دوسرا گناہ ۔۔۔ انتظار حسین

اس دن الیملک دستر خوان سے بھوکا اٹھا، اس نے زمران کے سامنے رکھی ہوئی روٹی پر نظر کی، پھر دسترخوان پر چنی ہوئی روٹیوں کو اور لوگوں کو دیکھا اور اٹھ کھڑا ہوا اور یہ وہ لوگ تھے جو دور کی زمین سے چل کر یہاں پہنچے تھے، ان کی زمین ان پر تنگ ہو گئی تھی، انہوں نے اپنے معبدوں اور مقبروں اور حویلیوں کی طرف پشت کی اور کہا کہ بے شک اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ پہلے ایک گھرانا آیا اور یہاں پہنچ کر کھلے آسمان میں سخت زمین پر پڑا رہا، پھر دوسرا گھرانا آیا اور زمین کی سختی سے لڑنے لگا، پھر گھرانے آتے چلے گئے اور اونچے درختوں کو سرنگوں کرنے اور سخت زمین کو نرم بنانے پر جت گئے۔

جب وہ سب اکھٹے ہو گئے تو انہوں نے حشّام سے کہا کہ اے حشّام تو ہم میں بڑا ہے، پس تو ہمارے بیچ بیٹھ اور منصفی کر۔ حشام ان کے بیچ بیٹھا اور خوب منصفی کی۔ اس نے تا عمر ٹاٹ پہنا اور سب کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر موٹی روٹی کھائی اور مٹی کے پیالے میں پانی پیا، اس نے ایک سو پچھتر برس کی عمر پائی اور جب وہ مرا تو اس کی کمر سیدھی تھی۔ حشّام کو یاد کر کے لوگ بہت روئے، پھر انہوں نے اس کی پہلی جورو کے پہلوٹھی کے بیٹے زمران کو اپنے بیچ بٹھایا اور کہا کہ اب تو اپنے باپ کی جگہ ہمارے درمیان منصفی کر۔

اس باپ کے بیٹے نے بھی خوب منصفی کی، پھر ایک دن یوں ہوا کہ ابی ملک نے دستر خوان پر بیٹھے ہوئے زمران کے آگے رکھی ہوئی روٹی پر نظر کی اور اس کے اجلے پن کو دیکھ کر حیران ہوا، پھر اس نے دوسروں کے سامنے رکھی ہوئی روٹیوں کو دیکھا کہ اتنی اجلی نہ تھیں۔ پھر وہ زمران سے مخاطب ہو کر بولا کہ اے حشّام کے بیٹے! کیا تو اب چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھائے گا، اور میں نے تیرے باپ سے اور تیرے باپ نے اپنے باپ سے یہ سنا ہے کہ جب گیہوں کی مینگ گیہوں کے چھلکے سے جدا ہو جائے تو گوشت ناخن سے جدا ہوتا ہے۔ اور گیہوں تھوڑا اور بھوک زیادہ ہو جاتی ہے اور ہمیں ہمارا پالنے والا اس دن پناہ میں رکھے کہ ہمارے درمیان گیہوں تھوڑا رہ جائے اور ہماری بھوک بڑھ جائے۔

اس دن الیملک دستر خوان سے بھوکا اٹھا، اور جب وہ دستر خوان سے بھوکا اٹھا تو بستی میں اس کا چرچا بہت ہوا، لوگ پہلے حیران ہوئے اور انہوں نے سرگوشیاں کیں کہ الیملک دسترخوان سے نوالہ توڑے بغیر اٹھ گیا اور اس نے زمران سے اپنی روٹی الگ کر لی، پھر وہ ڈرے کہ کیا سچ مچ گیہوں اپنے چھلکے سے جدا ہو گیا ہے۔ زمران نے لوگوں کو دیکھا اور غصّہ کیا اور جس جس نے حیرانی ظاہر کی اور خوف کا اعلان کیا اس کا دستر خوان اپنے دستر خوان سے الگ کر دیا۔ سو جہاں ایک دستر خوان تھا وہاں بہت سے دستر خوان ہو گئے، پر زمران کا دسترخوان مختصر ہو جانے پر بھی پھیلا ہوا رہا۔ اس کے آڑی اور حواری دونوں وقت اس کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھتے اور چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتے۔

زمران کے دستر خوان کے لیے آٹا باریک پیسا جاتا تھا اور ایک بڑی سی چھلنی میں چھانا جاتا تھا اور زمران نے چھنے ہوئے آٹے کی بھوسی کو دیکھ کر تشویش کی، زمران نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کے درمیان گیہوں تھوڑا رہ جائے اور ان کی بھوک بڑھ جائے تو اس نے یوں کیا کہ بچی ہوئی بھوسی کو لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ پس جنہیں آٹا کم ملا انہیں بھوسی زیادہ مل گئی، انہوں نے اپنے اپنے بے چھنے آٹے میں بھوسی ملا کر موٹی روٹی پکائی اور سیر ہو کر کھائی اور زمران کے آٹے سے جتنی بھوسی نکلتی تھی لوگوں میں تقسیم ہو جاتی تھی اور ان کے بے چھنے آٹے میں مل جاتی تھی۔ تو یوں زمران کے دستر خوان کی روٹی کی رنگت اور ہو گئی اور خلقت کی روٹی کی رنگت اور ہو گئی۔

زمران کا آٹا پہلے چھلنی میں چھانا گیا مگر پھر زمران کو احساس ہوا کہ آٹا چھلنی میں موٹا چھنتا ہے، اس نے باریک چھنائی کی ترکیب یہ نکالی کہ بہت باریک کپڑا بنوایا اور اس میں چھنے ہوئے آٹے کو مزید چھنوایا، حتیٰ کہ آٹا میدہ بن گیا اور روٹی زیادہ چٹی اور زیادہ ملائم ہو گئی، اس حساب سے بھوسی زیادہ بچی اور زیادہ لوگوں میں تقسیم ہوئی۔ اور زیادہ چھان کے آٹے میں آمیز ہوتی اور زمران کی روٹی کی رنگت اور لوگوں کی روٹی کی رنگت میں زیادہ فرق آ گیا۔

زمران نے باریک کپڑا آٹا چھنوانے کے لیے بنوایا تھا، مگر پھر یوں ہوا کہ وہ کپڑا اسے اپنی پوشاک کے لیے بھا گیا اور سدا سے موٹے ناج کی سنگت موٹے کپڑے سے اور باریک ناج کی سنگت باریک کپڑے سے چلی آتی ہے، تو زمران نے ٹاٹ اتار کر باریک کپڑا خود بھی پہنا اور اپنی بیٹی رافہ کو بھی پہنایا اور رافہ اس ماں کی جنی تھی جس نے عمر بھر ٹاٹ اوڑھا اور چکّی چلائی، وہ ایک وقت میں ایک من آٹا پیس کر اٹھتی تھی اور بستی کے بڑے من والے کنوئیں پر جا کر سو ڈول پانی کے کھینچتی تھی۔ بدن اس کا تانبے کی طرح تمتماتا تھا، اس تانبا بدن سے زمران بڑے کنوئیں کی من پر ٹکرایا اور گھاس کے گرم بستر پر اس کے سنگ بستر میں گیا، پھر وہ اپنی کھیتی اپنے گھر لایا، نو مہینے دس دن بعد اس نے بیٹی جنی کہ نام اس کا رافہ رکھا گیا اور وہ گرم لہو تانبا بدن والی عورت ایک سو پچاسویں برس میں اپنی تنی ہوئی کھال اور کسی ہوئی کچوں کے ساتھ اللہ کو پیاری ہو گئی۔

الیملک کے بیٹے بختاور کی بھی رافہ سے مڈ بھیڑ بڑے کنویں کی من پر ہوئی تھی اور رافہ گندم کے خوشے کی مانند شاداب اور میدے کی لوئی کی مثال نرم اور چٹی تھی۔ گات خوب اور خوش نما اور سینہ جیسے گھی دودھ میں گوندھے میدے کے دو پیڑے، تو بختاور نے بڑے کنویں سے اسے تاکا اور پانی سے چھلکتے ڈول کی طرح اسے کھینچا اور سیراب ہوا، مگر پھر ایسا ہوا کہ وہ کنوئیں پر گیا اور اس نے رافہ کو وہاں نہ پایا، تب وہ رافہ کو ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس کے گھر تک گیا اور وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ رافہ کے گھر کی ڈیوڑھی اونچی ہو گئی ہے اور اس میں دروازہ لگ گیا ہے۔ اور اس بستی میں یہ پہلی ڈیوڑھی تھی جو اونچی ہوئی اور پہلا دروازہ تھا جو تعمیر ہوا۔

بختاور نے اس دروازے کو کھٹکھٹایا پر وہ دروازہ نہ کھلا۔ بختاور نے رافہ کو پکارا پر دروازہ بند رہا اور پکار کا جواب نہ آیا اور بختاور نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر رافہ کو پکارا کہ اے عورت تو جو آرام میں ہے بے آرام کی سن اور دروازے سے باہر آ۔ اس سے پہلے کہ انگوروں کا موسم گزر جائے اور ہم پھل سمیٹنے سے رہ جائیں، اس سے پہلے کہ گندم کی بالیں سوکھ کر مرنڈ ہو جائیں اور ہم فصل کاٹنے سے رہ جائیں۔ بختاور نے رافہ کا دروازہ بہت کھٹکھٹایا اور رافہ کو بہت پکارا پر وہ دروازہ نہ کھلا۔ اس پکار کا جواب نہ آیا، تب وہ مایوس گھر لوٹا، اور درد سے کہا کہ میری کھیتی مجھ سے دور ہو گئی اور گوشت ناخن سے جدا ہو گیا۔

الیملک نے بختاور کے اندوہ کو دیکھا اور کہا کہ اے میرے بیٹے میں تجھ سے وہ کہتا ہوں جو میرے باپ نے مجھ سے کہا، اور میرے باپ نے مجھ سے وہ کہا جو اس کے باپ نے اس سے کہا، جو جن میں سے ہے وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا، اور جو عورت جس خمیر سے اٹھتی ہے اس خمیر میں واپس جائے گی۔ بختاور نے اس قول کو نہ مانا اور کرب سے کہا کہ میں رافہ سے ایسے الگ ہوا جیسے گندم کے دانے سے گندم کا چھلکا ہوتا ہے۔ تب الیملک نے اس سے کہا کہ اے مرے بیٹے اب میں تجھ سے وہ کہتا ہوں جو سلیمان حکیم نے اپنے فرزند سے کہا کہ شکیل عورت اگر پہچان نہ رکھتی ہو تو سور کے نتھنوں میں پڑی ہوئی سونے کی نتھ ہے۔

پھر بیٹے نے اپنے باپ سے کہا عشق موت کی مانند زور آور ہے اور گھر سے نکل گیا۔ بختاور گھر سے نکل کر رافہ کے دروازے پر گیا، پھر اسے بند پا کر اس نے چکر کاٹا اور گھر کے عقب میں گیا، پر وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ اب رافہ کے گھر کی دیوار اونچی ہو گئی ہے، اور اس نے اندوہ سے کہا کہ واویلا ہو گندم کے دانے پر جو میرے اور رافہ کے درمیان دیوار بن گیا۔

اور یوں ہوا کہ جب زمران کے گھر کا دروازہ بن گیا اور اس میں کنڈی لگ گئی تو کچھ دیکھنے والوں نے اسے دیکھ کر رعب کھایا اور کچھ دیکھنے والوں نے اسے دیکھ کر اس کے پیچھے کی چیزوں کے بارے میں تجسّس کیا، پھر ایک دن یوں ہوا کہ زمران کی کی بھاری پوشاک چوری ہو گئی۔ اور یہ پہلی چوری تھی کہ اس بستی میں ہوئی، پہلے یوں تھا کہ سونے کی ڈلی بازار میں پھینک جاؤ اور دوسرے دن آ کر اٹھا لو۔ پھر یوں ہوا کہ لوگوں نے اپنی اپنی چیزیں سنگھوا کر رکھنی شروع کیں اور ایک آڑی نے زمران کی پوشاک چوری ہو جانے کے بعد زمران سے کہا کہ مرا گھر غیر محفوظ ہے۔ کیا میں دروازہ بنا لوں، زمران نے کہا، بنوا لے، اور اس نے دروازہ بنوا لیا، پھر دوسرے آڑی نے اجازت لی اور دروازہ بنوا لیا، پھر تیسرے آڑی نے اجازت لی اور دروازہ بنوا لیا اور پھر بستی میں دروازے بنتے چلے گئے۔ زمران نے اپنی پوشاک کی چوری کے بعد اپنی دیواریں اونچی کر لیں، پھر جب اس کے آڑیوں نے دروازے بنوائے تو انہوں نے بھی اپنی اپنی دیواریں اونچی کیں۔ ان کی اونچی دیواروں کو دیکھ کر زمران نے اپنی دیواروں کو اونچا کر لیا، جاننا چاہئے کہ پیڑ کی بڑھوتری کی ایک حد ہے پر دیوار کے اونچا ہونے کی کوئی حد نہیں ہے۔

زمران نے پہلے اپنی ڈیوڑھی اونچی کی اور دروازہ بنوایا، پھر اس نے اپنی دیواریں اونچی کیں اور دروازے کو مضبوط کیا، پھر اس نے دروازے پر نگہبان بٹھائے، پھر اس نے سواری بنوائی کہ دروازے سے نکل کر اس میں بیٹھتا اور باہر جاتا، پھر اس نے سواری کے لیے شاہراہ بنوائی کہ بستی کے گردا گرد پھیل گئی اور زمران کی دودھیا گھوڑیوں سے جتی ہوئی سواری اس پر ہوا کی مثال چلتی۔ پر الیملک نے زمران سے یہ کہا کہ میں نے تیرے باپ سے اور تیرے باپ نے اپنے باپ سے یہ سنا کہ جب سواری آ جاتی ہے تو مردوں کی ٹانگوں کا زور گھٹ جاتا ہے اور جب شاہراہ بن جاتی ہے تو زمین تنگ ہو جاتی ہے اور فاصلے دراز ہو جاتے ہیں۔

جب دروازے بن گئے اور دیواریں اونچی ہو گئیں اور زمران کے دروازے پر نگہبان بیٹھ گئے اور ڈیوڑھی کے آگے سواری آ کھڑی ہوئی اور دودھیا گھوڑیاں ہنہنانے لگیں تو گیہوں پر اسرار طور پر تھوڑا پڑنے لگا اور بھوک بڑھنے لگی، اب زمران کے آٹے کی بھوسی لوگوں میں تقسیم ہونی بند ہو گئی تھی کہ یہ بھوسی اب اسی کی دودھیا گھوڑیاں کھاتی تھیں۔ جب بھوسی کی تقسیم بند ہوئی تو لوگوں نے اپنے اپنے حصّے میں آئے ہوئے آٹے کو تھوڑا جانا اور بھوکا رہ جانے کا گلہ کیا، اور زمران کے آڑیوں نے جب آٹے کو تھوڑا پڑتے دیکھا تو اپنے دروازوں کو غنیمت جانا، اور آئندہ کا دھیان کر گندم گھر میں جمع کیا اور دروازہ لگا لیا۔ تب بستی میں آٹا اور تھوڑا پڑ گیا، اور الیملک نے اس اندیشہ سے کہ مبادا اس کی بھوک بڑھ جائے، گیہوں کا آٹا نہ پا کر جَو خریدے اور انہیں پیس کر روٹی پکائی اور پیٹ بھرا، اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے یہ کہا کہ اس قریہ میں جاؤ اور اس میں سے جو کچھ تمہارا جی چاہے کھاؤ پیو۔ پھر ظالموں نے اسے جو ان سے کہا گیا تھا بدل کر اس کی جگہ دوسری بات رکھ دی۔

الیملک جَو کی روٹی کھا کر گھر سے نکلا اور زمران کی گھوڑیوں کو بھوسی کا راتب کھاتے دیکھ کر حسرت سے بولا کہ جو رزق میرے حصّے کا تھا وہ زمران کی گھوڑیوں کے پیٹ میں چلا گیا، زمران نے اس کا یہ کلام سنا اور کہا کہ اے الیملک تو ہم میں سے ہے، سو تو ہمارے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ اور ہمارے ساتھ روٹی توڑ۔ اس پر الیملک نے کانوں پر ہاتھ رکھے اور کہا کہ میں پناہ مانگتا ہوں اس دن سے جب گیہوں کو گیہوں کے چھلکے سے جدا کر کے کھاؤں اور ظالموں میں شمار کیا جاؤں۔

زمران نے الیملک کے جواب کا برا مانا، اس نے الیملک کے سر پر غصّہ میں ڈنڈا مارا اور کہا کہ تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، کیا تو مجھے ظالم کہے گا، کیا تو مجھے ظالم کہے گا، سو تو ہمارے درمیان سے چلا جا اور یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے تم سے یہ عہد لیا تھا کہ آپس میں خونریزی مت کرنا اور اپنوں کو اپنے ملک سے مت نکالنا۔ پھر تم نے اقرار کیا اور تم اس کے گواہ ہو، پھر وہی تم ہو کہ اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے میں سے ایک گروہ کو اپنے ملک سے نکالتے ہو اور ان کے برخلاف گناہ اور زیادتی کرنے میں ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہو۔

الیملک اپنی زوجہ کو ہمراہ لئے بستی سے نکل گیا اور دور کے جنگل میں جا کر ڈیرا ڈالا یہاں وہ بہت دنوں اپنی اکیلی جان کے ساتھ تناور درختوں اور سخت زمین سے لڑتا رہا، جب سو اوپر ساٹھواں سال تھا تو وہ تھک گیا اور مرنے کے قریب ہوا، اس کی زوجہ نے رو کر کہا کہ کیا تو مجھے اس ویرانے میں اکیلا چھوڑ کر جائے گا، الیملک نے آنکھیں کھولیں اور کہا کہ میں آنے والوں کا انتظار کروں گا۔

پھر یوں ہوا کہ اس بات کے تیسرے دن ایک قافلہ خراب و خستہ وہاں پہنچا اور الیملک سے پناہ کا طالب ہوا۔ الیملک نے انہیں پناہ دی اور پوچھا کہ اے دوستو کدھر سے آنا ہوا، انہوں نے کہا کہ ہم زمران کی بستی سے آئے ہیں، یہ سن کر الیملک کی زوجہ نے سوال کیا کہ میرے بیٹے بختاور کے بارے میں کچھ کہو، انہوں نے جواب دیا کہ تیرا بیٹا اپنی آگ کا ایندھن بن گیا۔ اس نے رافہ کے لیے زمران کی دیوار پر عقب سے کمند ڈالی، خدا تیرے بیٹے پر اپنی رحمت کرے، یہ ہماری بستی کی پہلی اونچی دیوار پر کمند تھی اور عشق کی پہلی واردات تھی۔

الیملک کی زوجہ نے یہ خبر سن کر اپنے سینے پر دو ہتڑ ماری، اور الیملک کا سر جھک گیا اور اس نے یہ کہا کہ بے شک عشق موت کی مانند زور آور ہے، ہر مرد کا زور اپنے گریبان پر چلے گا اور جو عورت جس خمیر سے اٹھی ہے اس خمیر میں واپس جائے گی۔ یہ کہہ کر الیملک نے ٹھنڈا سانس بھرا، آنکھیں بند کیں اور چپ ہو گیا، پھر کہا کہ دوسروں کی کہو۔ قافلہ والوں نے کہا کہ دوسروں کی مت پوچھ، دیوار سے گر کر مر جانا اس سے اچھا ہے کہ آدمی فاقے کر کے مرے، کھیت شاہراہوں اور اصطبلوں کی زد میں آ گئے، کھیتوں والے کچھ نگہبان بنے، کچھ سائیس ہوئے، کچھ آوارہ ہو گئے، اور گیہوں ہمارے درمیان تھوڑا رہ گیا اور گراں ہو گیا اور ہم نے زمران کی زمین کو اپنے آپ پر تنگ پایا اور نکل کھڑے ہوئے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔

الیملک نے اس پر یہ کہا کہ اللہ کی زمین بے شک بہت وسیع ہے پر اللہ کے بندوں پر وہ ہمیشہ تنگ رہی، یہ کہہ کرا س نے آنکھ بند کر لی اور ہمیشہ کے لیے چپ ہو گیا۔ قافلہ والوں نے الیملک کو عزت سے دفن کیا اور الیملک کی بیوہ کو عزّت سے اپنے درمیان جگہ دی کہ الیملک نے ان کے لیے اس سخت زمین کو بہت نرم کیا تھا اور اونچے درختوں کو بہت سرنگوں کیا تھا۔ پھر وہ خود سخت زمین اور تناور درختوں کو زیر کرنے میں مصروف ہو گئے۔

پھر یوں ہوا کہ تھوڑے دنوں بعد زمران کی بستی سے ایک اور قافلہ چلا اور بھوکا یہاں پہنچا، زمران کی بستی میں قحط پڑ گیا تھا اور وہاں سے پہلے ایک قافلہ چلا اور یہاں آ کر پناہ گیر ہوا، پھر دوسرا قافلہ آیا اور پناہ گیر ہوا، پھر قافلے آتے چلے گئے اور یہاں ڈیرے ڈالتے چلے گئے۔ سب سے آخر میں وہ قافلہ آیا جس کا بزرگ سب کے بیچ بیٹھ کر سب کا بزرگ بنا اور منصف ٹھہرا۔ وہ بزرگ یہاں ان حالوں پہنچا تھا کہ اس کے پاس کچھ ساز و سامان نہ تھا۔ سوا ایک آٹے کی چھلنی کے، اور یہ پہلی آٹے کی چھلنی تھی جو اس بستی میں پہنچی۔

_______

از کتاب ” انتظار حسین کے سترہ افسانے ”

انتخاب۔ وحید قمر

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے