1
طاق میں ڈیوٹ جل رہا تھا، ہلکی مگر سرد ہوا کے جھونکوں سے اس کی لو لرز لرز جاتی تھی۔ میں خواجہ کے آستانے سے قوالی سن کر سرائے کو لوٹا تھا۔ میں ابھی اپنی کھولی کے دروازے پر لگا ہوا قفل کھولنے ہی جا رہا تھا کہ میری نظر پاس کی کھولی پر پڑ گئی۔ میلی میلی روشنی میں، میں نے دیکھا کہ چار سایے نیم دائرے میں بیٹھے ہوئے ہیں، جب کہ ایک سائے کے زانو پر سات آٹھ سالہ بچی کا سر رکھا ہوا ہے اور پیر اس کے فرش پر بچھی ہوئی چٹائی پر دراز ہیں۔
میں انہیں دروازے سے اسی کیفیت میں بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا۔ البتہ دن کے وقت اور خصوصاً مغرب کے بعد وہ مجھے درگاہ میں نظر آتے، اس وقت مرد اس بچی کو گود میں لیے ہوتا اور وہ خواتین جس میں دو معمر سی تھیں اور ایک جوان قدرے فاصلے پر تسبیح لیے کھڑی ہو جاتیں اور دیکھتیں کہ مجاور مورچھل کے جھولے سے بچی پر کہیں سے نازل ہوئی بلا کو دفع کر رہا ہے۔
مجھے خیال آیا کہ ان کی بچی کسی پیچیدہ مرض میں مبتلا ہے اور کافی عرصے سے ہے۔ انہوں نے مقدور بھر علاج کروا لیا ہے اور افاقہ نہ ہونے کی صورت میں اجمیر چلے آئے ہیں اور اس امید پر کہ خواجہ کے برکات و فیوض کے واسطے سے بچی کو صحت نصیب ہو جائے گی۔ میں نے سوچا کہ دو بول تسلی کے میں بھی کیوں نہ بول دوں، ممکن ہے کہ میری باتوں سے انہیں کچھ راحت مل جائے اور رنج و محن کا غبار دل سے چھٹ جائے۔
’’بھائی صاحب! کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟‘‘
اس شخص نے میری جانب دیکھا اور کہا، ’’چلے آئیے۔‘‘
میں لڑکی کے پیروں کے قریب بیٹھ گیا۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ ’’میرا نام مسعود احمد فرید ہے۔ میں ایک ریٹائرڈ مدرس ہوں۔ کلیان میں دودھ ناکہ محلہ ہے، اس میں اہل و عیال کے ساتھ رہتا ہوں۔ میری والدہ حیات ہیں مگر کسی وجہ سے ان کی بینائی چلی گئی ہے، میں خواجہ کے حضور میں یہی مراد لے کر حاضر ہوا ہوں کہ ان کی دعاؤں کے طفیل ان کی بینائی لوٹ آئے۔‘‘
’’آپ بتائیے کہ آپ کا کیا مسئلہ ہے؟‘‘
یہ کہتے کہتے میں نے بچی کے پنجوں اور تلووں کو سہلانا شروع کیا۔ مگر مجھے انہیں چھو کر محسوس ہوا کہ ان میں جان نہیں ہے، وہ یخ بستہ ہوئے جا رہے ہیں۔ اس درمیان میں، ان عورتوں نے اپنے پلو، سروں پر درست کر لیے تھے اور جوان عورت نے گردن نیچی کر کے میری جانب کے رخسار کو ڈھک لیا تھا۔
مرد نے دھیرے دھیرے کہنا شروع کیا، ’’یہ میری ماں ہیں اور ان کے بازو میں بیٹھی ہوئی خاتون میری ساس، یہ میری بیوی ہیں اور ان کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی ہماری بیٹی ناشاد۔‘‘
’’ہم بمبئی میں پلے ہاؤس سے منسلک ایک گلی میں رہتے ہیں اور اس میں ایک مسجد بھی واقع ہے اور وہ عرب گلی کہلاتی ہے۔ میں موٹر میکانک ہوں اور عرب گلی مسجد کمپاؤنڈ میں ایک گراج میں کام کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پل بھر کے لیے رکا، پھر بولا ’’بھائی صاحب ہم نے کبھی کسی کا برا نہ چاہا، حلال روزی کمائی اور اس ہی پر گزارا کیا۔ مگر پتا نہیں اللہ پاک پروردگار کی کیا مشیت ہے کہ اس نے ہماری بچی کو Meningitis کے عارضے میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کی گردن اور ریڑھ کی ہڈی میں سوزش پیدا ہو گئی ہے اور یہ تن مردہ کے ساتھ جیے چلی جا رہی ہے۔ بہت علاج کرایا، کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اب اسے خواجہ کے حضور میں لے آئے ہیں، یہی آخری امید ہے کہ یہاں اسے شفا مل جائے گی۔‘‘
تمام ماجرا سن کر میں سکتے میں آگیا۔ کچھ بولنے کی کوشش کی مگر الفاظ زبان سے ادا نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود کوشش کی اور مشکل سے کہا، ’’اللہ سے امید باندھے رکھیے اور خواجہ معین الدین چشتیؒ کی دعاؤں پر یقین، آپ کی بچی کی صحت یابی کی دعا میں بھی کروں گا۔ لیکن ایک بات مشورتاً عرض کروں گا کہ بمبئی جا کر اس کا علاج دوبارہ شروع کروائیے۔ دعا کے ساتھ ساتھ علاج کا جاری رہنا اشد ضروری ہے۔‘‘ پھر یہ کہہ کر میں اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔
’’اجازت دیجیے، صبح چار بجے کی گاڑی ہے۔ مجھے سامان بھی پیک کرنا ہے۔‘‘
وہ شخص کھولی کی دہلیز تک آیا اور بولا، ’’کبھی بمبئی آئیے تو ملنے کی تکلیف گوارا کیجیے گا، خاکسار کو محمد شفیع کہتے ہیں۔‘‘
کہیں دور کوئی مور چنگھاڑا، فریاد و فغاں کی آواز سنائی دی۔
میں صبح کی گاڑی سے گھر لوٹ گیا۔
اجمیر سے واپسی کے تقریباً چھے ماہ بعد میں اپنی خالہ زاد بہن سے ملنے گرانٹ روڈ گیا۔ جب میں اس کے گھر سے نکلا تو سورج مالابار ہل کی جانب جھک آیا تھا۔ عصر کی نماز ریلوے پل کے قریب بنی ہوئی مسجد میں پڑھنے کے بعد میں نے سوچا کہ پلے ہاؤس یہاں سے دور نہیں، اگر عرب گلی مسجد کمپاؤنڈ میں پیدل بھی چلا جاؤں تو مجھے دس منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے۔ اس خیال کے ذہن میں آتے ہی محمد شفیع صاحب سے ملاقات اور ان کی بچی کی خیریت معلوم کرنے کو جی چاہنے لگا۔
میں جب وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ محمد شفیع کسی کار کا بونیٹ کھولے اس کے کل پرزوں کا معائنہ کر رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ ان چھے مہینوں میں ان کی آنکھوں پر عینک لگ گئی ہے اور وہ اپنے جثے میں قدرے سمٹ سے گئے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا، مسکرائے اور قریب ہی رکھے ہوئے اسٹول پر کار میں سے اخبار نکال کر رکھا اور مجھ سے مصافحہ نہ کرتے ہوئے کہ ان کے ہاتھ موٹر آئیل میں سنے ہوئے تھے، مجھے بیٹھنے کو کہا۔ موٹر کے پچھلے حصے میں کام کرتے ہوئے لڑکے کو دو چائے کا آرڈر دیا اور خود بھی آس پاس ہی رکھا ہوا کوئی اسٹول اٹھا لائے اور اس پر بیٹھ گئے۔
چائے کڑک اور میٹھی تھی، مجھے پسند آئی۔ میرے پوچھنے پر کہ بچی کی طبیعت کیسی ہے انہوں نے بتایا کہ الوپیتھی کا علاج وہ اجمیر آنے سے پہلے ہی کرا چکے تھے۔ کسی کے تیقن دلانے پر انہوں نے مدنپورے کے حکیم اصلاحی سے علاج شروع کروایا ہے، مگر اب تک کوئی افاقہ نہیں ہوا۔۔۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکیم صاحب عمدہ نباض ہیں، دوائیاں بھی اعلیٰ قسم کی دے رہے ہیں جو مہنگی بھی بہت ہیں، مگر شاید ہماری قسمت میں نہیں کہ ہم اپنی بچی کے چہرے پر اس کی بھولی ہوئی مسکراہٹ کو دوبارہ رقصاں دیکھ سکیں۔‘‘
مغرب کی نماز ہم دونوں نے کمپاؤنڈ سے لگی ہوئی مسجد میں ادا کی، اس کے بعد میں ان کا حوصلہ بڑھاتا، تسلی دیتا اور اللہ پر بھروسہ رکھنے، علاج پابندی سے کراتے رہنے کی ہدایت دیتا گرانٹ روڈ اسٹیشن کو روانہ ہوا۔ لبرٹی ہوٹل کے چھجے سے پتنگ کی ڈور میں الجھا ہوا ایک کوا جھول رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وحشت تھی اور آواز پر لرزہ طاری تھا۔
اس ملاقات کے دو سال بعد میں محمد شفیع صاحب سے کلیان کے نیشنل اسکول میں ملا۔ وہ مقدر حمید صاحب کے صاحب زادے کی شادی میں شرکت کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی گرچہ ان کی پیشانی پر ہنسی دوڑ گئی تھی، مگر سراپا کچھ اور ہی احوال کہہ رہا تھا۔ آنکھیں چشمے کے پیچھے گڑھوں میں دھنس گئی تھیں۔ رخسار کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ جب ہم نے معانقہ کیا تو مجھے ان کا ہاڑ چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ ہم پاس پاس بیٹھ گئے۔
اس ملاقات میں میں نے دیکھا کہ وہ خاموش خاموش سے ہیں۔ رسمی گفتگو کے علاوہ انہوں نے ایک لفظ بھی زائد نہ کہا۔ بچی کے متعلق پوچھا تو بولے، ’’یونانی علاج سے بھی فائدہ نہ ہوا، اور روپیہ بے دریغ خرچ ہوا۔ اب ہومیو پیتھی کا علاج کروا رہا ہوں۔ مقروض بہت ہو گیا ہوں۔ البتہ یہ علاج الوپیتھی اور یونانی سے بہت ارزاں ہے۔‘‘
ہم دعوت ولیمہ میں شریک تھے مگر وہ کھانا کھائے بنا، میزبان سے معذرت طلب کر چکنے کے بعد وہاں سے چلے گئے۔ ہال سے باہر اسکول کمپاؤنڈ میں بہت سے درخت تھے۔ ان پر بیٹھی ہوئی چڑیاں دن کے بعافیت گزر جانے کا ایک دوسرے سے ذکر کر رہی تھیں۔
کچھ سال بعد میں پھر اجمیر گیا۔ اس دوران میں میری نابینا ماں مر چکی تھیں۔ میں دنیاوی جھمیلوں میں کھویا سا رہا۔ کنبہ بڑا تھا، کفالت مجھ ہی کو کرنا پڑتی تھی۔ فرصت نہیں ملتی تھی کہ پابندی سے ہر سال اجمیر جاؤں اور خواجہ کے آستانے پر حاضر ہو کر سر نیاز جھکا دوں۔
جمعے کا دن تھا اور ربیع الثانی کی تین تاریخ تھی۔ مغرب کی نماز ہو چکی تھی، خواجہ کے دربار میں ان کے معتقدوں کا ٹھٹ جمع تھا۔ چادریں چڑھائی جا رہی تھیں، نذریں گزاری جا رہی تھیں، لوبان اور اگر کا دھواں درگاہ میں آہستہ آہستہ گردش کر رہا تھا۔
میں حسب معمول درگاہ کے ایک ستون سے ٹیک لگائے تسبیح پڑھ رہا تھا کہ میری نگاہ ایک سمت کو اٹھ گئی۔ میں نے دیکھا کہ وہاں ایک برقعہ پوش خاتون کھڑی ہے۔ اس کا چہرہ کھلا ہوا ہے اور اس سے لگ کر ایک خوب رو نازک اندام لڑکی کھڑی ہے۔ اس کی آنکھیں بند ہیں اور وہ ہلکی آواز میں دعائیہ کلمات پڑھ رہی ہے۔ میرے قدم ان کی جانب اٹھ گئے۔
میں نے ان کے قریب پہنچ کر کہا، ’’سلام علیکم۔‘‘
انہوں نے ممکن ہے کہ دل ہی دل میں میرے سلام کا جواب دیا ہو، مگر زبان سے کچھ نہ کہا۔ ان کی پریشانی رفع کرنے کی خاطر میں نے کہا، ’’گھبرائیے مت، میں مسعود احمد فرید ہوں، کچھ نہیں تو چھے سال پہلے میں آپ سے سرائے خلیل میں ملا تھا۔ آپ کی والدہ، ساس اور خاوند بھی آپ کے ساتھ تھے اور غالباً یہ۔۔۔ شاید یہی بچی بیمار تھی۔‘‘
میں نے غور سے اس لڑکی کو دیکھتے اور اپنا شبہ مٹاتے ہوئے کہا۔
میری باتیں سن کر اس عورت کے چہرے سے تشویش کے آثار محو ہو گئے۔ اس نے قدرے تکلف اور جھجک کے ساتھ کہا، ’’ہاں یاد آیا۔ آپ نے ایک رات ہمیں تسلی دی تھی اور بچی کا علاج دوبارہ جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ہم نے اپنا اثاثہ بچی کے علاج پر صرف کر دیا۔ آخر اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور بچی اچھی ہو گئی۔ وہ بچی یہ ہے۔ ناشاد، انجمن اسلام میں پڑھ رہی ہے۔‘‘
’’اس کے ابا کہاں ہیں؟ اس عرصے میں ہماری دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔‘‘
’’مجھے ان ملاقاتوں کے بارے میں اس کے ابا بتا چکے ہیں، وہ چادر چڑھانے گئے ہوئے ہیں۔ آتے ہی ہوں گے۔‘‘
میں نے ناشاد کو غور سے دیکھا۔ پھر میری نظریں اس کے پیروں کی طرف چلی گئیں۔ ان کو ناشاد نے گلابی موزوں میں چھپا رکھا تھا۔
دور بہت دور بہت سے مور بول رہے تھے، ’’صحت ہے سلامتی ہے نیکی ہے بھلائی ہے!‘‘
اتنے میں شفیع صاحب آ گئے۔ کمزور تو وہ مجھے پہلے ہی کے سے دکھائی دیے مگر غالباً ناشاد کے صحت یاب ہو جانے کے سبب قدرے خوش و خرم سے لگے۔ کہنے لگے مسعود بھائی آپ نے ہمیں تاکید نہ کی ہوتی تو ہم بچی کا علاج کیوں کراتے۔ ہم تو سپر ڈال ہی چکے تھے۔ وہ تو آپ ہی کی ہدایت ہوئی کہ علاج جاری رکھیے، اللہ ضرور شفا دے گا اور ہم عزم اور حوصلے کے ساتھ پھر ہمت باندھ لیتے۔ ہم آپ کے تہہ دل سے شکرگزار ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے دونوں ہاتھوں سے میرے ہاتھ تھام لیے اور انہیں بوسہ دے کر آنکھوں سے لگا لیا۔
میں ان کے اظہار تشکر سے بے حد متاثر ہوا۔ میں نے کہا، ’’شفیع صاحب! آپ انتہائی شریف آدمی ہیں۔ ہم مشورے تو ہر ملنے جلنے والے کو دیتے ہیں، مگر انہیں قبول کتنے لوگ کرتے ہیں؟ صرف آپ کے سے اکا دکا۔ اور اللہ اپنی مشیت کے تحت ہی بندے کی فلاح کے اسباب پیدا کیے چلا جاتا ہے۔ ورنہ کوئی بندہ کیا کسی کو ہدایت دے گا اور دوسرا کیا اس کی اطاعت کرے گا۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے پوچھا، ’’مسعود بھائی! آپ کی فیملی کیسی ہے؟ پچھلے دنوں کلیان میں فساد ہوئے، ان میں آپ کو دقتوں کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا؟ مجھ بے پروا کو آپ سے ملتے ہی یہ دریافت کر لینا چاہیے تھا، مگر میں تو اپنا ہی ماجرا نبیڑنے میں لگ گیا۔‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ جب دو شناسا ملتے ہیں تو ایک دوسرے کا احوال ضرور پوچھتے ہیں، چوں کہ آپ کے آنے سے پہلے میں نے آپ کی بیوی اور اپنی بہن سے دریافت خیریت کی ابتدا کی تھی، آپ نے اسے مکمل کر دیا۔‘‘ یہ کہہ کر میں چند لمحوں کے لیے خاموش ہوا پھر بولا، ’’میں جس مکان میں رہتا ہوں وہ اکثریتی فرقے کے علاقے میں واقع ہے۔ اس سے پہلے بھی کلیان میں فساد ہو چکے ہیں مگر ہمیں کبھی ایسا دل شکن تجربہ نہیں ہوا، جیسا کہ اب کی بار ہوا۔
فساد کا دوسرا دن تھا۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ ایک شخص جو اکثریتی فرقے ہی سے تعلق رکھتا تھا اور ہمارے محلے ہی میں رہتا تھا، ہمارے گھر آ کر متواتر گھنٹیاں بجانے لگا۔ ایسے دنوں میں کوئی کیا سو سکتا ہے جو میں سو پاتا، دوڑ کر دروازے پر گیا اور ڈرتے ڈرتے پوچھنے لگا کون ہے؟ اتنی رات گئے کیا کام ہے؟ اس نے خوف سے نڈھال آواز میں کہا، ’’مسعود بھائی، میں شانتا رام ہوں، آپ کا پڑوسی۔ میں نے آواز پہچان کر مگر حالات کی سنگینی کا لحاظ رکھتے ہوئے کہا کیا بات ہے؟ کوئی خطرہ تو نہیں؟ اس نے کہا مسعود بھائی! فوراً نکل جاؤ۔ وہ آرہے ہیں، بس دس بارہ منٹ کی دیر ہے۔ یہ سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔
شفیع صاحب! میں نے اپنی نابینا ماں کو پیٹھ پر بٹھایا، بچوں کو بیوی کی قیادت میں سونپا اور اندھیرے راستے پر ہم سب چل پڑے۔ وہاں سے میل بھر کے فاصلے پر میرے بھائی رہتے تھے، ان کے یہاں ہانپتے پہنچے اور پناہ لی۔‘‘ میں نے کچھ دیر توقف کرنے کے بعد کہا، ’’اب زندگی تا دیر وفا کرنے سے رہی، مگر جتنی بھی باقی رہ گئی ہے وہ رات حافظے سے محو نہ ہو گی۔ اس واقعے کا نقطہ عروج یہ ہے کہ میری ماں اگلے دن مر گئی!‘‘
دور بہت دور مور بول رہے تھے، ’’موت ہے۔ زندگی ہے۔ یہ سلسلہ دراز ہے۔‘‘
’’آئیے کہیں چل کر کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ شفیع صاحب نے مجھ غم زدہ کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور اپنی بیوی اور بچی کو ساتھ ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ ناشاد میرے دائیں جانب قدرے قریب ہو کر چلنے لگی۔ سدھارتھ ہوٹل اجمیر کا سب سے ستھرا اور صاف ہوٹل تھا۔ وہاں پہنچ کر ہم نے ایک گوشے کی میز منتخب کی۔ میاں بیوی میرے سامنے اور ناشاد میرے بازو میں بیٹھ گئی۔ چار تھالیوں کا آرڈر دے کر شفیع صاحب نے پوچھا، ’’مسعود بھائی! آپ نے پہلی ملاقات میں بتایا تھا کہ آپ اجمیر آنے کا سبب تھا خواجہ کے واسطے سے آپ کی امی کی بینائی دوبارہ حاصل ہو۔ مگر افسوس کہ جہاں تک میرا خیال ہے وہ اس رات گھر سے مفارقت کا صدمہ نہ سہہ سکیں اور اس دنیا ہی سے رحلت کر گئیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ مگر اسے آپ مجذوب کی بڑ ہی سمجھیے گا جو میں پوچھوں کہ اب کی بار آپ نے دل کا کون سا مقصد پورا ہونے کی دعا مانگی ہے؟‘‘
’’اس رات کے خوف کے میرے دل سے معدوم ہو جانے کی دعا!‘‘ یہ کہتے کہتے میری آنکھ سے گریۂ شمع کی طرح آنسو ٹپکنے لگے۔
٭٭
ماخذ:
جہاز پر کیا ہوا (Pg. 43)
مصنف: انور قمر
ناشر: شریفہ بائی قطب الدین
سن اشاعت: 2008
٭٭٭