی رہی یا اسے مجبور کیا گیا۔ شاید یہ مذہب کی جکڑ بندی کا شاخسانہ ہو کہ شاعرہ جو کچھ کرنا یا کہنا چاہتی ہو اس کو اظہار یا اقدام میں قدغن کا سامنا محسوس ہو رہا ہو!۔ ۔ ۔
عارفہ شہزاد ایک پڑھی لکھی سمجھ دار بلکہ پڑھنے لکھنے والوں کو بھی بہ طور معلمہ سمجھ بوجھ عطا کرنے والی شخصیت ہیں جن کی اولین تحقیقی کتاب”جد ید اردو شاعری میں کرداری نظمیں ” ہمیں سن دو ہزار گیارہ 2011عیسوی کے رخصت ہوتے موصول ہوئی تھی۔ اس میں نون میم راشد، مجید امجد، جعفر طاہر وغیرہ کی نظمیہ شاعری کا تجزیہ اور مطالعہ بہت عمدہ تحقیقی انداز میں کر کے عارفہ شہزاد نے اپنا ایک تشخص قایم کیا۔
عارفہ شہزاد کی نظموں پر ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب نے لکھا کہ۔
”۔ ان نظموں کا مجموعی پیرایہ کسی نہ کسی شکل میں تانیثیت کے جذبہ اوراحساس کی نہایت لطیف، پر جمال اور پُر کیف تمثالیں بناتا ہے۔ عارفہ کی نظموں میں عصری حساسیت کا آشوب بھی ملتا ہے اور انسانی رشتوں کی خوب صورت تمثالوں کا منظرنامہ بھی نظر آتا ہے۔ ”۔ ۔ اس کے بعد ان نظموں کے بعد جو کچھ وہ سمجھے اسے بھی بیان کر گئے ہیں، خیر یہ اُن کی اپنی ذاتی رائے یا پسند اور واردات ہے۔
”۔ سورج کی دہلیز پہ ما تھا ٹیکا
رنگ چرائے
سات ہی رنگ ملے
جب گھولے
حاصل، ایک سیا ہی
آٹھواں رنگ ہے کور ا”
یہ ‘پیش لفظ ‘ کہیں سے تانیثیت کے جذبے و احساس کی تمثال بنا تا نظر نہیں آتا علم و مشاہدے سے یہ مفروضہ نا معلوم کب قا یم کیا گیا کہ دنیا میں سات براعظم، سات سمندر، سات آسمان الغرض ایک ست رنگی ہے جسے انسانی آنکھیں دیکھتی اور باور کر لیتی ہیں کہ ہاں ایسا ہی ہے !۔ ۔ ۔
سات سمندر پار سے، گڑیوں کے بازار سے چھوٹی سی گُڑیا منگوانے والی چھوٹی سی لڑکی اپنے پاپا کو جلدی سے گھر بلاتی ہے تو ذہن اس مفروضے کو من و عن تسلیم کر لیتا ہے۔
آٹھواں ر نگ ہے کورا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہماری آنکھوں پر جو
ست رنگی دھنک تھی وہ یکا یک بے رنگ ہو گئی
ا ب دید بان سے جو کچھ دیکھا جا رہا ہے وہ کورا ہے۔
”ہر اک پہر کی کیا کہانی سناؤں
فقط ایک لفظوں کا جنگل ہے پھیلا ہوا
اور کہانی کسی شاخ پر بیٹھتی ہی نہیں ہے ”
اگر آپ کہانی سے پوچھو نظم کو تخئیلی کرشماتی کہنے کے بجائے استعاراتی سمجھنا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ۔ ۔ !۔ .۔
”عجب سیڑھی تھی ” نظم میں عارفہ شہزاد نے جست جو اور بالآخر اس سوچ پر نظم کو منتج کیا کہ
ان دیکھے رستوں پر چلنے والے مسافر منزل تک پہنچنے پر جب تھک ہار کر بیٹھتے ہیں تو آغاز و انجام رائیگانی کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ ان ہونی، ان بوجھی پہیلی میں تانیثیت نظر آتی ہے آئیے مجموعے کے عنوان والی نظم دیکھتے ہیں :
” عورت ہوں نا !،
مجھے چاہیے ہیں
تمھاری آنکھیں
زمیں کی کوکھ سے پھوٹتی
سرخوشی کے رنگ دیکھنے کے لیے
اور تمھاری سماعت
بارش میں
قطرۂ نیساں کی آ ہٹ سننے کے لیے
اور تمھارے ہونٹ
سورج کی تمازت کا لمس
جذب کرنے کے لیے
اور تمھارے ہاتھ
ہوا کی ہتھیلی پر
حیرت کی داستاں لکھنے کے لیے
اور مجھے چاہیے ہے
تمھاری ساری محبت
تم سے محبت کرنے کے لیے ! ”
فریق مخالف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے محبوب سے ایسی گزارش کرنے، دل میں ایسی تمنا رکھنے والی کہہ سکتی ہے : عورت ہوں نا !،
تو کیا جو کبھی خوب صورت رہے ہوں گے وہ بھی ایسی ہی خواہشات نہیں رکھتے تھے کہ کوئی ان کو اپنی آنکھوں سے سرخوشی کے رنگ دکھانے والی، قطرۂ نیساں کی آہٹ سنوانے والی، شبنمی گھاس پر چلتے ہوئے سورج کی تمازت کا احساس جذب کرنے والے ہونٹ اور ہوا کی ہتھیلی پر حیرت کی داستاں لکھنے والے ہاتھ اسے بھی ملیں۔ ۔ ۔ ۔ اگر ساری محبت دوسروں سے ہی مستعار لینا ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ خود سپردگی کا رویہ پس پشت ڈال کر حوالگی کی آرزو ہے کوئی اپنا آپ حوالے کر دے اور محبوب سے یہ کہا جا سکے کہ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میرے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بہت ہی ساد ہ پیرایہ تفہیم ہے اس میں نہ لفظوں کا کوئی جنگل ہم دکھا رہے ہیں نہ ہی یہ کہانی کسی شاخ اظہار پر بیٹھنے سے ہچکچا رہی ہے۔
عارفہ شہزاد کے مجموعے کی آخری نظم ”دھڑکا ” خودکش حملوں، دہشت گردی کے حوالے سے ہے ۔ اس کے بعد جو نظمیں ہیں وہ فہمیدہ ریاض، عزیز دوست گل گیتی کے کینسر میں مرنے پر، عبداللہ حسین، نسرین انجم بھٹی، جاوید انور اور ثمینہ راجا کی وفات پر ان کی یادوں کا ایک شخصی تانا بانا ہے جس پر گفتگو نہیں کی جا سکتی البتہ ہمارے عہد کی یہ نظم نگار شخصیات، افسانے و ناول کا بڑا نام ایسے لوگوں پر ضرور کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا چاہیے۔
٭٭٭