فطرتوں کے چراغ در چراغ لمحوں میں
کتنی مشکل ہے محبت وقت کے ساتھ
تجّلی بدر ہو کر تِیرگی میں جینا
مسرتوں میں اندوہ کی کسک
اک خاموش سے گھروندے میں
دامنِ سحر سے مستعار روشنی میں
رُخِ زیبا پہ بریدہ گیسُو کے بادل
اک آئینۂ اِمروز کا صَیقل
نگاہوں کے جلوؤں میں چھڑے تار دِل کی دھڑکن کے
اِس جاں کو دیکھو
اُس عمر کو سوچو
اِس عقل کو جانچو
اُس ہوش کو ناپو
خُلد بّریں کو پیمانہ کر کے بھی
تختِ حیات پہ تنہائی و جُدائی کے سوا کچھ بھی نہیں
اک موہوم سے خوابِ تمنا کا اجراء بھی نہیں
اساسِ شبنم میں رقصِ دریا کا منظر بھی نہیں
تم….. تم
کیوں بار بار لوٹتے ہو
اپنے گُلاب سخن لہجہ میں
گمانِ محبت کو یقین درجہ کرتے ہو
ہر ذرۂ صحرا کی جبیں چوم لیتے ہو
دل کے آئینہ میں
عشق کے صحیفے لکھ لکھ کر
اُسی خُلد بّریں کا خواب جگاتے ہو
اِذنِ سکوت میں ہلچل مچا کر
روح میں روح کی ملاوٹ کرتے ہو
اور پھر
سماعتوں کے حصار میں
نقابِ رنگ و بُو کی راز داری میں
اپنے فرض کی تلخیاں نبھانے کو
لوٹ جاتے ہو
ہاتھ میں ہاتھ تھام کر
اک بے نام سا یقیں
مری ہتھیلی کی لکیروں میں چھوڑ جاتے ہو
پھر ملیں گے …اُس سبزہ زار پر
ہونہہ…
جہاں کبھی پھول کھِلے ہی نہ تھے
٭٭٭