غزلیں ۔۔۔ سید عاطف علی

جو ہم نہ ہوں تو ہے کس کام کی یہ رعنائی

ڈبو کے چھوڑے گا تم کو یہ زعم یکتائی

 

اگر چہ کہہ تو دیا تم نے جو میں چاہتا تھا

وہ زیر و بم نہ تھے لیکن شریک گویائی

 

چراغ ڈستے رہے میری تیرہ راتوں کو

سحر نہ بن سکی تریاق زہر تنہائی

 

جو لفظ قید ہیں تیرے لبوں کی بندش میں

اگر وہ سچ ہیں تو کیوں ہے یہ خوف رسوائی

 

ادھر میں روح کی جراحیوں میں ہوں مشغول

وہ انجمن میں ادھر محو جلوہ آرائی

 

تڑپ کے شب دل مضطر سے اک صدا جو اٹھی

وہی شبیہ ستاروں میں بھی ابھر آئی

 

میں کب کا توڑ چکا شش جہت کی زنجیریں

یہ کس نے میرے لیے، کیسی قید بنوائی

 

دروغ مصلحت آمیز ہم کو نامنظور

کہ مطمئن ہے جنوں پر ہماری سچائی

 

کسی طبیب نے اس درد کو نہ پہچانا

یہ کس کے عشق کی عاطف تھی کار فرمائی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئے بتاں میں تیرا نشاں ڈھونڈتے رہے

ہم لامکاں میں ایک مکاں ڈھونڈتے رہے

 

مسحور اک طلسم ندیدہ سے عمر بھر

تھامے چراغ تیرا نشاں ڈھونڈتے رہے

 

زیر زمین گھر کا نہ گزرا ہمیں خیال

ہم زیر آسمان اماں ڈھونڈتے رہے

 

افسانہ جوئے شیر کا سن کر تڑپ اٹھے

تیشہ بدست کوہ گراں ڈھونڈتے رہے

 

مستانہ وار جشن بہاراں کو چھوڑ کر

دیوانہ وار فصل خزاں ڈھونڈتے رہے

 

خاطر میں لائے خار مغیلاں کبھی نہ ہم

گم گشتہ وہ ہی محمل جاں ڈھونڈتے رہے

 

دریا تھا ساتھ ساتھ مگر تشنگی نہ تھی

صحرا میں آ کے آب رواں ڈھونڈتے رہے

 

تسلیم شیخ جی کی کرامت ہمیں مگر

بیعت کو دستِ پیر مغاں ڈھونڈتے رہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے