خواب گاہ میں ریت [مجموعۂ غزل]مبشر سعید
ناشر:مثال پبلشرز، فیصل آباد، قیمت ۳۰۰ روپے، صفحات :۱۲۸
’’خواب گاہ میں ریت‘‘ دھیمے اور با وقار لہجے کے شاعر انہ جذبات کو لفظی سلیقہ شعاری سے برتنے والے شاعر کا اظہاریہ اچھی، نئی اور پُر تاثیر شاعری کے دل دادگان و آرزو مندوں کے لیے امکانات کی ہمہ جہتی کو سامنے لا رہا ہے اُس کی شاعری کا تعارف کروانے والے پروفیسرڈاکٹرخورشید رضوی جیسے نابغۂ روزگار نے عصری رجحان اور معاشرے میں ادب کی بے توقیری ، فن کاروں خصوصاً تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد کو نظرانداز کیے جانے کے المئیے کو بین السطوربیان کر دیا ہے۔ مبشر سعید کے سینئیر عباس تابش نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مبشر سعید کو تہنیت پیش کی ہے۔ حسن نواز شاہ نے کہا ہے کہ ’’مسلسل جسُتجو اور خوب سے خوب تر کی تلاش(بہ قول خواجہ الطاف حسین حالی: اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں ) اس کو اپنے معاصر نئی نسل کے شعراء سے ممتاز و اہم شاعر کے طور پر ہمارے سامنے لا رہی ہے ‘‘۔ خودمبشر سعید نے ’من خوب می شناسم ‘کے مصداق اپنی ادبی و علمی سرگرمیوں، پنجاب کے ان علاقوں کے احباب کی بابت کچھ کہا ہے جن کا تعلق ملتان و فیصل آباد سے بھی رہا ہے اور بے لاگ و لپٹ اپنا یہ مجموعہ ’اپنا شعری اعمال نامہ :خواب گاہ میں ریت‘ کی شکل میں یہ کہہ کر پیش کر دیا ہے کہ ؎
سُپردم بہ تو ما یۂ خویش را۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ دانی حساب کم و بیش را۔ ۔
یہی ایک بات ہر شاعر کو اپنے کلام کو نذر قارئین و سامعین کرنے کی کسوٹی پر لاتی ہے ورنہ روشِ عام تو وہ بھی رہی ہے کہ مجھ سے پہلے وہ۔ اس کے بعد ہوں میں اور باقی سب کچھ وہی رائگانی ہے جسے منیر نیازی سے لے کر ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے مکرم و محترم دہراتے رہے ہیں۔
جب وہ فرانس میں زیرِ تعلیم تھے تو فیس بک پر اُن سے درونِ خانہ مراسلت و مخاطبت ہم کیا کرتے تھے اور مبشر سعید نے اسی وقت یہ طے کر لیا تھا کہ نیٹ فورم پر چاہے کوئی اُن کی شاعری پر توجہ دے یا نہ دے سپید و سیاہ جو بھی رقم ہوتا رہے گا یا رقم کرنے کی کوشش کی جائے گی اسے ہم تک بھی ضرور پہنچا دیں گے۔
کتاب نہ صرف صوری لحاظ سے کہ ’مثال پبلشرز‘ کی مطبوعات سے ہمیں محمد حامد سراج جیسے کتاب دوست، سخن فہم، کہانی کار متعارف کرواتے رہے، حسب معمول نہایت عمدہ ہے بلکہ اس میں جو کچھ شاعری کی صورت یا اس کے تعارف، پیش منظر و پس منظر کے طور پر موجود ہے وہ بھی لایق مطالعہ اور قابل ستایش ہے۔
معروف اردو شاعر و نقاد محمد علویؔ نے جو رائے دی ہے کہ ’’ اب تک جو کہا جا چکا ہے مبشر اس سے آگے کی بات کہنے کی کوشش کر رہا ہے ورنہ لوگ ہیں کہ ابھی تک وہی پرانے مضامین دہرا رہے ہیں۔ اگر اس نے اسی طور محنت اور مطالعہ جاری رکھا تو بہت جلد وہ اپنی الگ پہچان بنا لے گا‘ ایسے ہی فقرے ۱۹۹۰ء میں جوگندر پالؔ نے ہمارے مجموعے ’انتظار کے پودے ‘پر لکھے تھے کہ ’’انہوں نے اگر اپنے ریاض کے اسباب میں خلل واقع نہ ہونے دیا تو اپنی اس بڑی پکّی بنیاد پر ہوتے ہوتے وہ یقیناً ایک بڑا خوش نما سکائی سکریپر کھڑا کر لیں گے ‘‘۔ اتفاق سے دونوں کا تعلق پڑوسی ملک بھارت سے ہے اور دونوں ہی اس عہد کے جانے مانے اہل قلم ہیں جن کی رائے کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں ہمیں اپنی شاعری یا اس کی بابت کوئی بات نہیں کہنی صرف ذہنی ہم آہنگی کی ایک مثال اس شعری مجموعے ’خواب گاہ میں ریت‘ کے مطالعے کے ضمن میں پیش کرنا ہے
جسے مثال پبلشرز، فیصل آباد نے شایع کیا اور شاعر نے ہمیں عنایت کیا ہے۔
؎پیش منظر کو حسیں کرتے ثمر بار درخت
کون ہاتھوں کی مہارت سے یہ بوئے ہوئے ہیں ؟
’کون ہاتھوں ‘ مراد کس یا کن کسانوں نے ان کی شجر کاری کی کہ بالآخر ان کی ریاضت کا ثمر درختوں پر نظر آ رہا ہے۔ زبان و بیان کا یہ انداز دبستان دہلی کی شاعری میں نظر آتا ہے اوراس دبستان کے دو جینوئن میرؔ و غالبؔ کی بھلا کون سا شاعر پیروی یا تقلید کرنے سے بچ سکا ہے۔ مگر یہ لفظی برتاؤ خالص دہلی کا نہیں اطراف و اکناف کی سرزمینوں کے سخن سراؤں کے ہاں بھی مل سکتا ہے ؎
منظر وہ مری آنکھ سے جاتا ہی نہیں ہے
اِک روز دریچے سے میں جھانکا، اُسے دیکھا
’میں جھانکا‘ کیا وہی ’تاکنا جھانکنا کبھو نہ گیا‘ والی کیفیت کی غمازی کرتا نظر نہیں آتا! پھر پیش منظر سے منظر تک آنا اور وہ بھی ایسا کہ آنکھ نے اسے محصور کیا ہوا ہو؟
تجھ کو معلوم ہے درویش نگاہوں والی
ہم تری دید کو ملتان سے آئے ہوئے ہیں
لیجیے جناب محبوبہ بھی ملی تو اس کی نگاہوں سے درویشی عیاں تھی۔ خیر ہم بھی اولیاء کے شہر ملتان کے باسی ہیں جتا دیتے ہیں کہ جغرافیائی طور پر ہمارا شہر بھی چار چیزوں کی نسبت تحفۂ ملتان قرار دیتا ہے۔ البتہ یہاں قاری کے علم میں اس سے زیادہ کوئی اضافہ نہ ہو سکا نہ یہ پتا چل سکا کہ وہ گرد و گرما، گدا و گورستان والے ملتان تک پہنچی یا شاعر اس کی پوشاک کے رنگوں سے چُرائے ہوئے رنگ کو سنبھالتا واپس اپنے گراں پہنچ گیا جہاں سے اس کو فیصل آباد یہ کہتے ہوئے جانا پڑ گیا کہ تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے۔
درویش دل، درویش نگاہیں، مرشد جیسے الفاظ مبشر سعید نے رسماً نہیں التزاماً برتے ہیں کہ شاعر اگر قنوطیت کا شکار نہ ہو تو تصوف میں پناہ ضرور ڈھونڈتا ہے کہ وہ اپنے سامنے جیتے جاگتے انسانوں کو لقمۂ اجل بنتا دیکھ کر مخمصے میں پڑ جاتا ہے کہ حیات اتنی مختصر کیوں ہے اور موت ہر وقت زندگی کے تعاقب میں کیوں رہتی ہے۔
مبشر سعید ؔکو معاصر شاعروں سے الگ منفرد لہجے یا اسلوب کا شاعر کہہ دینا وقت سے پہلے یا چھوٹا منھ بڑی بات ہو کہ ناں ہو ہم خواجہ الطاف حسین حالی کی بات دہرائے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ’’ غزل کا ہر شعر اگلے یا پچھلے شعر کا تسلسل نہیں ہوتا‘‘۔ مضامین کی نوعیت، قوافی و ردیف کی جکڑ بندی شاعر کو اظہار کی راہ میں مسلسل آزمایش میں رکھتے ہیں۔ آپ جب’ خواب گاہ میں ریت ‘کا مطالعہ دل جمعی و دل چسپی سے کریں گے تو یقیناً ایک نئی آواز اور قدرے دھیمے لہجے کی شاعری آپ کے سامنے آتی رہے گی اور محمد علویؔ صاحب کی رائے پر آپ صاد کریں گے۔
مثال پبلشرز، فیصل آباد کی یہ پیش کش صوری و معنوی ہر دو لحاظ سے ایک عمدہ مجموعے کی صورت ہمیں شاعر کی عنایت سے موصول ہوئی ہے تفصیلی مطالعے کی متقاضی اس شاعری پر آیندہ بھی کچھ اظہارِ خیال کیا جا سکتا ہے۔ مبشر سعید کو تہنیت کے ساتھ دعائیں بھی کہ
ع ؎اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
٭٭٭