غزلیں ۔۔۔ جلیل حیدر لاشاری

چوٹ لگی ہے تو جانا ہے

سچی بات بھی افسانہ ہے

 

ایسے دل کی آس بندھی ہے

اس نے واپس کب آنا ہے !

 

سب کا ہے جب خاک مقدر

کیا کھونا پھر کیا پانا ہے

 

ایک نئے انداز میں سب نے

بات پرانی دہرانا ہے

 

کون ہمیشہ ساتھ رہا ہے ؟

سب نے انت بچھڑ جانا ہے

 

اُس نے شاید دیکھا نہ ہو

پہروں خود کو سمجھانا ہے

 

اونچائی کی تہہ تک دیکھو

کتنا گہرا ویرانہ ہے

 

اتنی بھی کیا جلدی حیدرؔ

تم نے کون سا گھر جانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اپنے لہو سے بزم سجاتا نہ ہو کہیں

میرا وجود قرض چکاتا نہ ہو کہیں

 

ایسی ہنسی تو اس کے لبوں پر نہ تھی کبھی

خود سے وہ اپنا درد چھپاتا نہ ہو کہیں

 

بیکار جس کو جان کر تو نے گنوا دیا

منزل کو راستہ وہی جاتا نہ ہو کہیں

 

تاریکیاں اتر چکی ہوں جس کی روح تک

وہ دن کو بھی چراغ جلاتا نہ ہو کہیں

 

خود ہی بچھڑ گیا جو زمانے کی بھیڑ میں

تنہائیوں میں مجھ کو بلاتا نہ ہو کہیں

٭٭٭

 

 

 

ہر گھڑی یوں نہ کج ادائی کر

ٹوٹے دل تک بھی کچھ رسائی کر

 

کل بھلانا نہ ہو تجھے مشکل

آج تھوڑی سی بے وفائی کر

 

شوق سے ہم فقیر لوگوں پر

تُو بھی دو چار دن خدائی کر

 

جس کو چہرہ ترا عیاں کر دے

بات خود سے بھی وہ چھپائی کر

 

شب جو اتنی طویل ہے یارب

زندگی مختصر بنائی کر

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے