عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، اردو اور انگریزی زبانوں کے کالم نگار اور مترجم انتظار حسین نے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لیا۔ ان کا شمار تاریخ ادب کے ان عظیم ترین مصنفین میں ہوتا تھا جنھیں کلاسیک کا درجہ ملا اور شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام ان کا مقدر بن گیا۔ وہ ڈیفنس کالونی لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں چھبیس جنوری سے نمونیا کے علاج کے سلسلے میں داخل تھے۔ بخار کی شدت کی وجہ سے انھیں سانس لینے میں دشواری تھی اس لیے انھیں مسلسل آکسیجن دی جا رہی تھی لیکن چشم کے مرجھا جانے کا حادثہ ہو کے رہا۔ اردو زبان و ادب کا وہ آفتاب جوسات دسمبر ۱۹۲۳کو ڈبائی (بلند شہر، بھارت )سے طلوع ہو ا وہ ۲۔ فروری ۲۰۱۶کو لاہور میں غروب ہو گیا۔ عالمی ادبیات کا ایک دائرۃ المعارف پیوند خاک ہو گیا۔ اس سانحے پر شہر کا شہر سوگوار تھا اور پاکستان اور دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوں میں انتظار حسین کی رحلت کی خبر بہت رنج و غم سے سنی گئی۔ دنیا بھر میں ان کے کروڑوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسا عظیم تخلیق کار کہاں سے تلاش کریں جسے انتظار حسین جیسا کہا جا سکے۔ انتظار حسین کی دائمی مفارقت ان کے مداحوں کے گریۂ پیہم اور دردِ لا دوا کا عنوان بن گئی ہے۔ ارد و ادب میں صبر و استقامت، اعتدال پسندی، بر د باری و تحمل، رواداری اور ملنساری و مروّت کی عظیم روایت اپنے اختتام کو پہنچی۔ انتظار حسین کو اہلِ نظر ایسا رانجھا قرار دیتے تھے جو سب کا سانجھا تھا۔ وطن، اہلِ وطن اور بنی نوع انسان سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کرنے والی ایسی نادرو نایاب ہستیاں اب دنیا میں کہیں نہ ملیں گی۔ لاہور کے ” فردوسی شہر خموشاں ” کی دو گز زمین نے اردو زبان و ادب اور فکشن کے اس بے کراں آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ عدم کی وادیوں سے اٹھنے والی تند و تیز گھٹاؤں کے مہیب بگولوں سے اردو زبان و ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی۔ قزاق اجل نے اردو فکشن کو اس دولتِ نایاب سے محروم کر دیا جس نے اردو زبان کو پُور ی دنیا میں معزز و مفتخر کر دیا۔ انتظار حسین نے مسلسل آٹھ عشروں تک پرورش لوح و قلم میں جس انہماک کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کی بنا پر انھیں ایک نابغۂ روزگار ہستی قرار دیا جاتا تھا۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے اس کے نتیجے میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ آنے والی کئی صدیوں میں بھی پُر نہ ہو سکے گا۔ ترجمہ نگاری میں ان کی اصل زبان کے متن کے ساتھ قلبی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ ترجمے میں تخلیق کی چاشنی کا کرشمہ دامن دل کھنچتا تھا۔ انگریزی زبان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔ انگریزی زبان میں لکھے گئے علمی، ادبی، تہذیبی، معاشرتی اور ثقافتی موضوعات پر ان کے کالم فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئے۔ انتظار حسین کی وفات کی خبر سن کر دنیا بھر میں ان کے لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں اور ہر شخص یہی سوچتا ہے کہ سیرِ جہاں کا حاصل حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حیات و ممات کے سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کون کر سکتا ہے۔ باہمی میل جول کی مظہر زندگی کی کہانی کا یہی انجام ہے :دائمی مفارقت، زندگی کے بے آواز ساز کی یہی صدا ہے :دائمی سکوت، کٹیا ہو یا عظیم الشان مکان سب کے مکینوں کے لیے ایک ہی ابدی آرام گاہ ہے :کنجِ لحد۔ موت سے کسی کو رستگاری نہیں، سب اپنی اپنی باری بھر کر سوئے عدم روانہ ہو رہے ہیں۔ جن ہستیوں کو ہم دیکھ دیکھ کر جیتے تھے اور جن کا وجود ہمارے لیے ہمیشہ خضرِ راہ ثابت ہوا اور ہم ان کے شانہ بہ شانہ سر گرمِ سفر رہے اجل کے بے رحم ہاتھوں نے انھیں راہِ رفتگان کی منزل تک پہنچا دیا اور اُنھوں نے ہم سے بہت دُور اپنی بستیاں بسا لیں۔ ہم اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ان کی راہ دیکھتے ہیں لیکن وہ کبھی ہمارے پاس نہیں آئیں گے بل کہ بالآخر ہم ان سے جا ملیں گے۔
اردو ادب کی تاریخ میں دو قابل صد احترام نام ایسے ہیں جن کی فقید المثال تخلیقی کامرانیوں اور علمی و ادبی خدمات نے اردو زبان کو عزت و تکریم کی رفعت سے آشنا کیا۔ ان دونوں عظیم ہستیوں کے نام کا لاحقہ "حسینؑ” ہے۔ یہ دونوں نام کسی تعارف کے محتاج نہیں، اردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے ذوق سلیم سے متمتع قارئین عبداللہ حسین اور انتظار حسین کے منفرد اسلوب کے گرویدہ ہیں۔ ادبی محفلوں میں اِن نابغۂ روزگار ادیبوں کے مداح انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے گزشتہ آٹھ عشروں سے بے ساختہ یہ کہتے رہے ہیں :
"اردو ادب کے دو حسینؑ دو قطبین: عبداللہ حسین اور انتظار حسین”۔ ” اردو فکشن کے دو سر بہ فلک کوہسار:عبداللہ اور انتظار”ان عظیم تخلیق کاروں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ انتظار حسین نے اپنے عہد کی سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی کشمکش پر اپنی نظر مرکوز رکھی اور اپنی تخلیقی تحریروں میں اصلاحِ احوال کی مقدور بھر کوشش کی۔ انھوں نے اپنی زندگی علم و ادب کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اردو ادب کے طالب علموں کو اعلا سطح پر اپنے سندی تحقیقی و تنقیدی کام میں اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اہم بنیادی مآخذ تک رسائی پس ماندہ علاقوں کے مکین نوعمر محققین کے لیے ایک کٹھن مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ دُور افتادہ دیہاتوں اور قصبات میں جہاں زندگی آج بھی پتھر کے زمانے کا ماحول پیش کرتی ہے وہاں شفا خانے عنقا ہیں کتب خانے تو بہت دُور کی بات ہے۔ ایسے علاقوں میں پُر عزم طالب علم فاصلاتی تعلیم کے ذریعے اپنا مستقبل سنوارنے کی جد و جہد میں مصروف رہتے ہیں۔ ان مقامات سے جب بھی کوئی طالب علم علمی اعانت اور مآخذ کے حصول کے لیے انتظار حسین سے رابطہ کرتا تو وہ اس کی دست گیری کے لیے تمام وسائل استعمال کرتے۔ لاہور کے بڑے کتب خانوں سے مطلوبہ مآخذ اور حوالہ جاتی کتب کی عکسی نقول تیار کرا کے طالب علموں کے ڈاک کے پتا پر ارسال کرتے۔ بیرون ملک مقیم محققین کے مطلوبہ مآخذ اور مخطوطات کو سکین (Scan)کراتے اور مطلوبہ مآخذ برقی ڈاک کی خاطر دی گئی شناخت سے منسلک کر کے برقی ڈاک کے ذریعے بر وقت روانہ کرتے۔ وہ یہ سب خدمات فیض کے اسباب سمجھ کر انجام دیتے اور ان کا کوئی معاوضہ قبول کرنے پر کسی صورت میں آمادہ نہ ہوتے۔ اس طرح ہزاروں طلبا و طالبات نے اس سر چشمۂ فیض سے سیراب ہو کر تعلیم مدارج طے کیے۔
ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ عظیم المرتبت شخصیات کی مقبولیت، ثقاہت اور عظمت کا انحصار جہاں ان کی علمی و ادبی کامرانیوں پر ہے وہاں یہ امر بھی کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ان کے معاصرین اور آنے والی نسلوں نے ان کی خدمات پر ممنونیت اور سپاس گزاری کے جذبات کا اظہار کس طرح کیا۔ معاملہ فہم نقادوں نے انھیں خراج تحسین پیش کرتے وقت ان کے منفرد اسلوب سے متعلق کن اہم حقائق کی نشان دہی کی۔ دنیا بھر میں زندہ اقوام کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے رفتگان کو خراج تحسین پیش کر کے اپنے قلوب اور اذہان کی تزئین و تنویر کا اہتمام کر کے اپنے روشن مستقبل کے لیے مؤثر لائحۂ عمل مرتب کرتے ہیں۔ انتظار حسین نے اردو ادب کی درخشاں روایات کو حیاتِ جاوداں عطا کر نے کی مساعی کو پروان چڑھانے کے لیے جو انتھک جد و جہد کہ وہ تاریخِ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ انھوں نے اپنی انتھک جد و جہد سے اردو زبان کو اس انداز سے ثمر دار کیا کہ کہ ان کی تخلیقات کی عطر بیزی سے گلشنِ ادب کا گوشہ گوشہ مہک اُٹھا اور قارئین ادب کا قریۂ جاں معطر ہو گیا۔ ارضِ وطن، ملت اور انسانیت سے والہانہ محبت، انسانیت نوازی، عجز و انکسار، اخلاق و اخلاص اور ایثار و درد مندی ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ آبِ رواں سے تشنگی بجھانے اور مہکتے گلزاروں سے گل ہائے رنگ رنگ کی خو شہ چینی کے لیے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا ہی کافی نہیں کلاہ کج کر نا بھی ناگزیر ہے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فطرت اور تقدیر کا ہمیشہ تاریخی عوامل سے انسلاک رہا ہے۔ خوب سے خوب تر کی جستجو انسانی فطرت کا جزو لا ینفک ہے۔ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی اس امر کی متقاضی ہے کہ انسان اپنی جملہ صلاحیتوں کو (جن میں خوابیدہ صلاحیتیں بھی شامل ہیں ) بروئے کا ر لا کر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی جدو جہد میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس طرح وہ نہ صرف اپنا مقدر سنوارسکتا ہے بل کہ معاشرتی زندگی اور سماجی حالات میں نکھار بھی لا سکتا ہے۔ انتظار حسین نے اپنی تخلیقی فعالیت سے زندگی کی ترجمانی کر تے ہوئے حیات و کائنات کے مظاہر پر گہری نظر رکھی اور ان سے وابستہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی کی مقدور بھر جدو جہد کی۔ ان کے افسانے زندگی کے متعدد پوشیدہ شاخسانے سامنے لاتے ہیں جو زندگی نشیب و فراز سے اس قد ر مربوط ہیں کہ قاری ان کی جامعیت، کلیت، حقیقت اور اہمیت کے سحر میں کھو کرتخلیق کا رکے زاویۂ نگاہ کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔
تراجم کے حوالے سے انتظار حسین کا خیال تھا کہ بلند پایہ ادبی تخلیقات کسی ایک زبان کے حصار میں محدود نہیں رہ سکتیں۔ ان عظیم ادب پاروں کی صدائے باز گشت لمحات تک نہیں بل کہ صد یوں تک کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے۔ اس لیے انسانیت کی فلاح اور ذہن و ذکاوت کی نمو کے لیے ان کا مختلف زبانوں میں اس کے اعجاز سے وسعت نظر پیدا ہونی ہے۔ تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کے باہمی امتزاج سے نئے خیالات کی ترویج و اشاعت کا لائق صد رشک و تجسس سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور زبان کی تخلیقی اور علمی و ادبی ثروت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انتظار حسین نے اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے سماجی زندگی کے مختلف طبقات، مذاہب اور نسلوں کے درمیان ہم آہنگی پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ وہ رنگ، نسل، ذات اور فرقوں کے امتیاز کو لائق اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ سماجی زندگی میں مختلف طبقات، مذاہب اور نسلوں کے ربط باہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس طرح طلوعِ صبحِ بہاراں کے امکانات روش تر ہو جائیں گے۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہر قسم کی عصبیتوں اور رنگ و خون کے امتیازات سے گلو خلاصی حاصل کرنے سے معاشرے کو امن و عافیت کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں انھوں نے سدا حرفِ صداقت لکھنے کی ترغیب دی۔ تنقید میں انھوں نے ہمیشہ صحت مند انداز فکر اپنا نے پر زور دیا۔ مثبت تنقید کو وہ تخلیقی فعالیت کو صحیح سمت عطا کرنے کے لیے نا گزیر سمجھتے تھے۔ عیب جوئی، حر ف گیری اور تنقیصِ بے جا کو وہ سخت نا پسند کرتے تھے۔ ایک کہنہ مشق ادیب کی حیثیت سے انھوں نے نئے لکھنے والوں کا ہمیشہ حوصلہ بڑھایا اور نئے خیالات کی پذیرائی میں کبھی تامل نہ کیا۔
انتظار حسین کے والدین یکے بعد دیگرے چار بیٹیوں کی پیدائش کے بعد اولادِ نرینہ کے شدت سے منتظر تھے۔ والدین کا اپنے بیٹے اور چار بہنوں کا اپنے بھائی کا انتظار رنگ لایا اور جب اس ہو نہار بچے کی پیدائش ہوئی تو اس کا نام انتظار حسین رکھا گیا۔ انتظار حسین اپنے آبائی گاؤں ڈبائی سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آٹھ سال کی عمر میں میرٹھ منتقل ہو گئے۔ سال ۱۹۴۶ میں میرٹھ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد سال 1947میں پاکستان پہنچے۔ جامعہ پنجاب(لاہور) سے اردو زبان و ادب میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ انتظار حسین کو انگریزی ادب سے گہری دلچسپی تھی اس لیے ان کا ارادہ تھا کہ انگریزی زبان میں ایم۔ اے کریں لیکن بعض ذاتی مسائل کے باعث وہ اپنے اس ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ بھارت سے ہجرت کر کے مستقل طور پر لاہور میں مقیم ہو گئے۔ اگرچہ وہ لاہور پہنچ گئے لیکن اپنے بچپن کی یادوں کے حوالے سے میرٹھ کا جب بھی ذکر کرتے ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ ان کے قریبی ساتھیوں کی رائے تھی کہ ہجرت کے بعد انتظار حسین کا جسم تو ارض پاکستان میں پہنچ گیا لیکن ان کا دِل میرٹھ کے نواحی گاؤں ڈبائی میں رہ گیا جو ان کی جنم بھومی تھی۔ میرٹھ کی وادیِ میل کی محبت اپنی جگہ لیکن یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی محبت انتظار حسین کے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔ وہ پاکستان کی محبت کو ملکِ سلیمان سے کہیں بڑھ کر حسین سمجھتے تھے اوراِس سوہنی دھرتی کے خار کو بھی گلاب اور چنبیلی سے زیادہ عنبر افشاں خیال کرتے تھے۔ وہ ارضِ پاکستان کو چاند کا ٹکڑا سمجھتے تھے اور اس کی آزادی، خوش حالی اور استحکام کے لیے دعا زندگی بھر ان کا معمول رہا۔ ان کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ وطن کو محض چمکتی دمکتی عظیم الشان عمارتوں کی صورت میں نہیں دیکھتے تھے بل کہ وہ وطن کو اہل وطن کے جسم اور روح سے عبارت ایک پاکیزہ جذبے سے تعبیر کرتے تھے۔ ارضِ پاکستان کو انھوں نے سدا مادرِ وطن کے نام سے اس لیے پکارا کہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ اسی پاک سر زمین سے دائمی راحتوں، بے پایاں مسرتوں، اندیشۂ زوال سے نا آشنا بہاروں اور فقید المثال کامرانیوں کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اپنے پیارے وطن کی آغوش میں انھیں امن و سکون، محبت و شفقت، راحت و آسودگی، ترقی و خو ش حالی کی جو متاعِ بے بہا ملی اسی کی وجہ سے وہ وطن کو مادرِ وطن کہا کرتے تھے۔ ان کی خانگی زندگی بہت خوشگوار رہی، خاندان کے بزرگوں کی باہمی افہام و تفہیم سے ان کی شادی عالیہ بیگم سے ہوئی مگر کوئی اولاد نہ تھی۔ عالیہ بیگم سال 2004میں انتظار حسین کو تنہا چھوڑ کر زینۂ ہستی سے اُتر گئیں۔ اس سانحہ نے انتظار حسین کو جذباتی طور پر مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔ اس کے بعد جا نگسل تنہائیوں اور ہجومِ غم میں دِل کو سنبھالنے کی خاطر تزکیۂ ٔ نفس کے لیے وہ قلم و قرطاس کا سہارا لیتے تھے۔ وفا شعار رفیقۂ حیات کی دائمی مفارقت نے ان کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا۔ جب بھی ان کا نام لیتے ان کی چشم بھر آتی اور ان کی کیفیت کچھ اس طرح ہوتی :
طلوعِ صبحِ قیامت کی منتظر دونوں
وہ آنکھ خوابِ عدم میں یہ آنکھ اِدھر بیدار
انتظار حسین نے ابتدا میں کچھ عرصہ ہفت روزہ” نظام ” میں ملازمت کی۔ ایک کثیر المطالعہ ادیب کی حیثیت سے انھوں نے عالمی کلاسیک کا عمیق مطالعہ کیا۔ انھوں نے ارضی و ثقافتی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہندوستان کی درج ذیل قدیم کتابوں کا مطالعہ کیا :
۱۔ گیارہویں صدی کی سنسکرت تصنیف بیتال پچیسی جوپچیس طویل کہانیوں پر مشتمل ہے۔
۲۔ پریوں اور لوک داستانوں پر مشتمل گیارہویں صدی کی قدیم ہندوستانی کہانیوں پر مشتمل سوما دیوا کا سنسکرت بیانیہ "کتھا سریت ساگرا "۔ یہ کتاب اٹھارہ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس میں ایک سو چوبیس ابواب شامل ہیں۔
۳۔ مہا بھارت کی اٹھارہ جلدیں جن میں خورخشترواجنگ(Kurushetrva War) میں کوروا (Kaurava)اور پانڈوا(Pandava)شہزادوں کی جنگ کا احوال شامل ہے۔
۴۔ جاتک کتھا(بچوں کی کہانیاں )
انتظار حسین نے قدیم ہندوستانی اسا طیر کو اردو فکشن میں شامل کرنے کا جو منفرد انداز اپنایا اس سے اردو فکشن کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ایرانی اور عربی ادبیات میں فنِ داستان گوئی کی جو قدیم روایت موجود ہے، انتظار حسین نے اس سے بھر پور استفادہ کیا۔ مغربی ادبیات کے مطالعہ سے انھیں عقلیت پسندی، حقیقت نگاری، فطرت نگاری، علامت نگاری، جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، پس ساختیات اور رد تشکیل کے بارے میں جاننے کے مواقع ملے۔ گبریل گارسیا مارکیز کی طلسمی حقیقت نگاری کے مظہر اسلوب کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے سے انتظار حسین لاہور کی ادبی محفلوں میں باقاعدگی سے شریک ہو رہے تھے۔ حلقۂ اربابِ ذوق نے نئی تنقید سے متاثر ہو کر ادب پاروں کے تجزیاتی مطالعات کا جو سلسلہ شروع کیا انتظار حسین نے اُسے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کی ہفتہ وار نشستیں ادیبوں کے لیے بہرِ ملاقات ایک تقریب کی حیثیت رکھتی تھیں۔ حلقۂ اربابِ ذوق کی ان نشستوں میں انتظار حسین کو جن ممتاز ادیبوں سے ملنے کے مواقع ملے ان میں اعجازحسین بٹالوی، انور سجاد، افتخار جالب، انیس ناگی، ریاض احمد، شیر محمد اختر، شہرت بخاری، شہزاد احمد، قیوم نظر، مبارک احمد، منیر نیازی اور ناصر کاظمی کے نام قابل ذکر ہیں۔ حلقۂ اربابِ ذوق کی نشستوں میں انتظار حسین نے نو خیز ادیبوں کی حوصلہ افزائی میں کبھی تامل نہ کیا۔ انھوں نے نو جوان ادیبوں پر یہ بات واضح کر دی کہ شعر و ادب اور تنقید و تحقیق میں فنی تجربے اور ریاضت کی بہت ضرورت ہے۔ وہ تخلیقِ فن کے سلسلے میں نئے تجربات کو ایک ایسے ذہنی عمل سے تعبیر کرتے تھے جو یکسانیت اور جمود کا خاتمہ کر کے نئے آفاق تک رسائی کے امکانات پیدا کرتا ہے۔ لاہور میں حلقۂ ارباب ذوق کی نشستوں میں ادیبوں میں عصری آگہی پروان چڑھانے پر بھر پور توجہ دی گئی۔ عالمی کلاسیک کا مطالعہ اور عالمی شہرت کے حامل ادیبوں کے اسلوب کا جائزہ لینے کو بہت اہمیت دی گئی۔ انتظار حسین نے کثرت سے زیر بحث لائے جانے والے عالمی شہرت کے حامل جن ممتاز ادیبوں کے بارے میں کی جانے والی گفتگو میں حصہ لیا ان کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ جین جینٹ(Jean Genet,B:19-10-1910,D:15-04-1984)۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے اس ناول نگار اور ڈرامہ نگار کے منفرد اسلوب نے معاصر ادب پر دور رس اثرات مرتب کیے۔
۲۔ البرٹ کامیوس(Albert Camus ,B:07-11-1913,D:04-01-1960)
۳۔ ژان پال سارتر(Jean Paul Sartre,B:21-06-1905,D:15-04-1980)
لاہور میں مقیم نو جوان ادیبوں احمد مشتاق، سعیداحمد اور زاہد ڈار کا شمار انتظار حسین کے قریبی عزیزوں میں ہوتا تھا۔ ان نو جوان ادیبوں نے انتظار حسین کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے ان سے اکتساب فیض کیا اور ان کی عزت و تکریم کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ انتظار حسین بھی ان با صلاحیت ادیبوں کے لیے صدق دل سے دعا کرتے تھے۔ لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق سے وابستہ سب ادیب اور دانش ور انتظار حسین کی تخلیقی کامرانیوں کو اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک نیک فال سے تعبیر کرتے تھے۔ حلقۂ اربابِ ذوق کے قیام اور ارتقا کے بارے میں سب اہم امور کے بارے میں آگہی ان نشستوں کا ثمر ہے۔ مارچ 1939کی ایک خنک شام تھی سید نصیر الدین جامعی اور تابش صدیقی گرم جوشی سے ملے۔ دوران گفتگو سید نصیر الدین جامعی نے تجویز پیش کی کہ ایک ایسی فعال ادبی مجلس کا قیام عمل میں لایا جائے جو جمود کا خاتمہ کرے اور فکر و نظر کو مہمیز کر کے قارئین ادب میں مثبت شعور و آگہی پید ا کرے۔ اس مجلس کا نام”مجلس افسانہ گویاں "تجویز ہوا۔ تابش صدیقی نے اس تجویز کو بہ نظر تحسین دیکھا اور اس مجلس میں شامل ہونے والے وہ پہلے فعال رکن تھے۔ "مجلس افسانہ گویاں "کے قیام کے سلسلے میں جن ممتاز شخصیات سے مشاورت کی گئی ان کے نام درج ذیل ہیں :
حفیظ ہو شیارپوری، شیر محمد اختر، محمد فاضل، سید اقبال احمد جعفری، اختر ہو شیارپوری، ڈاکٹر حیات ملک، اے مجید اور سید محمد اصغر جعفری۔
دو۔ اپریل ۱۹۳۹کو ’ ’مجلس افسانہ گویاں "کا پہلا اجلاس لاہور میں سید نصیر الدین جامعی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سید نصیر الدین جامعی کو "مجلس افسانہ گویاں "کا پہلا سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ جلد ہی اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ حلقۂ اربابِ ذوق کا دائرہ کار وسیع کیا جائے اور نظم و نثر کی تمام اصناف کو اس میں زیر بحث لا یا جائے۔ اس خیال سے سب تخلیق کار متفق تھے اس لیے یہ طے کیا گیا کہ "مجلس افسانہ گویاں "کو نیا نام دیا جائے۔ محمد فاضل نے یہ مشکل حل کر دی اور کہا نام "حلقۂ ارباب ذوق "مناسب رہے گا۔ سب ارکان نے اسے منظور کر لیا اور یہ نام آج تک مقبول ہے۔ ڈاکٹر محمد باقر کا کہنا ہے کہ "مجلس افسانہ گویاں "کا نیا نام "حلقۂ ارباب ذوق "تجویز کرنے والے وہ تھے۔ حلقۂ ارباب ذوق کا نام تجویز کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر محمد باقر کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے تابش صدیقی نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"حلقۂ ارباب ذوق کی بنیاد وغیرہ کے سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر کا ایک مضمون مخزن کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا، جس میں انھوں نے حلقے کے نام کا مجوز ہونے کا دعویٰ کیا تھا جو صحیح نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ان کی انگلستان سے مراجعت سے قبل ہو چکا تھا۔ ”
حلقۂ ارباب ذوق کے کوئی سیاسی مقاصد نہ تھے اس لیے حلقۂ ارباب ذوق نے علم و ادب کے فروغ کو ہمیشہ اوّلیت دی۔ یکم اکتوبر 1939کو حلقۂ ارباب ذوق کے ایک جلسہ میں اس کے قیام کے اغراض و مقاصد، اصول و ضوابط اور مسقبل کے لائحۂ عمل کا تعین کیا گیا۔ اپریل 1940کے وسط میں حلقۂ ارباب ذوق کا پہلا سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت میاں بشیر احمد ایڈیٹر "ہمایوں ” نے کی۔ میراجی (محمد ثنا اللہ ڈار ) ( پیدائش:25-5-1912، وفات: 4-11-1949)اور راجندر سنگھ بیدی نے ( پیدائش:1915، پیدائش: 1984) پہلی بار اس سالانہ جلسے میں شرکت کی۔ اس سالانہ اجلاس میں کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک نے بھی شرکت کی۔ یہ دونوں تخلیق کار حلقۂ ارباب ذوق کے معمول کے جلسوں میں با قاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ پہلے سالانہ اجلاس کے بعد میراجی نے جب حلقۂ ارباب ذوق میں با قاعدہ شمولیت کر لی تو اس سے حلقے کو بہت فائدہ پہنچا۔ حلقۂ ارباب ذوق نے 1940تا1943کے عرصے میں کامیابی کے نئے باب رقم کیے۔ اس عرصے میں اردو کے جو ممتاز تخلیق کار حلقۂ ارباب ذوق سے وابستہ ہوئے ان میں قیوم نظر، یوسف ظفر، مختار صدیقی، ضیا جالندھری، الطاف گوہر اور محمد صفدر کے نام قابل ذکر ہیں۔ سال1942میں حلقۂ ارباب ذوق کے منشور کی منظوری دی گئی۔ انتظار حسین نے لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق اور پاک ٹی ہاؤس کو ادیبوں کا اہم فورم قرار دیا۔
سال ۱۹۶۳میں انتظار حسین نے کالم نویسی کا آغاز کیا، روزنامہ مشرق میں ان کا کالم "لاہور نامہ "قارئین کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اپنے اس مقبول کالم کے ذریعے انھوں نے پاکستان کے قدیم تاریخی شہر لاہور کی تاریخ، ثقافت اور علمی و ادبی روایات کے موضوع پر نہایت دل کش انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ زندہ دِل اور جری لوگوں کے مسکن لاہور کے ساتھ وہ والہانہ محبت کرتے تھے۔ لاہور کی ادبی محفلوں نے ان کی ادبی صلاحیتوں کو جِلا بخشی۔ وہ لاہور کے جن ادیبوں کی تخلیقی فعالیت کو عصری آگہی پروان چڑھانے میں ممد و معاون سمجھتے تھے ان میں ن۔ م۔ راشد، میرا جی اور حبیب جالب شامل ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ن۔ م۔ راشد نے اپنی نظموں میں علامتی انداز میں جبر کے خلاف بھر پور مزاحمت کی۔ سال 1988میں وہ روزنامہ مشرق سے ریٹائر ہو گئے، اس کے بعد وہ فری لانس جر نلسٹ کی حیثیت سے مختلف اخبارات میں باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے۔ روزنامہ ایکسپریس، لاہور میں ان کا مشہور کالم "بندگی نامہ” جو ان کی وفات تک جاری رہا قارئین میں بہت مقبول تھا۔ ان کے کالم حقیقت نگاری کی شان کے مظہر ہوتے تھے جن کے مطالعہ سے قاری اپنے دل میں ایک ولولۂ تازہ محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے زیبِ داستان کے لیے بے سروپا واقعات اور غیر متعلقہ تفصیلات کے بیان سے ہمیشہ احتراز کیا۔ لاہور سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ ڈان(Dawn)میں شامل ہونے والے انگریزی زبان میں ان کے کالم فکر و نظر کو مہمیز کرنے، ذہنی بیداری پیدا کرنے اور انسان شناسی کے جذبات کو پروان چڑھانے میں بہت معاون ثابت ہوئے۔ انتظار حسین کی کالم نگاری زندگی کے خارجی حقائق کے صحیح احساس و ادراک کی مظہر ہے۔ ان کے اخباری کالم معاشرتی زندگی کے خارجی حقائق اور فرد کی داخلی کیفیات کو پُوری دیانت سے پیش کرتے ہیں۔ اپنے اخباری کالموں میں انھوں نے جس دقیقہ سنجی سے معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز، زندگی کی برق رفتاریوں کے باعث اقدار و روایات کی انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال اور انسانی نفسیات کی متعدد قدروں کو موضوع بحث بنایا اور عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی کوشش کی، اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ اپنے کالموں میں کئی پیچیدہ فلسفیانہ مسائل پر وہ اس قدر بے تکلفی اور پُر اعتماد انداز میں اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ قاری ان کے اسلوب کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ انسانی زندگی کو اللہ کریم کا بیش بہا انعام قرار دیتے تھے اس لیے ان کے کالم زندگی کی حقیقی تاب و تواں کے مظہر ہوتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس عالمِ آب و گِل میں زندہ انسانوں کے مسائل سے آگہی ہی زندگی کے سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کا وسیلہ ثابت ہو سکتی ہے۔
جبر و استبداد کی کڑی دھوپ میں جب حبس میں اس قدر اضافہ ہو جائے کہ قسمت سے محروم انسان لُو کی تمنا کرنے لگیں، کھُلی فضاؤں میں پرواز کرنے والے، رزق کی تلاش میں چہچہاتے ہوئے طیورِ آوارہ کو قفس میں بند کر دیا جائے تو یہ بُرا شگون آفاتِ ناگہانی کا ایک اشارہ سمجھا جاتا ہے۔ اس قسم کے مسموم ماحول میں حساس تخلیق کار تزکیۂ نفس کو سمے کے سم کا ثمر سمجھتے ہوئے خون دل میں اُنگلیاں ڈبو کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں۔ گزشتہ صدی میں ساٹھ کے عشرے میں جب سلطانی جمہور کا خاتمہ کر دیا گیا، اس وقت جن ادیبوں نے اپنی شاعری میں حریتِ فکر کا علم بلند رکھا ان میں حبیب جالب(دستور)، رام ریاض (چاندنی)، محمد شیر افضل جعفری(دائی)، سید جعفر طاہر (ایک سو سپاہی)اور ن۔ م۔ راشد(اسرافیل کی موت)کی تخلیقی فعالیت نے مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے اور تخلیقی عمل کو صحیح سمت عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انتظار حسین نے جبر کے خلاف حریت فکر کی اس پیکار، ضمیر کی للکار اور جرأت اظہار کے ارفع معیار کو لائق تقلید قرار دیا۔
انتظار حسین کا پہلا افسانہ "قیوما کی دکان”لاہور سے شائع ہونے والے ممتاز ادبی مجلے "ادب لطیف "کی دسمبر 1948کی اشاعت میں شامل تھا۔ انتظار حسین نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے سلسلے میں رجحان ساز تاریخی ادبی مجلے "ادب لطیف ” کی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ سال 1935سے باقاعدگی سے شائع ہونے والے اس ادبی مجلے تاریخ کے مختلف ادوار میں اذہان کی تطہیر و تنویر کا جو مؤثر اہتمام کیا ہے وہ تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہے۔ چودھری برکت علی کی ادارت میں اپنی اشاعت کا آغاز کرنے والے ادبی مجلے "ادب لطیف” کو وہ ایک عظیم ادبی روایت اور دبستان علم و ادب سے تعبیر کرتے تھے۔ (ان دنوں یہ رجحان ساز تاریخی مجلہ چودھری برکت علی (مرحوم ) کی صاحب زادی محترمہ صدیقہ بیگم کی ادارت میں لاہور سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ ) ادبی مجلات کو وہ نو خیز ادیبوں کی تربیت کے ایک اہم ادارے کا نام دیتے تھے۔ وہ اکثر ماضی کے مقبول ادبی مجلات کاروان، ادبی دنیا، سویرا، افکار، اوراق، فنون، اقدار، مخزن، لیل و نہار، چٹان، نمک دان، زعفران، قندیل، عروج اور زمیندار کا ذکر کرتے جنھیں ہوائے دشتِ فنا اُڑا لے گئی۔ وہ روزنامہ نوائے وقت کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ہفت روزہ مجلے "قندیل”کے مداح تھے۔ گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں "قندیل”کے مدیر شیر محمد اختر تھے۔ روزانہ شائع ہونے والے اخبارات میں ہفت روزہ ادبی ایڈیشن کو وہ ادبی دنیا کے حالات سے با خبر رہنے کا مؤثر ترین وسیلہ سمجھتے تھے۔ وہ ادبی مجلات کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے اور ان کے مشمولات کے بارے میں اپنی تجزیاتی رائے اپنے انگریزی اور اردو اخباری کالموں میں شامل کرتے تھے۔ سال ۱۹۳۲ میں لاہور سے شائع ہونے والے ادبی مجلے "کارواں ” کے پہلے سال نامے کی اشاعت کے بعد جن ادبی مجلات نے ” کاروان ” کے مشمولات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، ان میں ساقی (دہلی)، جامعہ (دہلی) اور علی گڑھ میگزین(علی گڑھ) شامل ہیں۔ انتظار حسین جب تخلیق ادب کی جانب مائل ہوئے اس زمانے میں اردو ادب میں کئی اہم تحریکیں موجود تھیں۔ سید سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری نے اردو فکشن میں رومانویت کی انجمنِ خیال سجا رکھی تھی۔ ترقی پسند تحریک نے خوب رنگ جمایا جب سال 1932میں لکھنو سے اس تحریک سے وابستہ ادیبوں کے افسانوں پر مشتمل کتاب "انگارے "شائع ہوئی تو ہر طرف ہلچل مچ گئی، اس کے بعد سال 1933میں انگارے کو برطانوی حکومت نے ضبط کر لیا۔ انگارے میں سید سجاد ظہیر، رشید جہاں، احمد علی اور محمود الظفر کے افسانے شامل تھے۔ اسی عرصے میں پریم چند کی حقیقت نگاری کے بھی بہت چرچے تھے۔ سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور غلام عباس بھی اردو افسانے کے افق پر ضو فشاں تھے۔ انتظار حسین نے تقلید کی راہ سے بچتے ہوئے اپنے لیے ایک الگ راہ منتخب کی اور اردو فکشن کو اپنے منفرد اسلوب سے مزین نئے آہنگ سے متعارف کرایا۔ اقلیمِ ادب میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے ایک با کمال تخلیق کار کی حیثیت سے انتظار حسین نے تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی و سماجی زندگی کے بارے میں جو اندازِ فکر اپنایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ قدرتِ کاملہ کی طرف سے تخلیقی فعالیت اور جمالیاتی حِس انتظار حسین کی جبلت میں شامل کر دی گئی تھی۔ کائنات میں حسن کے جلووں کی شناخت ان کے حقیقی مآخذ کی تفہیم اور رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے جُملہ استعاروں سے جمالیاتی سوز و سرور کشید کرنے میں وہ جس فنی مہارت کا ثبوت دیتے تھے وہ ان کی انفرادیت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ انتظارحسین کی تحریروں میں حسن کی دل کشی اور رعنائی کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کے اسلوب کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جو بھی تخلیق اپنے دامن میں جمالیاتی سوز و سرور کی فراواں دولت رکھتی ہے اس کے حسین ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ انتظار حسین کے اسلوب میں زندگی کے معمولات کو بہتر بنا نے کی جد و جہد، خوب سے خوب کی جستجو، ارتقائی مدارج طے کرنے کی تمنا، مسرت اور شادمانی کے لمحات سے فیض یاب ہونے کی امنگ، جذبوں کی ترنگ اور دبنگ لہجہ قاری کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ تخلیقِ فن کے لمحوں میں انھوں نے ایک ماہر صناع کی حیثیت سے اپنے وجود کا اثبات کرنے کی جو مساعی کیں وہ ثمر بار ثابت ہوئیں۔ ان کے اسلوب کی پہچان ندرت، جدت اور تنوع ہے۔ ان کے خیالات کے سوتے روایت سے پھوٹتے ہیں اور جدت کی فضا میں پروان چڑھتے ہیں۔ تخلیقی فعالیت کے دوران وہ اپنی تمام استعداد کا ر اور ذہن و ذکاوت کی اس مہارت سے تجسیم کرتے ہیں کہ تخلیقی عمل قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہو جاتا ہے۔ اپنی طبعی، روحانی اور ذہنی صلاحیتوں کو ادب پاروں کے نکھار کے لیے انھوں نے جس ذہانت سے استعمال کیا، اس کے معجز نما اثر سے زندگی کے جملہ حقائق کو ایک وسیع تر تناظر میں سمجھنے میں مد د ملی۔ معاشرتی اور سماجی زندگی کے روز مرہ معمولات کی صراحت کرتے ہوئے انھوں نے تمام ارتعاشات پر توجہ مر کوز رکھی اور لفظی مرقع نگاری کرتے وقت خوابوں کی صورت گری اس انداز سے کی کہ قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
ادبی تنظیموں کو انتظار حسین نے جمود کے خاتمے، روشنی کے سفر، افکار تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے لیے نا گزیر قرار دیا۔ لاہور کی قدیم ادبی تحریکوں کو وہ اس عہد کی ادبی میراث خیال کرتے تھے۔ اپنے وسیع مطالعہ کی بنا پر تاریخ ادب پر انھیں کامل عبور تھا وہ ماضی کی ادبی تاریخ سے وابستہ واقعات کے بارے میں پورے اعتماد اور وثوق سے گفتگو کرتے تھے۔ محترمہ پروفیسر ذکیہ بدر(خوشاب) سال ۱۹۹۵ میں جب خواجہ دِل محمد پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ رہی تھیں تو انتظار حسین نے انھیں بتایا کہ لاہور نے ماضی میں اردو ادب کے فروغ میں اہم کردا ر ادا کیا ہے۔ لاہور شہر کی علمی و ادبی محفلوں کا ذکر چھڑا تو پروفیسرشبیر احمد اختر (ٹوبہ ٹیک سنگھ)نے جذباتی انداز میں کہا :
” لاہور کا جب ذکر چھڑتا ہے تو دل کے تار بجنے لگتے ہیں اسی لیے ہم سب نیاز مندان لاہور میں شامل ہیں۔ ”
محترمہ ذکیہ بدر نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا "ہم جیسے نیاز مندان لاہور کے میر کاروان انتظار حسین ہیں۔ ”
یہ سن کر غفار بابر (ڈیر اسماعیل خان) نے کہا :”ہم وہ محروم ہیں کہ جنھوں نے نیاز مندانِ لاہور کا زمانہ نہیں دیکھا۔ نیاز مندان لاہور یقیناً خوش قسمت نکلے کہ قحط الرجال کا مظہر ہمارا زمانہ دیکھنے سے پہلے ہی اپنی آخری منزل کی جانب سدھار گئے۔
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
انتظار حسین حقائق کی گرہ کشائی کر کے تاریخ کی تعلیم کے وسیلے سے نئی نسل کوا س خطے کی تہذیبی اور ثقافتی میراث کی منتقلی کے آرزومند تھے۔ نو عمر طالب علموں اور سندی تحقیق میں مشغول محققین کی گفتگو سن کر ان کے چہرے پر خندۂ زیر لب کے تاثرات اُبھرے اور انھوں نے نو عمر محققین کو بتا یا کہ "نیاز مندانِ لاہور ” کو لاہور میں مقیم ماضی کے ہم خیال ادیبوں کا ایک گروپ سمجھنا چاہیے، جس نے سال ۱۹۲۰ سے لے کر سال ۱۹۳۰کے عرصے میں خوب رنگ جمایا۔ اس میں لاہور سے تعلق رکھنے والے جو ادیب شامل تھے ان میں پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس، امتیاز علی تاج، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، صوفی غلا م مصطفٰی تبسم، عبدالرحمٰن چغتائی، عبدالمجید سالک، مجید ملک اور ہر ی چند اختر شامل تھے۔ موجودہ دور میں پاکستان میں جس طرح دبستان راول پنڈی، دبستان لاہو ر، دبستانِ کراچی اور دبستان سرگودھا مختلف انداز فکر رکھنے کے باوجود اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں کوشاں ہیں اسی طرح ماضی میں پنجاب اور اُتر پردیش کے اردو حلقوں میں اُردو زبان کے لہجے، املا اور اظہار و ابلاغ کے حوالے سے معاصرانہ چشمک نے راہ پا لی تھی۔ لاہور میں سال ۱۹۲۵ میں ڈاکٹر محمد دین تاثیر، حفیظ جالندھری اور پنڈت ہری چند اختر کی مساعی سے "بزمِ ادب پنجاب”کے نام سے ایک ادبی انجمن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس نئی ادبی تنظیم کی صدارت کا منصب مولانا عبدالمجید سالک کو تفویض کیا گیا۔ انجمن کے ادبی مجلہ "کاروان” کے سال نامہ ۱۹۳۲ کے مشمولات پر جو بے سروپا اعتراضات دہلی اور علی گڑھ سے شائع ہونے والے ادبی مجلات میں شامل تھے ان کو "کاروان”کی ۱۹۳۳ کی اشاعت میں نامعلوم ادیبوں کی طرف سے شدید طنز، تضحیک اور تمسخر کا نشانہ بنایا گیا۔ اس تحریر کے مصنفین کے نام کی جگہ صرف "نیاز مندان لاہور”درج تھا۔ یہ معاملہ اہلِ نظر سے پوشیدہ کیسے رہ سکتا تھا۔ سب اس کی تہہ تک پہنچ گئے کہ دہلی اور علی گڑھ کے ادب میناروں پر تیشۂ حرف سے کاری ضرب لگانے والوں میں پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور مولانا عبدالمجید سالک شامل تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بزم ادب پنجاب سے وابستہ ادیب نیاز مندان لاہور کہلائے۔ تاریخ ادب میں یہ مذکور ہے کہ نیاز فتح پوری نے جب شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی کی شاعری کو ہدفِ تنقید بنایا تو نیاز مندانِ لاہور نے شبیرحسن خان جوش ملیح آبادی کی حمایت میں قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ انتظار حسین اس بات پر زور دیتے تھے کہ بلاشبہ زمانہ ماضی کی ادبی تحریکیں اب موجود نہیں اور ان کی جگہ جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، پسِ ساختیات اور رد تشکیل نے لے لی ہے۔ ماضی کی ادبی تحریکیں ایسے نقش و نگار اور نشانیاں راہ رفتگاں پر چھوڑ گئی ہیں جن میں زمانہ ماضی کے فکر و خیال، تخلیقی عمل اور اس کے پسِ پردہ کار فرما لا شعور ی محرکات، ذہن و ذکاوت کی جولانیوں اور اشہب قلم کی روانیوں سمیت تاریخ کے نشیب و فراز کی سب کیفیات نہاں ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ہم اپنے رفتگاں کی تخلیقی فعالیت کے ارتقا کو سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں ادیبوں نے جرأت اظہار کا جو ارفع معیار پیش کیا، وہ ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہے۔ مستقبل کا مورخ ان تمام واقعات اور تنقیدی معائر کو تحقیق و تجزیہ کے دوران ثبوت کے طور پر پیش کر سکے گا۔ انتظار حسین کی عالمانہ گفتگو سن کر نو عمر محققین کو اپنی تحقیقی سطح کا اچھی طر ح اندازہ ہو گیا۔
تراجم کے فروغ میں عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب، ناول نگار، افسانہ نگار، نقاد اور کالم نگار انتظار حسین کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ انھوں نے چیخوف کے ناول کا اردو ترجمہ کیا جو "گھاس کے میدانوں میں "کے عنوان سے شائع ہوا۔ جان ڈیوی کی کتاب کا اردو ترجمہ "فلسفہ کی نئی تشکیل "کو بھی قارئین نے بہت پسند کیا۔ نئی پود، ناؤ اور دوسری منتخب کہانیاں بھی عمدہ تراجم ہیں، جنھیں قارئین نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اردو زبان میں ان کے تراجم کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان تراجم کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ان کے تراجم کی اہمیت و افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا نام سال 2013 میں اردو زبان اور پاکستان میں پہلی بار برطانیہ کے ” مین بکرز عالمی ایوارڈ "کے لیے نامزد عالمی شہرت کے حامل دنیا کے دس ممتاز ادیبوں اور مایہ ناز مترجمین کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ سال 2004سے جاری ہونے والے عالمی فکشن کے انگریزی میں تراجم کے فروغ کے سلسلے میں ” مین بکرز عالمی ایوارڈ "(Man Booker International Prize) ہر دو سال بعداس عظیم زندہ ادیب کو دیا جاتا ہے جس کی تخلیقی فعالیت اور ترجمہ کی مہارت انگریزی ادبیات اور فکشن کی ثروت میں قابل قدر اضافے کا مؤثر وسیلہ ثابت ہو۔ پچاس ہزار پونڈ کا یہ انعام مترجم اور مصنف میں برابر تقسیم کیا جاتا ہے۔ سال 2013کے منصفین اور نامزد ادیبوں کی فہرست درج ذیل ہے :
Judging Panel: Christopher Ricks (Chair), Elif Batuman, Aminatta Forna, Yiyun Li, Tim Parks
Nominees: U R Ananthamurthy (India), Aharon Appelfeld (Israel), Lydia Davis (US), Intizar Hussain (Pakistan), Yan Lianke (China), Marie NDiaye (France), Josip Novakovich (Canada), Marilynne Robinson (US), Vladimir Sorokin (Russia), Peter Stamm (Switzerland)
برطانیہ سے سال 2004سے جاری ہونے والا پچاس ہزار پونڈ کا یہ ایوارڈفہرست میں تخفیف کی وجہ سے سال 2013میں انتظار حسین کو نہ مل سکا بل کہ امریکی ادیبہ، ناول نگار، افسانہ نگار اور مضمون نگار لیڈیا ڈیوس ( Lydia Davis ,B:July 15, 1947 ) کو ملا۔
ہوائے دشتِ فنا کی مسموم فضا میں کیسے کیسے سدابہار گھنے پیڑ سُو کھ گئے۔ اجل کی ہوائے بے اماں کے مہیب بگولوں میں کتنے منور آفتاب و ماہتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گئے اور جان لیوا تاریکیاں ہمارا مقدر بن گئیں۔ پاکستان میں اردو ادب کے درخشاں عہد کی تمام نشانیاں رفتہ رفتہ ماضی کی یاد بنتی چلی جا رہی ہیں۔ تخلیقِ ادب میں انتظار حسین کے ممتاز معاصرین میں سید جعفر طاہر، فیض احمد فیض، محمد شیر افضل جعفری، احمد فراز، حبیب جالب، ابن انشا، قرۃ العین حیدر، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، اے حمید، ممتاز مفتی، اشفاق احمد، محسن بھو پالی، انعام الحق کوثر، خاطر غزنوی، صابر کلوروی، رضا ہمدانی، حسرت کا س گنجوی، عبداللہ حسین، شفیع عقیل، ناصر کاظمی، پروفیسر کرار حسین اور محمد حسن عسکری شامل تھے۔ فکشن میں انتظار حسین نے سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، چیخوف، ٹالسٹائی، دوستووسکی، میکسم گورکی اور فرانز کافکا کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھا لیکن ان سے الگ اپنی نئی تخلیقی دنیا بسالی۔ انتظار حسین نے اپنے افسانوں میں واقعات کے بجائے کردار نگاری، جزئیات نگاری اور لفظی مرقع نگاری کو بہت اہمیت دی ہے۔ حسن و رومان کی وادی میں مستانہ وار گھومنے اور تخیل کی شادابی کے دل کش مناظر سے اسلوب کو حسین بنانے کے بجائے انھوں نے معاشرتی زندگی کے حالات پر اپنی نظر مرکوز رکھی ہے۔ اپنے بیانیہ اسلوب میں انھوں نے ایسے کرداروں کو منتخب کیا ہے جو سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ ان کے افسانوں کے موضوعات میں بہت تنوع ہے کہیں تو قاری زندگی کے مسائل کا براہِ راست تذکرہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے اور کہیں علامات، استعارات، تلمیحات، اساطیر اور دیومالا کے سحر میں کھو کر قاری ایک جہانِ تازہ کو چشمِ تصور سے دیکھ لیتا ہے۔ ان کے موضوعات میں جو ندرت، تازگی، شگفتگی اور روانی ہے وہ اسلوب کی تاثیر کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ انتظار حسین کی دل آویز شخصیت، نفاست بیان، خلوص، دردمندی، عجز و انکساراورانسانی ہمدردی کے جذبات ان کی تحریروں میں اس طرح جلوہ گر ہیں کہ قاری ان کی دل کشی کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ انتظار حسین کی عالی ظرفی، وسیع النظری اور عالمی ادبیات پر ان کی عالمانہ دسترس کے اعجاز سے ان کی تخلیقات کی ہمہ گیر اثر آفرینی پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے اور یوں ان لافانی تخلیقات کی آفاقیت دنیا بھر میں ادب کے قارئین کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے۔
ایک فطین تخلیق کار کی حیثیت سے انتظار حسین نے ناول اور افسانے دونوں اصناف میں اپنی فنی مہارت کا لو ہا منوایا۔ ان دونوں اصنافِ ادب میں انھیں جو یکساں مہارت حاصل تھی اس کا ثبوت ان کی تخلیقات میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ ناول ہو یا افسانہ ہر صنف میں ان کا مقام یکساں ہے۔ اُردو فکشن کو پہلی صبح، آخری آدمی، زرد کتا، شہر افسوس، ہڈیوں کا ڈھانچہ، قیوما کی دکان، استاد، خریدو حلوہ بیسن کا، چوک، اجودھیا، پھر آئے گی، عقیلہ خالہ، رہ گیا شوق منزل مقصود اور رُوپ نگر کی سواریاں جیسی تخلیقات سے ثروت مند بنانے والے اس عظیم تخلیق کار نے اپنی بے مثال صناعی سے عالمی ادبیات میں جو ارفع مقام حاصل کیااس میں وہ لاثانی ہیں۔ انتظار حسین ایک کثیر التصانیف ادیب تھے۔ انھوں نے اپنی وقیع تصانیف سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا۔ ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
آخری آدمی(1967)، آگے سمندر ہے (اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے )، اجمل اعظم، اپنی دانست میں، بوند بوند، بستی(1979) (ناول بستی کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے )، بندر کہانی، پانی کے قیدی، پاکستانی کہانیاں، تذکرہ، جنم کہانیاں، جاتک کتھا، جستجو کیا ہے (یادداشتیں )، چراغوں کا دھواں (یادداشتیں )، چاند گہن(1953)، خالی پنجرہ، خیمے سے دُور، خیال نمبر ۱۸۵۷، دلی تھا جس کا نام، دِن اور داستان(1960)، ذرے، زمین اور فلک اور (سفر نامہ)، ساتواں در، سعید کی پُر اسرار زندگی، سنگھاسن بتیسی، سرخ تمغہ، شہر افسوس، شکستہ ستونوں پر دھوپ، شہر زاد کے نام، علامتوں کا زوال، فلسفے کی نئی تشکیل(جان ڈیوی کی کتاب کا ترجمہ)، قائد اعظم(ابتدائی حالات)، قصہ کہانیاں، قطرے میں دریا، کنکری(1955)، کلیلہ و دمنہ، کچھوے، گلی کُوچے (افسانے مطبوعہ1952)، گھاس کے میدانوں میں (چیخوف کے ناول کا ترجمہ)، ملاقاتیں، مور نامہ، مجموعہ انتظار حسین، نظریے سے آگے (تنقید)، ناؤ، نیا گھر، نئی پود (ترجمہ)، نئی پرانی کہانیاں، نئے شہر پُرانی بستیاں (سفر نامہ)، وہ جو کھو گئے، ہندوستان سے آخری خط، ہزارداستان۔
انتظار حسین کے افسانوں کا ابتدائی دور داستانوی رنگ لیے ہوئے ہے جس میں مافوق الفطرت باتیں بھی ہیں اور دیومالائی داستانوں کے اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مقامی معاشرت اور تہذیب میں پا ئی جانے والی توہم پرستی سے انھوں نے گہرا اثر قبول کیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد انتظار حسین کے افسانوں میں موضوعات نئے حالات سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں پاکستان کے نئے تہذیبی اور معاشرتی نظام کو اہمیت دی۔ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھوں نے وطن عزیز کی مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی اقدار کو منفرد پیرایۂ اظہار عطا کیا۔ ان کی تحریروں سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ بر صغیر پاک و ہند کے عوام نے غاصب برطانوی استبداد سے نجات حاصل کرنے کے لیے جو تاریخی جد و جہد کی اسے تہذیبی تناظر میں دیکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ آزادی کے بعد وطن عزیز میں پاکستانی عوام کو شدت سے یہ حساس ہوا کہ ایک نئی قومیت اور شخصیت کا تصور پروان چڑھانا بہت اہم نصب العین ہے۔ قومی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات نے حساس تخلیق کاروں کے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا کہ انھوں نے تخلیق فن کو بدلتے ہوئے حالات اور نئے حقائق سے آگہی کا وسیلہ سمجھتے ہوئے موضوعات کو متنوع انداز میں پیش کیا۔ آزادی کے بعد انتظا ر حسین نے نہایت خلوص اور درد مندی سے حالات کا جائزہ لیا۔ انھیں زندگی کی اقدار عالیہ کی زبوں حالی کا شدید کر ب رہا ہے۔ آزادی کے بعد بھی ایک عام آدمی آزادی کے ثمرات سے محروم رہا اور منزل پران موقع پرستوں نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جو شریک سفر ہی نہ تھے۔ انسانیت کی توہین، تذلیل اور بے توقیری کے اعصاب شکن واقعات روز مرہ کا معمول بن گئے۔ انسان شناسی کا جو معیار انتظار حسین کے اسلوب میں مو جود ہے وہ ن کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کے کردار جن میں مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، مزدور، دہقان، دیہی اور شہری علاقوں کے مکین سب شامل ہیں وہ سب ان کی باریک بینی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ معاشرتی زندگی سے وابستہ سبھی کرداروں کو انتظار حسین نے اس خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے کہ یہ کردار مسائل کی بھٹی میں صدیوں سے نسل در نسل سلگنے کے بعد جب حقیقی روپ میں سامنے آتے ہیں تو قاری انھیں دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ اپنے افسانوی مجموعے "شہر افسوس ” میں انتظار حسین نے ہجرت کے مسائل کو بالعموم اور سال 1947سے سال 1971تک کے عرصے میں پاکستانی معاشرے کے نشیب و فراز کو بالخصوص اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ انتظار حسین نے تصوف کے مسائل میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ ان کا افسانوی مجموعہ "کچھوے "انھی دلچسپیوں کا مرقع ہے۔ اپنے افسانوں میں علامت اور تجرید کے منفر د تجربوں سے انتظار حسین نے اردو افسانے کو نئے آفاق تک رسائی کے قابل بنا دیا۔ ان کے پاس موضوعات کی فراوانی رہی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ معاشرتی زندگی کے جملہ موضوعات دست بستہ ان کے حضور شرف بار یابی کے لیے موجود رہتے تھے۔ اور وہ جس موضوع پر بھی قلم اُٹھاتے اظہار و ابلاغ کا حق ادا کر دیتے۔
انتظارحسین کی شخصیت کا قصر عالی شان ان کے عظیم کردار کی اساس پر استوار ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز، پیچ و خم اور روّیوں کے زیر و بم انسان کو مختلف حلقوں میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے جس استقامت کے ساتھ تخلیقی فعالیت کو جاری رکھا یہ ان کی مستحکم شخصیت کی دلیل ہے۔ ہوائے جوروستم میں بھی انھوں نے خلوص و درد مندی اور ایثار و وفا کی شمع فروزاں رکھی۔ قیام پاکستان کے بعد سماجی اور معاشرتی زندگی میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے ادب پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ تخلیق کاروں نے اپنے جذبات واحساسات کے اظہار و ابلاغ کے لیے جن نئے اور متنوع تجربات کو رو بہ عمل ہو نے کی کو شش کی ان کے معجز نما اثر سے درد مندی، شائستگی، متانت، دل کشی اور صد رنگی کی کیفیات قاری کے لیے منفرد تجربے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انتظار حسین کے اسلوب کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اُنھوں نے کہانی میں تجسس پیدا کرنے کی خاطر بہت محنت سے کام لیا ہے۔ انسانی زندگی میں ہزاروں خواہشیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہر خواہش پہ دم نکلتا ہے۔ حزم و حجاب کے باعث دل کی بات دل میں نا گفتہ رہ جاتی ہے، ملاقاتیں ادھوری رہ جاتی ہیں اور متعدد ضروری باتیں ان کہی رہ جاتی ہیں۔ "ساتواں در”میں انتظار حسین نے انسان کی کئی نا آسودہ خواہشات، تشنۂ تکمیل رہ جانے والی آرزوؤں اور حسرتوں میں بدل جانے والی اُمنگوں کا احوال بیان کیا ہے۔ یہ پیچ در پیچ الجھی ہوئی خواہشات کئی سطحیں رکھتی ہیں جن میں گم گشتہ دنیا کی تمنا، تخیلاتی طاقتوں کے حصول کی تمنا، مافوق الفطرت عناصر سے ربط کی آرزو، تخیلاتی عمل کے نمو کی اُمنگ، اجنبی ماحول میں اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھانے اور ماضی کی باز یافت کی خواہشات شامل ہیں۔ انتظار حسین نے بیانیہ کی تخلیق کی خاطر کئی تماثیل کا سہارا لیا ہے جو مختلف سطحوں پر اپنا رنگ دکھانے پر قادر ہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ انتظار حسین نے جہاں زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کے اعجاز سے اپنے اسلوب میں دل کشی پیدا کی ہے وہاں تجسس سے لبریز انتہائی پر اسرار ماحول پیدا کرنے کے لیے ہندو اور بُدھ دیو مالا کی ورق گردانی بھی کی ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ "آخری آدمی”گیارہ علامتی افسانوں پر مشتمل ہے۔ ان افسانوں میں انھوں نے علامت نگاری کو فنی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ افسانہ "آخری آدمی "میں انھوں نے یہودیوں کے مذہبی عقائد کو موضوع بنایا ہے۔ یہودیوں کے عقائد کے مطابق ہفتہ کا دن عبادات کے لیے مخصوص تھا اس لیے ہفتے کے دن مچھلی کے شکار کی ممانعت تھی۔ مگر شکم کی بھوک، ہوس، خود غرضی، بے حسی اور مذہب سے بیزاری نے بعض یہودیوں کو سگِ زمانہ بنا دیا اور مچھلی کے شکار کی اس ممانعت سے بغاوت پر آمادہ کیا اور وہ چکنے گھڑے دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے ہفتے کے دن بھی مچھلی کا شکار کرنے پہنچ گئے۔ مذہبی عقائد کی اس صریح خلاف ورزی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی جون بدل گئی اور وہ بندر بن گئے۔ افسانہ "آخری آدمی”میں اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر جرائم کی دلدل میں دھنسے انسان نما بھیڑیوں کی ایک ایسی بستی کی زبوں حالی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے جو اپنی بد اعمالیوں کے باعث فطرت کی انتہائی سخت تعزیروں کی زد میں آ گئی۔ اس بستی کے مکینوں کا قبیح کردار، بے غیرتی، بے ضمیری، بد دیانتی اور اپنے خالق کی نافرمانی عذاب الٰہی کا سب بن گئی اور رفتہ رفتہ اس بستی کے مکینوں کی شکلیں مسخ ہونے لگیں۔ اپنی شامت اعمال کے باعث بستی کے نا ہنجار مُوذی و مکار درندے، بد اندیش مفسد، ، بد بخت ایذا پسند اور ناشکرے مکین بندر بننے لگے۔ اس بستی کا ایک مکین جو اس تمام صورت حال کو دیکھ کر بہت دل گرفتہ تھا، اس نے یہ ارادہ کیا کہ وہ گناہ سے دُور رہے گا اور اپنے خالق کا فرماں بردار بندہ بننے کی سعی کرے گا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ یہ آخری آدمی جو طویل عرصہ نمک کی کان میں رہا اندر سے نمک بن گیا تھا ظاہری طور پر تنو مند دکھائی دینے والے اس شخص کو بُری صحبت نے باطنی طور پر کھوکھلا کر دیا تھا اور اس کے مزاج میں قوت ارادی اور مستقل مزاجی عنقا تھی۔ چور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چوری چھوڑ بھی دے پھر بھی ہیرا پھیری اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ اس آفت رسیدہ بستی کا مکین وہ آخری آدمی بھی اپنے نفس کے بہکاوے میں آ جاتا ہے اور بستی والوں کی طرح گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد بستی کا وہ آخری آدمی بھی بندر بن جاتا ہے اور اپنے دیرینہ آشناسینہ چاکان چمن مسخ شکلوں والے لنگوروں سے یہ نیاسینہ چاک لنگور بھی جا ملتا ہے۔
انتظار حسین نے آخری آدمی میں انسانی شخصیت کے داخلی اور باطنی انہدام کی کیفیات اور ان سے وابستہ اسرار و رموز کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ انسا نیت جب عصیاں کے نرغے میں آ جاتی ہے تو اس کے ہولنا ک مہیب اثرات انسان کے خارجی وجود کو مسخ کر کے اسے عبرت کی مثال بنا دیتے ہیں۔ اس تباہ کُن المیے کا سبب یہ ہے کہ مادی دور کی لعنتوں اور ہوس کے باعث انسا ن کا دامن عقل و خرد سے تہی اور روحانیت سے عاری ہو تا جا رہا ہے۔ روحانی اقدار سے محرومی کے باعث انسان کا خارجی وجود کرچیوں میں بٹ جا تا ہے۔ اس طرح داخلی شکست و ریخت کے ایک غیر مختتم سلسلے کے نتیجے میں خارجی سطح پر انسا ن مسخ شدہ صورت میں سا منے آتا ہے۔ اس حقیقت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا کہ انتظار حسین نے "آخری آد می”میں واضح کر دیا ہے کہ فطین اور صاحب نظر تخلیق کار زمان و مکاں کی حدود و قیود سے با لا تر رہ کر بھی فکر و خیال کی جولانیاں دکھانے پر قادر ہے۔ اس عالم آب و گل کے آغاز سے لے کر قیامت تک کے واقعات پر تخلیق کار کی نظر ہو تی ہے۔ ازل اور ابد کے راز ہائے سر بستہ اور حیا ت و کائنات کے پراسرار واقعات، انسان کے نفسیاتی مسائل کی کرب ناک کیفیت دراصل روحانی اور اخلاقی تنزل کا باعث بن جاتی ہے۔ اپنے مشہور افسانے "آخری آدمی ” میں انتظار حسین نے اسی لرزہ خیز اور اعصاب شکن کیفیت کو علا متی انداز میں پیش کیا ہے۔
پاکستان میں سال ۱۹۵۸کے بعد ادب میں علامت نگاری پر زیادہ توجہ دی گئی۔ غیر نمائندہ اور غیر جمہوری حکومتوں کے دوران جب اظہار و ابلاغ کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں تو تخلیق کار علامت نگاری کا سہارا لیتے ہیں۔ علامت کا تصور تو فرانس کے ادیبوں بالخصوص سٹیفن میلارمے (Stephane Mallarme,B:18-03-1842,D:09-09-1898 )سے مستعار لیا گیا۔ راما نند ساگر کا ناول ” اور انسان مر گیا "اور انتظار حسین کے شہرۂ آفاق ناول "بستی” میں انسان کو موضوع بنا یا گیا ہے انسا نیت کی توہین، تذلیل اور بے توقیری آج کے دور کا بہت بڑا المیہ ہے۔ مفاد پرست استحصالی عناصر کی شقا وت آمیز نا انصا فیوں کے باعث مجبور انسا نیت پر عرصۂ حیا ت تنگ ہو چکا ہے۔ جب ظالم و سفا ک، عیار و مکار استحصالی درندوں نے مجبوروں، مظلوموں اور بے بس انسانوں کی زندگی اجیرن کر دی تو حالات نے انتہائی تشویش ناک صورت اختیار کر لی۔ المیہ یہ ہوا کہ ہلا کو اور چنگیز کی اولاد نے لب اظہا ر پر تا لے لگا دئیے اور متا عِ لوح و قلم بھی چھین لی گئی۔ ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں قومی درد رکھنے والے حساس تخلیق کاروں نے واقعات کو روپ بدل کے (Camouflage ) کر کے پیش کر نے کی پوری کو شش کی۔ افسا نے میں علا مت جب بہت بکھرتی چلی گئی تو یہ بالآخر اجزا ء کے الگ ہو جا نے کے باعث غیر معمولی انتشار (Disintegration )کی زد میں آ گئی۔ اس طرح تجرید کی صورت پیدا ہو ئی۔ علا مت اور تجرید کو اسلوب کی حیثیت حاصل ہے۔ مغربی ادبیات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغرب میں تجریدیت کا منبع مصور ی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مصوری اور تجریدیت پر کا مل دسترس کے بغیر کوئی بھی تخلیق کار ان کے ذریعے اظہار مدعا نہیں کرسکتا۔ انتظارحسین کو اسلوب پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ ہئیت تو ان کے نزدیک محض ایک وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ روایت، علامت یا تجریدجس کو بھی اپناتے مؤثر ابلاغ کو ہر صورت میں یقینی بنا دیتے تھے۔ "آخری آدمی "انتظار حسین کا مشہور افسانوی مجموعہ ہے۔ یہ گیارہ علامتی افسانوں پر مشتمل ہے اس افسانوی مجموعے میں علامتی اظہار کے اعتبار سے وہ فن کی بلندی پر ہیں۔
افسانہ "کایا کلپ "میں انھوں نے پاکستان میں سال 1958کے بعد رونما ہونے والے سیاسی انقلاب پر علامتی انداز میں اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ مافوق الفطرت عناصر کے بیان اور دیومالائی کہانیوں کے احوال سے انتظار حسین اپنے افسانوں میں ایسی فضا پیدا کرتے ہیں کہ قاری چشم تصور سے وہ سب ماحول دیکھ کر حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتا ہے۔ ان کا افسانہ "ٹانگیں "اس کیفیت کی عمدہ مثال ہے۔ انتظار حسین نے فرقہ باطنیہ کے شیخ علی وجودی کی جعل سازی اور مکر کی چالوں کا احوال اپنے افسانے "زرد کتا”میں کہانی کے روپ میں پیش کیا ہے۔ تجسس اور دیومالائی ماحول سے لبریز اس قسم کے افسانے پڑھنے کے بعد قاری ایک انوکھے ماحول میں پہنچ کر ماضی کے کرداروں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ لوحِ جہاں پر حرفِ مکرر کی طرح مٹ گئے۔
سال ۱۹۹۸میں جب پاکستان اور بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو بھارت سے یہ خبر آئی کہ پو کھران ایٹمی دھماکے کے باعث راجستھان(بھارت) کے علاقے میں ماحولیاتی آلودگی کے باعث جنگلی حیات بالخصوص مور بڑی تعداد میں مرنے لگے ہیں۔ اس پر انتظار حسین نے بر ملا کہا کہ ایسے تجربے جن سے بے گناہ مور ہلا ک ہو رہے ہیں انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ جب دو پڑوسی ممالک نے ایٹمی دھماکے کیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کرنے والے ممالک کی اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہو گئے تو انتظار حسین نے اسے کورو خا رر صحف اقبال توصیفی
ؤں اور پانڈوں کے تصادم پر محمول کرتے ہوئے اپنے اضطراب اور تشویش کا بر ملا اظہار کیا۔ ان کی کہانی ’مو ر نامہ”میں اسی کرب کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ اسطور اور مہابھارت کے بیان سے اس کہانی کا تانا بانا تیار کر کے انتظار حسین نے فن کی بلندیوں کو چھُو لیا ہے۔ داستانوں اور ان میں مافوق الفطرت عناصر کا بیان، بات سے بات پیدا کرنے، چیونٹی کو عقاب سے ہم کلام ہونے، مور کی زندگی کے کرب کو جاننے اور ان سب کا انسانی زندگی سے ربط تلاش کرنے میں انتظار حسین نے جس فنی پختگی کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس لافانی ادیب کے اسلوب کا مطالعہ کرنے کے بعد دنیا بھر میں موجود اردو زبان و ادب کے لاکھوں طالب علم اپنے تئیں خوش قسمت سمجھتے تھے کہ وہ انتظار حسین کے عہد میں زندہ ہیں۔ مختلف ممالک میں بسنے والی اقوام کی جنگ نے جنگلی حیات پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا ہے، اس سفاکی کو انتظار حسین نے اس عہد کے المیے سے تعبیر کیا ہے۔ انتظار حسین کو بھی مجید امجد کی طرح اثمار و اشجار اور بُور لدے چھتنار بہت پسند تھے۔ سایہ دار درختوں کی گھنی چھاؤں انھیں بہت پسند تھی۔ مجید امجد نے نہر کے کنارے قدیم درختوں کے ایندھن کے لیے کاٹے جانے پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چِیر گئے ان ساونتوں کے جسم
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل
یہ نصف صدی پہلے کا قصہ ہے کہ جامعہ پنجاب، لاہور کے اولڈ کیمپس کے دروازے کے سامنے پیپل کا ایک قد یم درخت تھاجس پر سیکڑوں طائرانِ خوش نوا کے آشیانے تھے۔ صبح سویرے یہ پرندے چہچہاتے ہوئے رزق کی تلاش میں اپنے گھونسلوں سے باہر نکلتے اور اس درخت سے لمبی اڑان بھر کے دُور نکل جاتے۔ دن بھر رزق تلاش کرنے کے بعدسرِ شام اپنے آشیانوں میں منتظر اپنے ان چھوٹے چھوٹے بچوں کے پاس پہنچ جاتے جو ابھی پرواز کے قابل نہ تھے۔ انتظار حسین کا معمول تھا کہ چہل قدمی کرتے ہوئے صبح شام ادھر سے گزرتے اور یہ منظر دیکھ کر گہری سوچ میں ڈوب جاتے۔ اچانک جامعہ کے منتظمین کے نادر شاہی حکم پر لودھی خاندان کے زوال اور مغلوں کے عروج کے زمانے کے گواہ اس قدیم تاریخی درخت کو کاٹ دیا گیا۔ اس بلند قامت درخت کاتنا اور شاخیں دھڑام سے زمین پر گرنے کے بعد پرندوں کے سب گھونسلے تہس نہس ہو گئے اور ان میں موجود پرندوں کے انڈے ٹوٹ گئے اور پرندوں کے بچے بھی تڑپ تڑ پ کر مر گئے۔ سیکڑوں پرندے اپنی آشیاں بربادی پر پھڑ پھڑ ا رہے تھے اور ٹوٹی شاخوں پر چونچیں مارکر اپنے رنج و غم کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر انتظار حسین کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں۔ درخت کے کٹنے کے بعد انتظار حسین کئی دن دل گرفتہ رہے اس کے بعد انھوں نے اس راہ سے گزرنا چھوڑ دیا۔ خاکِ وطن کے ہر ذرے کو دیوتا سمجھنا اور ارضِ وطن کے شجر و حجر سے والہانہ محبت کرنا حب الوطنی کی دلیل ہے۔ پروین شاکر نے بھی ایک مسافر نواز شجر سایہ دار کی کٹائی پر اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:
اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اُس بُوڑھے شجر سے
جھنگ میں ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان)کی مادر علمی کے سامنے برگد کا قدیم درخت تھا جس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ سال ۷۱۲میں عربوں کی شورکوٹ آمد کی نشانی تھا۔ گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی کے آخری برس میں اس درخت پر بھی آرے چلا دئیے گئے۔ رام ریاض نے مقامی بلدیہ کے اس چنگیزی اقدام کو دیکھ کر کہا تھا:
رام اس دھوپ بھری دنیا میں
ایک دِن پیڑ نہ پتے ہوں گے آرے چلا دئیے گئے
بے لوث محبت اور بے باک صداقت انتظار حسین کی شخصیت کے امتیازی اوصاف تھے۔ ان کے اخلاص اور اخلاق کا ہر شخص گرویدہ تھا۔ لاہور میں جب ان کا کوئی عزیز یا جان پہچان والا بیمار ہوتا تو انتظار حسین اس کی عیادت کے لیے اس کے ہاں ضرور پہنچتے۔ اگر پڑوس میں کسی شخص کی طبیعت ناسازہوتی تو معالج کے پاس جانے کا مشورہ دیتے اور اگر مریض مستحق ہوتا تو اس کی مالی امداد اس طرح کرتے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ سال ۲۰۱۲ میں نومبر کے مہینے میں راجن پور میں مقیم ممتاز شاعر پروفیسر اطہر ناسک خون کے سرطان کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باعث میو ہسپتا ل لاہور میں زیر علاج تھے۔ اس نوجوان ادیب کی علالت کی خبر جب لاہور کے ایک اخبار میں چھپی تو انتظار حسین اطہر ناسک کی عیادت کے لیے میو ہسپتال پہنچے۔ ماہر معالج سے ملاقات کی اور اطہر ناسک کی خیریت دریافت کی۔ اطہر ناسک کو دلاسا دیا اور اس کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ اس موقع پر اطہر ناسک نے اپنا یہ شعرسنایا:
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
یہ شعر سن کر انتظار حسین نے آہ بھری اور زار و قطار رونے لگے۔ انھیں معلوم ہو گیا تھا کہ اس خود دار اور حساس تخلیق کار نے موت کی آہٹ سُن لی ہے۔ ۱۱۔ نومبر سال ۲۰۱۲کو اطہر ناسک نے میو ہسپتال میں آخری سانس لی اور جب اس کا جسد خاکی لے کر ایمبولنس راجن پور روانہ ہوئی تو لاہور کے جو ممتاز ادیب وہاں موجود تھے ان میں انتظار حسین اور عبداللہ حسین بھی شامل تھے۔ اس سانحے پر محمد اسحاق ساقی نے جب محمود ایاز کے یہ شعر پڑھے تو ہر آنکھ شک بار تھی۔
ہزاروں حسرتیں مُشتِ غبار میں ڈھل کر
کچھ ایسی سوئی ہیں خاموشیوں کے مرقد میں
کہ تا ابد کوئی آوازِ پا جگا نہ سکے
انتظار حسین اردو ادب کے وہ ہفت اختر ادیب تھے جن کی تخلیقی کامرانیاں سفاک ظلمتوں میں بھی ستارۂ سحر کے مانند ضو فشاں رہیں۔ اپنی کہانی "مو ر نامہ "میں انھوں نے قارئین کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ انسانوں کو ہلاکت خیزیوں کا سبب بننے والی سائنسی ایجادات کے بجائے انسانی زندگی بچانے والی ادویات کی تیاری اپنی ترجیح بنانی چاہیے۔ قومی تعمیر و ترقی اور معاشرتی اصلاح کے لیے قلم بہ کف مجاہد کی حیثیت سے انتھک جد و جہد کرنے کے باوجود انتظار حسین نے کبھی یہ دعویٰ نہ کیا کہ وہ کوئی مصلح یا بلند پایہ تعمیر ی مفکر ہیں۔ وہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ان کے اسلوب میں پائی جانے والی علامت نگاری دراصل ان کے سیاسی خیالات کی مظہر ہے۔ ان علامتوں کو ایک ایسے نفسیاتی کُل کی حیثیت حاصل ہے جس سے لا شعور کی توانائی کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ انھوں نے کبھی کسی مصلحت کی پروا نہ کی اور جبر کے سامنے سپر انداز ہونے کے بجائے حریتِ ضمیر سے جینے کی خاطر سدا اسوۂ شبیرؓ کو پیشِ نظر رکھا۔ انتظار حسین کے اسلوب میں ماضی کے واقعات کا بیان، دیو مالائی داستانوں کا حوالہ اور طلسم ہوش ربا کی کیفیات کے تذکرے در اصل قاری کو تاریخ اور اس کے پیہم رواں دواں عمل کی جانب متوجہ کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ تاریخ سے متعلق یہ سب پُر اسرار واقعات ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق پر پڑ جانے والی ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد کو صاف کر کے وقت کی زیریں تہوں میں نہاں متعدد اہم صداقتوں کو سامنے لاتے ہیں۔ یہی تو تاریخی شعور ہے جس کے معجز نما اثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر اور فکر و نظر کی بالیدگی کا اہتمام ہوتا ہے۔ ہر قسم کی عصبیت، عنا د، شقاوت آمیز ناانصافیوں، تنگ نظری اور دہشت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی تمنا میں انتظار حسین نے اپنے اسلوب میں تاریخی شعور کو نہایت خلوص، دردمندی اور دیانت سے رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے۔
"بندر کہانی” حقیقت اور فریبِ حقیقت کے انوکھے رُوپ کی مظہر ہے۔ ڈارون نے جب یہ کہا کہ بوزنا اپنی دُم سے محروم ہونے کے بعد رفتہ رفتہ ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد انسان بن گیا تو یہ بات علم حیاتیات اور انسانی زندگی کے ارتقا میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بڑے تجسس کا باعث بن گئی۔ انتظار حسین نے اسی سوچ کو اس کہانی کی اساس بناتے ہوئے بتایا کہ کسی جنگل کے بندروں نے جنگل کے قانون سے بیزار ہو کر شہروں کا رخ کیا۔ انھوں نے دیکھا کہ ماضی بعید کے ان کے ابنائے جنس محض اپنی دُم سے محروم ہونے کے بعد اس وقت اپنے عشرت کدوں میں کس قدر فارغ البال پر مسرت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انسانوں کو گلچھرے اُڑاتے دیکھ کر بندروں نے انھیں للچائی ہوئی نظرسے دیکھا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنی دُم استرے سے کاٹ کر انسانوں کی صف میں شامل ہو جائیں تا کہ وہ بھی انسانوں کی طرح سرودِ عیش گائیں اور جنگل کی عقوبت و اذّیت بھری زندگی سے گلو خلاصی حاصل کر لیں۔ نو جوان بندر اپنی دُم کو اپنی خوش حالی اور پُر مسرت زندگی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ سمجھنے لگے اور بندروں کے اُس بڑے غول میں شامل ہر بندر نے اپنی دُم کو تیزاُسترے سے کاٹنے کی ٹھان لی۔ نو جوان بندروں کی کور مغزی، بے بصری، کوتاہ اندیشی اور ہوس کو دیکھ کر ایک بوڑھا بندر پیچ و تاب کھا نے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ انسانوں کی بستیوں میں سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے والے بُڈھے کھوسٹ ڈھگوں کا جو حشر ہوتا ہے وہی حشر اِن عقل کے اندھے بندروں کا ہو گاجو اُستروں سے اپنی اپنی دُم کاٹنے پر تُلے ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ انسانوں کی صحبت میں رہنے سے وہ بھی انسانوں کی طرح ا پنے ابنائے جنس کے خون کے پیاسے بن جائیں گے۔ اس نے فکر فردا سے عاری ان بندروں کو سمجھانے کی کوشش کی جن کی زبان اپنی دُم کے خلاف آری کی طرح چل رہی تھی۔ اس نے احساس زیاں سے محروم نو جوان بندروں کو بتایا کہ اے مُورکھ بندرو آج جس تیز دھار والے اُسترے سے اپنی دُم کاٹ کر تم انسانوں میں شامل ہونے کے لیے بے قرار ہو، انسانوں کی صحبت میں رہنے کے بعد ایک وقت ایسا آئے گا جب اِسی اُسترے سے تم ایک دوسرے کی گردن کاٹو گے۔ اس وقت تمھیں اپنی غلطی کا خمیازہ اُٹھانا پڑے گا۔ انتظار حسین نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایااس کی غواصی کر کے گوہر مراد بر آمد کیے پھر اس کا احوال بیان کرتے وقت لفظی مرقع نگاری کے جو ہر دکھائے۔ انھوں نے جس مہارت اور سلیقے سے موضوعات کی جزئیات نگاری کی اس کی بدولت ان موضوعات کی وسعت اور اثر آفرینی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ان کے ناول اور افسانے معمولی اور غیر معمولی نوعیت کے کرداروں کے ذکر سے بھرے ہوئے ہیں۔ انتظار حسین نے ایک فطین صناع کی حیثیت سے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کو رو بہ عمل لاتے ہوئے ان تمام کرداروں کو اس حیرت انگیز ترتیب اور توازن کے ساتھ کہانی کا حصہ بنایا ہے کہ ہر کردار کہانی میں ایسے موزوں اور بر محل دکھائی دیتا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ جُڑا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری چشمِ تصور سے ان کرداروں کو عملی زندگی میں فعال کردار ادا کرتے دیکھ کر مصنف کی فنی مہارت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
عالمی طاقتوں کی سازش سے جب سال1971 میں جب پاکستان دو لخت ہو گیا تو انتظار حسین بہت دل گرفتہ تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں لکھا گیا ان کا ناول” بستی ” اس المیے کے بارے میں ان کے جذبات حزیں اور رنج و الم پر مبنی قلبی کیفیات کا آئینہ دار ہے۔ سال 1979میں شائع ہونے والا یہ ابد آشنا ناول بر صغیر کی تاریخ کے جملہ نشیب و فراز اور سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں متعدد چشم کشا صداقتوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ ان کا خیال تھا کہ قیام پاکستان کے وقت اس خطے کے مسلمانوں کو جن صبر آزما حالات، جان لیوا صدمات، تکلیف دہ مشکلات اور اعصاب شکن سانحات کا سامنا کر نا پڑا اسی نوعیت کے حالات سقوط ڈھاکہ کے وقت پید ا کر دئیے گئے تھے۔ سقوط ڈھاکہ پر ان کا دِ ل خون کے آنسو روتا تھا اور وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اس المیے نے ان کی روح کو زخم زخم او دل کو کرچی کرچی کر دیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں اس خطے کے عوام کا واسطہ ایسی شامِ الم سے پڑا جو قیامت تک صبح امید سے نا آشنا رہے گی۔ قیام پاکستان کے وقت جب انھوں نے میرٹھ سے ہجرت کر کے لاہور کے لیے رختِ سفر باندھا تو ان کی جنم بھومی کے اُداس بام اور کھُلے در اپنے مکینوں کی نئی منزلوں کی جانب روانگی پر نوحہ کناں تھے۔ ہجرت کے خونریز واقعات، انتقال آبادی کے لرزہ خیز سانحات ہماری قومی تاریخ کا خونچکاں باب ہیں۔ انھوں نے پاکستان بنتے دیکھا تھا اور اس کے بعد ان کی آنکھوں نے جب اس ملک میں داغ داغ اُجالا اور شب گزیدہ سحر کی کیفیات دیکھیں تو انھیں دلی صدمہ ہوا۔ انتظار حسین پر جو صدمے گزرے ان کا احوال انھوں نے بستی میں من و عن بیان کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ بستی کو ان کی سوانح عمری خیال کیا جاتا ہے۔ ان کی تخلیقی تحریروں پر ماضی کے تلخ واقعات کا جو پرتو دکھائی دیتا ہے اس کی وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ ناسٹلجیا کے اثرات کی دین ہے۔ بادی النظر میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر انتظار حسین کی گہری نظر تھی۔ پاکستان کی قومی تاریخ کے سب نشیب و فراز ان کے سامنے رہے اس لیے وہ ان سے بے تعلق نہیں رہ سکتے تھے۔ انھوں نے بلاشبہ ایامِ گزشتہ کی کتاب کا مطالعہ کرنا اپنا شعار بنا یا لیکن اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ ماضی اور حال کے واقعات کو اپنے فکر و خیال کی اساس بنا کر آنے والی نسلوں کو ان سے آگاہ رکھنا چاہتے تھے تا کہ کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں عنقا نہ ہو جائے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اپنی تہذیبی و ثقافتی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں اقوام و ملل کا رعب و دبدبہ، جاہ و حشمت اور نصرت و ثروت کی سب داستانیں خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتی ہیں لیکن تہذیب ہر قسم کے طوفانِ حوادث سے محفوظ رہتی ہے۔ اس خطے کی اقوام کے ماضی کی تاریخ کے تذکرے سے وہ نئی نسل کو اپنے عظیم الشان ماضی، تہذیبی و ثقافتی میراث اور اقدار عالیہ کے بارے میں حقیقی شعور سے متمتع کرنے کے متمنی تھے۔ وہ یہ بات واضح کر دیتے تھے کہ اگر اس خطے کے باشندوں نے اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کے تحفظ پر توجہ نہ دی اور اسے نئی نسل کو بر وقت منتقل کرنے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا تو یہ قومی کردار کی تعمیر اور ملی تشخص کے لیے بہت بُرا شگون ہو گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہاں پتھر کے زمانے کا ماحول پیدا ہو جائے گا اور زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو کر رہ جائیں گی۔
انتظار حسین نے ہمیشہ سلطانیِ جمہور کی حمایت کی اور آمرانہ نظام کے مسلط کردہ جبر کا ہر انداز مسترد کر دیا۔ اپنے ناول "آگے سمندر ہے "میں انھوں نے وطن عزیز کے ان الم ناک حالات کو موضوع بنایا ہے جن کے باعث زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر اور آہیں بے اثر ہو کر رہ گئیں۔ محبت گولیوں سے بونے والوں نے بوری بند لاشیں گزر گاہوں، شاہراہوں اور مکانوں کے سامنے پھینک کر وطن کا چہرہ خوں سے دھونے کا جو لرزہ خیز، اعصاب شکن اور سفاکانہ انداز اپنایا اس پر انتظار حسین بہت دل گرفتہ تھے۔ سال 1977کے بعد جب پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تو اس بعد کی سیاسی معاشرتی اور سماجی زندگی کو انھوں نے اس ناول کا موضوع بنایا گیا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے میدان سیاست کی ان جابر قوتوں کی عوام دشمنی، ذاتی مفادات کے حصول کی سازشوں، جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعد کبر و نخوت، رعونت اور مکر کا پردہ فاش کرنے کی سعی کی ہے جن کی پیدا کردہ ظلمت نے پوری قوم کے مقدر کی سیاہی کی صورت اختیار کر لی اور وطن کے میدانوں، گلستانوں، کوہساروں، مرغزاروں اور قریہ و بازار میں بے بر کتی کے کتبے نوشتۂ تقدیر کی صورت میں آویزاں ہو گئے۔ انتظار حسین کے اسلوب میں داستانوں میں مافوق الفطرت عناصر کا ذکر سماجی علوم کے بارے میں ان کی وسیع النظر ی کا مظہر ہے۔ انھوں نے معاشرتی زندگی کے واقعات اور داستانوں کے پُر اسرارماحول کو جس مہارت سے زیبِ قرطاس کیا ہے اردو ادب اس کی کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
بر صغیر پاک و ہند میں سفر نامے میں قارئین کی دلچسپی ہمیشہ برقرار رہی ہے۔ اس خطے میں سال 1799میں فارسی زبان میں مرزا ابو طالب خان اصفہانی کا لکھا ہوا پہلا سفر نامہ”سیرِ طالبی ‘’کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد سال 1837میں یوسف خان کمبل پوش نے "عجائباتِ فرنگ ” لکھ کر اردو زبان کو پہلا سفرنامہ دیا۔ اردو سفر نامے کا ارتقا مسلسل جاری رہا اور یوسف خان کمبل پوش سے لے کر انتظار حسین تک پہنچ کر اس صنف میں قابل قدر ادبی سرمایہ جمع ہو گیا ہے۔ قارئین کی سفرنامے اور سوانح نگاری میں دلچسپی کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان میں سفر نامے اور سوانح نگاری کی مقبولیت فکشن اور شاعری سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ اردو زبان میں سیکڑوں کی تعداد میں سفر نامے لکھے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ ذوق سلیم سے متمتع ہر وہ تعلیم یافتہ شخص جو عبادات کے لیے مقامات مقدسہ پہنچتا ہے اور وہاں سے بہ خیریت واپسی پر وہ اپنی یاد داشتیں لکھنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ اسی طرح جن لوگوں کو تعلیم، تجارت، کاروبار، شہرت و عظمت اورسیر و سیاحت کا شوق ہو وہ بھی حسبِ ضرورت بیرون ملک سفر کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ جب واپس اپنے وطن میں پہنچتے ہیں تو اپنے تئیں ایسا جہاں گر د سمجھنے لگتے ہیں جس کے سامنے ابن بطوطہ، مارکو پولو اور واسکوڈے گاما طفل مکتب ہیں۔ کئی سفر نامے ایسے بھی ہیں جن میں بیرون ملک سفر کے دوران حسن و رومان کی فرضی داستانیں، تنگی و عسرت کے من گھڑت واقعات، دیار غیر کی حسیناؤں کے پیمانِ وفا کے موہوم قصے اور دعوتِ نظارہ کی پیش کش کی باتیں زیبِ داستان کے لیے ٹھونس دی جاتی ہیں۔ انتظار حسین کے سفرنامے اپنے اسلوب کے اعتبار سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں ان میں غیر متعلقہ باتوں کا کوئی تصور موجود نہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے اور سفر میں کسی مسافر نواز کی جستجو نہیں کرتے تھے۔ بیرونِ ملک سفر کے دوران انھیں کسی بدرقہ، رفیق سفر اورمسافروں کی رہنمائی کے کتابچے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ جہاں پہنچتے ہیں اپنی چشمِ بینا سے تمام مناظر دیکھ لیتے ہیں اور چشمِ تصور سے ان کے پسِ منظر سے بھی آگاہ ہو جاتے ہیں۔ انھیں مرزا حسین احمد بیگ کا سفر نامہ "پر دیس کی باتیں ” کا اسلوب بہت پسند تھا۔ اپنے عہد کا یہ مقبول سفر نامہ جو حیدر آبا د دکن سے شروع ہوا اس میں سری لنکا، فلسطین، ترکی، مصر، کچھ یورپی ممالک اور برطانیہ کے سفر شامل تھے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے عالمانہ مقدمے کے ساتھ یہ سفرنامہ سال 1931میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا۔ انتظار حسین نے اپنے سفر ناموں میں اپنے ذاتی تجربات و احساسات اور مشاہدات و اس مہارت سے پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے کہ قاری ان سفر ناموں کو پڑھتے وقت یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خود بھی مصنف کے شانہ بہ شانہ سر گرم سفر ہے۔ انتظار حسین کا مقبول سفر نامہ "زمیں اور فلک اور "ان کے مشاہدات کو حقیقی تناظر میں پیش کرتا ہے۔ سفر کے دوران مصنف کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا، قارئین کو نہایت دلچسپ انداز میں ان سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اپنی زندگی کی یادوں کو انتظار حسین نے "جستجو کیا ہے "کے عنوان سے یک جا کر دیا۔ ان کی تصنیف "جستجو کیا ہے ” جو ان کی زندگی کے نشیب و فراز کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے بہت دلچسپ ہے۔ قارئین اس تصنیف کو انتظار حسین کی سوانح عمری کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ انتظار حسین کی تصنیف "جستجو کیا ہے "ان کی کتابِ زیست کے بیش تر ابواب کا احاطہ کرتی ہے لیکن اس کتاب کی اختتامی سطور مصنف نے نہیں لکھیں۔ انتظار حسین کی کتابِ زیست کی آخر ی سطر فرشتۂ اجل نے ۲۔ فروری سال ۲۰۱۶کو تحریر کی اور اس کے ساتھ ہی اردو زبان و ادب کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
انتظار حسین نے اپنا دامن علاقائی اور لسانی عصبیتوں سے کبھی آلودہ نہ ہونے دیا۔ پاکستان کی قومی زبان اردو کے فروغ کے لیے وہ ہمیشہ مصروفِ کار رہے۔ بر صغیر کا اہم علمی وا دبی مرکز ہونے کی وجہ سے وہ لاہور سے بہت محبت کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تاریخی شہر میں انیسویں صدی سے قبل بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ مدلل انداز میں بتاتے کہ امیر خسرو(B:1253,D:1325)نے اپنی تصنیف "غرۃ الکمال”میں مسعود سعدسلمان لاہوری کا ذکر کیا ہے جو ترکی، فارسی اور ہندوی(اردو)زبان میں شاعری کرتا تھا۔ سال ۱۰۴۶ میں لاہور میں جنم لینے والے اس شاعر کا شمار اردو زبان کے قدیم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ انھیں اس بات کا رنج تھا کہ مسعود سعدسلما ن لاہور ی کا کلام سیل زماں کے تھپیڑوں میں بہہ گیا اور ادبی تاریخ کا ایک اہم باب تاریخ کے طوماروں میں دب گیا۔ مجلہ "نقوش”کے ادبی معرکے نمبر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ادیبوں کی معاصرانہ چشمک ہر عہد میں دیکھی گئی ہے۔ انتظار حسین ادیبوں کی دھڑے بندیوں سے ہمیشہ دُور رہے۔ پاکستان میں آزادی کے بعد ادب کے مختلف دبستانوں کی کارکردگی کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ماضی میں تاجور نجیب آبادی اور حفیظ جالندھری کی معاصرانہ چشمک کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی کہ حفیظ جالندھری کی ادبی محاذ پر استقامت کا سبب یہ تھا کہ انھیں پروفیسراحمد شاہ بخاری پطرس اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر جیسے فطین اور پُر جوش حامی دستیاب تھے جن کی مدلل گفتگو اور عالمانہ انداز اپنی مثال آپ تھا۔
اللہ کریم نے انتظار حسین کو ایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا۔ مادی دور کی لعنتوں نے جس بے دردی سے اخلاقی اقدار کے قصر عالی شان کو منہدم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے انتظار حسین اس پر بہت دل گرفتہ رہتے تھے۔ وہ ان ادیبوں کے تخلیقی کام کو بہت پسند کرتے تھے جنھوں نے اپنی تہذیب و ثقافت اور علمی میراث کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے۔ اگرچہ وہ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں سے اخذ و استفادہ کے حق میں تھے لیکن وہ کورانہ تقلید کے سخت مخالف تھے۔ انتظار حسین کا ظاہر و باطن یکساں تھا اور ان کی حق گوئی اور بے باکی کا ایک عالم معترف تھا۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ اُنھوں نے درد کا جو رشتہ استوار کیا اُسے علاج گردِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھر اس پر کاربند رہے۔ الم نصیبوں اور جگر فگاروں کی غم خواری سدا ان کا شیوہ رہا۔ پاکستان اور دنیا بھر کے ادیب انھیں اپنا حقیقی مونس و غم خوار سمجھتے تھے اور ان سے دردِ دِل کہنے میں کبھی تامل نہ کرتے تھے۔ انتظار حسین ان کا قصۂ درد پُوری توجہ سے سنتے اور انھیں دلاسا دیتے اور ڈھارس بندھاتے۔ انتظار حسین کے الفاظ ان پریشان حال لوگوں کو لگنے والے جذباتی چرکوں کے لیے مرہم اور مسموم کیفیات کا تریاق ثابت ہوتے۔ راہِ رفتگان پر چلنے والے ادیبوں کی ورق ورق زندگی کا حرف حرف بیان سُن کر انتظار حسین کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ ان کی مغفرت کی دعا کرتے اور ان کی خوبیوں کو اجاگر کرتے تھے۔
انتظار حسین کی زندگی شمع کے مانند گزری اور انھوں نے ہمیشہ روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا۔ وہ لاہور کی ادبی محفلوں میں بالالتزام شرکت کرتے ا ور اپنی قیمتی رائے سے حاضرین کو مستفید کرتے تھے۔ انتظار حسین لاہور کے ان ممتاز ادیبوں میں شامل تھے جو گزشتہ سات عشروں سے نہ صر ف پاکستان بل کہ دنیا بھر میں ادبی محفلوں کی روح رواں تھے۔ پروفیسر اطہرناسک کو انھوں نے بتایا کہ لاہور میں واقع بھاٹی کا علاقہ لاہور کی چالیسی سمجھا جاتا ہے جہاں حکیم الامت، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال، سر عبد القادر، استاد دامن اورساغر صدیقی جیسے نابغۂ روزگار ادیبوں کا تعلق اسی قدیم علاقے سے رہا۔ بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے گر د و نواح کا علاقہ جو بھاٹی کا علاقہ کہلاتا ہے اردو زبان و ادب کے فروغ میں تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی علاقے سے سال ۱۹۲۴ میں سر عبدالقادر نے رجحان سا ز ادبی مجلے ” مخزن” کی اشاعت شروع کی۔ اسی سال حکیم محمد یوسف حسن نے یہیں سے "نیرنگ خیال "کی صورت میں روشنی کے جس عظیم الشان سفر کا آغاز کیا وہ اب تک جاری ہے۔ (سال ۲۰۱۶ میں حکیم محمدیوسف حسن کی یاد میں نیرنگ خیال راول پنڈی سے سلطان رشک کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے۔ )۔ لاہور کے علاقے بھاٹی ہی سے ادب اور فنون لطیفہ پر مشتمل مجلہ "کاروان” منظر عام پر آیا جس کی مجلس ادارت میں ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور عبدالرحمٰن چغتائی شامل تھے۔ حیف صد حیف کہ اجل کے ہاتھوں نے ان سے وابستہ تمام اہم حقائق کو خیال و خواب بنا دیا۔ جدید دور میں کراچی اور لاہور جیسے پاکستان کے بڑے ادبی مراکز میں ادیبوں کے بہر ملاقات منعقد ہونے والے ادبی میلوں میں انتظار حسین کی شرکت سے نو عمر ادیبوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوتا تھا۔ انتظار حسین کی علمی و ادبی خدمات کا ایک عالم معترف تھا۔ یونائیٹڈ بنک نے ممتاز ادیبوں کو فروغ علم و ادب کے حوالے سے ان کی اعلا کار کردگی کی بنا پر ادبی انعامات عطا کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے انتظار حسین اس میں منصفین کے پینل کے سر براہ تھے۔ ان کی فقید المثال خدمات کے اعتراف میں انھیں درج ذیل اعزازات سے نوازا گیا:
۱۔ ستارۂ امتیاز حکومت پاکستان
۲۔ کمال فن ایوارڈ، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد
۳۔ حکومت فرانس کا اعلا ترین ادبی ایوارڈ(بیس ستمبر، ۲۰۱۴)۔ Ordre des Arts et des Lettres
۴۔ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ(Lifetime achievement award()بین الاقوامی ادبی فیسٹیول سال 2012
انتظار حسین نے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ زمانہ لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتا چلا جائے انتظار حسین جیسادیدہ ور پھر پیدا نہیں کر سکتا۔ انتظار حسین کے الم نصیب، جگر فگار مداحوں کو اس لمحے کا شدت سے انتظار رہے گا جب ہمارے معاشرے میں انتظار حسین کی خواہشات کے مطابق خلوص و دردمندی، صبر و تحمل، رواداری، وسیع النظری اور انصاف عام ہو۔ وہ صبح اس وقت آئے گی جب ہمارے معاشرے میں شرح خواندگی میں قابل رشک اضافے کے معجز نما اثر سے ذوقِ سلیم نمو پانے لگے گا اور انتظارحسین جیسے عظیم ادیبوں کی تخلیقات کے قارئین کی تعداد ہزاروں کے بجائے کروڑوں میں پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ سکوتِ مرگ، مہیب جمود، اور سفاک ظلمتوں کا خاتمہ کر کے اپنی پیشانی پر عظمتِ انسان کا جھومر سجائے وہ صبح یقیناً آئے گی۔ جب تک دنیا باقی ہے انتظار حسین کا نام افق ادب پر مثل آفتاب ضو فشاں رہے گا اور تاریخ ہر دور میں ان کی فقید المثال تخلیقی کامرانیوں کی بنا پر ان کے عظیم نام کی تعظیم کرتی رہے گی۔ یہ سوچ کر کلیجہ منھ کو آتا ہے کہ اردو ادب کا ہنستا مسکراتا اور بولتا چمن مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ قارئینِ ادب کا شوقِ آوارہ جب بھی کسی عظیم تخلیق کار کی فکر ی کہکشاں کی تسخیر کی تمنا میں نکلتا ہے تو انتظار حسین پر آ کر اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد کوئی ایسا ہفت اختر ادیب دکھائی نہیں دیتا جو ذوق سلیم کی تسکین کر سکے۔ اظہار و ابلاغ کے تمام مرحلے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے بعد ابد آشنا اسلوب کا حامل یہ عظیم تخلیق کار ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا لیکن روشنی کا وہ سفر جسے انتظار حسین نے شروع کیا تھا کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔
اس خامشی پہ ختم سفر کا گماں نہ کر
آسودگانِ خاک نئی منزلوں میں ہیں
٭٭٭