نام کتاب: سرسید اور ان کی خدمات
مصنف: ڈاکٹر جسیم محمد
صفحات: 112(علاوہ ٹائٹل کور)
قیمت: 50روپیہ، ناشر: علیشا پبلیکیشنز پرائیویٹ لمیٹیڈ، علی گڑھ، اتر پردیش
نوجوان صحافی، سماجی کارکن اور ممتاز قلم کار ڈاکٹر جسیم محمد کی زیرِ نظر کتاب ’’ سرسید اور ان کی خدمات‘‘ جدید ہندوستان کے معمار، عظیم مصلح قوم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کی حیات و خدمات پر ایک جامع کتاب ہے جس میں قارئین کی مصروفیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ گیارہ ابواب میں سرسید احمد خاں کی حیات و خدمات پر جامع روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کے علاوہ دو مضمون ’’ عرضِ مصنف‘‘ اور ’’ عرضِ ناشر‘‘ کے عنوانات سے شائع کئے گئے ہیں۔
کتاب کے باب اول ’’عرضِ مصنف ‘‘ کے مطالعہ سے قاری کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ زیرِ نظر کتاب اس دور میں تصنیف کی گئی جب جسیم محمد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ کے طالب علم تھے۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ’’بحیثیت طالب علم اس ادارہ اور اس کے بانی سرسید احمد خاں کے خلوص اور ملت پر ان کے احسانات سے راقم کا متاثر ہونا اور سرسید تحریک سے جذباتی رشتہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔ ‘‘ جبکہ باب دوئم ’’ عرضِ ناشر‘‘ میں محترمہ نکہت پروین نے علیشا پبلیکیشنز پرائیویٹ لمیٹیڈ کے قیام کا مقصد ہی سرسید شناسی کو فروغ دینا قرار دیا ہے۔
’’سرسید اور ان کی خدمات‘‘ میں ڈاکٹر جسیم محمد نے تیسرے باب ’’ سرسید احمد خاں کے ابتدائی دور کا ہندوستان‘‘میں انہوں نے سرسید کے ابتدائی دور کے ہندوستان اور مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی صورتِ حال پر روشنی ڈالتے ہوئے پہلی جنگِ آزادی جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا، پر گفتگو کی ہے جبکہ چوتھے باب ’’سرسید کے ابتدائی حالات‘‘ میں انہوں نے سرسید کے ابتدائی حالاتِ زندگی پر قلم اٹھایا ہے۔ کتاب کا پانچواں باب ’’1857ء کی اولین جنگِ آزادی اور مسلم قوم کی تباہی‘‘1857 کی اولین جنگِ آزادی اور مسلم قوم کی تباہی کی داستان بیان کرتا ہے۔ اس کے چھٹے باب ’’ تعلیم ہی ترقی و کامرانی کی واحد تدبیر‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ سرسید نے یہ بات اچھی طرح محسوس کر لی تھی کہ تعلیم ہی ترقی و کامرانی کی واحد تدبیر ہے۔ اس باب میں ڈاکٹر جسیم نے اس دور کی تعلیمی صورتِ حال، طریقۂ تعلیم اور سرسید کی جدید تعلیم کے فروغ کی کوششوں پر سیر حاصل بحث کی ہے جس سے جدید تعلیم کے تعلق سے سرسید کی فکر اور جد و جہد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس باب میں سرسید کو در پیش مشکلات اور مخالفتوں پر جس سیر حاصل طریقہ پر گفتگو کی گئی ہے وہ قارئین کی معلومات اور سرسید سے ان کی عقیدت میں اضافہ کا باعث ہو گی۔
کتاب کے ساتویں باب ’’ سرسید احمد خاں کا قابلِ ذکر سیاسی تدبّر‘‘ میں ڈاکٹرجسیم محمد نے سرسید احمد خاں کی سیاسی بصیرت پر سیر حاصل روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ انگریز مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا حریف کیوں سمجھتے تھے اور ان کی حکومت میں مسلمانوں کی سیاسی پالیسی کیا ہونی چاہئے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سرسید نے کس طرح ایک ایسی حکومت میں جو مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی تھی، مسلمانوں کو عزت کی زندگی بسر کرنے کی کیا تدبیریں کیں جبکہ آٹھویں باب ’’ معاشرے کی اصلاح‘‘ میں جسیم محمد نے عظیم مصلح قوم سرسید احمد خاں کی اصلاحی تدبیروں پر روشنی ڈالتے ہوئے سرسید کے سفر انگلستان اور سرسید کی صحافت کے توسط سے اصلاحی کوششوں سے روشناس کرایا ہے۔
کتاب کا نواں باب ’’سرسید کی مذہبی فکر‘‘ اس سبب سے اہم ہے کہ سرسید پر عام طور پر نیچری اور ملحد ہونے کے الزامات عائد کئے جاتے رہے، یہاں تک کہ ان کے لئے فتویٰ تک حاصل کیا گیا مگر وہ اپنے مشن میں مصروف رہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جس طرح غیر مسلم مصنفین کی اسلام دشمنی کا منھ توڑ جواب دیا وہ سرسید کے مذہبی افکار اور اسلام سے ان کی عقیدت پر دال ہے۔ یہ باب سرسید کی مذہبی فکر کے تعلق سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتا ہے۔ کتاب کے دسویں باب ’’سرسید احمد خاں کا شعری و ادبی نظریہ‘‘ میں مصنف نے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ سرسید احمد خاں بیدار کرنے والے ادب میں یقین رکھتے تھے قوم کو غفلت کی نیند سلادینے اور تصورات کی دنیا میں لے جانے والے ادب میں نہیں۔ اس باب میں سرسید کی ادبی بصیرت پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب کا گیارھواں باب ’’سرسید احمد خاں کی زندگی کے آخری ایّام اور ان کی وفات‘‘ سرسید کے آخری ایّام کی تصویر کشی کرتا ہے جس میں ان کی، بیماری، وفات، جنازہ اور تدفین کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ بارھویں باب ’’ محسنِ قوم و ملت سرسید احمد خاں کو خراجِ عقیدت‘‘ میں سرسید کی وفات کے بعد ان ک وملک و ملت کی نامور ہستیوں کی جانب سے خراجِ عقیدت کے طور پر پیش کئے نثر و نظم پاروں کو شامل کیا گیا ہے جبکہ کتاب کے تیرھویں اور آخری باب ’’ کاروانِ سرسید‘‘ میں سرسید کے رفقائے کار کا مختصر لیکن جامع تعارف پیش کیا گیا ہے۔
المختصر ڈاکٹر جسیم محمد کی مذکورہ کتاب سرسید شناسی کے میدان میں اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس کا مطالعہ سرسید کے تعلق سے قاری کے ذہن میں ابھرنے والے ہر سوال کا جواب ہی پیش نہیں کرتا بلکہ سرسید احمد خاں کی حیات و خدمات، سرسید تحریک اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے مقاصد پر بھی قاری کو جامع معلومات فراہم کرتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ علمی و ادبی حلقوں میں ’’سرسید اور ان کی خدمات‘‘ کی خاطر خواہ پذیرائی ہو گی اور یہ کتاب کسی بھی بک شیلف کا با وقار اضافہ ثابت ہو گی۔
٭٭٭