ہر گھڑی دل کو یہی سمجھاؤں میں
جی لوں تھوڑی دیر یا مر جاؤں میں
روشنی سے جب کوئی رشتہ نہیں
تیرگی سے کیوں بھلا گھبراؤں میں
تھک گیا ہوں انتظارِ دید میں
اور کتنا دل کو اب تڑپاؤں میں
ضد وہ کرتے ہیں کھلونوں کے لئے
کس طرح بچوں کو اب سمجھاؤں میں
دل میں اک انجان سا ہے ڈر مجھے
دیکھ کر سایہ کوئی گھبراؤں میں
جو مقدر میں تھی روزی مل گئی
ہو چکی ہے شام گھر کو جاؤں میں
میں نے دیکھا تھا کھلی آنکھوں سے جو
خواب وہ اصغر کہاں سے لاؤں میں
٭٭
ہر اک آنگن میں رہتا تھا
وہ سورج پھر بھی تنہا تھا
بنا کر کیوں مرا چہرہ
مصور گھورے جاتا تھا
خوشی تب ہاتھ میں آئی
غموں کو جب نچوڑا تھا
سبھی نے جیت لی دنیا
مسلسل میں ہی ہارا تھا
مرے اپنے مرے قاتل
یہی افسوس تھوڑا تھا
جہاں کی بھیڑ میں اصغر
جسے دیکھا وہ تنہا تھا
٭٭٭