سید زادی ۔۔۔ اعجاز گل

اک خاتون ہمیشہ کالی شال لپیٹے گھر آتی تھی

اس کو دیکھ کے ماں گھبراتی اٹھ کر دوڑتی گر گر جاتی

دھوم مچاتی سیّد زادی آئی ہے

اس کو اپنی کرسی دیتی نیچے بیٹھتی سر اس کے زانو پر رکھتی

اشک لٹاتی سسکیاں بھر بھر کہتی جاتی

میں تیری مقروض ہوں

مجھ پر قرض ادا کرنا لازم ہے

حیرانی میرا حصہ تھی بچّہ تھا کم فہم تھا

بات سمجھنے سے قاصر تھا

کیسا قرض تھا جس کی میری ماں مقروض تھی

بچپن گزرا موسم بیتے شاید دودھ کی ہے تاثیر یا جانے کیا ہے

جب بھی عشرہ محرم کا وارد ہوتا ہے

اونچے کالے علم اٹھائے مجلس کرتا نوحے پڑھتا

سچائی کا سوگ سناتا بازاروں میں ماتم کرتا

معصوموں کے تعزیئے تھامے سرخ شکستہ ہاتھوں پر

تو میں روتا ہوں

آج بھی جب وہ سیّد زادی گھر آتی ہے

ماں اس کے زانو پر سر رکھ کر روتی ہے

میرے بچّے میری طرح کچھ حیران نہیں ہوتے ہیں

ان کو شاید علم ہے اس کا ان کے آباء میں سے کوئی

اس لشکر میں تھا جو وقتِ فیصلا  حرُ کے

پیچھے پیچھے چلنے سے معذور رہا تھا

وہ مقروض ہیں اس ساعت کے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے