(نا مکمل ناول کا ایک حصہ)
قاضی عبد الستار کے نام
( 1)
مسجد سے فجر کی نماز کے بعد نمازی دھیرے دھیرے مگر اس طرح نکلنے لگے کہ جیسے دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں کہ چلو۔ اس جھنجھٹ سے چھٹی ملی، اب کام سے لگیں گے۔
مسجد کے دروازے پر بوڑھا رحیما گدّی ہمیشہ کی طرح مولوی کریم اللہ کے انتظار میں آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ مولوی اپنی مہندی رنگی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نکلے۔ رحیما کے سیدھے سادے سلام ’’سلام مولبی جی‘‘ کے جواب میں ہر حرف پر عربی کی ع اور ح کا تلفظ ادا کرتے ہوئے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ سے سیکھی نستعلیق اردو میں بولے ’’وعلیکم عسلام، کحو رحیما، کیسے حو‘‘
’’ہم کا حال کا پوچھتے ہو مولبی جی، ذرا آسمان کا حال پوچھو…‘‘
رحیما نے مولوی کریم اللہ کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کیا۔
’’پرسال تو بیساکھ میں ہی پانی آوا رہا۔ اس سال تو جیٹھ بھی جاوت ہے۔۔ سیتا پور میں ایک رام داس بابا ہوت رہے۔ اوٗ آسن جمائے کے برکھا بلاوت رہے۔ آپ ہوں دعا کریو۔ … کوئی وجیپھہ…‘‘
’’ جہالت کی بات۔ بس، اللہ سے دعا کرو، وہ دعا ضرور سنے گا، وہ غفور الرحیم ہے۔ ہم بھی دعا کرتے ہیں، تم بھی دل سے دعا کرو۔‘‘
’’ او ہمری بات ناہیں سنت ہے۔ سنتا تو بڑے بھیا جمال بھیا کا بیگھہ بھر بھی ناہیں لے سکت رہے۔ کمال پور سکراواں کے سارے جوار سے ہمرا جی برا ہوئے گوا۔ آنکھن دیکھت کا نا انصاپھی ہووت ہے‘‘
رحیما کی آنکھوں نے یادوں اور خوابوں کے صندوقچے کھول دیئے۔
’’ ٹھیک کہتے ہو میاں، بلال بھیا تو تم کو اور سب خدمت گاروں کو جھاڑ جھوڑ کر راج کا اپنا حصہ بیچ کر چل دیئے۔ سنا ہے کوئی پیالی گلاس بنانے کا کارخانہ کھولا ہے دلی میں۔‘‘
’’ اب تو سارا راج بگڑ گوا…‘‘
’’ ہاں، دونوں بھائی ساتھ ساتھ راج میں رہتے تو راج کا اور دونوں کنوروں کا نام سارے اودھ میں سکّوں کی طرح چلتا‘‘
دونوں ماضی کی سرنگوں میں چلتے رہے۔ حالانکہ دونوں کو علم تھا کہ چھوٹے بھیا کنور جمال الدین کا نام اب بھی سکے کی طرح چلتا اور گولک کی طرح بجتا ہے …..
—**—
اگر کبھی بارہ بنکی سے سیتا پور کی طرف جانے والی ریلوے لائن سے آپ کا گزر ہو تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ دیر سفر کے بعد ٹرین ایک سٹیشن پر منٹ بھر کے لئے رکتی ہے۔ اس سٹیشن کا نام کمال پور ہے ….(بارہ بنکی سے سیتا پور سیدھی کوئی ریلوے لائن نہیں جاتی اور نہ کمال پور میں کوئی ریلوے سٹیشن ہے۔ اگرچہ کمال پور یا کملا پور نام کا ایک قصبہ ضرور وجود رکھتا ہے مگر وہاں کوئی ریلوے لائن نہیں ہے۔ یہ سارا علاقہ فرضی ہے، حقیقت کا رنگ دینے کے لئے بارہ بنکی، سیتا پور اور کچھ قصبوں /دیہاتوں کے نام اصلی ہیں،ا ع)
اگر آپ کمال پور کے سٹیشن پر اتریں … مگر ضروری نہیں کہ آپ کمال پور جائیں ہی… لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی اتفاق کی بنا پر جھمری تلیا، جھنجھنوں یا گوجرا نوالہ.. یا ایسے ہی کسی عجیب و غریب نام کی بستی میں جانا ہو جاتا ہے۔ مثلاً کنور جمال الدین جنہوں نے اپنے راج اور لکھنؤ کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا تھا اور خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی وہ جمہوریت ہند کے دار السلطنت دہلی جائیں گے، اپنے سوتیلے بھائی کنور ہلال الدین کے ساتھ جاگیر کے جھگڑے کے سلسلے میں۔ اسی طرح ممکن ہے کہ آپ کو بھی کمال پور جانا پڑ جائے، وہاں کی سٹیٹ بنک آف انڈیا کی مستقبل میں کھلنے والی کسی شاخ میں یا اس پوسٹ آفس کے پوسٹ ماسٹر کے طور پر جس میں تین چار سال تک فقط محمد پوسٹ ماسٹر کی پرچون کی دوکان بھی ساتھ میں ہی تھی۔
ٹرین کمال پور سٹیشن پر آدھی رات کے بعد پہنچتی ہے۔ اگر آپ اس وقت پہنچیں گے تو آپ کو قصبے کے بازار یا اپنی قیام گاہ تک جانے میں بے حد پریشانی ہو گی. اس لئے اکثر مسافر ساری رات سٹیشن کے چھوٹے سے رٹائرنگ۔ کم۔ ویٹنگ روم میں رات بسر کر لیتے ہیں۔ ٹرین کی لمبائی اور پلیٹ فارم کے مختصر ہونے کی وجہ سے بیشتر اوقات اترنے والوں کی بو گی سٹیشن سے بہت دور چلی جاتی ہے۔ چنانچہ جب آپ کو یقین ہو جائے کہ کمال پور کا سٹیشن آ گیا ہے تو آپ بلا خوف و خطر اتر جائیے اور مشرق یا مغرب کی سمت دیکھیے۔ آپ کو دو عدد مٹی کے تیل کے لیمپ پوسٹ نظر آئیں گے جو سیمنٹ کے پلیٹ فارم کی انتہائی حدود کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مگر اس کے دونوں طرف بھی سٹیشن کی سبز ریلنگ دور کھیتوں کے سروں تک چلی گئی ہے۔ ایک لیمپ پوسٹ کے پاس پانی کا نل ہے، دوسرے کے پاس ٹائلٹ۔ دو کمرے ہیں۔ ایک میں ویٹنگ روم اور دوسرے میں سٹیشن ماسٹر کا ساز و سامان۔ اسی کمرے میں پیچھے کی طرف کھلنے والی کھڑکی بکنگ ونڈو بھی ہے۔
کمال پور کے اس سٹیشن سے شمال کی طرف بستی کی سمت ایک کچی سڑک چلی گئی ہے جو کوئی دو فرلانگ آگے جا کر مشرق کی رف کاہلی سے مڑ جاتی ہے اور اسی موڑ سے مغرب کی طرف ایک سرخ بجری والا راستہ ہے جس کا اختتام کوئی دو سو گز دور چھوٹی حویلی کے جہازی پھاٹک پر ہوتا ہے۔ اس پھاٹک پر چاندی کے پتّر چڑھائے گئے ہیں، قیمتی نگینوں سے باریک کام کیا گیا ہے۔ جواہرات الور اور راجپوتانے کے دوسرے مقامات سے لائے گئے تھے اور مین پوری کے ماہر تجربہ کار بوڑھے فن جار ہاتھوں نے جس پر خود اپنے فن کی تصدیقی مہر ثبت کی تھی۔ اور جس پر دلدار علی اپنی کلف لگی سرخ پگڑی، نوک دار کھچڑی مونچھوں اور ہاتھوں میں مٹھ لگی چھڑی سے بقول خود ’’ویسرا کے اے۔ سی۔ ڈی‘‘ بنے ہوئے ٹِکے رہتے ہیں۔ اگر آپ ان سے ان کا تعارف پوچھ لیں گے تو بے حد ناراضگی کے اظہار کے ساتھ کہیں گے
’’ہم کو چینہن ناہیں کا۔۔ ہم آلی زناب کنور صاحب کے چوبدار علی دلدار علی ہوت‘‘
اور پگڑی میں کان کے پاس دبی بجھی ہوئی آدھی بیڑی نکال کر اس فخر سے سلگائیں گے کہ آپ کی گولڈ فلیک بھی شرمندہ ہو جائے گی-
–*–*–
حویلی کے پھاٹک سے کچھ فاصلے پر جنوب کی طرف حویلی کے سامنے والے آنگن میں نیم کے درخت کے قریب لکڑی کے گڑے ہوئے کھمبوں کے سروں پر آڑے ڈنڈے سے لٹکے ہوئے فرشی پنکھے کے نیچے بچھی چار پائی خاموش پڑی تھی۔ مچھر دانی ہوا سے اڑ رہی تھی اور بستر کے سرہانے رکھے ہوئے چمیلی کے پھول زمین پر گر گئے تھے۔
ننوا پاسی نے پیر کی جنبش سے اپنے لڑکے جھنگو کو اٹھایا جو پنکھے کی رسی کو بغل میں دبانے گُڑی مُڑی سو رہا تھا۔ جھنگو کے کسمسانے سے پنکھا تھوڑا سا ہل گیا۔
’’آٹھ بے … اب لگ سووت ہے۔ رات کو…..‘‘ پھر کنور صاحب کی نیند کے خیال سے ننوا پاسی نے بیٹے کو ڈانٹنا موقوف کر دیا۔ اور اشارے سے اسے بھاگ جانے کا حکم دے کر جی ہی جی میں گالیاں دیتا رہا۔ جھنگو کا کام یہی تو تھا کہ پنکھے کی ڈوری بیٹھا ہلاتا رہے اور جب کنور صاحب سو جائیں تو خود بھی آ کر سو رہے۔ لیکن پچھلی رات یقیناً جھنگو کی ڈوری پکڑ کر ہی سو گیا تھا۔
پھر کنور جمال الدین کے بدن کو حرکت ہوئی۔ جس کا اعلان کسی ہوئی چارپائی کی چرچراہٹ نے کیا، جیسے کسی طوائف نے صبح صبح انگڑائی لی ہو۔
اس صور نے نیم تلے کھڑے خدمت گاروں کے بے حرکت جسموں میں زندگی پھونک دی۔ سب سے پہلے لکھن رام نے ہاتھ بڑھا کر نیم کی نیچی نیچی شاخوں سے مسواک توڑی اور اس کو درست کرنے لگا۔
اسی وقت مچھر دانی سے کلمہ بلند ہونے کی آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی دلدار علی نے مچھر دانی کے پردے اوپر کو اُلٹ دئے۔ کنور صاحب انگلیاں چٹخاتے ہوئے اٹھے، ایک لمحے کو بیٹھ کر سرخ بے خواب آنکھوں سے شمال کی سمت دیکھا۔ ’’بھیا، داتون‘‘۔ لکھن رام نے بڑھ کر مسواک پیش کی۔ مگر انہوں نے دیکھا بھی نہیں اور چار پائی سے پیر زمین پر لٹکا دئے۔ ننوا پاسی نے فوراً ان کی چپلیں پیروں میں پہنا دیں۔
کنور جمال الدین ہولے ہولے با وقار قدموں سے چلتے ہوئے شمال کی سمت حویلی کے پھاٹک کی طرف گئے۔ پھر پیچھے مڑے۔ پیچھے پیچھے چلے آنے والے خدمت گاروں کو دیکھا۔ ننوا پاسی پانی کا لوٹا اور صابن دانی لئے ہوئے اور کرامت علی تولیہ سنبھالتے ہوئے چلے آئے تھے۔
کنور جمال الدین کے ہونٹ خاموش رہے، دائیں ہاتھ نے حرکت کی، بوڑھے بالوں کو سنوارا۔ ململ کے چُنے ہوئے کرتے کی آستین اس حرکت سے اونچی ہو گئی اور سونے کی زنجیر باہر لٹک گئی۔ پھر انہوں نے آنکھ کا اشارہ کیا۔
’’کمال کو بھیج دو، اس سے تنہائی میں بات کریں گے ہم‘‘
سبھی خدمت گار پھر نیم کے تلے چار پائی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ کرامت علی زنان خانے کی طرف جانے کے لئے فوراً باہری برآمدے میں داخل ہو گئے جہاں کنور جمال الدین کے اکلوتے صاحبزادے اور سارے راج کے ’’چھوٹے میاں‘‘ اور ’’چھوٹے بھیا‘‘ کا کمرہ تھا اور جو علی گڑھ سے چھٹیوں میں پچھلے ماہ سے آئے ہوئے تھے اور اس وقت اپنے کمرے سے نکل کر رانی دلہن، اپنی اماں جانی کے کمرے میں ان کے پہلو سے لگے بیٹھے کچھ خوشامد کر رہے تھے۔
–*–*–
کنور صاحب کچھ دیر تک جہازی پھاٹک کو دیکھتے رہے۔ پھر آگے بڑھ کر اس کی چکنی نقرئی سطح کو چھوا۔ اس میں جڑے ہوئے بڑے بڑے گول نگینوں کی گولائی پر دائیں ہاتھ کی زمرد کی نقشین انگوٹھی سے سجی انگلی سے سہلایا۔ مسکرائے، اور پھر دور سے آتے ہوئے اپنے بیٹے کمال کو دیکھ کر اپنے چہرے پر اچانک سنجیدگی طاری کر لی۔
کمال کے سلام کے جواب میں ’’جیتے رہو‘‘ کہنے کے بعد کچھ دیر اس کے سرخ و سپید چہرے اور مضبوط بدن کو دیکھا۔ مسرت اور فخر کے پیدا ہونے والے احساس پر قابو پایا اور بولے ……
’’رات ہم کو نیند نہیں آئی، صبح ہوتے آنکھ لگی تو ہم نے خواب میں دیکھا…..‘‘
وہ رکے۔ کمال نے نظریں اٹھا کر ابا میاں کی سرخ بڑی بڑی آنکھیں دیکھیں اور پھر نظریں جھکا لیں۔
’’ہم نے خواب میں دیکھا کہ اس پھاٹک کی چاندی سیاہ پڑ گئی ہے۔ اور اس پریشانی میں ہماری آنکھ کھل گئی‘‘
’’مگر ابا میاں ……‘‘ کمال نے کچھ کہنا چاہا۔
’’ہاں ہم جانتے ہیں ….‘‘
نیلی رگوں والے بوڑھے سفید ہاتھ کی گلابی پوریں پھر سیم و جواہرات چومنے لگیں۔
’’تم یہی کہنا چاہتے ہو نا کہ اس میں ہمارے شمالی ہند کا بہترین سامان استعمال کیا گیا ہے۔ مگر یہ صرف چاندی اور جواہرات ہی نہیں، اس میں جنت مکانی تمہارے دادا جان کا خونِ جگر بھی ہے۔‘‘
وہ ایک لمحے کے لئے رکے۔
’’اور تمہاری سگی دادی۔۔ اماں جان مرحومہ سے ان کے پیار کا ثبوت بھی۔ ان کو بڑا غم تھا کہ ان کی زندگی میں ہی اس بڑی نظر آنے والی حویلی کو چھوٹی رانی کی مناسبت سے رعایا نے ‘چھوٹی حویلی’ پکارنا شروع کر دیا۔ اور ہماری سوتیلی اماں جان بڑی رانی کے نام سے ان کی چھوٹی سی حویلی کو ‘بڑی حویلی’ کہا گیا‘‘
کنور جمال الدین کا نچلا ہونٹ اس طرح پھیل گیا جسے مسکراہٹ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
کمال سوچنے لگا، ابا میاں کا دل بڑے چچا کی طرف سے کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔ پھر اس نے اپنی سوتیلی دادی کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ مگر بیتے دنوں کے کھنڈر میں اس کی سوچیں تمام تر کوششوں کے باوجود بڑی دادی کو تلاش نہیں کر سکیں۔ اس کی سوتیلی دادی۔ بڑی رانی جو دادا حضور کی پہلی بیوی تھیں۔ اور جو دل پر پتھر رکھ کر یہ دیکھتی رہیں کہ ان کی پرانی حویلی کا سارا اچھا اچھا سامان چھوٹی رانی کی نئی حویلی میں پہنچایا جا رہا ہے مگر وہ آخر دم تک اپنی چھوٹی دلہن سے وضع داری کے ساتھ تعلقات نبھاتی رہیں۔ البتہ ایک سل سی ان کے سینے پر اس وقت تک رکھی رہی جب تک کہ بڑے چچا نے اپنے ہاتھوں سے کتبے کی سل ان کی قبر کے سرہانے رکھ دی۔
’’ہمیں اس پھاٹک کی عزت اپنی جان سے عزیز تر ہے …. اور تم….‘‘
کمال چونک گیا۔
’’تمہاری جیب خرچ کے واسطے آم کا ایک باغ ابھی سے تم کو دے دیا گیا ہے۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں …. رات ہمیں اطلاع ملی کہ تم نے پورا ایک درخت سلامت اللہ کو راضی کر کے فروخت کر دیا… اور وہ بھی رام دیال مہاجن کو…!‘‘
کنور صاحب کے سینے میں اپنے بھیا صاحب کے خلاف سوچ کی ایک لہر پیدا ہوئی جنہوں نے اپنی زمینیں رام دیال مہاجن کو بخش دی تھیں اور وہ خود بھی زمین دار بن بیٹھا تھا اور خود کو مہاجن کی جگہ پنڈت رام دیال کہنے لگا تھا۔ کمال چپ کھڑا رہا۔
’’تم سمجھ نہیں سکتے کہ آم کی فصل فروخت کر کے تم اپنا جیب خرچ پیدا کر سکتے ہو لیکن زمین…. یا درخت…!‘‘
ان کی آواز بھرّا گئی اور کمال نے خود ہی اپنے ذہن میں ان کا جملہ مکمل کر لیا۔ ’’…. فروخت کرنا ہمارے خاندان کی تاریخ پر ایک بد نما دھبا ہو گا۔ اور ایسی کسی حرکت سے چھوٹی حویلی کے پھاٹک کی چاندی جھوٹی پڑ جاتی ہے اور نگینے جھڑ جاتے ہیں‘‘
’’کیا تم کو اپنی تاریخ معلوم نہیں؟ تمہارا نام، اس راج کا نام آخر کس کے نام پر ہے؟‘‘
کمال سر جھکائے سنتا رہا۔ شاید آم کے ساتھ ہی اس کی بولنے کی قوت کا درخت بھی جیسے اس وقت کٹ گیا تھا….
’’جب شیوخ اودھ نے مغلوں سے ٹکر لی تھی۔ اس زمانے کے ایک جنگ جو، میرے پر دادا، جو نو مسلم تھے، اور جن کا نام کمال الدین رکھا گیا تھا… انہوں نے دریائے گھاگھرا کے کنارے سرکاواں میں ایک ڈھی پر بنی گڑھی میں پناہ لی تھی۔ اور جب مغل بادشاہ کا شکار کے لئے ادھر سے گزر ہوا تھا تو ہمارے بزرگ کمال الدین… خدا کرے انہیں جنت الفردوس میں جاگیر ملی ہو… نے شاہ کے ایک سپاہی سے کہہ دیا کہ ہماری تلواروں میں زنگ لگ رہا ہے اور خون میں ٹھنڈک آنے لگی ہے۔ شاہ سے کہو کہ مغلوں کی جگہ اب ان لوگوں کو سلطنت سے نکال باہر کیا جائے جو تجارت کے بہانے چلے آ رہے ہیں، یہ لوگ رفتہ رفتہ ساری سلطنت پر قابض ہو جائیں گے۔ اور جب واقعی سپاہی نے یہ بات شاہ سے کہہ دی تو وہ پھڑک گئے۔ اسی وقت بلا کر سرکاواں ان کو بخش دیا اور کنور کے نام سے انہیں مخاطب کیا۔ تب سے وہ کنور کمال الدین کے نام سے بجنے لگے …..‘‘
’’کنور کمال الدین کے صاحبزادے سلیم الدین… میرے دادا نے 1857ء میں انگریزوں سے ٹکر لی۔ حالانکہ اس میں بہادر شاہ ظفر کو شکست ہوئی اور رنگون نصیب ہوا تھا لیکن اس سے پہلے وفا داری اور نمک حلالی کے صلے میں سلیم الدین کو سرکاواں کے جوار کا یہ علاقہ بھی بخش چکے تھے جو اس وقت کمولی کہلاتا تھا۔ کنور سلیم الدین نے اپنے والد کے نام پر اسے کمال پور کا نام دیا….‘‘
کنور صاحب ایک لمحے کو ٹھہرے۔ اپنی یادوں کی زنبیل میں ہاتھ ڈالا اور کچھ نقرئی اور زریں مہریں نکالیں، پرکھیں اور پھر رکھ دیں ….
’’وہ صوفی منش آدمی تھے، انہوں نے کمال پور آ کر محض ایک کچی حویلی بنوائی جس کے کھنڈر اب بھی پرانی حویلی کہلاتے ہیں اور جہاں تمہارے ہی نہیں، میرے بچپن نے بھی بہت آنکھ مچولی کھیلی ہے۔ اور پھر ابا حضور کی بنوائی ہوئی یہ چھوٹی اور بڑی حویلیاں، اور یہ پھاٹک جس کی اودھ میں نظیر نہیں …..‘‘
کمال خاموش سنتا رہا۔
’’اور تم….؟ کیا اپنی یہ تمکنت کھو دینا چاہتے ہو؟‘‘
کنور جمال الدین کی آنکھیں اور بھی سرخ ہو اٹھیں
… ’’جاؤ تم سے یہی کہنا تھا….‘‘
کنور صاحب پھاٹک کے پاس کی دیوار سے ٹیک لگا کر کچھ دیر کھڑے رہے اور کمال کو جاتے دیکھتے رہے۔ نیم کے درخت کے پاس اب تک کھڑے خدمت گاروں کو کمال نے اشارہ کیا اور بھاری قدموں سے باہر برآمدے میں داخل ہو کر اپنے کمرے کی سمت چلا گیا۔ کنور جمال الدین کی نظروں نے ہاتھ پکڑ کر اسے برآمدے کے دروازے تک جا کر چھوڑا۔ پھر ان کی نظریں آتے ہوئے خدمت گاروں کی طرف اٹھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ ان کی طرف بڑھتے، لکھن رام نے تیزی سے بڑھ کر تازہ مسواک پیش کر دی۔
—*–*—
اپنی مسہری پر نیم دراز کمال کو یقین تھا کہ ابا میاں کو ضرور اس کا پتہ چل جائے گا اور وہ یقیناً ناراض ہوں گے۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ علی گڑھ میں مدار گیٹ کی چنی جان نے جو سونے کے جڑاؤ کرن پھول کی پہلی فرمائش کی ہے، اس کو پورا کرنے کے لئے آموں کی فصل کی مکمل فروخت کا انتظار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں علی گڑھ آئے گا اور لکھنؤ سے کرن پھول لیتا آئے گا۔ اب اس کے علاوہ چارہ نہیں تھا کہ سالم درخت کی لکڑی ہی بیچ دی جائے۔ اور ابھی بھی دیکھا جائے تو کچھ کام نہیں بنا۔ ایک درخت کی قیمت بھی رام دیال کیا دے سکتا تھا، ڈیڑھ سو روپیے دے گیا۔ یہ بھی بہت ہے۔ اور شاید اس نے یہ سوچا ہو کہ کنور صاحب کی عزت کا مختصر سا حصہ خرید لیا۔ اب بھی ڈیڑھ سو روپیے میں جڑاؤ کرن؟ اور وہ بھی چھوٹے بھیا، کنور کمال الدین کی طرف سے چنی جان کو پہلا تحفہ! کرن پھول کے لئے شاید ایک پیڑ کا اور سودا کرنا پڑے گا اور اس طرح کہ ابا میاں کو کچھ پتہ نہ چلے! اماں جانی سے آج صبح ہی کتنا کہا تھا، پہلے تو انہوں نے کوئی خواہش ٹھکرائی نہیں تھی اس کی، لیکن آج کتنی آسانی سے کہہ دیا تھا کہ ’’ہمارے پاس کوئی مٹھور دھرا ہے …!‘‘ کہیں ابا میاں اور اماں جانی کو کچھ شک تو نہیں ہو گیا؟ علی گڑھ میں ہی ٹھا کر عرفان کو تو کہیں پتہ نہیں چل گیا اور انہوں نے غفران چچا سے کہہ دیا ہو اور ابا میاں کو خبر مل گئی ہو! یا محمود آباد راج کے کسی فرد سے تو یہ اطلاع نہیں مل گئی ہو! علی گڑھ میں کم بخت روشن پور، محمود آباد اور مہرولی اور خیر آباد، اور مسرکھ اور بٹولی… کتنی جگہوں کے لوگ… ابا میاں کے دوستوں کے خاندان کے افراد بکھرے ہوئے ہیں جن میں اس کے اپنے دوست بھی شامل ہیں۔
پھر اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اتنی سی بات کے لئے، ایک درخت کی فروخت کے لئے اسے سلامت اللہ چچا سے مدد لینے کی کیا ضرورت تھی؟ ان کے غیر بھی یہ کام وہ خود کر سکتا تھا، اور پھر مزید رقم کے لئے اماں جانی کی بھی خوشامد کرنی پڑی!
پچھتاوے اور پریشانی کی باتیں سوچتے سوچتے وہ پلنگ پر مکمل دراز ہو گیا اور اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ پھر اس نے خواب میں دیکھا کہ چنی جان داغ کی غزل گا رہی ہے۔
ناروا کہیے، نا سزا کہیے
کہیے کہیے مجھے برا کہیے
اس کے پیروں کی پایلیں بج رہی ہیں، ایک ایک گھنگھرو چیخ رہا ہے۔
کہیے کہیے مجھے برا کہیے
اور پھر جیسے چنی جان قریب آ گئی۔۔ گھنگھروؤں کی آوازوں کی لہریں کانوں میں ابھرنے ڈوبنے لگیں۔
’’بھیا!‘‘
اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔
’’شربت‘‘ سامنے شبنم کھڑی تھی۔
’’لاؤ‘‘ شبنم نے چوڑیاں کھنکھاتا اپنا سرخ ہاتھ آگے بڑھایا، اور شربت کے ساتھ کمال نے اس کی چوڑیوں سے سبز کلائی پکڑ لی۔
’’چھوڑئے بھی بھیا….‘‘ شبنم اچانک گھوم گئی اور سبز لہنگا لہرا کر اس کے پیروں سے لپٹ گیا۔
–*–*–
رات کی آمد سے پہلے کی خوش گواری جب باہر آنگن میں پیر پسار کر لیٹنے لگی تو ننوا پاسی نے اس پر پانی کا اتنا چھڑکاؤ کر دیا کہ کچی مٹی کی سوندھی سوندھی صبح صبح کچے مکانوں سے دھوئیں کی طرح نکلنے لگی۔ پھر ننوا نے چار پائی اور بستر بچھا کر کرامت علی کی مدد سے سفید براق چادر بچھا دی اور ٹھیک اسی وقت، جیسے اس سارے وقوعے کی منتظر، منا مالی کی بیوی چمپا چلی آئی۔ چمیلی کے سفید سفید پھولوں کو سبز سبز پتوں اور سرخ و زرد ہاتھوں اور کپڑوں میں چھپائے۔ ننوا پاسی نے اسے دیکھا پھر نظریں پھیر کر اور انجان بن کر کرامت علی سے کہا ’’اب لگ چمپا ناہیں آئی‘‘
چمپا ہولے سے مسکرائی اور پلنگ کے سرہانے خود ہی پھول رکھتی ہوئی بولی ’’ہم لائے دئے ہیں، کل چمپا کے پھلوا ہوں لائے رکھیہیں۔‘‘
کرامت علی کنور صاحب کو بلانے اندر چلے گئے اور اس جگہ دلدار علی لکڑی کی کھٹ کھٹ کرتا ہوا چلا آیا۔۔
’’اب تو مالک بڑھائے گئے۔ نئیں تو چمپا کے پھلوا کے بنا بستر ماں آئے ناہیں سکت رہے‘‘
دلدار علی نے چمپا کی بات پر آپی بات چسپاں کر دی اور اس کی خوفناک مونچھوں سے گھورے جانے پر چمپا جواب دیئے بغیر تیز قدموں سے چلی گئی۔
پھر کنور صاحب آئے۔ ان کے پیچھے پیچھے لکھنے رام اور کرامت علی تھے۔ ننوا اور لکھنے رام نے جلدی سے برآمدے سے اٹھا کر آرام کرسی اور دو چار مونڈھے لا کر رکھ دیئے۔ پھر دونوں الٹے پاؤں واپس چلے گئے۔ لکھنے رام پہلے لوٹ کر آیا اور آ کر بغیر چلم کا حقہ آرام کرسی کے پاس لا کر رکھ دیا۔ پھر کرامت علی رو مال سے پکڑے ہوئے حقے کی سلگتی ہوئی چلم لے کر آئے۔ چلم حقے پر رکھ، گٹا دبا کر سٹک کی منہ نال کنور صاحب کے سیاہی مائل سرخ ہونٹوں تک پہنچائی۔ دلدار علی نے خود کو حویلی کے پھاٹک کے پاس جا کر اپنا بدن اکڑا کر نصب کر دیا۔ ننوا اور کرامت علی وہیں کھڑے رہے۔ لکھنے رام پنکھا کرنے لگا۔ کنور صاحب نے حقے کے دو چار طویل کش لئے۔ سامنے مغرب کی طرف پھیلنے والی شفق کی سرخی کو دیکھا پھر تھوڑا سا اُٹھ کر خود ہی آرام کرسی موڑی اور اس کا رخ شمال کی طرف کر دیا۔ سیدھے بیٹھ کر انہوں نے اپنی نظریں سامنے اٹھائیں جو دلدار علی کی تنی ہوئی پیٹھ پر جا کر گڑ گئیں۔
کسی چھٹی حس کے باعث دلدار علی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بیڑی کا بنڈل نکالنے والا ہاتھ جیب سے خالی ہاتھ باہر آ گیا۔ پھر اس نے ایک آواز سنی ’’سلامت اللہ کو بلاؤ‘‘
دلدار علی نے سامنے گڑی ہوئی نظروں سے کرامت علی کو جاتے ہوئے دیکھا اور جیسے نظروں سے ہی اس نے سنا…. ’’مکھتار ساب کو آد کرت ہیں‘‘
–*–*–
کچھ دیر بعد سلامت اللہ مختار اپنی شیروانی کے غلط لگے بٹنوں کو پھاٹک کے پاس رک کر ٹھیک کر کے اندر داخل ہوئے اور سلام کر کے گفتگو شروع کی۔۔
’’سرکار، میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والا تھا کہ آپ کا پیغام پہنچا، وہ در اصل کچھ ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ جن پر یقین کرنے کی تاب نہیں اور آپ کے گوش گذار کرنے کی جرات نہیں‘‘
دلدار علی کے جان جیسے قدموں سے چلتے ہوئے مختار صاحب کے ہلتے ہوئے ہونٹوں کے پھاٹک سے لگ کر کھڑے ہو گئے۔ پھر اس نے کنور صاحب کو تنہائی کا اشارہ کرتے دیکھا اور کرامت علی، ننوا پاسی اور لکھنے رام اندر چلے گئے۔
کنور صاحب اور مختار صاحب کی گفتگو سننے کی کوشش میں دلدار علی اتنا محو ہو گیا کہ پھاٹک سے ٹک کر اندر کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا اور بے دھیانی میں جیب سے بیڑی نکال کر سلگا بھیلی۔
–*–*–
’’دیا ری دیا، کا گرمی پڑت ہے، ساری رات نیند ناہیں آئے رہی‘‘ گووندا کی نئی نویلی دلہن گیندا نے صبح صبح دودھ دوہتے ہوئے اپنی نند رام رکھی سے اظہار خیال کیا۔
’’سب دیہہ کی گرمی ہے اور کچھ ناہیں‘‘ رام رکھی نے بستر سے آٹھ کر غسل خانے کی طرف جاتے ہوئے گووندا کو دیکھ کر کہا۔
’’ای پڑیا کی…. لپکت آوت ہے‘‘ گیندا نے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتے ہوئے بات پلٹ دی۔
–*–*–
فقط محمد پوسٹ ماسٹر نے مولوی کریم اللہ اور رحیما کو آتے دیکھ کر آدھی کھلی دوکان (اور پوسٹ آفس) کو پورا کھول کر ایک پورا اور ایک ساڑھے تین پایوں کا دوسرا سٹول پاس ہی پڑی اینٹ رکھ کر تیزی سے برابر کر کے رکھ دیا۔ مولوی کریم اللہ نے اسے فقط محمد کا سلام سمجھ کر قرات سے جواب دیا ’’وعلیکم السلام‘‘ اور بلا تکلف بیٹھ گئے۔
’’آج تو مولوی صاحب کچھ لگ رہا ہے کہ بادل چھائیں گے‘‘
’’اب تو گرمی کی انتہا ہو گئی فقط میاں، حد ہے یعنی ون کی انیس تاریخ ہو گئی اور مانسون کا پتہ ہی نہیں‘‘
’’ایس میگھ تو دو تین بار آئے کے چپ چاپ چلے جاوت رہے‘‘ رحیما نے اظہار خیال کیا۔ پھر تینوں خاموش رہے۔
’’آپ بیٹھو مولوی صاحب، میں ذرا حاجی بھیا کو بلا لاؤں کہ وہا کر دوکان سنبھال لیں۔ مجھے سٹیشن سے ڈاک لانی ہے‘‘
’’حاجی گل محمد آج پھر فجر میں نہیں تھے‘‘ مولوی کریم اللہ کو دفعتاً یاد آیا مگر فقط محمد جواب دینے کے لئے موجود نہیں تھا۔
–*–*–
صبح کی سیر کے بعد کھیتوں سے گزرتے ہوئے نظریں جھکائے حویلی کی طرف جاتے ہوئے کمال نے ’’بندگی چھوٹے میاں‘‘ کی آواز کی لہروں کو پہلے سر کی جنبش سے منتشر کر دیا، پھر چونکا۔ ’’کون، کشن چاچا! سلام‘‘
اسے شرمندگی ہوئی کہ کشن داس جس نے ابا میاں کو گھڑ سواری سکھائی تھی اور جس کو ’’کشن چاچا‘‘ پکارنے کے لئے ابا میاں کا سخت حکم تھا اور خود سے سلام کرنے کی ہدایت بھی۔
’’کشن چاچا، میں آج کسی وقت آپ کے پاس اتا۔ سہ پہر کو گووندا کو بھیج دیجیے گا کہ تانگہ کھینچ کر لے آئے، سٹیشن جانا ہے‘‘
’’کا میاں علی گڑھ جئیہیں؟‘‘
’’ہاں کشن چاچا، ضروری کام ہے‘‘
کمال حویلی کے پھاٹک کے پاس گھوم کر پیچھے کے راستے سے اپنے کمرے کی طرف جانے کے لئے مُڑ گیا۔
کمرے میں آتے ہی اس نے تکیے کے نیچے سے گولڈ فلیک کی ڈبیا نکالی، ایک سگریٹ سلگائی اور اماں جانی کی آواز قریب آنے پر جلدی سے کھڑکی سے باہر گزرتی مہرو کے رخسار کا نشانہ لے کر پھینک دی۔
–*–*–
لکھن رام نے مسواکیں توڑ لیں اور انہیں چاقو سے درست کرنے لگا، کرامت علی تولیہ اور صابن دانی لا کر کھڑے ہو گئے۔ ننوا پاسی نے لوٹے میں رات کا رکھا ‘باسی’ پانی پھینک کر ’’کُیّاں‘‘ کا تازہ پانی بھر دیا۔
مچھر دانی کی چھت پر نیم کے دو چار خشک پتے گر گئے تھے۔ اس کے پردے ہوا سے ہل رہے تھے۔ فرشی پنکھا چپ تھا۔
پھر لکھن رام کے ہاتھوں میں مسواکیں سوکھنے لگیں۔ ننوا پاسی نے ہاتھ میں تھامے لوٹے میں تیسری بار کوئی تنکا نکالا۔ دلدار علی نیم کے تنے کے پاس ایک اور نیم کے درخت کی صورت کھڑا ہو گیا اور پگڑی میں دبی بیڑی کو انگلیوں کے پوروں سے چوروں اچکوں کی طرح ٹٹولنے لگا۔
کمال نے جو رانی دلہن کے حکم کے مطابق ابا میاں سے معافی مانگنے چلا آیا تھا، کئی اچھے معذرتی جملے بنا ڈالے۔ سب کنور صاحب کے جاگنے کے منتظر تھے۔
بڑی دیر تک مچھر دانی سے کلمہ بلند ہونے کی آواز نہ آئی اور کچھ ہی گھنٹوں بعد مولوی کریم اللہ نے خود ہی کلمہ پڑھا اور کمال، کرامت علی اور سلامت اللہ مختار کے ساتھ احترام سے کنور صاحب کا جنازہ کاندھوں پر اٹھا لیا۔
٭٭٭