پروپگنڈہ در اصل فکشن کی روح رواں اور اس کی پہچان ہے۔ کوئی بھی حقیقت چاہے وہ جزوی حقیقت ہو یا کلی حقیقت ہو اس وقت تک محض ایک علم یا خبر کی حیثیت رکھتی ہے جب تک وہ پروپگنڈہ کی حیثیت نہیں اختیار کرتی۔ایسی افسانوی تحریر جو پروپگنڈہ ہونے کے وصف سے خالی ہوتی ہے ایک بے جان سچ دکھائی دیتی ہے۔ افسانوی تحریر میں پروپگنڈا افسانہ نگار کی نیت اور پیش کش کے مقصد سی پیدا ہوتی ہے۔ جب افسانہ نگار محسوس کرتا ہے کہ جس صداقت کا اس کو عرفان ہوا ہے اس کو لوگوں تک پہنچنا چاہئے تو وہ اس مقصد کے لئے قلم اٹھاتا ہے اور اس صداقت کو ان تمام لوازمات سے لیس کر کے پیش کرتا ہے جو اس صداقت کو کامیابی کے ساتھ قارئین کے ذہن میں ان کی اپنی دریافت کے طور پر ثبت کر دے۔ فکشن کی ساری لوازمات جیسے ایک پرکشش آغاز، منظر نگاری، کردار نگاری، ماجرا، جذبات کی عکاسی، تجسس، قوت بیان، زبان، ، فلسفہ اور وحدت تاثر صداقت کی ترسیل کے اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں گویا وہ ایک روکٹ لانچر اور راکٹ ہوتے ہیں جو اپنے اندر رکھے ہوئے صداقت کو نشانے تک پہچانے کا کام انجام دیں گے۔ اس صداقت سے افسانہ نگار کی یہ امید وابستہ ہوتی ہے کہ اپنی متعینہ جگہ پر پہنچنے کے بعد یہ صداقت اپنے اطراف کو متاثر کرے گی۔ گویا افسانہ افسانہ نگار کا ایک عمل ہوتا ہے اور اس عمل کا مقصد کسی مطلوبہ نتیجے کا حصول ہے۔
جو افسانہ پروپگنڈہ کے اس خاصے سے خالی ہوتا ہے وہ ایک بے راہ رو اور خلا میں بھٹکتی ہوئی ایک ایسی شئے کی مانند دکھائی دیتا ہے جس کے اڑنے کا کوئی مقصد دکھائی نہیں دیتا۔ آپ کو جو افسانے بہت پسند آتے ہیں اور جن افسانوں کو درسی کتاب کے کسی سبق کی طرح پڑھنا پڑتا ہے ان کے درمیان یہ فرق صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ کوئی افسانہ کیوں لکھتا ہے یا کوئی افسانہ کیوں پڑھے اس کی وجہ افسانے کی اس خصوصیت میں مضمر ہے۔
افسانہ نگاری کی شکل میں پروپگنڈہ افسانہ نگار کا وہ عمل ہے جس سے وہ دنیا کے ذہنوں کو بیدار کرتا ہے۔ پروپگنڈہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں کو جھنجوڑ دے ، دلوں کو ہلا دے ، روحوں کو لرزا دے ، فکری عمل کو بیقرار کر دے ، خیالات کو تبدیل کر دے ، توجہ کو مرکوز کر دے ، عمل کی خواہش کو مہمیز کرے اور سوتے ہوئے لوگوں کو میدان جنگ میں اتار دے۔ پروپگنڈہ ایک انتہائی طاقتور اور اس لحاظ سے مفید یا خطرناک ہتھیار ہے۔ اور صداقت کی توانائی سے دنیا کو تبدیل کرتا ہے۔
افسانہ نعرہ نہیں ہے لیکن ہر افسانہ کے اندر ایک نعرہ موجود ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کے افسانوی پروپگنڈہ کی انفرادیت یہ ہوتی ہے کہ اس کی صداقت سیاسی، تاجرانہ، مذہبی اور نظریاتی پروپگنڈہ کی طرح صداقت مستعار لی ہوئی نہیں ہوتی اور یہ صرف اور صرف افسانہ نگار کی دریافت شدہ صداقت کو ہی پیش کرتا ہے۔یہ پروپگنڈہ اس کی اپنے دریافت اور اس کی اپنی باتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن افسانہ نگار کسی اور ماخذ سے بھی کسی منجمد صداقت کو اٹھا کر اسے فعال بنا سکتا ہے۔ اس کا انحصار افسانہ نگار کی معاشرہ کا احتساب کرتی ہوئی اس نگاہ پر ہے کہ کسی ابھرتی ہوئی ضرورت کے مد نظر کسی منجمد صداقت کو کے استعمال کی ضرورت محسوس کرے۔
اگر افسانہ نگار محض ایک خبر رساں یا عالم کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں خبریں اپلوڈ کرتا ہے تو اس کے افسانے میں وہی خشکی محسوس ہو گی جو کورس کی یا علمی کتابوں میں محسوس ہوتی ہے اور ایسے افسانے صرف ایسے چند ذہنوں کی دلچسپی کا سامان بن کر رہ جائیں گے علم کو برائے علم بٹورتے ہیں۔ ایسے افسانے بھی بیجوں کی طرح مناسب موسم اور زمین ملنے پر پودوں کی شکل میں اگ آتے ہیں لیکن افسانہ نگار کو مناسب موسم کا انتظار کرنا ہو گا۔البتہ موسم آنے پر ان افسانوں کی صداقت بھی پروپگنڈہ کی مشین سے ہی اڑان بھرے گی۔
٭٭٭