توحید کے سبب تجھے سجدہ روا نہیں
میں نے وگرنہ عشق میں کیا کیا کیا نہیں
تم بھی وفا کو طاق پہ رکھ کر چلے گئے
میں نے بھی جام زہر کا اب تک پیا نہیں
تم خوش لباس ہو گئے جب سے جدا ہوئے
مجھ سے ابھی تک اپنا گریباں سِلا نہیں
آئی نہیں پلٹ کے فقط میری ہی نگاہ
پہنچا جو تیرے در پہ ، وہاں سے ہٹا نہیں
یا مان لے ، ہے تیرے بدن میں مری مہک
یا جھوٹ بول دے کہ تو مجھ سے ملا نہیں
کیا جانے کیا ہے مَے، یہ کہ تاثیرِ مَے ہے کیا
وُہ جس نے تیری آنکھ سے کچھ بھی پیا نہیں
کیسے ہوا تھا عشق، یہ کیوں کر ہوا تھا جرم
ملتی کبھی بھی ایسی خطا کی سرا نہیں
سب ساتھ ہیں رقیب کے جتنے طبیب ہیں
کہتے ہیں میرے درد کی کوئی دوا نہیں
محفل میں میرے ذکر پہ آنکھیں چُرا گیا
ظاہر یہ کر رہا تھا کہ اس نے سُنا نہیں
پھولوں کے ہار لے کے میں بیٹھا ہی رہ گیا
گذرا تھا میرے دل سے وُہ لیکن رُکا نہیں
بدلیں نہیں لکیریں مرے ہاتھ کی کبھی
ڈھایا ہے ظلم تُم نے جو وُہ بھی نیا نہیں
کب سے ہے میری آنکھ میں بس اس کا منتظر
آنسو وُہ اک خوشی کا جو اب تک گرا نہیں
مقبول، نام لے کے ترا کہہ رہے ہیں لوگ
شاعر بنا ہے جب سے، کہیں کا رہا نہیں
٭٭٭
ملتی ہے اسپتال سے موت، اب شفا نہیں
لینی اگر ہو سانس تو خالص ہوا نہیں
مدت سے ایک خوف سا طاری ہے شہر پر
آواز دی تو ایک بھی پتا ہلا نہیں
خاموش تھا تو زندگی آسان تھی بہت
کھولی زباں تو اب کہیں میری جگہ نہیں
میرے نگر کے باسیوں نے طے کیا ہے یہ
ہم کو غلام رہنا ہے، ہونا رہا نہیں
ہمت نہیں کسی میں کہ اتنا ہی بول دے
زندوں کا ملک ہے کہ یہ عبرت کی جا نہیں
مجھ کو نہ راہِ حق سے کوئی ہٹا سکا
مقتل میں ہوں کہ جبر کے آگے جھُکا نہیں
اس سلطنت کے تخت پہ بیٹھے ہیں ایسے لوگ
جن کا اسے بنانے میں کچھ بھی لگا نہیں
ملتی نہیں یہاں پہ اجازت سوال کی
اتنی گھٹن ہے، سوچ کا بھی در کھُلا نہیں
بن جاتا ورنہ میں بھی حکومت میں اک وزیر
بازار میں ضرور تھا لیکن بکا نہیں
نکلے ہیں آستیں سے مری سَو طرح کے سانپ
غیروں کے وار سے کبھی میں یوں گرا نہیں
ہوں گے ،وُہ جن کو بخت بٹھاتے ہیں تخت پر
ہم تو وُہ بد نصیب ہیں، لگتی دُعا نہیں
پھرتے برادران ہیں یوسف کے ہر طرف
مقبول، دل سے کوئی کسی کا سگا نہیں
٭٭٭