اسلوبیاتی تنقید : نظری بنیادیں اور تجزیے۔ ۔ ۔ ڈاکٹر عبدالعزیز خاں

____ ایک مطالعہ

 

بیسویں صدی کے نصفِ دوم میں مغرب میں ادبی تنقید کے جو نئے میلانات و رجحانات اور رویےّ سامنے آئے ان میں ’اسلوبیات‘ (Stylistics) یا اسلوبیاتی تنقید کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کا آغاز پروفیسر مسعود حسین خاں (1919-2010) کے اسلوبیاتی مضامین سے، ایک نئے دبستانِ تنقید کے طور پر، 1960ء کی دہائی سے ہوتا ہے۔ اسی لیے انھیں اسلوبیاتی تنقید کا بنیاد گزار کہا گیا ہے۔ مسعود صاحب ہی سے تحریک پا کر پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ نے 1970ء کی دہائی سے اسلوبیاتی نوعیت کے مضامین لکھنا شروع کیے۔ اس اندازِ نقد کو انھوں نے اپنی علمی دل چسپی کا خاص میدان قرار دیا، اور اس موضوع پر مسلسل لکھتے رہے۔ چنانچہ گذشتہ چالیس سال کے عرصے میں اسلوبیاتی نظریۂ تنقید پر یکے بعد دیگرے انھوں نے بے شمار مضامین لکھے اور اسلوبیاتی تجزیے پیش کیے جن کا انتخاب ’اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے‘ کے نام سے حال ہی میں قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی سے شائع ہوا ہے۔

اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ اسلوبیاتی تنقید کا لسانیات سے بہت گہرا رشتہ ہے، کیوں کہ اس میں لسانیاتی طریقِ کار کو اختیار کیا جاتا ہے جو معروضی، تجزیاتی اور توضیحی ہے۔ پروفیسر بیگ چوں کہ ادب کا ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ لسانیات کے بھی ماہر ہیں، اس لیے انھوں نے اسلوبیاتی تنقید کو اپنی نگارشات کے توسط سے بامِ عروج تک پہنچا دیا ہے جس سے انھیں اسلوبیاتی نقاد کی حیثیت سے علمی دنیا میں ایک وقار حاصل ہوا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید صحیح معنیٰ میں لسانیاتی مطالعۂ ادب ہے جس میں کسی ادبی متن (Text) کے لسانیاتی تجزیہ و توضیح کے بعد اس کے ’اسلوبی خصائص‘(Style-features) کو نشان زد کیا جاتا ہے جس سے اس متن کی انفرادیت کا پتا چل جاتا ہے۔ ایک متن کو دوسرے متن سے اسلوب ہی کی بنیاد پر ممتاز و ممیز قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلوبیاتی تنقید میں وجدان سے کام نہیں لیا جاتا اور نہ ہی اقداری فیصلے کیے جاتے ہیں۔ مصنف کے سوانحی کوائف یا خارجی عوامل سے بھی کوئی بحث نہیں کی جاتی ہے۔ اسلوبیاتی نقاد صرف متن کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا ہے اور اسی کے تجزیہ و توضیح سے نتائج مرتب کرتا ہے۔ پروفیسر بیگ کی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اسلوبیاتی تنقید اپنے مزاج کے اعتبار سے معروضی، تجزیاتی اور توضیحی ہے، روایتی ادبی تنقید کی طرح داخلی، تاثراتی اور تشریحی نہیں۔

زیرِ نظر کتاب میں 31مضامین شامل ہیں جو پانچ سوصفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ شروع کے چار مضامین میں ادب اور لسانیات کے باہمی رشتوں، ادب میں زبان کے تفاعل، ادبی تنقید کے لسانی مضمرات اور اسلوبیاتی تنقید کی افہام و تفہیم سے بحث کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں پانچ مضامین شامل کیے گئے ہیں جن میں نظریۂ اسلوب اور ’اسلوب ‘ (Style) کی مختلف تعریفوں سے بحث کی گئی ہے، نیز اس امر کی بھی صراحت کی گئی ہے کہ کسی مصنف کے یہاں اسلوب کس طرح تشکیل پذیر ہوتا ہے اور اس کا توضیحی مطالعہ و تجزیہ کس طرح سر انجام پاتا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کی مبادیات سے بحث کرتے ہوئے بیگ صاحب کہتے ہیں کہ اسلوبیاتی تنقید کا بنیادی تصور ’اسلوب‘ (Style) ہے اور اس کی تشکیل ادب میں زبان کے مخصوص و منفرد استعمال سے ہوتی ہے جس میں لسانی معمول (Norm) سے انحراف بھی شامل ہے۔

کتاب کے تیسرے حصے "اسلوبیاتی نظریہ ساز” میں چار مضامین شامل ہیں جن میں بعض ممتاز ماہرینِ اسلوبیات کے نظریوں سے بحث کی گئی ہے اور ان کے اسلوبیاتی تجزیوں کے نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنے مضمون "مغرب کے چند اسلوبیاتی نظریہ ساز” میں نلزایر ک انکوسٹ (Nils Erik Enkvist)، ڈیل ہائمز (Dell Hymes)، رولاں ویلز (Rulon Wells) اور جیوفری لیچ (Geoffrey Leech) کے اسلوبیاتی نظریات اور طریقِ کار سے بحث کی ہے اور ان کے اسلوبیاتی تجزیوں کے نمونے پیش کیے ہیں۔ اردو کے حوالے سے بیگ صاحب نے مسعود حسین خاں، گوپی چند نارنگ اور مغنی تبسم کے اسلوبیاتی تجزیوں کا مطالعہ پیش کیا ہے اور اسلوبیاتی تنقید کے بارے میں ان کے نظریات سے بحث کی ہے۔ مسعود حسین خاں کو انھوں نے بجا طور پر "اسلوبیاتی تنقید کا بنیاد گزار ” کہا ہے، کیوں کہ اردو میں اسلوبیات کا آغاز مسعود حسین خاں ہی کی تحریروں سے ہوتا ہے۔ انھوں نے ہی 1960ء میں امریکہ سے واپسی کے بعد اردو میں اسلوبیات کو متعارف کرایا اور اس کے اصول اور طریقِ کار پر روشنی ڈالی اور نثری و شعری متون کے تجزیے پیش کیے۔

پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنی مذکورہ کتاب کے چوتھے اور پانچویں حصے میں اسلوبیاتی تجزیے پیش کیے ہیں جن میں نثری تجزیے بھی شامل ہیں اور شعری تخلیقات کے تجزیے بھی۔ نثری تجزیوں میں ابوالکلام آزاد، نیاز فتح پوری، رشید احمد صدیقی، ذاکر حسین اور راجندر سنگھ بیدی کی نگارشات کے تجزیے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح بیگ صاحب نے اکبر الہٰ آبادی، اقبال، فیض احمد فیض اور اختر انصاری کے کلام کے جو اسلوبیاتی تجزیے پیش کیے ہیں وہ بھی نہایت دل چسپ ہیں۔ ان تجزیوں سے ان شعرا کے کلام کے اسلوبی خصائص کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ نثری و شعری متون کے اسلوبیاتی تجزیے لسانیات کی مختلف سطحوں پر کیے جاتے ہیں جن میں صوتی، صرفی، نحوی اور معنیاتی سطحیں شامل ہیں۔ بیگ صاحب نے لسانیات کی ان تمام سطحوں پر اردو شعرو ادب کے اسلوبیاتی تجزیے پیش کیے ہیں۔

زیرِ نظر کتاب کا چھٹا اور آخری حصہ موسوم بہ "ادبی اسلوبیات” ہے جس میں لسانیاتی اسلوبیات سے قطع نظر ادبی اسلوبیات سے بحث کی گئی ہے۔ اس میں تین مضامین شامل ہیں۔ ’اسلوب‘(Style) جسے ہم سادہ لفظوں میں ’طرزِ بیان‘ کہہ سکتے ہیں لسانیات کی ایک اصطلاح ہے، لیکن یہ ایک ادبی اصطلاح بھی ہے۔ اسلوب کا ہی مطالعہ ’اسلوبیات‘ کہلاتا ہے۔ کسی ادبی فن پارے کے اسلوب (یا طرزِ بیان) کا مطالعہ جب ادبی نقطۂ نظر سے کیا جاتا ہے تو ادبی اسلوبیات کہلاتا ہے۔ ادبی اسلوبیات میں علاوہ اور باتوں کے لسانی مطالعہ (لسانیاتی مطالعہ نہیں !)بھی شامل ہوتا ہے۔ لیکن جب کسی ادبی فن پارے کے اسلوب کا مطالعہ خالص لسانیاتی اور سائنسی نقطۂ نظر سے کیا جاتا ہے تو اسلوبیاتی نقاد کی توجہ صرف اس فن پارے میں زبان کے استعمال پر مرکوز ہوتی ہے جس کا تجزیہ وہ لسانیات کی مختلف سطحوں پر لسانیاتی طریقِ کار کو بروئے عمل لاتے ہوئے کرتا ہے۔ چنانچہ اس نوع کے مطالعے کو ادبی اسلوبیات سے ممیز کرنے کے لیے لسانیاتی اسلوبیات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ لسانیاتی اسلوبیات کو اکثر صرف ’اسلوبیات‘ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ ادبی اسلوبیات کے تحت جو تین مضامین شامل کیے گئے ہیں ان کے نام ہیں، 1) "غالب – ایک سادہ بیان شاعر "، 2) "شبلی کا تصورِ لفظ و معنی : ’شعرالعجم‘ کے حوالے سے "، اور 3) "فراق گورکھپوری کی سنگار رس کی شاعری : ’روپ ‘ کی رباعیوں کا تجزیاتی مطالعہ "۔

نئی ادبی تھیوری کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ اس کے اطلاقی نمونوں کا فقدان ہے۔ لیکن اسلوبیات کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ ہر اسلوبیاتی نقاد نے نظریہ سازی کے ساتھ ساتھ اس کے اطلاقی نمونے اور تجزیے بھی پیش کیے ہیں۔ مرزا خلیل احمد بیگ کے یہاں بھی اطلاقی نمونوں اور تجزیوں کی کمی نہیں ہے۔ انھوں نے رشید احمد صدیقی کی نثر کا مرکباتِ عطفی کے حوالے سے نہایت دل چسپ تجزیہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح بیدی کی زبان کے تجزیے کے سلسلے میں بیدی کے لغوی نظام کی انھوں نے تین سطحیں قائم کی ہیں    — طبقاتی، تہذیبی اور سیاقی۔ معنوی اعتبار سے الفاظ کی یہ تینوں سطحیں نہ صرف باہم مربوط ہیں بلکہ حجم کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے پر فوقیت رکھتی ہیں۔ بیدی کے افسانوی کردار چوں کہ سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے طبقاتی الفاظ کی ان کے یہاں کثرت ہے۔ لیکن طبقاتی الفاظ سے زیادہ انھوں نے تہذیبی الفاظ استعمال کیے ہیں، اور اس سے کہیں زیادہ ان کے یہاں سیاقی الفاظ کا استعمال پایا جاتا ہے۔ نیاز فتح پوری کی نثر کے اسلوبی خصائص بیگ صاحب نے لسانیات کی ہر سطح پر نشان زد کیے ہیں جس سے ان کی خوب صورت نثر کی تحسین شناسی میں بڑی مدد ملتی ہے۔

شاعری کے ضمن میں بھی پروفیسر بیگ کے اسلوبیاتی تجزیے لائقِ ستائش ہیں۔ انھوں نے اقبال کی نظم "ایک شام (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر)” کا صوتیاتی سطح پر تجزیہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ اس نظم میں صوت و معنی (Sound and Sense) کس طرح ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے فیض کی غزلوں کے بعض اشعار کے دونوں مصرعوں کے درمیان پائے جانے والے قواعدی اور معیناتی ربط و اتصال (Linkage) کا بھی نہایت خوب صورت تجزیہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے اختر انصاری کی ایک طویل نظم "وقت کی بانہوں میں ” کے قوافی و ردیف کے صوتی آہنگ کا بھی تجزیہ کیا ہے جو بے حد دل چسپ ہے۔ اپنے ایک مضمون "معاصر اردو افسانہ: زبان اور اسلوب ” میں مرزا خلیل احمد بیگ نے ہم عصر افسانہ نگاروں مثلاً سلام بن رزاق، سید محمد اشرف، عبدالصمد، غضنفر، طارق چھتاری، بیگ احساس، شوکت حیات، ابن کنول، نجمہ محمود، یٰسین احمد، ترنم ریاض اور معین الدین جنا بڑے کی تخلیقات کی زبان اور اسالیب کا بڑی دقتِ نظر کے ساتھ جائزہ پیش کیا ہے۔ اس طرح بیگ صاحب نے زیرِ نظر کتاب میں اسلوبیاتی تنقید کی نظری بنیادیں (Theoretical Foundations) فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اطلاقی نمونے اور تجزیے بھی کثیر تعداد میں پیش کیے ہیں۔

ادب کے مطالعے میں لسانیات کے اطلاق کی جو روایت پر وفیسر مسعود حسین خاں نے نصف صدی قبل قائم کی تھی اور جسے پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر مغنی تبسم نے آگے بڑھایا تھا، زیرِ نظر کتاب اسی کا تسلسل ہے۔ پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اس روایت کو وسعت دی اور اس نوع کے ادبی مطالعے اور تجزیے کے نئے امکانات تلاش کیے جس سے اسلوبیاتی تنقید نئے جہات و ابعاد سے روشناس ہوئی۔ موصوف کا یہ گراں قدر علمی کارنامہ یقیناً لائقِ ستائش و مبارک باد ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے