غزلیں۔ ۔ ۔ راج گوپال یادو

 

 

تھک گیا جب بھی قلم سو جائیں گے

پھر نہیں جاگیں گے ہم سو جائیں گے

 

روشنی آنکھوں میں باقی ہے ابھی

کس طرح رنج و الم سو جائیں گے

 

صرف یہ اک رات کے مہمان ہیں

خواب سارے صبح دم سو جائیں گے

 

من ہے اک اندھی گپھا، دیپک جگہ

خود بخود سارے ’اہم ‘٭سو جائیں گے

 

یہ روپہلے درشیہ، نظارے حسیں

ساتھ چل کر دو قدم سو جائیں گے

٭٭٭

اہم۔ انا

 

 

مجرم ہے یہاں کون سبھی کو یہ خبر ہے

خاموش ہیں سب جیسے یہ گونگوں کا نگر ہے

 

ان بجھتے چراغوں کا دھواں دیکھ رہا ہوں

محسوس یہ ہوتا ہے کہ نزدیک شہر ہے

 

ہم دوب سہی پاوں کی، پیڑوں سے ہیں بہتر

آندھی کی ہمیں فکر نہ طوفانوں کا ڈر ہے

 

پاؤں میں نہ ڈالو مرے تشہیر کی زنجیر

منزل ہے ابھی دور بڑا لمبا سفر ہے

٭٭٭

 

 

آنسوؤں کو چھپانا ہوتا ہے

جب کبھی مسکرانا ہوتا ہے

 

ہر نئے غم کو یہ ہدایت ہے

میرے گھر ہو کے جانا ہوتا ہے

 

صاف رہنے کے واسطے من کو

آنسوؤں سے نہانا ہوتا ہے

 

خود بخود زخم ہنسنے لگتے ہیں

جب بھی موسم سہانا ہوتا ہے

 

رات جاگے ہے کیونکہ روز اسے

ایک سورج اگانا ہوتا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے