علامہ اقبال کی حمایت میں ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

علامہ اقبالؔ شعر و ادب میں ہمالہ پہاڑ کی طرح عظیم الشان ہیں۔ غیر مسطح زمین کے بعض بے حیثیت لنگڑے لولے اُن پر چڑھ دوڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ ایمان کے بعض مدعی علامہ اقبال کے ایمان و اسلام پر سوال اٹھاتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ نے انھیں خدائی فوج دار مقرر کر رکھا ہے؟ یہ اپنے دعویٰ ایمانی کی خیر منائیں! ظاہر ہے دوسرے کے ایمان و اعمال کے تعلق سے کھوج کرنے یا تجسس میں پڑنے کا وہ کیا جواز رکھتے ہیں؟ اقبال پر لعن طعن کرنے والے اور لعنت بھیجنے والے پر لعنت پلٹ کر آئے گی۔ اقبالؔ کو یا کسی کو بھی زانی قرار دینے کے لیے چار عینی گواہ ضروری ہیں۔

علامہ اقبالؔ نے قوم و ملت کی بیداری کے جذبے کے تحت جو کچھ لکھا وہ اردو اور فارسی شعر و ادب کا شاہ کار شمار ہوتا ہے۔ اقبال نے اس میدان میں جو بڑی لکیر کھینچ کر رکھ دی ہے اس کے مقابل کسی مدعیِ سخن کی لکیر اک نقطۂ مو ہوم سے بڑھ کر نہیں۔

علامہ اقبال کے شخصی معاملات کو معرض بحث میں لانے کی کسی کو بھلا کیا ضرورت ہے۔ جیسے

علامہ اقبال کی پیدائش 9۔ نومبر 1877ء پر ادبی دنیا کا اتفاق ہے۔ اگر کوئی 1873ء کو ان کی پیدائش کا سال قرار دیتا ہے تو اس سے اقبال کی بڑائی اور بزرگی ہی ثابت ہو گی۔ علامہ اقبال کی پہلی شادی 1893ء میں کریم بی بی سے ہوئی جن کی عمر اس وقت اُنیس 19 سال بتائی جاتی ہے۔ اگر اُس وقت اقبال سولہ 16 سال کے بجائے بیس 20 سال کے رہے ہوں تو معترض کی کس انا کی تسکین ہوتی ہے؟ اس زمانے میں ماں باپ اپنے بچوں کی شادیاں کم عمری میں اپنے طور پر طے کر دیا کرتے تھے۔ دو بچوں آفتاب اقبال اور معراج بیگم کے باپ بن جانے کے باوجود اقبال اپنی اس پہلی شادی سے مطمئن نہیں تھے، یہ اقبال کا شخصی معاملہ ہے۔ انھوں نے چنانچہ دو شادیاں اور کر لیں۔

بعض لائق لوگ آج اکیسویں صدی میں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اقبال نے اپنی بیویوں کا مہر ادا نہیں کیا!۔ کیا 1893ء، 1913ء اور 1910ء میں شادی کرنے والے اقبال کو ان کی شادیوں کے پچاس سال بعد پیدا ہونے والے ایسے لائق شخص کو گواہ بنا کر مہر ادا کرنا چاہیے تھا۔ معترض نے اپنی بیوی کا کتنا مہر کب ادا کیا؟ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اقبال کی بیویوں کے مہر کی مقدار و ادائی پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ اسلامی فکر کے ایک قد آور دانش ور اور رہنما جنھوں نے جماعتِ اسلامی کی قیادت کی اور بے شمار کتابیں لکھیں۔ ان پر بھی گستاخانہ کلمات کہنا جسارتِ بے جا سے کم نہیں۔ علمی اختلاف کے لیے مہذب طریقہ استدلال چاہیے۔

علامہ اقبال نے ابتدا میں اکبر الہ آبادی کی پیروی میں طنزیہ اسلوب اختیار کیا تھا۔

اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں

نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن

کہتے ہیں اُسی علم کو ارباب نظر موت

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

اور پھر اس دور کی مقبولِ عام شاعری کی اتباع کرتے ہوئے داغ دہلوی کے رنگ میں کچھ دن سرگرداں رہے۔

تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد

مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی

بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا

تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

یا پھر مشہور و معروف ترانۂ ہندی جو بھارت میں قومی ترانے کا درجہ پا گیا۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

اور پھر قومی یک جہتی کا راگ الا پنے والی نظم ’’نیا شوالہ‘‘

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے

تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے

اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا

جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے

یہ سب گوارا مگر جیسے ہی اقبال نے اسلامی فکر کے ذریعے قوم و ملت میں زندگی کی اصلی روح پھونکنے کے لیے پیغمبرانہ اسلوب اختیار کیا، علامہ اقبال سب کی آنکھوں میں کھلنے لگ گئے بانگِ درا، بالِ جبریل، ضرب کلیم، کی نظمیں اور ارمغانِ حجاز کے قطعات ایک اور ہی اقبال سے ملاتے ہیں۔

’’شکوہ‘‘ اور پھر جواب شکوہ کے بند مثال میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مسجدِ قرطبہ، ذوق و شوق جیسی نظمیں یا پھر بال جبریل کی غزلیں ایک منفرد طرزِ فکر کے شاعر سے متعارف کراتی ہیں۔

ممتاز ادیب و شاعر و ناول نگار عزیز احمد نے علامہ اقبال کے فکر و فن کے تین ادوار مقرر کیے ہیں۔

۱۔ وطن پرستی کا دور۔ ہمالہ۔ نیا شوالہ وغیرہ کا دور

۲۔ اسلامی شاعری کا دور۔ 1905 اور 1908ء سے لے کر نظم خضر راہ تک

۳۔ انقلابی شاعری کا دور۔ خضر راہ کے بعد ضرب کلیم و ارمغانِ حجاز کی شاعری۔

عزیز احمد نے علامہ اقبال کے فکر و فن کا جائزہ لے کر اپنی معرکہ آرا کتاب ’’اقبال نئی تشکیل‘‘ میں (جو 1947ء) میں لکھی گئی تھی ایک اہم نکتہ بیان کیا ہے:

’’بے شک اقبال کے یہاں عالم اسلام کے ایک ’’مرکزِ محسوس‘‘ کا بھی ذکر آتا ہے مگر یہ مرکز محسوس اساسی طور پر مذہبی اور تمدنی ہے، سیاسی نہیں۔ یہ عملی سے زیادہ ذہنی ہے۔ یہ مرکز محسوس خانۂ کعبہ ہے‘‘ صفحہ 87۔

علامہ اقبال کی تمام تر فکر اسی خانۂ کعبہ کے گرد طواف کرتی ہے۔ اللہ اور بندے کے تعلق کو استوار کرنا ان کا مشن Mission ہے۔ ایک آیتِ شریف کو اقبال نے نہایت دل نشیں انداز میں برتا ہے۔ پہلے آیت سن لیجئے: قُل اِن کُنتُم تَحِبّون اللہ فَتبعونی یُحبِبکُم اللہ جو لوگ اللہ کی محبت کے دعویدار ہیں ان سے اللہ فرماتا ہے کہ ان سے کہو کہ آپﷺ کی (رسول اللہ) کی اتباع کریں تو اللہ خود اُن سے محبت کرے گا۔ اب اسی زرین اصول کو علامہ اقبال نے شعر میں ڈھال دیا ہے:

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

یعنی منزل وہ آ جاتی ہے کہ اللہ ان کا ہاتھ بن جاتا ہے۔

ہاتھ ہے اللہ کا

بندۂ مومن کا ہاتھ

اور پھر وہ مقبولِ خاص و عام شعر یاد کیجئے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اردو اور فارسی شعر و ادب میں علامہ اقبال سے زیادہ شاید ہی کسی نے اسلامی فکر پیش کی ہو۔ ان زبانوں میں بے شمار مثنویاں لکھی گئیں، کئی قصائد پیش کیے گئے۔ ذ ہنی تسکین اور مالی مفادات کے پیشِ نظر بہت کچھ خامہ فرسائی کی گئی مگر علامہ اقبال نے قوم و ملت میں جذبۂ حرّیت، اور اسلامی حمیت بیدار کرنے کے لیے جو نظمیں کہیں اور اشعار کہے وہ علامہ اقبال کو بلا شبہ اسلامی فکر کا نمائندہ شاعر ثابت کرتے ہیں۔ ایسے بے مثال شاعر کے فکر و فن پر سوال کھڑے کرنا اپنی کج فہمی کے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔

1915ء میں اسرار خودی شائع ہوئی پھر 1917ء میں رموز بے خودی لکھی گئی جو 1918ء میں شائع ہوئی۔ علامہ اقبال بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے فکر و فن کے تعلق سے حتمی انداز میں فرماتے ہیں کہ انھوں نے قرآن کی روشنی میں ہمیشہ اپنی فکر پیش کی ہے۔ وہ بحضور رحمۃ للعالمین کہتے ہیں:

گر دِلم آئینۂ بے جوہر است

در بحرفم غیر قرآں مضمر است

(اگر میں نے قرآن سے ہٹ کر ایک حرف بھی کہا ہو تو میرے دل کا آئینہ بے جوہر بے آب ہو)

پردۂ ناموس فکرم چاک کن

ایں خیاباں را زِ خارم پاک کن

(میری فکر کی عفت و عصمت کا پردہ چاک کر دے اور اس چمن زار سے مجھے کاٹنے کی طرح نکال پھینک)

تنگ کُن رختِ حیات اندر برم اہلِ ملت را نگہدار از شرم

(اس دنیا میں میرا جینا دو بھر کر دے اور میرے شر سے ملت کو محفوظ و مامون کر دے)

سبز کشتِ ما بسامانم مکن بہرہ گیر از ابرِ نیسانم مکن

(میری کھیتی بار آور نہ ہو اور نہ ابرِ نیساں سے مجھے موتی نصیب ہوں)

خشک گرداں بادہ۔ در انگور من زہر ریز اندر مئے کا فورِ من

(میرے انگور بے رس ہو جائیں یا میرے ان انگوروں میں مئے کا فور کی جگہ زہر گھول دے)

روزِ محشر خوار و رسوا کن مَرا

بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا

(حشر کے دن مجھے رسوا و ذلیل کر دے اور پائے اقدس چومنے کی سعادت مجھے نصیب نہ ہو)

اتنی بڑی سو گند کھاتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اگر میری فکر غیر قرآنی ہو تو مجھے دنیا و آخرت میں رسوا کر دے۔ ایسے شاعر کو ہدفِ ملامت بنانا اپنی عاقبت خراب کر لینا ہے۔ اللہ اس جسارت بے جا سے محفوظ رکھے۔

علامہ اقبال کے والد نے اُن سے کہا کہ قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کرو گویا یہ تمھی سے مخاطبِ ہے۔ چنانچہ اقبال کے دیرینہ خادم علی بخش نے بتایا کہ روزانہ کلام مجید کی تلاوت کرتے ہوئے اقبال پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور ان کے آنسوؤں سے مصحف کے صفحات بھیگ جاتے تھے۔ قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے ثواب کے تعلق سے حدیثِ شریف ہے کہ اس کے ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں اور مزید صراحت یہ بھی ہے کہ الف لام میم (الم) یہ محض تین حرف نہیں بلکہ تیس نیکیاں کمانے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح سورۂ بقرہ، سورہ فاتحہ، آل عمران، سورۂ کہف وغیرہ کی تلاوت سے کس قدر نیکیاں حاصل ہوں گی اندازہ کر لیجئے۔ اور پھر ناظرہ کے ساتھ ساتھ تدبر و تفکر کے ساتھ قرآن پڑھنے والے علامہ اقبال کے کلام میں قرآن ہی کے اسلوب اور فکر سے استفادے کی بے شمار مثالیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ ’’اقبال اور قرآن‘‘ کے موضوع پر بہت کچھ لکھا بھی جا چکا ہے۔ اسلاف کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

 

گرتو می خواہی مسلماں زیستن

نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن

اقبال کی قرآن سے وابستگی کی مثال کسی اور شاعر میں بڑی مشکل سے ملے گی۔ ایسے مسلمان شاعر کو بعض لنگڑے لولے برا بھلا کہتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔

جنت و دوزخ کے تعلق سے اقبال نے اپنے انگریزی خطبات پر مشتمل کتاب Reconstruction of religious thought in Islam میں اگر کسی فلسفیانہ خیال کا اظہار کیا بھی تو ممکن ہے اللہ غفور الرحیم فضل خاص سے اپنے مخلص بندے پر جنت کے دروازے کھول کر اس کی حقیقت و حقانیت اقبال پر ظاہر کر دے۔ اللہ کا ہاتھ پکڑ نے والا کون ہے۔ بندے کی خطاؤں کو درگذر کرنے والا اللہ رب العزت اگر اقبال کو بھی اپنی رحمت سے ڈھانک لے تو اس کی رحمت سے کیا بعید ہے۔ ہم تو ہر مسلمان کے لیے عموماً اور اقبال کے لیے خصوصاً دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں دنیا کی طرح آخرت میں بھی اعلیٰ مقامات سے سرفراز فرمائے۔

ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار

٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے