خدا حافظ۔ اِنتظار حسین۔ ۔ ۔ محمد حمید شاہد

 

آخر وہ سناؤنی بھی آ گئی جو ہم سننا ہی نہیں چاہتے تھے، ہمیں انتظار حسین کو خدا حافظ کہنا پڑ رہا ہے اور وہ بھی یوں کہ ہمارے دل دکھ سے بوجھل ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھی انتظار حسین کی بیماری کی خبر آئی تھی، اور اس سے پہلے ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹی تو وہ ہسپتال جا پہنچے تھے مگر ہر بار سنبھلے اور بعد میں جب کراچی اور لاہور کی ادبی کانفرنسوں میں ان کی پر جوش شرکت کو دیکھا تو اس بار بیمار پڑنے کی خبر کے بعد نہ جانے کیوں دل میں یوں ان کے چل بسنے کا وسوسہ تک نہ آتا تھا۔ انتظار حسین کے چل بسنے کی پہلی اطلاع پر بھی یقین نہ آیا تو میں نے ایرج مبارک سے، کشور ناہید سے، قاسم بگھیو سے، آصف فرخی سے، سب سے پوچھا؛ کوئی جواب نہ دیتا بلک بلک کر رونے لگتا تھا۔ تو یوں ہے کہ ہمیں اسے خدا حافظ کہنا ہی پڑے گا جو ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہے گا۔ یاد کیجئے کہ انتظار حسین نے "چاند گہن ” پہلے لکھا تھا جو ۱۹۵۳ میں چھپا پھر” دن اور داستان لکھا”۔ یہ دوسرا ناول ۱۹۶۰ میں چھپا تھا۔ جس ناول کا انگریزی ترجمہ مین بکر والوں کی توجہ کا مرکز ہوا وہ تو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد کہیں ۱۹۷۹ میں منظر عام پر آیا تھا۔ خیر سچ پوچھیں تو اسی بعد میں چھپنے والے ناول نے یہاں بھی سب سے زیادہ توجہ پائی۔ ۵ ۱۹۳ میں یوپی کے ضلع بلند شہر کے گاؤں ڈبائی میں پیدا ہونے انتظار کو تقسیم کے بعد ہجرت کر کے ادھر اٹھ آنا پڑا تھا۔ جس عمر میں وہ ہجرت کے تجربے سے گزرے تھے اس عمر کا مشاہدہ اور تجربہ، یوں لگتا ہے بہت توانا اور گہرا تھا، کہ اس عہد کی یادیں بعد ازاں نہ صرف تخلیقی صورت میں ڈھلتے ہوئے کچھ اور اجلی ہو گئی تھیں۔ تاہم انتظار کا اپنے افسانوں اور ناولوں میں ماضی کی یاد سے وابستہ ہونا محض کہانی کہنے کے لیے مڑنا اور عقب سے بھاگتے ہوئے آ کر اگلی سمت جست لگانا نہیں ہے۔ وہ پیچھے مڑ کر زمانے کے کسی خاص وصف کو دیکھتے ہیں، اس خاص وصف کو جو نئے زمانے میں کہیں نہیں ہے۔ جی، انتظار حسین کے مطابق پرانے والے زمانے میں چیزوں کے رشتے مضبوط تھے اور زندگی خانوں میں بٹی ہوئی نہیں تھی۔ اس زمانے میں پیٹ پالنے کا مشغلہ مشقت نہیں تھا اور تفریح کے اوقات کام کاج کے اوقات سے الگ نہیں تھے۔ وہاں کسی گھر میں املی یا نیم کا پیڑ تھا، کسی چھت پر کبوتروں کی چھتری تھی، کہیں امام باڑہ تھا اور کوئی گھر خالی تھا کہ اس میں جن رہتے تھے، یہ گھر، یہ محلے، یہ گلیاں، یہ درخت سب زندہ انسانوں کی طرح سانس لیتے تھے۔ اسی شہر کی سانسوں میں ایک تہذیب کروٹ لیتی تھی جو پیچھے جا کر الف لیلہ سے، مذہبی حکایات سے، کربلا والوں سے اور اپنی زمین کی بھولی بسری کہانیوں سے جا کر مل جاتی تھی۔

بات” بستی "کی کر رہا تھا مگر کہیں اور نکل گیا۔ خیر، کہنا یہ تھا کہ اس ناول کا ذاکر بھی اپنے والدین کے ساتھ یوپی کے روپ نگر سے اٹھ کر یہاں آیا تھا اور اپنے ساتھ وہاں کی یادوں کا ایک خزینہ اٹھا لایا تھا۔ ناول میں اُس زمانے کا نقشہ کھینچا گیا ہے جب پرانی مروتیں باقی تھیں۔ اُدھر سے قافلے آتے اور یہاں کی گلیاں اور محلے انہیں اپنے اندر بسا لیا کرتے تھے پھر اس ناول میں انہیں کشادہ آنگنوں کے تنگ ہونے کا تذکرہ ہوا اور آنے والوں کے اپنوں کی ان قبروں کا جو وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے اور اب یاد کر کے انہیں روتے تھے مگر ان کا رونا کوئی سنتا نہ تھا۔ آدمی کا ہوس کی طرف جست لگانا لوٹ کھسوٹ اور ہیرا پھیری کو وتیرہ کرنا اس ناول کا موضوع بنا اور ساتھ ہی ماضی کچھ اور اجلا ہوتا چلا گیا۔ ایسے میں اگر وہ جو ہجرت کر کے یہاں بس گئے تھے ان کا ماضی کو یاد کرنا بہت بامعنی ہو جاتا ہے۔ ذاکر کی ماں اپنے اس کفن کو یاد کر رہی ہے جو کربلا معلی سے آیا تھا، اس جائے نماز کا ذکر چھیڑا جا رہا ہے جو مدینہ منورہ سے آئی تھی اور اس خاک شفا کی بات ہو رہی ہے جو جوسجدہ گاہ تھی تو یوں ہے کہ یہ یادیں دراصل ماضی، تہذیب اور رواں وقت کو ایک اکائی کی صورت میں رکھ کر دیکھ رہی ہیں۔ ایک ایسی اکائی؛ جسے سُرسُر کرتی دیمک چاٹ رہی ہے یا شاید بہت حد تک چاٹ چکی ہے۔

جب قاری یکسو ہو کر انتظار کی طبع زاد کہانی پڑھتا ہے، جی اُن کہانیوں کو جو محض اردو میں ڈھا ل نہیں لی گئیں ہیں تو ماننا پڑتا ہے کہ "آخری آدمی””زرد کتا” اور "شہر افسوس ” جیسے شاہکار افسانے لکھ کر جو توقیر انتظار حسین کے حصہ میں آئی ہے کسی اور کے مقدر کا حصہ نہ ہو سکی۔ میں نے جو پہلے کہہ رکھا ہے، اسے ایک بار پھر دہرا دیتا ہوں کہ اردو افسانے کی پوری روایت میں کوئی بھی نہیں ہے جس کے پاس ان الگ سی چھب رکھنے والی کہانیوں کے مزاج اور مواد کا ایک بھی افسانہ ہو۔

انتظار حسین کو ۱۹۵۲ ء میں چھپنے والے افسانوں کے مجموعہ "گلی کوچے ” سے پڑھا جانا چاہیے اور پھر منزل بہ منزل ان افسانوں تک پہنچنا چاہیئے جو انہیں اوروں سے مختلف اور ممتاز کر دیتے ہیں۔ جی میں جس پہلی کتاب کی بات کر رہا ہوں اس میں آپ کو ایسے افسانے ملیں گے جو ٹھیٹھ سماجی حقیقت نگاری کی روایت کے احترام سے غافل نہیں ہیں۔ "قیوما کی دکان "، "استاد”، "خریدو حلوا بیسن کا”، "چوک”، "اجودھیا”، ” پھر آئے گی”، ” عقیلہ خالہ”، ” رہ گیا شوقِ منزلِ مقصود” اور "روپ نگر کی سواریاں ” جیسے افسانے۔ سب افسانوں میں کہانی سہج سہج آگے بڑھتی ہے، یوں کہ کہانی کا بیان سارا وسیب اور اس عہد کی انسانی طینت اجال کر رکھ دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جس انسانی سرشت اور وتیرے کو ان افسانوں میں سجھایا جا رہا ہے اسے کسی اور ماحول اور منظر میں رکھ کر سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔

"گلی کوچے ” میں ۱۹۵۰ء تک کے افسانے شامل تھے جب کہ دوسرا مجموعہ "کنکری ” ۱۹۵۵ ء میں چھپا۔ پھر ۱۹۶۷ ء میں تیسرا مجموعہ” آخری آدمی ” اور چل سو چل۔ تب تک سب جان گئے تھے کہ انتظار حسین اردو افسانے کی تاریخ میں ایک الگ باب بن چکے ہیں۔ ایک مستقل باب۔ اس عرصہ میں انتظار حسین کے فکشن اور تخلیقی چلن نے رنگ بدلا مگر ہمیں تو انتظار حسین کو مجموعی کام کے حوالے سے دیکھنا ہو گا اور ایسا کریں گے تو ماننا ہو گا کہ انتظار نے نہ صرف اپنی کہانیوں کے ذریعہ ایک نیا معنیانی نظام تشکیل دیا اردو زبان کی تہذیب کو بھی نئے زمانے میں سمجھنے اور برتنے کی راہ سجھائی۔

صاحب، اس سارے سفر کو نگاہ میں رکھنا ہو گا۔ وہ فکشن نگار ہو جو ہند مسلم تہذیب اوراس انسان کو اپنی فکشن کی کائنات کے مرکز میں رکھا کرتا تھا جو اپنی تہذیبی تاریخ سے جڑا ہوا تھا اور محض اپنے چھوڑے ہوئے گلی کوچوں میں رہ کر مطمئن نہیں رہ سکتا تھا؛ بہ قول انتظار حسین "آخری آدمی” یا پھر نئے والے انتظارحسین جنہیں اب ہندوستان کی "نئی پرانی کہانیاں ” بہت لطف دینے لگی ہیں۔ مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہ نیا لطف بس ادھر ادھر پذیرائی کا شاخسانہ ہے۔ خیر یہ پہلو بھی تو انتظار حسین کا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس باب میں بھی وہ اردو کے دامن میں بہت کچھ ڈال رہے ہیں۔ میں بات کر رہا تھا انتظار حسین کے ان افسانوں کی جو آدمی پر برتر سطح وجود پر جینے کی راہ کھولتے ہیں، "آخری آدمی "، "زرد کتا ” اور” ہڈیوں کا ڈھانچ ” جیسے افسانے ؛ اور بتا رہا تھا کہ ان افسانوں کے ذریعہ انتظار حسین کی نگاہ کا مرکز وہ آدمی ہے جس کے لیے مادی اور جسمانی خواہشات ہیچ ہو جاتی ہیں۔ جی وہ آدمی جو لالچ اور حرص و ہوس سے بلند ہونے کی طرف راغب ہونے کی سکت رکھتا ہے۔ وہ بندر کی نسل والا آدمی نہیں ہے۔ یہ آدمی بندر بن جانے کو انسان کے اپنی برتر سطح وجود سے گرنے کے مترادف سمجھتا ہے اور جب اسے اس کا نفس امارہ پٹخ دیتا ہے تو وہ زرد کتے کی پناہ میں پہنچ کر شرف انسانیت سے گر جاتا ہے۔ بھوک سے نڈھال یہی آدمی جب پکتی ہنڈیا سے اٹھتی سوندھی سوندھی خوشبو کو سونگھ کر اس کی طرف لپکتا ہے انتظار حسین اس حوالے سے یہ سوال اچھال دیتے ہیں ؛ وہ کون تھا آدمی یا کتا۔ انتظار حسین کے آدمی کو ڈر اور خوف میں مبتلا ہو کر اپنے وجود سے پچھڑنا مکھی بنا دیتا ہے اور مسلسل اس خوف میں رہنا اپنے برتر سطح وجود سے ہمیشہ کے لیے محروم کر سکتا ہے۔

اپنی کہانیوں میں جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں سے آدمی کو الگ اور اعلی کر کے دکھانے والے انتظار حسین نے بعد ازاں ہمیں بتایا تھا کہ پرانے زمانے میں سب مخلوقات کی ایک ہی برادری تھی اور اس برداری میں آدمی ‘جانور‘ کیڑے مکوڑے اور پکھی برابر ہو گئے تھے۔ شرف انسانیت کو الگ سے دیکھنے والے انتظار ہوں، جو گرے ہوئے آدمی کو کتا اور مکھی بن جانے کی ذلت سے دوچار دیکھتے تو بے چین ہو جایا کرتا تھے یا سب کو ایک برداری سمجھنے والے، دونوں کو ہمیں اپنے اپنے تناظر میں رکھ کر سمجھنا ہو گا۔ تہذیبی آدمی کے انہدام کا نوحہ کہتی کہانیاں ہوں یا وہ کہانیاں جن میں ہند اسلامی تہذیب کا سوال حاشیے پر چلا جاتا ہے، ان سب کو سمجھنے کے بعد ہی انتظار حسین کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر نہیں صاحب، صرف اور محض یہ سوالات ہی انتظار حسین کی فکشن میں اہم نہیں رہتے اصل جادو تو اس لہجے کا ہے جسے وہ کہانی کہنے کے لیے برتتے ہیں، اس زبان کا ہے جس کو وہ تہذیبی زندگی کا مظہر بنا دیتے ہیں اور اس عمیق اور انوکھے زاویے سے مشاہدے کا ہے جو بیانیہ اجال دیتا ہے۔ بہ ظاہر سادہ زبان، مگر اتنی گہری کہ کئی مفاہیم کو اپنے اندر سمیٹ کر چلتی ہے۔ زبان کو فکشن کی زبان رکھ کر اس میں جمالیاتی قرینے رکھتے چلے جانا اور ایک عام سے منظر اور سادہ سے واقعہ کو مختلف کر کے اس کے اندر سے بھیدوں کے سلسلے نکال لانے کا جادو انتظار حسین کو آتا ہے۔ تو یوں ہے کہ "آخری آدمی” "زرد کتا” اور "شہر افسوس ” جیسے شاہکار افسانے صرف اردو کا ہی وقار نہیں بڑھا رہے عالمی فکشن میں بھی ایک نئے ذائقہ کا اضافہ ہوئے ہیں اور زبان کے تخلیقی امکانات کو تہذیبی زندگی سے جوڑ کر جس طرح انتظار حسین کے ہاں برتا گیا ہے اسے بھی سامنے رکھا جائے تو ہمارے اس فکشن نگار کا مقام اوروں سے بہت الگ اور بلند ہو جاتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے