لوبان کا دھواں: منیب الرحمٰن کی شاعری کا سر نامہ ۔۔۔ شاہین

منیب الرحمٰن اب سے پچاسی برس قبل ۱۸؍ جولائی ۱۹۲۴ء کو آگرے میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے تاریخ اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ۱۹۴۵ء میں لندن گئے جہاں کی یونیورسٹی سے ۱۹۵۳ء میں جدید فارسی شاعری پر پی ایچ ڈی لے کر ہندوستان لوٹے۔ لندن میں اپنے آٹھ سالہ قیام کے دوران پڑھائی کے ساتھ ساتھ بی بی سی میں ملازمت بھی کی اور ایک سوئس لڑکی ایلزابتھ مور (Elizabeth Mohr) سے شادی بھی۔ ایلزابتھ اپنی سسرال میں زیبا کے نام سے جانی گئیں۔ منیب الرحمٰن سترہ سال تک علی گڑھ میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۷۰ء میں، امریکہ جانے سے پہلے، وہ ادارۂ علوم اسلامیہ کے ڈائرکٹر تھے۔ زیبا اس دوران علی گڑھ میں ہی، جہاں انہوں نے اپنے آپ کو نئے ماحول میں ڈھال لیا تھا، جرمن اور فرانسیسی زبانیں پڑھاتی رہیں۔ منیب الرحمٰن ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۴ء تک امریکہ کی ریاست مشیگن کی اوک لینڈ یونیورسٹی، راچسٹر سے وابستہ رہے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد وہ اسی ریاست میں واقع ایک دوسرے شہر این آربر منتقل ہو گئے۔ زیبا کا اسی شہر میں ۶؍ جنوری ۲۰۰۲ء کو انتقال ہو گیا۔ منیب الرحمٰن کا اب تک کا آخری مجموعہ ’’ہجر و فراق کی نظمیں‘‘ انہی کی یاد میں لکھے ہوئے کلام پر مشتمل ہے۔

اب تک ان کے چھ شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں: بازدید (انتخاب۔ ۱۹۶۵ء)، شہرِ گمنام (۱۹۸۳ء)، بازدید (مکمل۔ ۱۹۸۸ء)، نقطۂ موہوم (۱۹۹۹ء)، سڑکوں کے چراغ (۲۰۰۵ء) اور ہجر و فراق کی نظمیں (۲۰۰۸ء)۔ ڈاکٹر بیدار بخت ہندی زبان میں منیب الرحمٰن صاحب کی شاعری کا ایک انتخاب ترتیب دے رہے ہیں جو جلد ہی منظرِ عام پر آ جائے گا۔ (دیکھئے نوٹ ۲۔ مدیر) اس کے علاوہ ان کے شیکسپیر کے دو ڈراموں ’جولیس سیزر‘ اور ’انطونی اور قلوپطرہ‘ کے ترجمے بھی چھپ چکے ہیں۔ نیز جدید فارسی شاعری پر ان کی کتاب اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اہم تصنیف ہے۔ ان کے بہت سارے مضامین رسائل اور انسائیکلوپیڈیا میں بکھرے پڑے ہیں اور اب تک غیر مدون ہیں۔

یہاں اس مختصر سی تحریر میں ہم ان کی شاعری کا صرف ایک جزوی جائزہ لیں گے۔ منیب صاحب کی ایک مختصر نظم یوں ہے:

 

ایک راہ چلتے سے

میں نے راستہ پوچھا

بھائی یہ سڑک کیا ہے

پہلے اس کے پتھر پر

نام اور ہی کچھ تھا

آج اور ہی کچھ ہے

مسکرا کے وہ بولا

نام تو ہمیشہ ہی

یوں بدلتے رہتے ہیں

یہ سڑک مگر اب بھی

ہے وہی جو پہلے تھی

 

منیب الرحمٰن صاحب کے شعری مجموعے ’’سڑکوں کے چراغ‘‘ کی یہ نظم جس کا عنوان ’سڑک کا نام‘ ہے بادی النظر میں بہت زیادہ توجہ نہیں چاہتی۔ روایتی ہیئت میں کہی گئی یہ نظم جس کے الفاظ سادہ ہی نہیں بلکہ بالکل سامنے کے ہیں موضوع کے اعتبار سے بھی ایسی لگتی ہے کہ بس سرسری گزر جائیے۔ ہیئت روایتی اس طرح ہے کہ سارے گیارہ کے گیارہ مصرعے برابر وزن کے ہیں۔ مصرعے چھوٹے بڑے نہیں۔ البتہ ردیف قافیے کا کوئی باقاعدہ، مروج التزام نہیں۔

غور سے دیکھیں تو دوسرے، پانچویں، اور ساتویں مصرعے ہم قافیہ ہیں (پوچھا، تھا، بولا)۔ پھر آٹھویں، دسویں، اور گیارہویں مصرعے میں بھی یہ پابندی نظر آتی ہے (ہی، بھی، تھی)۔ لیکن قافیوں کی یہ بے قاعدگی نظم کو پابند نہیں رہنے دیتی۔ تکنیکی اعتبار سے یہ نظم معریٰ کہلائے گی۔ چنانچہ یہ روایتی ڈگر سے کچھ ہٹی ہوئی چیز معلوم ہوتی ہے۔ ذہن میں ایک شک سا ابھرتا ہے کہ شاید شاعر نظم کی روایتی ساخت کے التزام سے مکمل آگاہی نہیں رکھتا۔ لیکن نظم پڑھتے ہوئے روانی اور غنائیت کہیں مجروح نہیں ہوتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ میدانی علاقے کی کوئی ندی سبک خرامی کے ساتھ آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ الفاظ پر نظر ڈالیں تو ہر لفظ پر عام بول چال کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ کیا شاعری کی زبان اتنی سادہ اور آسان ہوتی ہے؟ شاعری میں الفاظ کی نوعیت کچھ ایسی تو ہو جو شعر اور نثر کے فرق کو سمجھنے میں معاون ہو۔ نون میم راشد کی نظم ’گداگر‘ کے اس ٹکڑے کی لفظیات ہمیں کسی اور سطحِ مرتفع پر لے جاتی ہے:

 

اسی اک ذرے کی تابانی سے

کسی سوئے ہوئے رقاص کے دست و پا میں

کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب

اسی اک ذرے کی حیرانی سے

شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گرِ پیر کے خواب

 

’سڑکوں کے چراغ‘ کے شاعر کے ہاں الفاظ کی صورت گری کچھ اور ہے۔ بلند آہنگی سے گریز کے ساتھ دھیمے لہجے میں پڑھنے اور سننے والے کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے کسی گہری بات، کسی زیریں لہر کو شعور میں اتار کر اسے شعر کے وسیلے سے دلوں کے تار میں لرزش پیدا کرنے کا ہنر جس میں سیروں لہو خشک ہوتا ہے منیب الرحمٰن کا نشانِ امتیاز ہے۔ ’راہ چلتے‘ اور ’بھائی‘ اور ’پتھر‘ ان تین لفظوں کے ساتھ تھوڑی دیر ٹھہریں۔ ’راہ چلتے‘ کے کئی مترادفات ہیں، مثلاً مسافر، راہی، راہگیر، رہ نورد، جادہ پیما وغیرہ۔ نظم کے پہلے مصرعے ’ایک راہ چلتے سے‘ کی کئی متبادل صورتیں ممکن تھیں:

رک کے ایک راہی سے / اک بھلے مسافر سے / ایک جادہ پیما سے

لیکن ان میں سے کسی میں بھی ہم وہ بات ڈھونڈنا چاہیں جسے سادگی اور بے ساختہ پن کہتے ہیں تو ہمیں مایوسی ہو گی۔ نیز ’بھائی‘ کہہ کر مخاطب کرنے سے پوچھنے والا اپنائیت کی ایسی فضا تخلیق کرتا ہے جس میں جواب ملنے کے امکانات زیادہ وسیع ہو جاتے ہیں۔ ’پتھر‘ سے مراد سنگِ میل یا میل کا پتھر ہے۔ سیاق و سباق سے ’پتھر‘ کا سنگِ میل ہونا ظاہر ہے۔ مزید وضاحت سے بیان کی خوبصورتی میں کمی واقع ہو جاتی۔ مشہورِ زمانہ مصور پبلو پکاسو ایک بیل کا خاکہ بنانے میں کم سے کم لکیریں استعمال کرتا گیا۔ جب اسے یہ احساس ہو گیا کہ اب ایک لکیر بھی کم کی گئی تو وہ خاکہ کچھ اور بن جائے گا بیل نہیں رہے گا اس نے وہیں اپنا ہاتھ روک لیا۔ اس طرح ایک شاہکار وجود میں آیا۔ شاعر بھی اسی طرح الفاظ کی فضول خرچی سے اجتناب برتتا ہے۔ کم کہہ کر زیادہ کہنا بڑے شاعر کا وصف ہے۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ شعر میں سادہ اور آسان اور جامع الفاظ کا خلاقانہ اظہار ہما شما کے بس کی بات نہیں۔ موضوع کے اعتبار سے دیکھیں تو سڑک ایک استعارہ ہے۔ نام بدلتے رہتے ہیں۔ زندگی، وقت، عقائد، تہذیب اور تاریخ کا تسلسل کسی نہ کسی شکل میں قائم رہتا ہے۔ سڑکوں کے نام بدلیں یا شہروں کے یا تہذیبوں کے۔ پاٹلی پتر عظیم آباد کہلائے یا پٹنہ، بھاگ نگر حیدرآباد بن جائے، لائل پور فیصل آباد اور منٹگمری ساہیوال میں تبدیل ہو جائے یہ محض ناموں کا ہیر پھیر ہے۔ موئن جو دارو سے اہرامِ مصر تک بھی یہی سلسلہ ہے۔ سڑک زندگی، معاشرہ، تہذیب اور تاریخ کا استعارہ ہے۔ قحط دمشق کا ہو یا بنگال کا ان کے اسباب و علل میں بنیادی تبدیلی نہیں آتی۔ ہیروشیما، برلن، بغداد، اور بامیان وقت کی شاہراہ کے سنگِ میل ہیں۔ اور سب ایک تسلسل سے ہم رشتہ ہیں۔ منیب الرحمٰن صاحب کی گیارہ سطروں کی یہ مختصر سی نظم ایک قادر الکلام شاعر کی تخلیقی صناعی کا شاہکار ہے۔

ایک ذرا غور کیجیے تو اس وسیع کائنات میں سڑک پر راہ چلتے مسافر کی طرح فرد کا وجود اپنے زمانی و مکانی تناظر میں تو کسی حد تک تھوڑی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن اس کے آگے ایک بڑا خلا ہے۔ ہر شخص اس خلا کو اپنے طور پر پُر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ الہ آباد کی جانکی بائی نے اپنی شخصیت کی توسیع کرتے ہوئے اس میں دوامیت کا رنگ بھرنے کی جو امکانی کوشش کی وہ ہر فرد کی آرزو مندی کا مظہر ہے۔ نظم ’’اور گانا ختم ہوتا ہے‘‘ کا یہ اقتباس دیکھیے:

 

غم آلودہ سروں میں اس نے فانی کی غزل چھیڑی

وہ جب اس شعر پر پہنچی:

’سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے

کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ‘

تو مجمع جھوم جھوم اٹھا

مری دھندلائی یادوں میں وہ منظر اب بھی زندہ ہے

نہ جانے اس پہ کیا گذری

کسی سے میں اگر بالفرض اس کا نام لیتا ہوں

سوال آمیز نظروں سے وہ میری سمت تکتا ہے

گذشتہ نقش کتنے ہی زمانے نے مٹا ڈالے

نہ وہ انسان زندہ ہیں نہ وہ گھر بار باقی ہیں

طریقِ زندگی بدلا، مذاقِ فکر و فن بدلے

خیالوں میں گراموفون پر کوئی پرانا گیت بجتا ہے

اچانک چونک پڑتا ہوں

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے گائکہ اپنی بقا کا حق جتاتی ہو

وہ جیسے جانتی ہو لوگ اس کو بھول جائیں گے

نہ جانیں گے کہ اس کا نام کیا تھا، مشغلہ کیا تھا، وطن کیا تھا

صدا آتی ہے میں ہوں جانکی بائی

الہ آباد والی۔ اور اس کے ساتھ گانا ختم ہوتا ہے۔

 

موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ پھر بھی انسان کو فطری طور پر اپنی زندگی میں اپنی بے وقعتی اور بے نشانی کا غم بے کل رکھتا ہے۔ مجید امجد کی نظم ’آٹوگراف‘ میں واحد متکلم جو شاعر خود ہے کرکٹ کے کھلاڑی کو مہ وشوں کے درمیان کھڑے آٹوگراف دیتے ہوئے حسرت آمیز نظروں سے دیکھتا ہے۔ تخلیقی کام سرانجام دینے کی ارفع ترین کاوش اور اس میں کامرانی کے با وصف معاشرہ اسے وہ مقام نہیں دیتا جو اس کا حق ہے۔ ایک غیر اہم شخص کی تخلیق کردہ غیر مطلوبہ جنس لا تعلق خریدار کے لئے اور وہ بھی بلا قیمت۔ کسی بھی تخلیقی ذہن کے لئے اس سے بڑے المیے کا تصور محال ہے۔

 

وہ باؤلر ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا

وہ صفحۂ بیاض پر بصد غرور کِلکِ گوہریں پھری

حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری

میں اجنبی میں بے نشاں

میں پا بہ گل

نہ رفعتِ مقام ہے، نہ شہرتِ دوام ہے

یہ لوحِ دل! یہ لوحِ دل!

نہ اس پہ کوئی نقش ہے، نہ اس پہ کوئی نام ہے !

 

منیب الرحمٰن صاحب کی ایک اور انتہائی خوبصورت نظم ’معمولی انسان ہونے کا فائدہ‘ بھی اسی المیے سے تعلق رکھتی ہے اگرچہ انہوں نے اپنے لئے حرفِ تسلی کا پہلو ڈھونڈ نکالا ہے جو نظم کے عنوان سے بھی ظاہر ہے۔ سہ ماہی ’فنون‘ لاہور (مدیر: احمد ندیم قاسمی) کے شمارہ۔ ۱۱۴ میں مطبوعہ یہ پہلی نظم اپنے اندر منیب صاحب کی جملہ شعری خصوصیات کا احاطہ کرتی ہے۔ سلاستِ بیان، روانی، سادگی، فکر اور جذبے کا حسین امتزاج، لفظ نگینے کی طرح جڑے ہوئے، ابہام اور الجھاؤ سے پاک، نظم بول اٹھتی ہے کہ

یہ جس کے کلکِ گوہریں کی تخلیق ہے وہ منیب الرحمٰن کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ شاعری بغیر فکر کے بھی ممکن ہے اور اردو کے شعری سرمائے میں اس کی بہتات ہے، لیکن اچھی اور بڑی شاعری بغیر فکر کے وجود میں نہیں آتی۔ اس نظم میں جذبے اور فکر کے قرآن السعدین سے درد مندی کی جو فضا ابھرتی ہے وہ شاعر کے تئیں اپنے آپ کو

منطقی طور پر ’یہی اچھا ہے‘ سمجھانے کے باوجود گلہ گزاری کا انداز رکھتی ہے۔ نظم کی قرأت کے بعد یہ تاثر نہیں بندھتا کہ نظم کا واحد متکلم اپنی شدید محرومیوں کے با وصف اپنی کھال میں مست کسی گوشۂ امن میں آسودہ و دلشاد ہے، بلکہ غالب تاثر یہ ہے کہ افسوس زمانہ ایسے گراں مایہ جوہر کا قدر شناس نہیں۔ یہی اس نظم کی کامیابی ہے۔ پوری نظم یوں ہے:

 

سوچتا ہوں کہ مری عمرِ رواں کی کشتی

اب کنارے کے قریب آ پہنچی

کون سا میں نے بڑا کام کیا

شہرتِ عام کی کس دوڑ میں بازی جیتی

شاعری کی مگر اعزاز کے لائق نہ ہوا

نہ ملی علم کے میداں میں فضیلت مجھ کو

مائلِ کذب و ریا تھی نہ طبیعت میری

خوش نہ آئی کبھی بھولے سے سیاست مجھ کو

زندگی کہنے کو بے سود کٹی

پھر بھی قسمت سے نہیں کوئی شکایت مجھ کو

کامیابی پہ کسی کی نہ مجھے رشک آیا

نہ کسی نے بھی مجھے چشمِ حسد سے دیکھا

ایک گمنام سے ہو سکتا ہے خطرہ کس کو

کس نے ایسے کو بھلا نیتِ بد سے دیکھا

گوشۂ امن میں آسودہ و دلشاد رہا

شکر ہے کینۂ دنیا سے میں آزاد رہا

(معمولی انسان ہونے کا فائدہ)

 

ان چند مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ منیب الرحمٰن صاحب نے اپنی پُرکار نظموں سے اردو کے شعری ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ ان کے ہاں ایک ایسے ماضی کی بازیافت کا احساس بھی ہوتا ہے جو یکسر معدوم ہو چکا ہے یا جو زمانے کی بدلتی قدروں کے پیمانے کی میزان پر اب پورا نہیں اترتا۔ یہاں اس ماضی سے وابستگی کے ساتھ یادوں کی اداس شاموں کی ڈوبتی آوازوں میں ایک دل گداز نوحے کی آواز بھی شامل ہے:

 

شام کے آئے ہوئے مہمان سارے جا چکے ہیں

گفتگو، بحثیں، لطیفے

ان کی سب باتیں سپردِ طاقِ نسیاں ہو گئی ہیں

میں اکیلا رہ گیا ہوں

اے اندھیری رات تو اپنے لبادے میں مجھے ملفوف کر لے

اے ستارو تم اتر آؤ فلک سے

میرے دل کی کوٹھری میں

اس گھڑی آہوں کے لوبانی دھوئیں میں

میری تنہائی دعا میں ڈھل گئی ہے (شبگیر)

 

منیب الرحمٰن صاحب کے شعری مزاج کی نہاد کلاسیکی ہے جس پر جدید طرز کی بنی پُر کشش عمارت دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے، لیکن اس تاج محل کے حسن کے مکمل ادراک کے لئے اس کے خارج اور باطن کی روح تک رسائی لازمی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں آہوں کے لوبانی دھوئیں میں تنہائی دعا میں ڈھل جاتی ہے۔

 

نوٹس:

۱۔ اتوار، ۲۶؍ جولائی ۲۰۰۹ء۔ کینٹن، مشیگن، یو ایس اے۔ منیب الرحمٰن صاحب کی پچاسی ویں (۸۵) سالگرہ پر صوفیہ انجم تاج کے دولتکدے پر منعقدہ ایک تقریب میں پڑھی گئی تحریر۔ گذشتہ ۱۸؍ جولائی ۲۰۲۲ء کو وہ اٹھانوے (۹۸) برس کے ہو گئے۔ خدا انہیں تا دیر سلامت رکھے۔۔۔۔۔ شاہین)

۲۔ ۲۰۱۹ء میں ڈاکٹر بیدار بخت کی محنت اور کوشش سے ڈاکٹر منیب الرحمان کا سارا کلام ’’ سرمایۂ کلام‘‘ کے نام سے انجمن ترقی اردو (ہند) کے زیر اہتمام چھپ گیا ہے۔ شاہین۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے