دربھنگہ میں علم و ادب کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہ صدیوں سے مفکروں، دانشوروں ، ادیبوں ، صوفیوں ، سنتوں اور شاعروں کی سرزمین رہی ہے۔ عہد قدیم کے بعد عہد وسطیٰ میں بھی مسلمانوں کی علمی و ادبی ثقافتی اور تہذیبی کاوشوں نے دربھنگہ کی تاریخ کو روشن کیا ۔ دربھنگہ میں بہت سے ایسے اردو دوست ہیں جو اردو زبان و ادب کی نشوونما کی خاطر کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ اس لئے موجودہ دور میں یہاں اردو کا جو منظر نامہ سامنے آیا ہے وہ بڑا حوصلہ افزا ہے۔ ایسے ہی چند معروف اردو دوستوں میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر امام اعظم کا بھی ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم کی پیدائش 20 جولائی 1960ء کو محلہ گنگوارہ ، دربھنگہ (بہار) میں ہوئی۔ وہ ایم ۔ اے (اردو، فارسی) ، ایل ایل ۔ بی ، پی ایچ۔ڈی ، ڈی لٹ کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ فی الحال ریجنل ڈائرکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی) کولکاتا کے عہدہ پر فائز ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ رسالہ ’’تمثیل نو‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔ موصوف کی 26کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جب کہ دو کتابیں زیر طبع ہیں۔ ان کے فن اور شخصیت پر نو(9)کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کا قلم رواں دواں ہیں۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ میں اپنے کسی مضمون میں لکھ چکا ہوں کہ امام اعظم سائنس کے طالب علم رہے ہیں لیکن طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کی دلچسپی اردو زبان و ادب کی جانب رہی ہے ۔ اپنے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے سرزمین دربھنگہ کی ایک فعال ادبی انجمن ’’دائرۂ ادب‘‘ سے وابستہ ہو گئے جس کے کنوینر سلطان شمسی تھے۔ بعد میں ڈاکٹر امام اعظم نے ایک ادبی انجمن ’’اردو ادبی سرکل‘‘ قلعہ گھاٹ ، دربھنگہ میں ۱۹۸۴ء میں قائم کی۔ زیر مطالعہ کتاب ’’نگار خانۂ کولکاتا‘‘ میں پیش لفظ کے علاوہ 25 مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین اور کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں ڈاکٹر امام اعظم لکھتے ہیں: ’’یہ تمام مضامین 4 اپریل 2012ء کے بعد لکھے گئے ہیں جب میرا تبادلہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کولکاتا ریجنل سینٹر میں بطور ریجنل ڈائریکٹر ہوا ۔ یہ مضامین نہ صرف اردو ادب کی مختلف اصناف پر مشتمل ہیں، بلکہ ان سے اردو کے ایک اہم مرکز کولکاتا کے ادب اور ادیبوں کی خدمات پر روشنی بھی پڑتی ہے۔ زمانی ترتیب سے دیکھا جائے تو مضامین انیسویں صدی سے لے کر اکیسویں صدی تک کا احاطہ کرتے ہیں جو کم و بیش ڈیڑھ سو برس کا عرصہ ہے۔ ‘‘ (ص:8) ’’نگار خانۂ کولکاتا‘‘ میں شامل پہلا مضمون ’’کولکاتا میں اردو صحافت‘‘ کے عنوان سے ہے۔ بنگال کو انقلاب کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ ہر عہد میں یہاں انقلابی کارنامے انجام پاتے رہے ہیں۔ اس موضوع پر ڈاکٹر امام اعظم لکھتے ہیں کہ یورپی تاجر جن میں ڈچ، پرتگالی، فرانسیسی اور انگریز شامل تھے کی آماجگاہ بنگال کے ہی مختلف علاقے رہے۔ یہاں ان لوگوں نے تجارتی مقاصد کے لئے کمپنیاں اور نو آبادیاں آباد بھی قائم کیں۔ کلکتہ انگریزوں کا مرکز بنا تو یہاں سے کچھ ہی دور واقع چندن نگر فرانسیسی کالونی کی شکل اختیار کر گیا۔ … 1800ء میں کلکتے میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا گیا جس میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کو ہندوستانی زبانوں کے شعبے کا سربراہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ کو اردو سے بے پناہ محبت تھی۔ ڈاکٹر امام اعظم نے ’’عبدالحلیم شرر اور ’فردوس بریں‘‘ کے عنوان سے ایک عمدہ مضمون تحریر کیا ہے ۔ ’’فردوس بریں‘‘ عبدالحلیم شرر کا ایک کامیاب ناول ہے۔ اس ناول کے حوالے سے پروفیسر قمر رئیس لکھتے ہیں جسے ڈاکٹر امام اعظم نے حوالے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ کریں: ’’فردوس بریں کو اردو کے تمام تاریخی ناولوں میں نمایاں مقبولیت حاصل ہوئی اور کم و بیش تمام نقادوں نے اس کے پلاٹ کی دلکشی اور کردار نگاری کو سراہا۔ اس ناول کی منظر نگاری اور ماحول کشی میں شررؔ کی صناعی درجۂ کمال پر نظر آتی ہے۔ اس کے تمام کردار منفرد اور جاندار ہیں اور اس کے پلاٹ کی تعمیر انتہائی فطری اور متوازن ڈھنگ سے ہوئی ہے۔ ‘‘ (تعارف، ص:7 ) عبد الغفور شہباز کے خطوط کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر امام اعظم لکھتے ہیں کہ مغربی بنگال کے حوالے سے عبد الغفور شہباز کا نام بے حد اہم ہے ۔ وہ 1858ء میں ضلع پٹنہ کے ’’سرمیرا‘‘ موجودہ ضلع نالندہ میں پیدا ہوئے۔ نامساعد حالات کے باوجود بی۔ اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے مشاہیر علم و ادب کے چشمۂ فضل سے عربی، فارسی ، اردو اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل کی۔ وہ ہمیشہ سرگرم عمل رہے۔ کبھی صحافت سے جڑے ، کبھی تراجم کا کام کیا تو کبھی کوئی دوسری ملازمت کی۔ بعد میں وہ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ انہوں نے شاعری بھی کی اور نثر نگاری بھی۔ ان میں تخلیقی صلاحیت فطری تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے ہر تعلیم یافتہ شخص واقف ہے۔ ان کی تحریر میں وہ چاشنی ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی ان کی تحریر کا شوق رکھتا ہے۔ ان کی علمی صلاحیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر امام اعظم لکھتے ہیں: ’’مولانا ابوالکلام آزاد بنیادی طور پر ایک دانشور اور متبحر عالم تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی وزارت میں مولانا آزاد کو وزیر تعلیم کا عہدہ دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ جانتے تھے کہ مولانا کو اپنے ملک، اس کی تہذیب، قومی یکجہتی اور تعلیم کے فروغ و اشاعت سے گہری دلچسپی ہے۔ ملک کی تقسیم کے بعد انگریزوں نے جو کچھ چھوڑا تھا ، اس میں نفرت زیادہ تھی اور آپسی اعتماد و اعتبار گم ہوتا جا رہا تھا۔ ان حالات میں ایک ایسی تعلیمی پالیسی کی ضرورت تھی جس سے انگریزوں کی نفرت انگیز پالیسی کو ختم کیا جا سکے۔ ‘‘ (ص:43) ڈاکٹر امام اعظم کا ایک مضمون ’’پرویز شاہدی : ترقی پسند تحریک کی توانا آواز‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ترقی پسند شاعروں میں پرویز شاہدی کا ممتاز مقام ہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں: ’’پرویز شاہدی شعری محاسن سے بھرپور آگاہی رکھتے تھے ساتھ ہی دلی کیفیات اور معاشرتی آگہی کو شعری قالب میں ڈھالنے کے فن پر انہیں دسترس تھا۔ ان کے کلام میں صا لحیت اور مثبت تعمیر ی لب و لہجہ نمایاں ہے۔ انہوں نے جس نئے انداز سے اپنی شاعر ی میں متانت ، سنجیدگی اور توازن سے نئی فضا اور نئی قوت کو محسوس کرایا ہے، اس سے ان کے عہد کی خارجی کیفیات اور مشاہدات کا نیا رخ اور نیا زاویہ سامنے آتا ہے۔‘‘ (ص:62) شاکر کلکتوی ایک منفرد انداز کے شاعر ہیں ۔ ان کا تعلق کلکتہ شہر سے تھا۔ ان کی ولادت ۲۳؍نومبر ۱۹۱۴ء کو اور وفات ۴؍جولائی ۱۹۶۸ء کو کلکتہ ہی میں ہوئی۔ ان کی شاعرانہ انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر امام اعظم لکھتے ہیں کہ: ’’ شاکرکلکتوی کی پوری شاعری قلبی احساسات اور دلی کیفیات سے مملو ہے۔ انہوں نے زندگی کی تلخ و شیریں صداقتوں سے پیدا ہونے والے محسوسات و جذبات کو اپنے کلام میں نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ اس کی شاندار پیشکش میں اپنی فنی صلاحیتوں کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے قلبی جذبات اور عشق کے معاملات کی اثر انگیزی کی تصویر کشی باریک بینی اور فنی بصیرت کے ساتھ کی ہے۔ اس طرح ان کے شعور اور لاشعور میں پلنے والی فکر کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ‘‘ ’’شاہ مقبول احمد: حیات و خدمات: ایک جائزہ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر امام اعظم نے موصوف پر قلم کی سیاہی بکھیری ہے۔ اپنے جامع مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’شاہ صاحب کو جو علمی گہرائی و گیرائی ، تحقیقی و تنقیدی بصیرت اور تخلیقی جودت ودیعت تھی ، مقام افسوس ہے ان کا خاطر خواہ اظہار نہ کر سکے ۔‘‘ انہوں نے خود اپنی نگارشات کے تین مجموعے (۱) چند ادبی مسائل (۲) پانچ افسانے اور انشائیے (۳) تشریحات و اشارات کے نام سے شائع کئے۔ مظہر امام کا تعلق سرزمین دربھنگہ سے رہا ہے۔ ان کی شاعری ’’زخم تمنا‘‘ کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر امام اعظم لکھتے ہیں : ’’مظہر امام ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جن کی شخصیت اور فن کاری دونوں متاثر کن ہیں۔ ان کی شخصیت کے مختلف گوشے اردو شعر و ادب کی توانا روایت کی ترویج سے آراستہ ہیں۔ ان میں ایک طرح کی سنجیدگی ، متانت اور زبان سے والہانہ عشق کی حد تک وارفتگی شامل ہے۔ ان کی شخصیت کی تعمیر میں ان کے ذاتی کشف و وجدان کے علاوہ ان کے آباء و اجداد سے حاصل شدہ علمی و تربیتی جواہر شامل ہیں جو صوفیائے پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ (ص:92) مظفر حنفی اردو کے ایک نامور شاعر، محقق، ناقد، افسانہ نگار، مترجم اور مرتب تھے۔ ان کی شخصیت ہشت پہلو صفات کی حامل تھی۔ ان کا تخلیقی سفر افسانہ نگاری سے شروع ہوا لیکن بعد میں انہوں نے افسانہ نگاری ترک کر دی۔ صرف آٹھ دس سال افسانہ نگاری کے میدان میں رہے لیکن اتنے کم وقت میں انہوں نے ممتاز افسانہ نگاروں کی صف میں اپنی جگہ بنا لی۔ افسانہ نگاری چھوڑنے کے بعد انہوں نے شعر و شاعری سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ ان کی شاعری صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ اپنی ذات سے اجتماعی شعور کی سطح پر پہنچ گئی۔ غزلوں اور نظموں کے علاوہ رباعیات، مراثی، قصیدے، حمد، نعت، سلام اور سہرے وغیرہ بھی لکھے۔ جنہیں ناقد ین ادب نے خوب خوب سراہا۔ مظفر حنفی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر امام اعظم لکھتے ہیں : ’’مظفر حنفی کی شاعری میں حیات و کائنات کی رنگینیوں کے ساتھ مشاہدات و تجربات اور عصری حالات زندگی پورے طور پر نمایاں نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری میں فیض و فیضان حاصل کرنے کی سعی ملتی ہے اور فنی صلاحیتوں کو منقش کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی نظر آتی ہے۔ ان کی بالغ نظری پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ کیف و کشش کی متحرک تصویر پیش کرتے ہیں۔‘‘ (ص :110) علقمہ شبلی کی پیدائش یکم نومبر 1928ء کو میر غیاث چک ، نالندہ ، بہار میں ہوئی لیکن انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کولکاتا میں گزارا۔ ان کے مکاتیب میں اظہار کی خوشبو بکھیرنے کی کوشش ڈاکٹر امام اعظم نے اپنے الفاظ میں اس طرح کی ہے: ’’علقمہ شبلی نہ صرف ایک توانا آواز کے حامل شاعر تھے بلکہ مغربی بنگال کے اساتذۂ سخن میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کے ذریعہ ادبِ اطفال میں گراں قدر اضافہ کیا نیز نثری ادب کو بھی مالا مال کیا۔ طویل عرصہ تک روزنامہ ’’آزاد ہند‘‘ کولکاتا میں موصوف کے قطعات باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے۔‘‘ (ص:116) ’’ظفر اوگانوی : جدید اردو افسانے کا اہم نام ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر امام اعظم موصوف کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ظفر اوگانوی مختلف الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا اصل میدان افسانہ نویسی تھا مگر ان کی گرفت تنقید و تحقیق پر بھی اچھی خاصی تھی۔ صفیر بلگرامی پر ان کی تحقیقی کتاب سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دراصل یہ کتاب ان کا تحقیقی مقالہ تھا جو ڈاکٹریٹ کے لئے علامہ جمیل مظہری کی نگرانی میں لکھا گیا تھا ۔ یہ کتاب غالب اور صفیر بلگرامی کے ادبی پس منظر میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین شائع ہو کر قبولیت پا چکے ہیں۔ سید محمد اشرف کے اردو ناول ’’آخری سواریاں‘‘ پر ڈاکٹر امام اعظم نے بہت عمدہ تحریر رقم کی ہے۔ اسی طرح صدیق عالم کے ’’چارنک کی کشتی‘‘ میں عورتوں کے مسائل کو پیش کیا گیا ہے جس پر ڈاکٹر موصوف نے خوبصورتی سے روشنی ڈالی ہے۔ ’’ف س اعجاز کی غزلوں میں زندگی کی نیرنگیاں ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر امام اعظم نے ایک پُر مغز مضمون تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ف س اعجاز کی غزلیں اپنے زمانے کی روح سے ہم آہنگ ہونے کے سبب ایک نوع کی تازگی رکھتی ہیں۔ جدید تر ذہنی کیفیات اور طرز احساس کی پیداوار ان غزلوں میں ہمیں ایک الگ فضا اور نیا ذائقہ ملتا ہے۔ ان میں پرانی علامتوں کی تکرار اور گھسے پٹے تلازموں کی بجائے تازہ علامتیں اور الفاظ کے نئے تلازمے ملتے ہیں جو نئی معنویت کے ساتھ ہمیں ہر جگہ زندہ اور محسوس شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
ہم تو باخبر تھے تم بھی جانتے ہو گے
آنکھ سے زمانے کی کب کا ڈھل گیا پانی
سوچا تھا ہم نے اک نئی تہذیب سیکھ لی
لیکن بگڑ گئے تری زلفیں سنوار کر
میں نے سوچا تھا یقیناً اسے حیرت ہو گی
میں نے بوسہ جو لیا اس پہ وہ رنگ تھا ہی نہیں
ان مضامین کے علاوہ ’’ظہیر انور کا ’چراغِ رہ گذر‘ اردو سفرنامے کا سنگ میل‘‘، ’’اردو ڈراما کا ایک مقناطیسی عنوان : جاوید دانش‘‘، ’’سجاد شاکری کا ’رقص الہام‘‘ ، ’’ادب اطفال میں حشمت کمال پاشا کے کمالات ‘‘، ’’مصطفیٰ اکبر: عصر حاضر کا ایک نمائندہ قلم کار‘‘ ، ’’اقبال جاوید کی کتاب ’آغا حشر کاشمیری :حیات اور ڈراما نگاری‘‘، ’’سراج دہلوی کی دوہا نگاری کی انفرادیت‘‘، ’’شکیل افروز کی ’عملی صحافت‘ : ایک بصیرت افروز کتاب‘‘ ، ’’ایس ایم آرزو کی مزاح نگاری‘‘ اور ’’ندرتِ اظہار کی شاعرہ : ڈاکٹر نگار سلطانہ‘‘ ڈاکٹر امام اعظم کے بہترین مضامین ہیں ۔ ان تمام مضامین میں موصوف کی زبان سادہ ، سلیس اور شگفتہ ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر امام اعظم کی کتاب ’’نگار خانۂ کولکاتا‘‘ کی تحریریں قاری کو مطالعہ کی دعوت دیتی ہیں۔ کتاب کے مشمولہ مضامین میں انہوں نے مختلف ادباء و شعراء کی شخصیت اور فکر و فن پر نہایت جامع روشنی ڈالی ہے اور تنقیدی نقطۂ نظر سے ان مضامین میں ایمانداری کے ساتھ اپنی تحریر رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
٭٭٭