برائے کہانی :ایک ناگزیر فتویٰ ۔۔۔ احمد ہمیش

 

آج کہانی وسعتِ موضوع کی اُس نہج پر آ پہنچی ہے کہ اب اُس کے سامنے ایک پورا نظامِ وسعت ہے مگر اس میں لے جانے والا کہانی کار ہی اس کبریائی کا اکابر ہو گا۔ جب کہ وہ بیشتر کہانی کار جو ایک عمر گزار کے بہ وجوہ ایک مثالی کہانی خلق نہ کر سکے، اُنہیں چاہئیے کہ وہ کسی گوشہ میں بیٹھ کے ﷲ ﷲ کریں۔ اس طرح اب تک کہانی کے نقاد ہزاروں سال کے زمانوی تسلسل میں کسی مثالی کہانی اور اُس کے نظام کی بازیافت نہ کر سکے اُنہیں چاہئیے کہ وہ آئندہ ایک لفظ بھی کہانی کی تنقید لکھنے کے نام پر لکھنے سے توبہ کر لیں۔

کہانی جو بہرحال کہانی ہے، اُسے اب اس طرح دیکھنا اور اس کے بارے میں اس طرح جاننا ہو گا کہ اُس کا ازلی و ابدی مقدر نمایاں اور واضح ہو سکے۔ اس کے لئے سب سے پہلے تو یہ جان لیا جائے کہ کہانی کا ماخذ کتھا ہے اور کتھا وہ جو دراوڑ تمدن کی دیو مالا کے لگ بھگ سات آٹھ ہزار سال اور بعد اس کے آریائی تمدن کی دیومالا کے چار پانچ ہزار سال سے بیان ہوتی آئی تھی۔ اس کے مساوی و مترادف داستان، قصہ و فسانہ کے ماخذ تھے: چین، مصر، بابل و نینوا، ایران اور ثمر قند و بخارا کے غیر متعین قدیم تمدن۔ یہاں تک کہ یونان اور روم کے ذیلی تمدن بھی۔ یا قیاس کی سطح پر قصص النبیاء سے تصورِ وقت کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر کتھا، کہانی، داستان اور قصہ و فسانہ کو تصورِ لا وقت کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گویا سب کچھ غیر متعین قدیم ماضی سے بیان ہوتا چلا آیا تھا۔ سوال یہ نہیں کہ تمام بیان کئے ہوئے بھوج پتر، درختوں کی چھالوں اور پتھر کی تختیوں پر نقش کیا گیا یا کاغذ اور پریس کی ایجاد کا انتظار کیا گیا۔ البتہ اپنی آسانی کے لئے داستان، قصہ و فسانہ کا ترجمہ مغربی زبان میں کیا گیا فکشن (FICTION)۔ جب کہ لفظ فکشن (FICTION) یورپ کے تاریک دور کے خاتمہ کے بعد ہی سماعت و بصیرت میں آیا۔ مگر بڑی سے بڑی مستند ڈکشنری میں FICTION، کے مفہوم کو فرضی قصہ FABLE سے مختلف درج نہیں کیا گیا۔ تاہم ابھی اس بحث نہ پڑ کے ہم کتھا، کہانی، داستان اور قصہ و فسانہ کی تفہیم کا رخ کرتے ہیں۔

جیسا کہ کتھا سے ماخوذ کہانی کا غیر متعین قدیم بیانیہ بیشتر وید اور اُس سے منسلک آریائی دیومالا کے محیر القول بلکہ انسانی دانش سے بالکل عاری مگر منقش اور کندہ تحریری اثاثہ سے چلا آتا تھا۔ اسی لئے اُسے محض تخیلی تصور کیا گیا۔ مگر جب انسانی تاریخ میں پہلی بار گوتم بدھ سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ اوتار ہیں! تو جواب میں و ہ یوں بولے کہ نہیں اوتار نہیں، وہ تو جاگے ہوئے انسان ہیں۔ دراصل یہی تو اُن کا نِروان تھا۔ اور اس کی رُو سے سارناتھ میں برہمنوں کو مخاطب کیا تو ابتدائی مرحلہ میں اُنہوں نے وید اپنشد اور اُن سے منسلک شمالی آریائی دیوی، دیوتاؤں کی دیو مالا کو بالکل رد کر دیا اور خود سے سوال کیا کہ ’’میں کون ہوں‘‘؟ پھر اپنے پرداہان شیشیہ (چیلے) آنند سے سوال اور جواب کے دائرہ میں ہی جاتک کتھاؤں کا اجرا کیا۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ ’’سچ کیا ہے‘‘؟ تو جواب میں میں وہ بولے ’’میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ سچ کیا ہے، پر یہ بتا سکتا ہوں کہ سچ کیا نہیں ہے‘‘! اب یہاں کوئی مانے یا نہ مانے مگر اس ’’سچ کیا نہیں ہے‘‘ سے حر ف و لفظ کی سطح پر ایک عظیم انقلاب تو یہ برپا ہوا کہ کتھا، کہانی داستان، قصہ و فسانہ اور فکشن کے بیانیہ میں فکر و فلسفہ در آیا۔ اس سے قطع نظر کہ ہندوستان میں برہمن کے شر یا اُس کے زہریلے ذہن نے نہ تو بدھ مت کو پنپنے دیا اور نہ ہی ’’سچ کیا نہیں ہے‘‘ کو خاطر میں لایا۔

تاہم گو تم بدھ سچ کے گیان کے با وصف کہانی کو سچ کے قریب لانے والے نظام کے بانی تھے۔ اُن کے ’’جاگے ہوئے انسان‘‘ کا اجرا عالمگیر پیمانہ پر ہوا۔ اس طرح کہ یونانی تصورِ تقدیر (DESTINY) نے فلسفہ میں پناہ لی۔ کیتھولک عیسائیت کی مانیسٹری یا ایک طرح سے مسیحیت کے قید خانہ کی نگراں جو الوہیت تھی، اُس کے خلاف پروسٹینٹ کی انقلابی تحریک مسیحیت کو آزاد فضا میں لے آئی۔ پھر طلوعِ اسلام کے ابتدائی مرحلہ میں آں حضرتﷺ نے جو بت شکنی کی تھی، اُس کے پس منظر میں بھی گوتم بدھ کا ایک فرمان کار فرما تھا کہ اُنہوں نے اپنی مورتی پو جا سے اپنے ماننے والوں کو منع کیا تھا۔ خیال رہے کہ اُن کے جاننے والوں نے اُن کی مورتی پوجا تو نہیں کی مگر تہذیبی سطح پر اُن کے بے شمار مجسّمے بنائے گئے۔ یعنی مورتی پو جا اور مجسّمہ سازی میں فرق کی تفہیم تہذیبی تھی۔۔ خلاف اس کے اگر غور کیا جائے تو مسلمانوں میں جو ملوکیت در آئی وہ اپنی ہیئت میں بت پرستی تھی۔

اس کی عدم تفہیم نے انسانی تاریخ کے سچ کو انسان کے قریب آنے نہیں دیا۔ یعنی انسانی تاریخ کے سچ کو انسان کی کہانی میں آنے سے روکا۔ کیتھولک عیسائیت کی الوہیت کی طرز پر مسلمان سلاطین نے رہبانیت کی آڑ لی تو تاریخ کے جھوٹ کو برائے تحفظات استعمال کیا۔ سوائے اس کے کہ واقعہ کربلا کے بعد کائنات میں انسان کی مرکزیت پر غور کیا جانے لگا۔ سو، ابنِ عربی نے ’’خدا مرکز‘‘ کی بجائے انسان مرکز کی فلسفیانہ تحریک سے گوتم بدھ کے ’’جاگے ہوئے انسان‘‘ کا نئے سرے سے اجرا کیا۔ رہا یہ کہ ابنِ عربی کے اتباع میں دانتے نے جس جہنم کا نقشہ دکھایا، وہ تو اُس سے بہت پہلے خلیفہ ہارون رشید کی ملوکیت کے باوجود اُس کی سرپرستی میں ہی جو دار الترجمہ قائم تھا، اُس میں سنسکرت، عبرانی، عربی اور پہلوی فارسی سے تراجم اور تالیف کا نیک کام پوری لگن سے ہو رہا تھا۔ جب کہ اس میں خلیفہ ہارون رشید بالکل حارج یا حائل نہیں ہوتا تھا۔ اس کے نتیجہ میں انسانی تاریخ کی اوّل داستان ’’الف لیلیٰ‘‘ تصنیف کی گئی۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ اس تصنیف کے اصل مصنف کا پتہ تو نہیں چلا تاہم اگر کئی لکھنے والوں نے اپنے نام نہ ظاہر کر کے ملی جُلی کاوش سے یہ بڑا کام انجام دیا تو یہ بے شک ایک عظیم کارنامہ تھا۔ داستان’’الف لیلیٰ‘‘ میں محیر العقول واقعات کے بیان میں ہی شامل انسانی معاشرت اور انسانی نفسیات پر مشتمل ’’سند باد جہازی‘‘ اور ’’پیر تسمہ پا‘‘ کے لافانی کردار کہانی کے قاری کو آج بھی کیوں متوجہ کرتے ہیں! اس لئے کہ ’سند باد جہازی‘ کے کردار نے مہم جوئی میں نامعلوم خدشات و خطرات کا جرات مندانہ مقابلہ کرنے غیر معمولی مدافعت اور طاقت سے انسان کو آگاہ کیا۔ مہم جوئی کے اس علامتی کردار نے پیر تسمہ پا کی فریبی ہیئت کے دھوکے میں آنے کے باوجود اس کی ہلاکت انگیز مکاری اور خباثت سے اُسی کے انداز سے مقابلہ کیا اور نجات پائی اور بنی نوع انسان کو رہتی دنیا تک مکار، خبیث اور مہلک کرداروں سے محتاط رہنے کی آگہی بخشی۔ یہ ایک طرح سے گوتم بدھ کے ’’جاگے ہوئے انسان‘‘ کی بشارت تھی۔۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ جہاں شہزادے کو چوتھی کھونٹ جانے سے باز رکھنے یا غولِ بیابانی کی آواز سن کے پیچھے پلٹ کے دیکھنے اور دیکھتے ہی پتھر ہو جانے کے خطرہ سے آگاہ کرنے والے ’’پیرِ دانا‘‘ کا ایک باقاعدہ مرتب نظام ہوا کرتا تھا۔ یہاں جاگے ہوئے انسان کی دانش کو ویژن بنایا جائے تو قصہ حاتم طائی میں تحیر اور حقیقت کی یکجائی کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ اپنی بھیانک شکل سے نوجوانوں کو شکار کرنے والی ’’بلا‘‘ کس طرح خود اپنی شکل آئینہ میں دیکھ کے مر جاتی ہے! کس طرح اجنبی مسافر کو اجنبی راجہ کی بیٹی سے بیاہا جاتا ہے مگر کچھ ہی دن بعد کے ازدواجی تعلق کے بعد راجہ کی بیٹی مر جاتی ہے تو ایک تاریک رسم کی رو سے اس کے کھوہ نما مدفون میں اُس سے بیاہے گئے اجنبی مسافر کو زندہ ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ وہ اس مدفون سے زندہ باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ البتہ سب سے بڑھ کے کوہِ ندا کے بیان میں نوجوانوں کو بلانے والی آواز ’’یا اخی‘‘ کا بظاہر کوئی جغرافیائی نقشہ نظر میں نہیں آتا لیکن اگر یہ کہا جائے کہ صدیوں قبل کی تخیلی دانش نے ایک طرح سے ’’برمودا ٹرینگل‘‘ کا وژن کر لیا تھا۔

کتنی ہی صدیاں گزر گئیں، کتنی ہی تبدیلیاں رو نما ہوئیں مگر گوتم بدھ کا جاگا ہوا انسان آج تک نہیں سویا۔ وہ سوال جو اس نے کیے تھے: میں کون ہوں؟ اور سچ کیا نہیں؟ ان کی باز گشت ہی تو سند باد جہازی، پیرِ تسمہ پا، حاتم طائی، چہار درویش اور پیرِ دانا جیسے کرداروں سے لے کے شکسپیر کے ڈراموں کے کرداروں : لیڈی میکبتھ، شائیلاک اور بروٹس پھر لیو طالسطائی کے ناول ’’جنگ اور امن‘‘ کے کرداروں :زارِ روس اور نیپولین بونا پارٹ تک ہماری سماعت کو لاجواب کر دیتی ہے۔ البتہ ان کرداروں کے استفہامیہ تناظر میں جب ہم فرانس کافکا کے ناول ’’دی کیسل‘‘کے کردار ’’کے‘‘(K) جو خود کافکا ہے) کے اس اختتام پر نظر کرتے ہیں …… ’’دنیا کا نظا م محض ایک جھوٹ پر قائم ہے‘‘ تو اس کی جگہ بھی سوال یہی جنم لیتے ہیں کہ کے یا کافکا کون ہے؟ اُس کا سچ کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ البتہ افسوس کہ یہ مذکور سوال ہیروشیما اور ناگاساکی ایٹمی غارت گری اور پرل ہاربر کے المیہ کے تناظر میں اہلِ جاپان سے نہیں کیے گئے۔ آخر جاپان کی ’’گینجی ٹیلز‘‘ کی قدیم روایت کہاں الوپ ہو گئی! گو فرانسیسی فکشن میں کرداروں کے بجائے فرانسیسی سوسائٹی کا مفصّل بلکہ جذیاتی بیانیہ ملتا ہے۔ پھر بھی اس میں شامل آتشک کی شکار طوائفوں، فاحشاؤں، ریا کار پادریوں اور ایب نارمل فوجی افسروں کے ماضی کا آج کے فرانس میں کہیں تو کوئی نام و نشان ہو گا! آخر زولا کے ناول ’’NANA‘‘کے عرصۂ تصنیف کا فرانس کہیں تو باقی ہو گا! خود ژاں پال سارتر جو اپنی کہانی ’’دی وال‘‘ کے حقیقی کردار تھے آخر وہ کچھ عرصہ ’’NAUSIA‘‘ کی ڈائری کی قید میں کیوں بند رہے! کیا اس سے مراد فکشن میں تیکنک کو تنوع مقصود تھا! …… یا وجودیت کی جو بوگی مارکسزم سے جوڑی تھی و ہ جڑی کیوں نہیں رہ سکی! موصوف چلے تھے تو امریکی درس گاہوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا طالبات اور اساتذہ کو امریکی سامراج کے خلاف احتجاج کے لےھ برسرِ پیکار کرنے بلکہ پوری دنیا میں سامراجی مظالم کے خلاف تحریک برپا کرنے۔ مگر جوابی کاروائی کے طور پر امریکہ نے اُن کے پیچھے لگا دیا۔ ساختیات، پس ساختیات، ردِ تشکیل اور مابعد جدیدیت کے سوڈو فلسفیوں کا گروہ! جبکہ امریکہ تو ایسی سازشی کاروایاں تو پہلے بھی کرتار ہا تھا۔۔ اس نے ’’موبی ڈک‘‘ جیسے کلاسیکی ناول کے مصنف ہرمن میلول کا لحاظ نہیں کیا۔ اس طرح اس نے ’’یولیسیس‘‘ کے مصنف جیمس جوائس پر مقدمہ چلایا اور اُن کی بینائی بھی چھین لی۔ اس پر ستم یہ کہ اُس نے اپنے حلیف ملکوں مثلاً(رضا شاہ پہلوی کے دور کے ایران) میں کسی نابغہ روزگار کو برداشت نہیں کیا۔ ڈاکٹر علی شریعتی ’’تشیعّ‘‘ کے تناظر میں انسانی تاریخ اور فکشن کی یکجائی اور سچائی کے متلاشی تھے بلکہ اس تلا ش میں اُن کا ایک محققانہ مشن اہرامِ مصر، دیوارِ چین اور تا ج محل بلکہ اس قبیل کی تعمیرات میں تلف ہوئی لاتعداد انسانی جانوں پر گہری نظر کرنا تھا۔ اس پر شاہ ایران بھڑک اٹھا اور اُس نے ڈاکٹر علی شریعتی میں جاگے ہوئے انسان کو مزید جاگنے نہیں دیا۔ اس سے بھی کچھ آگے بڑھ کے امریکی منشاپہ ترکی اور مصر میں ایسے شاعروں ادیبوں خاص طور پر ناول نگاروں کو در پردہ غائب کروایا گیا، جن کا ذرا بھی جھکاؤ بائیں بازو کی طرف تھا۔

اس تفصیل کے بعد اب آئیے برصغیر کی طرف۔ تو ابھی برصغیر میں انگریز نہیں آئے تھے۔ ابھی سنسکرت ناٹکوں کا کتھا بیانیہ فرید الدین عطار، مولانا روم اور حضرت بید ل کی مثنویوں کے داستان بیانیہ میں منتقل ہوتا ہوا نظیر اکبر آبادی کے نظم بیانیہ اور پھر میر تقی میر کے بیانِ عشق سے معمور مثنویوں میں مشرق کا تصورِ حیات بنا کسی اجنبی آمیزش کے شامل تھا۔ سوائے اس کے کہ گوتم بدھ کے جاگے ہوئے انسان کی تاثیری رَو جو کبیر داس کے سچے اور کھرے بیانیہ سے نظیر اکبر آبادی کے بے لاگ اور بے باک نظم بیانیہ میں چلتی آئی تھی، اُس سے ہماری کہانی کی تاریخ میں قلندر کی قبا کے رنگوں والی بو قلمونی پائی جاتی تھی۔ پھر یہ کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد انگریزی اقتدار کے آنے تک فارسی زبان کے ساتھ اردو بول چال اور لکھی جانے والی زبان بیک وقت ہو چلی تھی۔ اردو کے مقابل دوسری بولیاں اور زبانیں کسی نثری بیانیہ کی محتمل نہیں ہوئی تھیں، شہروں تک اُن کی رسائی نہیں تھی۔ البتہ وہ رام لیلا اور آلہا اُودل کے مظاہرہ کے کام آتی تھی۔ کبھی کبھی کسی قصبہ میں راجہ ہریش چندر کا ناٹک کھیلا جاتا تو اس میں مکالمے سنسکرت آمیز عام بولی والے ہی ہوتے تھے۔ جبکہ غالب کے خطوط کے فسانہ آمیز نثری بیانیہ اور میر انیس کے مرثیوں میں واقعہ کربلا کے داستانی بیانیہ سے اردو زبان پھل پھول رہی تھی۔ البتہ اردو کے مقابل وہ بھی اکابرینِ اردو کے خلاف تعصب کو لے کے انگریزوں کی شہ پہ بنکم چند چٹر جی، شرت چند اور ٹیگور نے بنگلہ فکشن ہندو تہذیبی وجود کی برتری کو اجاگر کیا۔ بنکم چند چٹر جی مسلمانوں کے خلاف کچھ زیادہ ہی زہریلے تھے جبکہ شرت چند کے ’’دیوداس‘‘ اور ٹیگور کے ’’کابلی والا‘‘ کی کرداری سطح الم پسند رومانس کے جلو میں ہندو جمالیاتی وجود کا احیا کر رہی تھی۔ وہ بھی اس طرح کہ انگریزی علمداری سے با کمالِ فن بچتے ہوئے سنسکرت آمیز بنگلہ قومیت کی پہچان مقصود تھی۔ یہاں یہ یاد رہے کہ بنگالی ہندو کی برہمنیت کو بدھ مت کے پرچار کے ابتدائی علاقہ ’’بہار‘‘ لفظ وہار یعنی (دانش گاہ) سے بڑا کد تھا۔ اس کدورت کو ہی لے کر گوتم بدھ کے ماننے والوں کی سب سے بڑی دانش گاہ یا دنیا کی پہلی یونیورسٹی ’’نالندہ‘‘ کو تباہ و برباد کیا گیا۔ ماضی بعید کا یہ المیہ تو اب بہتوں کے علم میں نہیں ہو گا اس لئے کہ واقعہ مذکور تب ہو ا تھا جب بدھ مت کے ماننے والے جیو ہتیا کے خلاف نہ تو دوسرے پہ تشدد کرتے تھے نہ ہی اپنے جان کے تحفظ کے لئے کوئی ہتھیار رکھتے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کے خلاف برہمنوں نے تشدد کا آغاز تب کیا جب مسلمانوں کے اقتدار کے زوال کے ساتھ ہی انگریزی سلطنت کا قیام ہوا۔ اور تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزی اقتدار کی جو بنیاد بنگال میں پڑی تھی، اس میں بنگالی ہندو برابر کا فریق تھا۔ اور یہ مشترکہ رویہ سراسر مسلم دشمن رویہ تھا۔ مگر انگریزی اقتدار کے زیرِ اثر غلام ہم وطنوں کے حصہ میں جو ترقیِ معکوس مقدر ہوئی وہ سر سید احمد خاں کی معرفت علی گڑھ تحریک کی صورت اردو نثر میں در آئی تبھی اس سے مارے باندھے باور کرایا گیا کہ ڈپٹی نظیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار تھے۔ خلاف اس کے معلوم یہ ہوا کہ ناول کے نام پر اُن کے یہاں لکھنے کے لئے طبع زاد تو کچھ بھی نہیں تھا وہ تو نرے نقّال تھے۔ اُن کے مقابلہ میں تو غنیمت تھے عبد الحلیم شرر کہ کم از کم ان کے یہاں ریاست رام پور کے نواب کی حرام کاریوں کا مواد اصیل حالت میں تھا جبکہ نیاز فتح پوری جو معلوماتی عالم تھے کچھ خلق کرنے کی صلاحیت موصوف میں تو تھی نہیں، پھر بیشتر انہوں نے انگریزی کے توسط سے ٹیگور کے شعری اور نثر ی اثاثے سے استفادہ کیا یا فسانہ کے انداز پہ مغرب سے بہت کچھ سرقہ کیا۔ اُن کے ایک سرقہ ’’ترغیباتِ جنسی‘‘ کا انکشاف مولانا حسن مثنیٰ ندوی نے کیا، ظاہر ہے ذہنی غلامی کے ثمرات تو یہی ہو سکتے تھے۔ تاہم انگریزی اقتدار کے دائرہ اثر سے پرے شائد بہ حسنِ اتفاق وہ بھی خوش قسمتی سے اردو زبان میں بس ایک ہی کلاسیکی ناول لکھا گیا اور وہ تھا ہادی رسوا کا ناو ل ’’امراؤ جان ادا‘‘۔ ا س ناول نے مشرق کے داستانی ورثہ میں امراؤ جان ادا کے کردار کا اضافہ کیا۔ طوائف کے کوٹھے کی روایتی گراوٹ سے قطع نظر امراؤ جان ادا کو اہلِ شعر و سخن کی تہذیبی ہم عصری کا اعتبار بخشنے سے ہی تو کردار خلق ہوا۔ مگر افسوس اس اہم کردار کے بعد اردو کہانی، افسانہ اور ناول کی فارم میں ہزار کوشش کی باوجود کوئی کردار خلق نہیں کیا جا سکا۔ اور خلق کیا بھی کیسے جا سکتا تھا! انگارے کے رجحان اور ترقی پسند تحریک کا ماخذ تو سویت یونین اور چین کا کمیونسٹ انقلاب تھا۔ جبکہ پریم چند جو طالسطائی سے بہت متاثر تھے پھر گاندھی جی سے متاثر ہوئے۔ بس دیکھا دیکھی انگریزوں کے خلاف جد و جہد آزادی سے بھی متاثر ہو گئے۔ اُن کے یہاں اپنے ذاتی مشاہدہ سے زیادہ مانگے کے اجالے کے محاورہ کے مصداق پرائے مشاہدوں کی بھرمار تھی۔ ایک سطحی اور سطری رویہ اختیار کرتے ہوئے انہوں نے کہانی ’’کفن‘‘ اور ناول ’’گؤ دان‘‘ کی تصنیف تو ضرور کی مگر اُن کا کوئی کردار زندہ نہیں رہ سکا۔ پریم چند کے اتباع میں ہندی کے جینندر نے بڑے جتن کیے مگر اُن کے پلّے سے کوئی بھی کردار نمایاں نہ ہو سکا حالانکہ پریم چند کے بعد ہی رفیق حسین کا فکشن نمودار ہوا۔ انہوں نے پنج تنتر کے زمانہ کا احیا کیا۔ بیشتر جانوروں کی کہانیاں لکھیں۔ اور کسی آدرش انسانی کردار کے مماثل ایک کتے کے کردار کو اس طرح خلق کیا کہ اُس کے ذریعہ پانی میں ڈوبتے ہوئے ایک انسان کے بچے کو بچا کے سلامت نکلوایا اور خود اس کتے نے پانی میں ڈوب کے اپنی جان قربان کر دی۔ اس آدرش کردار کے خالق رفیق حسین نے ایک سرکردہ انگریز کو تھپڑ بھی مارا تھا۔

یہاں تک آ کے کہانی، افسانہ، ناولٹ، ناول اور مجموعی طور پر فکشن کے قاری کو بہ خوبی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے مشرق کی کتھائیں، داستانیں اور قصے مع اپنے کرداری نظام کے غیر متعین قدیم ماضی میں لکھے گئے۔ دراصل انسانی تاریخ میں صرف ماضی کا قیام رہا ہے۔ ماضی گزرتے ہوئے ایک پل کے کروڑویں حصہ میں بس گزر رہا ہوتا ہے۔ ماضی کے اس طرح جاری ہونے سے مراد یہ ہے کہ حا ل اور مستقبل کا کوئی وجود نہیں۔۔ حال اور مستقبل کا انحصار تو کیلنڈری وقت پر ہے جبکہ کائناتی تصورِ وقت کے تناظر میں کیلنڈری وقت کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہاں خیال رہے کہ دنیا میں کوئی واقعہ نیا نہیں، تمام واقعات دہرائے ہوئے ہیں۔ مگر انہیں بیان کرنے والے کہانی کار کا اسلوب ندرت اور انفرادیت کے باوصف پہچانا جاتا ہے اگر کسی لکھنے والے نے پوری عمر گزار کے بھی اپنے اسلوب کا پتہ نہیں دیا تو سمجھیے کہ اُس کی زندگی رائگاں گئی۔ تاہم اس تفصیل سے گزرتے ہوئے اہمیتوں کی باقیات کے طور پر اردو کے سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، حجاب امتیاز علی، قرۃ العین حیدر، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، انتظار حسین، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، جوگندر پال، اقبال متین، اقبال مجید، غیاث احمد گدی، سریندر پرکاش، بلراج مینرا، انور سجاد، احمد ہمیش، جیتندر بلو، نجمہ محمود، شہناز کنول غازی، ناصر بغدادی، محمد الیاس، یوسف عارفی، مظہر الزماں خاں اور ڈاکٹر احمد صغیر…… ہندی کے کملیشور، راجندر یادو، بھشیم ساہنی، شانی، مدرا راکھچس اور حسن جمال …… بلکہ زمانوی تسلسل میں شمار ہونے والے کچھ مغربی نام مثلاً میلان کنڈیرا، سال بیلو اور ایلیکس ہیلے کا مختصر مفصل ذکر ناگزیر ہے۔۔ اس سے پہلے کہ ہماری دنیا پہ طاری قحط الرجال ہمارے لکھنے پڑھنے کی شکتی سلب کر لے، ہمیں چاہیے کہ ہم کہانی کو وسعتِ موضوع سے ہمکنار کریں اور کرداروں کی بازیافت کریں۔

جدید ادب، جرمنی، شمارہ ۵، جولائی تا دسمبر ۲۰۰۵ء

٭٭٭

 

One thought on “برائے کہانی :ایک ناگزیر فتویٰ ۔۔۔ احمد ہمیش

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے