دل جو یادِ حرا جِیا ہی نہیں
آشنائے خدا ہوا ہی نہیں
جس کی خاطر یہ کائنات بنی
کون سی شے پہ اُسؐ کی شاہی نہیں
دیکھ لہجہ لبِ رسالت کا
مامتائی ہے انتباہی نہیں
اُن لبوں نے نہ جس پہ جُنبش کی
وہ سمجھ مرضیِ خدا ہی نہیں
جانے کیا درد مندیاں اُسؐ کی
آنکھ رستے جو دل بہا ہی نہیں
جس کو سیرت نہ ہو سکی ازبر
اس پہ قرآں کبھی کھلا ہی نہیں
ایسا صاحب جنوں بھی کیا معنی
اُسؐ کے لشکر کا جو سپاہی نہیں
طائف و بدر کی گواہی ہے
اس کی تعلیم خانقاہی نہیں
اُس درِ خیرِ تام پر عالی
مانگنے کی کوئی مناہی نہیں
٭٭٭